حضرت علیؑ کا ایک تعارف

Status
Not open for further replies.

Zoq_Elia

Senator (1k+ posts)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ایک تعارف

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ایک تعارف
(قرآن و حدیث کی روشنی میں)

(1)

وَفِي الأَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِّنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِيلٌ صِنْوَانٌ وَغَيْرُ صِنْوَانٍ يُسْقَى بِمَاء وَاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ فِي الأُكُلِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ


سورة الرعد ( 13 ) ، الآية : 4
ترجمہ
اور زمین میں (مختلف قسم کے) قطعات ہیں جو ایک دوسرے کے قریب ہیں اور انگوروں کے باغات ہیں اور کھیتیاں ہیں اور کھجور کے درخت ہیں، جڑے ہوے اور علیحدہ علیحدہ، ان (سب) کو ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے، اور (اس کے باوجود) ہم ذائقہ میں بعض کو بعض پر فضیلت بخشتے ہیں، بیشک اس میں عقل مندوں کے لئے (بڑی) نشانیاں ہیں۔



trees (growing) from a single root صِنْوَانٌ

نخيل صنوان﴿٤ الرعد﴾ نخلات يجمعها أصل واحد [کھجور کے درخت جن کی اصل (تنا یا جڑ) ایک ہو]۔
وَ غَيْرُ صِنْوانٍ﴿٤ الرعد﴾ متفرقات في أصولها [ علیحدہ درخت، اکیلا درخت]۔
وَ نَخيلٌ صِنْوانٌ﴿٤ الرعد﴾ نخلات يجمعها أصل واحد
صنوان ﴿٤ الرعد﴾ صنوان: نخلتان أو أكثر في أصل واحد، غير صنوان: وحدها.۔




stock-photo-conjoined-twins-date-tree-92320675.jpg

Two Date Palms from a single Shaft
کھجور کے دو جُڑے درخت ایک تنے سے


11-23-086.jpg

Two Date Palms from a single root
کھجور کے دو جُڑے ہوئے درخت ایک جڑ سے


phoenix-reclinata-senegal-date-palm-1000375516-1389383157.jpg

Multiple Date Palms from a single root
کھجور کے کئی جُڑے درخت (جُھنڈ) ایک جڑ سے

نَخِيلٌ صِنْوَانٌ
کھجور کے جُڑے ہوے درخت
Phoenix dactylifera (Date Palm) grows 7075 feet (2123 m) in height,[SUP][6][/SUP] growing singly or forming a clump with several stems from a single root system.
کھجور کے درخت 70-75 کی بلندی تک بڑھتے ہیں اور اکیلے اکیلے نکلتے ہیں یا جُھنڈ، جس میں کئی تنے جن کی جڑ ایک ہوتی ہے، کی صورت میں نکلتے ہیں


عن جابر بن عبد اللهؓ ، قال : سمعت رسول الله ( صلى الله عليه و آله وسلم ) يقول لعلي ( عليه السَّلام ) : " يا علي الناس من شجر شتى ، و أنا و أنت من شجرة واحدة " .۔
ثم قرأ رسول الله ( صلى الله عليه و آله ) : ﴿ ... وَجَنَّاتٌ مِّنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِيلٌ صِنْوَانٌ وَغَيْرُ صِنْوَانٍ يُسْقَى بِمَاء وَاحِدٍ ...
قال الحاكم : هذا حديث صحيح الأسناد

ترجمہ
حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؓ سے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے یہ فرماتے سنا کہ اے علی! لوگ مختلف درختوں (شجر) سے ہیں اور میں اور تم ایک ہی درخت (شجرۃ واحدۃ) سے ہیں۔ پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی۔ ﴿ ... وَجَنَّاتٌ مِّنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِيلٌ صِنْوَانٌ وَغَيْرُ صِنْوَانٍ يُسْقَى بِمَاء وَاحِدٍ ... ﴾۔
المستدرك على الصّحيحين، ج۔2 ص241۔ حدیث نمبر 2903 ۔
تفسیر درمنثور تفسیر سورۃ رعد آیت 4۔
(معجم الاوسط للطبرانی، 5 : 89، ح : 4162)


(2)



وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فَإِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ وَتَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ

سورۃ الشعرا 26، آیات 214، 215، 216 اور 217

ترجمہ

اور (اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) آپ اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو خبردار کیجیے اور مومنین میں سے جو آپ کی پیروی کریں اُن کیلیے اپنے کندھے کو جُھکا دیجیے۔ پس جو آپ کی نافرمانی کرے پس (اُن سے) آپ کہہ دیجیے کہ میں اُس سے بیزار ہوں جو کُچھ تم کرتے ہو اور العزیز الرحیم پر بھروسا رکھتا ہوں۔

قال: ثنا سلمة, قال: ثني محمد بن إسحاق, عن عبد الغفار بن القاسم, عن المنهال بن عمرو, عن عبد الله بن الحارث بن نوفل بن الحارث بن عبد المطلب, عن عبد الله بن عباس, عن عليّ بن أبي طالب: لما نـزلت هذه الآية على رسول الله صلى الله عليه و آلہ وسلم (وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ) دعاني رسول الله صلى الله عليه
و آلہ وسلم, فقال لي: " يا عليُّ, إنَّ الله أمَرَنِي أنْ أُنْذِرْ عَشِيرَتِي الأقْرَبِين ", قال: " فضقت بذلك ذرعا, وعرفت أنى متى ما أنادهم بهذا الأمر أَرَ منهم ما أكره, فصمتُّ حتى جاء جبرائيل, فقال: يا محمد, إنك إلا تفعل ما تؤمر به يعذّبك ربك. فاصنع لنا صاعا من طعام, واجعل عليه رجل شاة, واملأ لنا عسا من لبن, ثم اجمع لي بني عبد المطلب, حتى أكلمهم, وأبلغهم ما أمرت به ", ففعلت ما أمرني به, ثم دعوتهم له, وهم يومئذ أربعون رجلا يزيدون رجلا أو ينقصونه, فيهم أعمامه: أبو طالب, وحمزة, والعباس, وأبو لهب; فلما اجتمعوا إليه دعاني بالطعام الذي صنعت لهم, فجئت به. فلما وضعته تناول رسول الله صلى الله عليه و آلہ وسلم حِذْية من اللحم فشقها بأسنانه, ثم ألقاها في نواحي الصحفة, قال: " خذوا باسم الله ", فأكل القوم حتى ما لهم بشيء حاجة, وما أرى إلا مواضع أيديهم; وايم الله الذي نفس علي بيده إن كان الرجل الواحد ليأكل ما قدمت لجميعهم, ثم قال: " اسْقِ النَّاسَ", فجِئْتُهُمْ بذلك العس, فشربوا حتى رووا منه جميعا, وايم الله إن كان الرجل الواحد منهم ليشرب مثله; فلما أراد رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يكلمهم, بدره أبو لهب إلى الكلام, فقال: لَهَدَّ ما سحركم به صاحبكم, فتفرّق القوم ولم يكلمهم رسول الله صلى الله عليه و آلہ وسلم, فقال: " الغد يا عليّ, إن هَذَا الرَّجُل قدْ سَبَقَنِي إلى ما قَدْ سَمِعْتَ مِنَ القَوْلِ, فَتفرّق القوم قبلَ أنْ أُكَلِّمَهُمْ فأعِدَّ لَنا مِنَ الطَّعَامِ مِثْلَ الَّذِي صَنَعْتَ, ثُمَّ اجْمَعْهُمْ لِي", قال: ففعلت ثم جمعتهم, ثم دعاني بالطعام, فقرّبته لهم, ففعل كما فعل بالأمس, فأكلوا حتى ما لهم بشيء حاجة, قال: " اسقهم ", فجئتهم بذلك العس فشربوا حتى رووا منه جميعًا, ثم تكلم رسول الله صلى الله عليه و آلہ وسلم, فقال: " يا بَنِي عَبْدِ المُطَّلِبِ, إنِّي والله ما أعْلَمُ شابا فِي العَرَبِ جَاءَ قَوْمَهُ بأفْضَلَ ممَّا جئْتُكُمْ بِهِ, إنّي قَدْ جِئْتُكُمْ بِخَيْرِ الدُّنْيَا والآخِرَةِ, وَقَدْ أمَرَنِي الله أنْ أدْعُوكُمْ إلَيْهِ, فَأيُّكُمْ يُؤَازِرُني عَلى هَذَا الأمْرِ, عَلى أنْ يَكُونَ أخِي و وصيي و خليفتي فيكم؟ قال: فأحجم القوم عنها جميعا, وقلت وإني لأحدثهم سنا, وأرمصهم عينا, وأعظمهم بطنا, وأخمشهم ساقا. أنا يا نبيّ الله أكون وزيرك, فأخذ برقبتي, ثم قال: " إن هذا أخي و وصيي و خليفتي فيكم فاسمعوا له وأطيعوا ", قال: فقام القوم يضحكون, ويقولون لأبي طالب: قد أمرك أن تسمع لابنك وتطيع۔!.۔

تاریخ امم والملوک المشہور تاريخ طبری ؛ جلد 2 ص 62،63
تاریخ ابو الفداء، ص ۳۳ تا ص ۳۶ طبع لاہور
تفسیر طبری تفسیر سورۃ الشعرا 26 آیت 214
تفسیر درمنثور تفسیر سورۃ الشعرا 26 آیت 214

ترجمہ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت (وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو خبردار کروں پس میرے دل میں مجھے تنگی محسوس ہوئی اور میں پہچان گیا کہ میں جب بھی انھیں اس بات کی دعوت دوں گا تو میں اُن کا ایسا طرز عمل دیکھوں گا جو مجھے ناپسند ہے۔ پس میں خاموش رہا حتٰی کہ جبرائیل امینؑ آئے اور پس فرمایا کہ ائے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اگر آپ نے اس امر کو مکمل نہ کیا جسکا آپ کو حُکم ہوا ہے تو آپ کا رب عذاب کرے گا پس ائے علیؑ ایک پیمانہ کھانے کا میرے واسطے تیار کرو اور ایک بکری کا پیر (بھون کر) اس پر رکھ اور ایک بڑا کانسہ (پیالہ) دودھ کا میرے واسطے لا اورعبدالمطلب کی اولاد کو میرے پاس بلا کر لا تاکہ میں اس سے کلام کروں اور سناؤں ان کو وہ حکم کہ جس پرمیں اپنے رب کی طرف سے مامور ہوا ہوں چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے وہ کھانا ایک پیمانہ بموجب حکم تیار کر کے اولاد عبدالمطلب کو جو قریب چالیس آدمی کے تھے بلایا، ان آدمیوں میں حضرت کے چچا ابوطالب اور حضرت حمزہ اور حضرت عباس اور ابولھب بھی تھے اس وقت جضرت علی کرم اللہ وجہہ نے وہ کھانا جو تیار کیا تھا لا کر حاضر کیا۔ جب میں نے کھانا رکھا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے گوشت کا ایک ٹکڑا لیا اور اُسے دانتوں سے ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھانے کے اطراف میں رکھا اور فرمایا کہ اللہ کا نام لے کر کھاؤ۔ لوگوں نے اسے کھایا یہاں تک کہ اسے اس وقت چھوڑا جب برتن میں ان کی انگلیوں کے نشانات دکھائی دے رہے تھے۔ سب نے سیر ہو کر کھایا۔ جو کھانا ان سب آدمیوں نے کھایا ہے وہ ایک آدمی کی بھوک کے موافق تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ انھیں پلاؤ تو میں وہ دودھ کا برتن لے آیا۔ سب نے اس سے سیر ہو کر پیا۔ حالانکہ اُن میں سے ہر ایک اُس پیالے کے برابر ہی پیتا تھا۔

اس اثناء میں حضرت چاہتے تھے کہ کچھ ارشاد کریں کہ ابولہب پہل کرتے ہوئے بول اٹھا اور یہ کہا کہ دیکھا تمھارے ساتھی نے کیسا جادو کیا؟؟ یہ سنتے ہی تمام آدمی الگ الگ ہوگئے تھے ، چلے گئے پیغمبرخدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کچھ کہنے نہ پائے تھے یہ حال دیکھ کر جناب رسالتماب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے ارشاد کیا کہ ائے علیؑ دیکھا تو نے اس شخص نے کیسی سبقت کی مجھے بولنے ہی نہ دیا اب پھر کل کو تیار کر جیسا کہ آج کیا تھا اور پھر ان کو بلا کر جمع کر۔

چنانچہ حضرت علیؑ نے دوسرے روز پھرموافق ارشاد آنحضرت کے وہ کھانا تیار کر کے سب لوگوں کو جمع کیا، جب وہ کھانے سے فراغت پا چکے اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد کیا کہ "اے فرزندان عبدالمطلب! خدا کی قسم! میں پورے عرب میں ایسا کوئی جوان نہیں جانتا جو مجھ سے بہتر کوئی چیز اپنی قوم کے لئے لایا ہو؛ میں تمہارے لئے دنیا اور اخرت کی بھلائی لایا ہوں؛ خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں اس کی طرف بلاؤں؛ پس کون ہے جو اس کام میں میری پشت پناہی کرے، تاکہ وہی میرا بھائی، میرا وصی اور تمہارے درمیان میرا خلیفہ اور جانشین قرار پائے؟ اس وقت سب موجود تھے اور حضرت پر ایک ہجوم تھا اور حضرت علیؑ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں آپ کے دشمنوں کو نیزہ ماروں گا اورآنکھیں ان کی پھوڑوں گا اور آپ کے دشمنوں کے پیٹ چیروں گا اور انکی ٹانگیں کاٹوں گا ائے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں آپ کا وزیر بنوں گا۔ حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس وقت میری گردن پر ہاتھ مبارک رکھ کر ارشاد کیا کہ بے شک یہ میرا بھائی ہے اور میرا وصی ہے اور میرا خلیفہ ہے تمہارے درمیان اس کی سنو اور اطاعت قبول کرو۔ یہ سن کر سب قوم کے لوگ از روئے تمسخر ہنس کر کھڑے ہوگئے اور ابوطالبؑ سے کہنے لگے کہ اپنے بیٹے کی بات سن اور اطاعت کر یہ تجھے حکم ہوا ہے-۔




شواھد حدیث
وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الأَسْدِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ قال لما نزلت هذه الآيةُ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ قال جمع رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ أهلَ بيتِه فاجتمعوا ثلاثين رجلًا فأكلوا وشربوا وقال لهم مَنْ يضمنُ عني ذمَّتي ومواعيدي وهو معي في الجنةِ ويكونُ خليفتي في أهلي قال فعرض ذاك عليهم فقال رجلٌ أنت يا رسولَ اللهِ كنتَ بحرًا منْ يُطيقُ هذا حتى عرض على واحدٍ واحدٍ فقال عليٌّ أنا

الراوي : علي بن أبي طالب المحدث : ابن جرير الطبري
المصدر : مسند علي الصفحة أو الرقم: 60 خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
Source

ترجمہ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ نازل ہوئی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے گھر والوں کو جمع ہونے کو کہا۔ پس 30 کے قریب اشخاص اکٹھے ہوئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انھیں کھلایا اور پلایا اور پھر اُن سے فرمایا کہ تم میں سے کون اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ وہ میری ذمہ داری کو پورا کرے گا اور میرا عہد نبھائے گا اور (جو ایسا کرے گا) وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا اور میرے اھل میں سے میرا خلیفہ (جانشین) قرار پائے گا۔ پس اُن میں سے ایک دانا اور زیرک آدمی بولا کہ کہ ائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کی شخصیت تو ایک سمندر ہے۔ تو کون ایسا ہے جو اس (عظیم ذمہ داری) کی طاقت رکھتا ہو اور اسے برداشت کرسکے۔؟؟ پس حضرت علیؑ نے فرمایا یا رسول اللہ میں (اس ذمہ داری کا بوجھ اُٹھاتا ہوں)۔


حدثنا ‏ ‏أسود بن عامر ‏ ، حدثنا : ‏ ‏شريك ‏ ‏، عن ‏ ‏الأعمش ‏ ‏، عن ‏ ‏المنهال ‏ ‏، عن ‏ ‏عباد بن عبد الله الأسدي ‏ ‏، عن ‏ ‏علي ‏ ‏ ‏ ‏قال لمَّا نزلَت هذِهِ الآيةُ : وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ قالَ : جمعَ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ من أَهْلِ بيتِه عليَّ بنَ أبي طالبٍ ، فاجتمعَ ثلاثونَ ، فأَكَلوا وشرِبوا ، قالَ : فقالَ لَهُم : مَن يضمنُ عنِّي ديني ومواعيدي ، ويَكونُ معي في الجنَّةِ ، ويَكونُ خَليفتي في أَهْلي ؟ فقالَ : رجلٌ لم يسمِّهِ شريكٌ يا رسولَ اللَّهِ ، أنتَ كُنتَ بحرًا ، من يقومُ بِهَذا ؟ قالَ : ثمَّ قالَ : الآخَرُ قالَ : فعرضَ ذلِكَ على أَهْلِ بيتِهِ ، فقالَ عليٌّ رضي اللَّه عنه أَنا

الراوي : علي بن أبي طالب المحدث : أحمد شاكر
المصدر : مسند أحمد الصفحة أو الرقم: 2/165 خلاصة حكم المحدث : إسناده حسن
Source




ما نزلت هذه الآيةُ وَأَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْأَقْرَبِيْنَ قال جمع رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم من أهلِ بيتِه فاجتمع له ثلاثونَ رجلًا فأكلوا وشرِبوا قال فقال لهم مَن يضمنُ عنِّي دينِي ومواعيدِي ويكونُ معِي في الجنةِ ويكونُ خليفَتي في أهلِي فقال رجلٌ لم يُسمِّه شريكٌ يا رسولَ اللهِ أنت كنتَ بحرًا مَن يقومُ بهذا قال ثم قال لآخرٍ فعرض ذلك على أهلِ بيتِه فقال عليٌّ أنا
الراوي : علي بن أبي طالب المحدث : الهيثمي
المصدر : مجمع الزوائد الصفحة أو الرقم: 9/116 خلاصة حكم المحدث : ‏‏ إسناده جيد‏‏ [وله] طرق

Source


لما نزلتْ **وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ** جمعَ قرابتَهُ فاجتمعَ لهُ ثلاثونَ رجلًا فأكلوا وشرِبوا فقال لَهم من يضمَنُ عنِّي دَيني ومواعيدي ويكونُ معي في الجنَّةِ ويكونُ خليفَتي في أهلي قال عليٌّ فقلتُ أنا
الراوي : علي بن أبي طالب المحدث : الشوكاني
المصدر : در السحابة الصفحة أو الرقم: 149 خلاصة حكم المحدث : إسناده جيد
Source




أخبرنا الفضل بن سهل قال حدثني عفان بن مسلم قال حدثنا أبو عوانة عن عثمان بن المغيرة عن أبي صادق عن ربيعة بن ناجد أن رجلا قال لعلي يا أمير المؤمنين لم ورثت بن عمك دون عمك قال جمع رسول الله صلى الله عليه وسلم أو قال دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بني عبد المطلب فصنع لهم مدا من طعام قال فأكلوا حتى شبعوا وبقي الطعام كما هو كأنه لم يمس ثم دعا بغمر فشربوا حتى رووا وبقي الشراب كأنه لم يمس أو لم يشرب فقال يا بني عبد المطلب إني بعثت إليكم بخاصة وإلى الناس بعامة وقد رأيتم من هذه الآية ما قد رأيتم فأيكم يبايعني على أن يكون أخي وصاحبي ووارثي فلم يقم إليه أحد فقمت إليه وكنت أصغر القوم فقال اجلس ثم قال ثلاث مرات كل ذلك أقوم إليه فيقول اجلس حتى كان في الثالثة ضرب بيده على يدي ثم قال أنت أخي وصاحبي ووارثي ووزيري فبذلك ورثت بن عمي دون عمي..۔

سنن النسائي الكبرى الجزء 5 صفحة 125

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللَّهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
ائے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ آپ کیلیے کافی ہے اور اُس کیلیے بھی جو مومنین میں سے آپ کی پیروی کرے


(3)


أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَى
سورۃ والضحٰی 93، آیت 6
ترجمہ
کیا اس (اللہ) نے آپ کو یتیم نہیں پایا تھا پھر جگہ دی

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم"مَا زَالَتْ قُرَیْشٌ كَاعَّةً (اَو قَاعِدَةً) عَنِّی حَتَّی تُوُفِّیَ اَبُو طَالِبٍ"۔
ترجمہ: جب تک ابوطالبؑ بقید حیات تھے قریش مجھ سے خائف رہتے تھے۔
تاریخ مدینه دمشق، ج 66، ص 339۔
ابن کثیر، البدایة و النهایة، ج3، ص164۔

مستدرك الحاكم - كتاب الهجرة الأولى الى الحبشة - رقم الحديث : ( 4302 )۔


قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللَّهُ الَّذي يُحيي ويميتُ وَهوَ حيٌّ لا يموتُ اللَّهمَّ اغفِر لأمِّي فاطمةَ بنتِ أسدٍ ولقِّنها حجَّتَها ووسِّع عليها مُدخلَها بحقِّ نبيِّكَ والأنبياءِ الَّذينَ من قبلي فإنَّكَ أرحمُ الرَّاحمينَ ۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ائے اللہ جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور وہ خود زندہ ہے اور اسے کوئی زوال نہیں۔ ائے اللہ میری ماں فاطمہ بنت اسد کی مغفرت فرما اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اُس سے پہلے گزرے ہوئے انبیا کے صدقے اُس کے ٹھکانے کو کشادہ کردے۔ پس بے شک توں ہی سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مستدرک علی الصحیحین حدیث نمبر 4632

Source

(4)



هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِّن نَّارٍ يُصَبُّ مِن فَوْقِ رُؤُوسِهِمُ الْحَمِيمُ يُصْهَرُ بِهِ مَا فِي بُطُونِهِمْ وَالْجُلُودُ وَلَهُم مَّقَامِعُ مِنْ حَدِيدٍ كُلَّمَا أَرَادُوا أَن يَخْرُجُوا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ أُعِيدُوا فِيهَا وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ إِنَّ اللَّهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ وَهُدُوا إِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ وَهُدُوا إِلَى صِرَاطِ الْحَمِيدِ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ
سورۃ الحج 22، آیات 19 تا 23۔

ترجمہ
یہ دو فریق ہیں جو اپنے رب کے معاملہ میں جھگڑتے ہیں پھر جو منکر ہیں ان کے لیے آگ کے کپڑے قطع کیے گئے ہیں اور ان کےسروں پر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا جس سے جو کچھ ان کے پیٹ میں ہے اور کھالیں جھلس دی جائیں گی اور ان پر لوہے کے گرز پڑیں گے جب گھبرا کر وہاں سے نکلنا چاہیں گے اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے اور دوزخ کا عذاب چکھتے رہو بے شک الله ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی وہاں انہیں سونے کے کنگن اور موتی پہنائیں جائیں گے اور وہاں ان کا لباس ریشمی ہوگا۔ اور انہوں نے عمدہ بات کی راہ پائی اور تعریف والے الله کی راہ پائی۔ بے شک جو منکر ہوئے اور لوگوں کو الله کے راستہ اور مسجد حرام سے روکتے ہیں جسے ہم نے سب لوگو ں کے لیے بنایا ہے وہاں اس جگہ کا رہنے والا اورباہروالادونوں برابر ہیں اور جو وہاں ظلم سے کجروی کرنا چاہے تو ہم اسے دردناک عذاب چکھائیں گے۔

كَمَا حَدَّثَنَاهُ أَبُو زَكَرِيَّا الْعَنْبَرِيُّ ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ السَّلامِ ، ثنا ، أَنْبَأَ وَكِيعٌ ، ثنا ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ الرُّمَّانِيِّ يَحْيَى بْنِ دِينَارٍ الْوَاسِطِيِّ ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ لاحِقِ بْنِ حُمَيْدٍ السَّدُوسِيِّ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عَبَّادٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ ، " يُقْسِمُ لَنَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ فِي هَؤُلاءِ الرَّهْطِ السِّتَّةِ يَوْمَ بَدْرٍ : عَلِيٌّ وَحَمْزَةُ وَعُبَيْدَةُ وَشَيْبَةُ وَعُتْبَةُ ابْنَا رَبِيعَةَ وَالْوَلِيدُ بْنُ عُتْبَةَ ، هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ سورة الحج آية 19 إِلَى قَوْلِهِ تَعَالَى : نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ سورة الحج آية 25 ، وَقَدْ تَابَعَ سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ أَبَا هَاشِمٍ عَلَى رِوَايَتِهِ ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ ، عَنْ قَيْسٍ ، عَنْ عَلِيٍّ مِثْلَ الأَوَّلِ

المستدرك على الصحيحين كِتَابُ التَّفْسِيرِ تَفْسِيرُ سُورَةِ الْحَجِّ حدیث نمبر 3383

ترجمہ
قیس بن عبادہ انصاریؓ فرماتے ہیں کہ انھوں نے حضرت ابوذر غفاریؓ کو قسم کھا کر فرماتے ہوئے سُنا کہ یہ سورۃ الحج کی آیات هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ (الحج آیت نمبر 19) سے لے کر آیت نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ (الحج آیت نمبر 25) تک کی آیات بدر والے دن ان 6 اشخاص کے بارے میں نازل ہوئیں۔ علی ابن ابی طالب بن عبدالمطلب، حمزہ بن عبدالمطلب اور عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب علیھم السلام اور شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ
Source


عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ ، قَالَ : " سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ يُقْسِمُ : هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِنْ نَار إلى قولِهِ الْحَرِيقِ فِي حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، وَعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، وَعُبَيْدَةَ بْنِ الْحَارِثِ ، وَعُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ ، وَشَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ ، وَالْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ اخْتَصَمُوا فِي الْحُجَجِ يَوْمَ بَدْرٍ
حکم المحدث (البانی): صحیح
سنن ابن ماجه كِتَاب الْجِهَادِ بَاب الْمُبَارَزَةِ وَالسَّلَبِ حدیث نمبر 2829

ترجمہ
قیس بن عبادہ انصاریؓ فرماتے ہیں کہ انھوں نے حضرت ابوذر غفاریؓ کو قسم کھا کر فرماتے ہوئے سُنا کہ یہ سورۃ الحج کی آیات هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ (الحج آیت نمبر 19) سے لے کر آیت الْحَرِيقِ (الحج آیت نمبر 22) تک کی آیات بدر والے دن ان 6 اشخاص کے بارے میں نازل ہوئیں۔ علی ابن ابی طالب بن عبدالمطلب، حمزہ بن عبدالمطلب اور عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب علیھم السلام اور شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ۔ جنھوں نے بدر والے دن ایک دوسرے سے جھگڑا کیا
Source


حدثنا : ‏ ‏عمرو بن زرارة ‏ ، حدثنا : ‏ ‏هشيم ‏ ‏، عن ‏ ‏أبي هاشم ‏ ‏، عن ‏ ‏أبي مجلز ‏ ‏، عن ‏ ‏قيس بن عباد ‏ ‏قال : ‏سمعت ‏ ‏أبا ذر ‏ ‏يقسم قسماً ‏: ‏إن ‏ ‏هذان خصمان إختصموا في ربهم ،‏ ‏إنها نزلت في الذين برزوا يوم ‏ ‏بدر ‏ ‏حمزة ‏ ‏وعلي ‏ ‏وعبيدة بن الحارث ‏ ‏وعتبة ‏ ‏وشيبة ‏ ‏إبنا ‏ ‏ربيعة ‏ ‏والوليد بن عتبة ‏ ، حدثنا : ‏ ‏أبوبكر بن أبي شيبة ‏ ، حدثنا : ‏ ‏وكيع ‏ ‏ح ‏ ‏وحدثني : ‏ ‏محمد بن المثنى ‏ ، حدثنا : ‏ ‏عبد الرحمن ‏ ‏جميعاًًً ‏ ‏، عن ‏ ‏سفيان ‏ ‏، عن ‏ ‏أبي هاشم ‏ ‏، عن ‏ ‏أبي مجلز ‏ ‏، عن ‏ ‏قيس بن عباد ‏ ‏قال :‏ ‏سمعت ‏ ‏أبا ذر ‏ ‏يقسم لنزلت ‏: ‏هذان خصمان ‏، ‏بمثل حديث ‏ ‏هشيم
صحيح مسلم - التفسير - في قوله تعالى هذان خصمان إختصموا في ربهم - رقم الحديث : ( 5362 )۔
Source


ترجمہ
قیس بن عبادہ انصاریؓ فرماتے ہیں کہ انھوں نے حضرت ابوذر غفاریؓ کو قسم کھا کر فرماتے ہوئے سُنا کہ یہ سورۃ الحج کی آیت
هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ (الحج آیت نمبر 19) بدر والے دن علی ابن ابی طالب بن عبدالمطلب، حمزہ بن عبدالمطلب اور عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب علیھم السلام اور شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ کے بارے میں نازل ہوئیں۔

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الصَّوَّافُ ، حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ ، كَانَ يَنْزِلُ فِي بَنِي ضُبَيْعَةَ وَهُوَ مَوْلًى لِبَنِي سَدُوسَ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ ، قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : " فِينَا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ سورة الحج آية 19۔ "۔
صحيح البخاري كِتَاب الْمَغَازِي بَاب قَتْلِ أَبِي جَهْلٍ حدیث نمبر 3696
Source

ترجمہ
حضرت قیس بن سعدہ انصاریؓ سے روایت ہے کہ مولا علی کرم اللہ وجہہ نے ارشاد فرمایا کہ یہ آیت هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ ہمارے (بنی ہاشم) بارے میں نازل ھوئی۔



حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : " نَزَلَتْ هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ سورة الحج آية 19 فِي سِتَّةٍ مِنْ قُرَيْشٍ , عَلِيٍّ , وَحَمْزَةَ , وَعُبَيْدَةَ بْنِ الْحَارِثِ , وَشَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ , وَعُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ , وَالْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ " . ۔
صحيح البخاري كِتَاب الْمَغَازِي بَاب قَتْلِ أَبِي جَهْلٍ حدیث نمبر 3695

Source

ترجمہ
حضرت قیس بن سعدہ انصاریؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوذر غفاریؓ نے فرمایا کہ یہ آیت هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ قریش کے 6 آدمیوں کے متعلق نازل ہوئی۔ علی ابن ابی طالب بن عبدالمطلب، حمزہ بن عبدالمطلب اور عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب علیھم السلام اور شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ۔


حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيُّ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبِي ، يَقُولُ : حَدَّثَنَا أَبُو مِجْلَزٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ : " أَنَا أَوَّلُ مَنْ يَجْثُو بَيْنَ يَدَيِ الرَّحْمَنِ لِلْخُصُومَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ " ، وَقَالَ قَيْسُ بْنُ عُبَادٍ : وَفِيهِمْ أُنْزِلَتْ هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ سورة الحج آية 19 ، قَالَ : هُمُ الَّذِينَ تَبَارَزُوا يَوْمَ بَدْرٍ حَمْزَةُ , وَعَلِيٌّ , وَعُبَيْدَةُ , أَوْ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْحَارِثِ , وَشَيْبَةُ بْنُ رَبِيعَةَ , وَعُتْبَةُ بْنُ رَبِيعَةَ , وَالْوَلِيدُ بْنُ عُتْبَةَ
الراوي : قيس بن عباد أو عبادة المحدث : البخاري

المصدر : صحيح البخاري الصفحة أو الرقم: 4744 خلاصة حكم المحدث : [صحيح]۔

Source

ترجمہ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں: میں پہلا شخص ہوں گا جو روز قیامت فیصلے کے لیے خداے رحمن کے روبرو دوزانو ہوں گا۔ حدیث کے راوی قیس بن عباد کہتے ہیں کہ قرآن مجید کی آیت هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ، (الحج ۲۲: ۱۹) ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جنھوں نے جنگ بدرمیں مبارزت کی، یعنی حضرت حمزہ، حضرت علی، حضرت عبیدہ بن حارث، اور شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ

غزوہ بدر کا آغاز (پہلی مبارزت)۔

ایں سعادت بزور بازو نیست عرب کا طریق جنگ اہل عرب کا عام قاعدہ تھا کہ فوجوں کی عام لڑائی سے پہلے بڑے بڑے جغادری ایک دوسرے کے مقابلے میں دعوت مبارزت دیتے ۔ اور جب مقابلہ جاری ہوتا تو عام فوجی مداخلت نہیں کیا کرتے تھے۔ اور بالعموم اسی مبارزت کے نتیجے میں جنگ جیتی یا ہاری جاتی تھی ۔ چنانچہ میدان بدر میںسب سے پہلے کافروں میں سے اسود بن عبدالاسد مخزومی کام آیا ۔ یہ شخص بڑا بد خلق اور اڑیل تھا ۔ للکارتا ہوا میدان میں نکلا کہ واللہ میں مسلمانوں کے حوض کا پانی پی کر رہوں گا ۔اس کو روکنے کیلئے حضرت حمزہؑ آگے بڑھے ۔ دونوں کی پانی کے حوض پر مڈ بھیڑ ہوئی ۔حمزہ نے ایسی تلوار ماری کہ اس کا پاؤں نصف پنڈلی سے کٹ کر اُڑ گیا ۔ اور وہ پیٹھ کے بَل گرا ۔ لیکن باز نہیں آیا ۔ گھٹنوں کے بل گھسٹ کر حوض کی طرف بڑھا اور اس میں داخل ہی ہوا چاہتا تھا تاکہ اپنی قسم پوری کرلے ، اتنے میں حضرت حمزہ نے دوسری بھرپور ضرب لگائی اور اسے ڈھیر کردیا۔ یہ اس معرکے کا پہلا قتل تھا۔

اس کے بعد لشکر کفار سے ربیعہ کے دونوں بیٹے عُتبہ ، شیبہ اور عتبہ کا بیٹا ولید تینوں شاہسواروں نے مبارزت کااعلان کیا۔ ان کے مقابلہ کیلئے انصار کے تین جوان عوف بن حارث اور معوذ بن حارث یہ دونوں بھائی تھے۔ اور ان کی ماں کا نام عفراء تھا اور تیسرے عبداللہ بن رواحہ نکلے۔ لیکن عتبہ نے آواز لگائی: محمد، ہماری قوم قریش میں سے، ہمارے چچیروں، عبدالمطلب کی اولاد سے برابر کے جوڑ بھیجو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پکارے: اے بنی ہاشم، اٹھ کر مقابلہ کرو، اٹھو، اے عبیدہ بن حارثؑ اٹھو، اے حمزہؑ، ائے علیؑ اٹھیے، تینوں نکل کر آئے تو اُس نے ان کے نام پوچھے، کیونکہ جنگی لباس پہننے کی وجہ سے وہ پہچانے نہ جاتے تھے۔ حضرت حمزہؑ نے کہا: میں شیر خدا اور شیر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حمزہ بن عبدالمطلب ہوں۔ حضرت علیؑ نے کہا: میں بندۂ خدا اور برادر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم علی بن ابو طالبؑ ہوں۔ حضرت عبیدہ نے کہا: میں حلیف رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عبیدہ بن حارث ہوں۔ عتبہ بولا: اب برابر کے، صاحب شرف لوگوں سے جوڑ پڑا ہے۔

اولاً، اس نے اپنے بیٹے ولید کو بھیجا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس کے مقابلے پرآئے۔ دونوں نے ایک دوسرے پرتلوار سے وار کیا۔ ولید کا وار خالی گیا، جبکہ حضرت علیؑ نے ایک ہی ضرب میں اس کا کام تمام کر دیا۔ پھر عتبہ خود آگے بڑھا اور حضرت حمزہؑ اس کا سامنا کرنے نکلے ۔ان دونوں میں بھی دو ضربوں کا تبادلہ ہوااور عتبہ جہنم رسید ہوا۔ اب شیبہ کی باری تھی، حضرت عبیدہ بن حارث سے اس کا دوبدو مقابلہ ہوا، دونوں نے ایک دوسرے پر کاری ضربیں لگائیں۔ حضرت عبیدہ کی پنڈلی پر تلوار لگی اور ان کا پاؤں کٹ گیا۔ جنگی روایت کے مطابق حضرت حمزہ اور حضرت علی فاتح ہونے کی وجہ سے اپنے ساتھی کی مدد کر سکتے تھے۔ دونوں پلٹ کر شیبہ پر پل پڑے ،اسے جہنم رسید کیا اور زخمی حضرت عبیدہ کو اس حال میں اٹھا کر لے آئے کہ ان کی ٹانگ کی ہڈی سے گودہ بہ رہا تھا۔ انھیں رسول اﷲ
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس لے جایا گیا۔ آپ نے انھیں لٹا دینے کو کہا، حضرت عبیدہ نے آپ کے پاؤں پر سر رکھ کر پوچھا: یا رسول اﷲ، کیا میں نے شہادت نہیں پائی؟ فرمایا: کیوں نہیں۔ حضرت عبیدہ نے کہا: یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، مجھے اگر ابو طالب علیہ السلام دیکھ لیتے توجان لیتے کہ میں ان کے کہے اس شعر کا صحیح مصداق ہوں
ونسلمہ حتی نصرع حولہ
ونذہل عن ابنائنا والحلائل

۔(اصل میں لا نسلمہ ہے۔ چونکہ لائے نفی حذف نہیں ہوتا اس لیے نسلمہ کا جملہ کسی سابق منفی پر عطف ہو گا اور لا مقدر ماننے کی ضرورت نہ رہے گی۔ شعر کا مفہوم ہو گا) ہم اپنے سالار کو ( حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ) دشمنوں کے نرغہ میں نہیں آنے دیتے، یہاں تک کہ اس کے گردا گرد لڑ کر جان دے دیتے ہیں اوراس جد وجہد میں اپنے بیٹوں اور بیویوں کی حفاظت سے غافل ہو جاتے ہیں۔

مورخین کی اکثریت نے جن میں ابن اسحاق، طبری، ابن اثیر اور ابن کثیر شامل ہیں، بیان کیا ہے کہ حضرت حمزہ کا مقابلہ شیبہ سے ہوا اور حضرت حمزہ نے شیبہ کو جہنم رسید کیا۔اس طرح عتبہ اور حضرت عبیدہ میں دوبدو جنگ ہوئی، دونوں زخمی ہوئے۔ پھر حضرت علی اور حضرت حمزہ نے مل کر عتبہ کو انجام تک پہنچایا۔ ابن سعد کی روایت اس کے برعکس ہے، ان کا کہنا ہے کہ روبرو مقابلے کے بعد حضرت حمزہ نے عتبہ کو قتل کیا، جبکہ شیبہ نے حضرت عبیدہ کا سامنا کیا۔ یہ روایت منفرد ہونے کے باوجود اس لیے لائق ترجیح ہے کہ اسی جنگ میں ابو سفیان کی بیوی ہند بنت عتبہ نے حضرت حمزہ سے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لینے کی قسم کھائی، کیونکہ وہ انھی کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ اگلے برس جنگ احد میں جب سیدنا حمزہ حبشی غلام وحشی کا نیزہ لگنے کے بعد شہادت سے سرفراز ہوئے تواسی انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے اس نے ان کا پیٹ چاک کر کے کلیجہ نکالا اور چبا کر اگل دیا۔ سنن ابوداؤد کی روایت ۲۶۶۵ میں ایک تیسری ترتیب مذکور ہوئی ہے۔ سیدنا علی خود روایت کرتے ہیں کہ حمزہ عتبہ کی طرف بڑھے اورمیں (علی) نے شیبہ کا سامنا کیا۔ عبیدہ اور ولید میں دوضربوں کا تبادلہ ہوا، دونوں نے ایک دوسرے کو شدید زخمی کر کے گرا دیا ۔پھر حمزہ نے اور میں نے ولید کو قتل کیا اور عبیدہ کو اٹھا لائے۔ مسند احمد، مسند علی بن ابی طالب (رقم ۹۴۸) میں حضرت علی کے الفاظ میں جنگ بدر کی تفصیل بیان ہوئی ہے، تاہم مبارزت کے ضمن میں اختصار سے کام لیاگیا ہے۔

زخمی ہونے کے بعد حضرت عبیدہ نے خود بھی شعر کہے۔ ان میں سے چند پیش خدمت ہیں:۔
ستبلغ عنا أہل مکۃ وقعۃ
یہب لہا من کان عن ذاک نائیا

جلد ہی مکہ والوں کو ہماری طرف سے ایک زبردست معرکے کی خبر ملے گی جسے سننے کے لیے واقعہ سے دور بیٹھا ہوا شخص بھی بیدار ہو جائے گا ۔

بعتبۃ إذ ولی وشیبۃ بعدہ
و ما کان فیہا بکر عتبۃ راضیا

عتبہ کے انجام کے بارے میں جب اس نے شکست کھائی ، اس کے بعد شیبہ کے ساتھ بھی یہی ہوااوراس معرکہ میں عتبہ کے پہلوٹھی ولید کے ساتھ وہ ہواجو وہ نہ چاہتا تھا۔

لقیناہم کالأسد نخطربالقنا
نقاتل فی الرحمٰن من کان عاصیا

ہم نے ان کا شیروں کی طرح سامنا کیا خداے رحمن کی راہ میں ان لوگوں سے لڑتے ہوئے جو اس کے نافرمان تھے۔

فإن تقطعوا رجلی فإنی مسلم
أرجی بہاعیشًا من اﷲ دانیا

اگر تم مشرکوں نے میرا پاؤں کاٹ ڈالا ہے تو کیا؟میں نے اسلام قبول کرکے اس زندگی کی ا مید میں سر تسلیم خم کر دیا ہے جو اﷲ کی طرف سے جلد ملنے والی ہے۔

مع الحور أمثال التماثیل أخلصت
مع الجنۃ العلیا لمن کان عالیا

مجسموں کی مانند ا ن حوروں کی معیت میں جواعلیٰ جنت میں خاص اس شخص کو ملیں گی جو مقام بلند پر فائز ہوگا ۔


حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں: میں پہلا شخص ہوں گا جو روز قیامت فیصلے کے لیے خداے رحمن کے روبرو دوزانو ہو گا۔ حدیث کے راوی قیس بن عباد کہتے ہیں کہ قرآن مجید کی آیت هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ، (الحج ۲۲: ۱۹) ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جنھوں نے جنگ بدرمیں مبارزت کی، یعنی حضرت حمزہ، حضرت علی، حضرت عبیدہ بن حارث علیھم السلام ، اور شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ (بخاری، رقم ۳۹۶۵۔ مسلم، رقم ۷۶۶۵)۔ حضرت عبیدہ بن حارثؑ کا علاج معالجہ کیاجاتارہا لیکن چوتھے یا پانچویں دن بدر سے واپسی پر وادی صفراء پہنچ کر یہ شہادت پاگئے۔

(5)

وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّهُ بِبَدْرٍ وَأَنتُمْ أَذِلَّةٌ فَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ أَلَن يَكْفِيَكُمْ أَن يُمِدَّكُمْ رَبُّكُم بِثَلاَثَةِ آلاَفٍ مِّنَ الْمَلآئِكَةِ مُـنْـزَلِينَ بَلَى إِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ وَيَأْتُوكُم مِّن فَوْرِهِمْ هَـذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُم بِخَمْسَةِ آلاَفٍ مِّنَ الْمَلآئِكَةِ مُسَوِّمِينَ وَمَا جَعَلَهُ اللّهُ إِلاَّ بُشْرَى لَكُمْ وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوبُكُم بِهِ وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِندِ اللّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ
سورۃ التوبہ 03، آیات 123 تا 126۔

ترجمہ
اور اللہ نے بدر میں تمہاری مدد فرمائی حالانکہ تم (اس وقت) بالکل بے سرو سامان تھے پس اللہ سے ڈرا کرو تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مومنین سے فرما رہے تھے کہ کیا تمہارے لئے یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تین ہزار اتارے ہوئے فرشتوں کے ذریعے تمہاری مدد فرمائے۔ ہاں اگر تم صبر کرتے رہو اور پرہیزگاری قائم رکھو اور وہ (کفّار) تم پر اسی وقت (پورے) جوش سے حملہ آور ہو جائیں تو تمہارا رب پانچ ہزار نشان والے فرشتوں کے ذریعے تمہاری مدد فرمائے گا۔ اور اللہ نے اس (مدد) کو محض تمہارے لئے خوشخبری بنایا اور اس لئے کہ اس سے تمہارے دل مطمئن ہو جائیں، اور مدد تو صرف اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے جو بڑا غالب حکمت والا ہے


حدثنا ‏ ‏وكيع ‏ ‏، عن ‏ ‏شريك ‏ ‏، عن ‏ ‏أبي إسحاق ‏ ‏، عن ‏ ‏هبيرة ‏ ‏ خطبنا ‏ ‏الحسن بن علي ‏ ‏علیھما السلام ‏ ‏فقال : ‏ ‏لقد فارقكم رجل بالأمس لم يسبقه الأولون بعلم ولا يدركه الآخرون كان رسول الله ‏‏صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم‏ ‏يبعثه بالراية، ‏ ‏جبريل ‏ عن يمينه ‏ ‏و ميكائيل ‏ عن شماله لا ينصرف حتى يفتح له۔
المحدث : أحمد شاكر خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
[FONT=Arial (Arabic)] مسند أحمد - مسند أهل البيت - حديث الحسن بن علي - رقم الحديث : ( 1626 )۔

[/FONT]Source
Source
ترجمہ
حضرت ھبیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت امام حسن علیھ السلام نے ہمیں خطاب کیا اور فرمایا اے لوگو! آج وہ شخص فوت ہوا ہے کہ اُسکے علم کو نہ پہلے پہنچے ہیں اور نہ بعد کو آنیوالے پہنچیں گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُسے (جنگ کے لئے) جھنڈا دے کر بھیجتے تھے تو جبرائیل علیہ السلام اسکے داہنے طرف ہو جاتے تھے اور میکائیل علیہ السلام بائیں طرف۔ پس وہ بغیر فتح حاصل کئے واپس نہیں ہوتے تھے

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ حَبَشِيٍّ ، قَالَ : خَطَبَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ عَلَيْهِمَا السَّلامُ بَعْدَ قَتْلِ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلامُ ، فَقَالَ : " لَقَدْ فَارَقَكُمْ رَجُلٌ أَمِينٌ مَا سَبَقَهُ الأَوَّلُونَ بِعِلْمٍ وَلا أَدْرَكَهُ الآخِرُونَ ، إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَبْعَثُهُ وَيُعْطِيهِ الرَّايَةَ فَلا يَنْصَرِفُ حَتَّى يُفْتَحَ لَهُ وَمَا تَرَكَ مِنْ صَفْرَاءَ وَلا بَيْضَاءَ إِلا سَبْعَ مِائَةِ دِرْهَمٍ مِنْ عَطَائِهِ كَانَ يَرُدُّهُ لا خَادِمَ لأَهْلِهِ " .۔
الراوي : عمرو بن حبشي المحدث : أحمد شاكر
المصدر : مسند أحمد الصفحة أو الرقم: 3/168 خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
Source



أخبرنا : الحسن بن سفيان ، حدثنا : أبوبكر بن أبي شيبة ، حدثنا : عبد الله بن نمير ، عن إسماعيل بن أبي خالد ، عن أبي إسحاق ، عن هبيرة بن يريم قال : سمعت الحسن بن علي قام فخطب الناس فقال : يا أيها الناس لقد فارقكم أمس رجل ما سبقه ولا يدركه الآخرون لقد كان رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم يبعثه المبعث فيعطيه الراية فما يرجع حتى يفتح الله عليه جبريل ، عن يمينه وميكائيل ، عن شماله : ما ترك بيضاء ولا صفراء إلاّ سبع مائة درهم فضلت من عطائه أراد أن يشتري بها خادماً.۔
الراوي : الحسن بن عليؑ المحدث : ابن حبان
المصدر : صحيح ابن حبان الصفحة أو الرقم: 6936 خلاصة حكم المحدث : أخرجه في صحيحه
Source
ترجمہ
حضرت ھبیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت امام حسن علیھ السلام نے ہمیں خطاب کیا اور فرمایا اے لوگو! آج وہ شخص فوت ہوا ہے کہ اُسکے علم کو نہ پہلے پہنچے ہیں اور نہ بعد کو آنیوالے پہنچیں گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُسے جنگ کے لئے جھنڈا دے کر بھیجتے تھے
تو وہ واپس نہیں لوٹتے تھے جب تک اللہ اُنھیں فتح نہ عطا فرماتا۔ جبرائیل علیہ السلام انکے داہنے طرف ہو جاتے تھے اور میکائیل علیہ السلام بائیں طرف۔ اُنھوں نے اپنے پیچھے کوئی کوئی مال و دولت نہیں چھوڑا سوائے 700 درہم کے جس سے اُن کا ارادہ ایک خادم کو خریدنے کا تھا۔۔۔۔

أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا يُونُسُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ هُبَيْرَةَ بْنِ يَرِيمَ ، قَالَ : " خَرَجَ إِلَيْنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ ، وَعَلَيْهِ عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ ، فَقَالَ : لَقَدْ كَانَ فِيكُمْ بِالأَمْسِ رَجُلٌ مَا سَبَقَهُ الأَوَّلُونَ ، وَلا يُدْرِكُهُ الآخِرُونَ ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَ آلِهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ غَدًا رَجُلا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ، وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ، فَقَاتَلَ جِبْرِيلُ عَنْ يَمِينِهِ ، وَمِيكَائِيلُ عَنْ يَسَارِهِ ، ثُمَّ لا تُرَدُّ يَعْنِي رَايَتَهُ ، حَتَّى يَفْتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ ، مَا تَرَكَ دِينَارًا ، وَلا دِرْهَمًا ، إِلا سَبْعَ مِائَةِ دِرْهَمٍ أَخَذَهَا مِنْ عَطَائِهِ ، كَانَ أَرَادَ أَنْ يَبْتَاعَ بِهَا خَادِمًا لأَهْلِهِ
السنن الكبرى للنسائي كِتَابُ : الْخَصَائِصِ ذِكْرُ خَبَرِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ عَنِ النَّبِيّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم..
رقم الحديث: 8091 ھبیرہ بن مریم سے روایت ہے کہ حضرت امام حسن علیہ السلام تشریف لائے اور انھوں نے سیاہ عمامہ پہن رکھا تھا۔ پس انھوں نے ارشاد فرمایا، کل تک تمھارے درمیان وہ شخص تھا جس سے نہ پہلے والے سبقت لے سکے اور نہ بعد میں آنے والے اُس کا ادراک کر پائیں گے۔ اور بے شک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اُسکے بارے میں فرمایا کہ کل میں یہ جھنڈا اُس کو دوں گا جو اللہ اور اُسکے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اُسکا رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اُس سے محبت کرتے ہیں۔ پس جبرائیلؑ اُسکے داہنی طرف اور میکائیلؑ اُسکے بائیں طرف لڑتے ہیں۔ اور پھر وہ واپس نہیں لوٹتا حتٰی کہ اللہ رب العزت اُسے فتح عنایت فرماتا ہے۔ اُس نے اپنے پیچھے کوئی دینار اور درھم نہیں چھوڑے سوائے سات سو درھم کے۔ جو مجھے انھوں نے دیے۔ اس سے اُن کا اپنے گھر والوں کیلیے ایک خادم خریدنے کا ارداہ تھا۔



لَمَّا قُتِلَ عليُّ بنُ أبِي طالِبٍ رضِيَ اللهُ عنهُ قامَ الحسَنُ بنُ عليٍّ خَطيبًا ، فقال : قدْ قَتلْتُمْ واللهِ الليلَةَ رَجلًا في الليلَةِ التي أُنْزِلَ فيها القُرآنُ ، وفِيها رُفِعَ عِيسَى بنُ مَريمَ ، وفِيها قُتِلَ يُوشَعُ بنُ نُونٍ فتَى مُوسَى ، قال سُكَيْنٌ : حدَّثَنِي رجلٌ قدْ سمّاهُ قال : وفِيها تِيبَ على بَنِي إِسرائِيلَ - ثُمَّ رَجعَ إلى حدِيثِ حَفْصِ بنِ خالِدٍ ، فقال : واللهِ ما سَبَقهُ أحدٌ كان قبْلَهُ ولا يُدْرِكُهُ أحدٌ كان بَعدَهُ ، واللهِ إنْ كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ لَيَبْعَثُهُ في السَّرِيَّةِ جِبريلُ عن يَمينِه ومِيكائيِلُ عن يَسارِهِ ، واللهِ ما تَركَ من صفْراءَ ولا بَيضاءَ إلَّا ثَمانِمِائَةَ دِرْهَمٍ أو سَبعَمِائةِ دِرْهَمٍ كان أعَدَّها لِخادِمٍ
الراوي : الحسن بن علي بن أبي طالب المحدث : البزار
المصدر : البحر الزخار الصفحة أو الرقم: 4/179 خلاصة حكم المحدث : إسناده صالح
ترجمہ

حضرت ھبیرہ سے روایت ہے جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ شھید ہو گئے تو حضرت امام حسنؑ نے کھڑے ہو کر ایک خطبہ دیا۔ پس فرمایا کہ لوگوں نے حضرت علی کو شھید کر دیا اُس رات جس رات اللہ نے قرآن نازل کیا۔ جس رات حضرت عیسٰی کو اُٹھا لیا گیا، جس رات حضرت موسٰیؑ کے جوان حضرت یوشع بن نونؑ شھید ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔ پھر فرمایا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے گزر جانے والے بڑھ نہیں سکے اور نہ ہے بعد میں آنے والے اُن کی گرد کو پا سکیں گے۔ اللہ کی قسم جب بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اُنھیں لڑائی کیلیے بھیجا تو جبرائیلؑ اُن کے دائیں طرف ہو لیے اور میکائیلؑ اُن کے بائیں جانب ہولیے۔ انھوں نے اپنے پیچھے کوئی مال و دولت نہیں چھوڑا سوائے 700 (بعض روایات میں 800) درہم کے علاوہ۔ جس سے ایک خادم خریدنے کا ارادہ تھا



قال البانی حسن الحدیث
۔2496 - ( حسن
۔[ كان يبعثه البعث فيعطيه الراية فما يرجع حتى يفتح الله عليه جبريل عن يمينه وميكائيل عن يساره . يعني عليا رضي الله عنه ] . عن ابي هبيرة بن يريم قال : سمعت الحسن بن علي قام فخطب الناس فقال : يا أيها الناس ! لقد فارقكم أمس رجل ما سبقه الأولون ولا يدركه الآخرون . لقد كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يبعثه ( الحديث ) ما ترك بيضاء ولا صفراء إلا سبعمائة درهم فضلت من عطائه أراد أن يشتري بها خادما . ( حسن بطريقيه )۔

الكتاب : السلسلة الصحيحة محمد ناصر الدين الألباني رقم الحديث : ( 2496 )۔
الألباني - كتب تخريج الحديث النبوي الشريف - رقم الصفحة : ( 660 ) - رقم الحديث : ( 2496 )۔

Source
ترجمہ
۔[ پس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلہ نے انھیں جب بھی کسی مہم پر سردار بنا کر بھیجتے تو پس اُنھیں جھنڈا عطا فرماتے اور وہ واپس نہ لوٹتے جب تک اللہ انھیں فتح سے سرفراز نہ فرما دیتا اور جرائیل اپن کے داہنی جانب اور میکائیل اُن کے بائیں طرف ہو لیتے یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہہ] حضرت ھبیرہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت امام حسنؑ کو کھڑے ہو کر لوگوں کو خطاب کرتے سنا۔ پس آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ائے لوگو آج تم نے اُس شخص کو کھو دیا جسے گزرے ہوئے لوگ پہنچ نہیں سکے اور نہ ہی آنے والے لوگ اُسکا ادراک کرسکیں گے۔ اُنھیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب بھی جھنڈا دے کر بھیجا۔۔۔۔۔ (تا آخر حدیث) اُس نے اپنے پیچھے کوئی کوئی مال و دولت نہیں چھوڑا سوائے 700 درہم کے جس سے اُن کا ارادہ ایک خادم کو خریدنے کا تھا۔۔۔۔



سمعتُ الحسنَ بنَ عليٍّ قام فخطب الناسَ فقال يا أيها الناسُ لقد فارقَكم أمسُ رجلٌ ما سبقَه الأولون ولا يدركِه الآخِرونَ لقد كان يبعثُه البعثُ فيعطيه الرايةَ فما يرجعُ حتى يفتحَ اللهُ عليه جبريلُ عن يمينِه وميكائيلُ عن يسارِه يعني عليًّا رضيَ اللهُ عنهُ ما ترك بيضاءَ ولا صفراءَ إلا سبعمائةِ دِرهمٍ فضلتْ من عطائهِ أراد أن يشتريَ بها خادمًا
الراوي : الحسن بن علي بن أبي طالب المحدث : الألباني
المصدر : السلسلة الصحيحة الصفحة أو الرقم: 5/660 خلاصة حكم المحدث : رجاله ثقات رجال الشيخين غير هبيرة فقد اختلفوا فيه

ترجمہ
حضرت ھبیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت امام حسین علیھ السلام کھڑے ہو گئے اور لوگوں کو خطاب کیا اور فرمایا اے لوگو! تم نے آج اُس شخص کو کھو دیا ہے کہ اُس سے گزر جانے والے سبقت نہ لے جاسکے اور نہ ہی بعد میں آنیوالے اُس کی گِرد کو پا سکیں گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُسے جنگ کے لئے جھنڈا دے کر بھیجتے تھے تو وہ واپس نہیں لوٹتے تھے جب تک اللہ اُنھیں فتح نہ عطا فرماتا۔ جبرائیل علیہ السلام اسکے داہنی طرف ہو جاتے تھے اور میکائیل علیہ السلام بائیں طرف۔ یعنی علی کرم اللہ وجہہ۔ اُنھوں نے اپنے پیچھے کوئی کوئی مال و دولت نہیں چھوڑا سوائے 700 درہم کے جس سے اُن کا ارادہ ایک خادم کو خریدنے کا تھا۔۔۔۔

حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ ، قَالَ : خَطَبَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ حِينَ قُتِلَ عَلِيٌّ ، فَقَالَ : " يَا أَهْلَ الْكُوفَةِ ، أَوْ يَأَهْلَ الْعِرَاقِ ، لَقَدْ كَانَ بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ رَجُلٌ قُتِلَ اللَّيْلَةَ أَوْ أُصِيبَ الْيَوْمَ لَمْ يَسْبِقْهُ الْأَوَّلُونَ بِعِلْمٍ وَلَا يُدْرِكُهُ الْآخِرُونَ : كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إذَا بَعَثَهُ فِي سَرِيَّةٍ كَانَ جِبْرِيلُ عَنْ يَمِينِهِ وَمِيكَائِيلُ عَنْ يَسَارِهِ , فَلَا يَرْجِعُ حَتَّى يَفْتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ "
مصنف ابن أبي شيبة كِتَابُ الْفَضَائِلِ
فَضَائِلُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ ...۔
عاصم بن ضمرہؒ سے روایت ہے کہ حضرت امام حسن علیہ السلام نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت کے بعد خطبہ دیا پس آپ نے ارشاد فرمایا، اے کوفہ والو یا
(یوں فرمایا) اے عراق والو، کہ آج کی رات تمھارے درمیان وہ شخص شھید ہوا جس سے پہلے گزر جانے والے علم میں سبقت نہیں لے جا سکے اور نہ ہی بعد میں آنے والے اُس کا ادراک کر سکیں گے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب بھی انھیں کسی مہم پر بھیجا تو جبرائیل علیہ السلام اُسکے دائیں جانب اور میکائیل علیہ السلام اُس کے بائیں جانب ہو لیتے تھے۔ پس وہ اُسوقت تک واپس نہیں آتا تھا جبتک اللہ اُسے فتح سے نہیں نوازتا تھا۔

اس حدیث کے مزید مصادر دیکھنے کیلیے یہاں کلک کریں۔

(6)

وَإِن نَّكَثُوا أَيْمَانَهُم مِّن بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ ۙ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنتَهُونَ أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَّكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُم بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ أَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَوْهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ

سورۃ التوبہ 09، آیات 12 و 13۔
ترجمہ
اگر یہ لوگ عہدوپیمان کے بعد بھی اپنی قسموں کو توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو تم بھی ان کفر کے اماموں کو قتل کرو۔ ان کی قسمیں کوئی چیز نہیں، ممکن ہے کہ اس طرح وه بھی باز آجائیں تم ان لوگوں کی سرکوبی کے لئے کیوں تیار نہیں ہوتے جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ دیا اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جلا وطن کرنے کی فکر میں ہیں اور خود ہی اول بار انہوں نے تم سے چھیڑ کی ہے، کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اللہ ہی زیاده مستحق ہے کہ تم اس کا ڈر رکھو بشرطیکہ تم ایمان والے ہو


بدر میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھوں قتل ہونے والے سرداران قریش (آئمہ کفر
مورخین اور اھل سیر کی اکثریت نے بیان کیا ہے کہ بدر میں کفار کے کُل مقتولین 70 سے کُچھ اوپر تھے جن میں سے نصف حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھوں واصل جہنم ہوئے۔ ذیل میں اُن مقتولین کے نام دیے گئے ہیں جنھیں بدر میں یا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اکیلے قتل کیا یا پھر کسی دوسرے صحابیؓ کے ساتھ مل کر قتل کیا۔ زیادہ تعداد اُن کی ہے جنھیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے تنہا قتل کیا۔۔۔۔۔۔
وليد بن عتبة
العاص بن سعيد
طعيمة بن عديّ بن نوفل
نوفل بن خويلد
زمعة بن الاسود
الحارث بن زمعة
النظر بن الحارث بن عبد الدار
عمير بن عثمان بن كعب بن تيم
عم طلحة بن عبد الله
عثمان ابن عبيد الله
اخی طلحة بن عبید الله
عثمان ابن عبيد الله
اخی طلحة بن عبید الله
مالك ابن عبيد الله
مسعود بن ابي امية بن المغيرة
قيس بن الفاكه بن المغيرة
حذيفة بن ابي حذيفة بن المغيرة
أبا قيس بن الوليد بن المغيرة
حنظلة بن ابي سفيان
عمرو بن مخزوم
ابا منذر بن ابي رفاعة
منبّه بن الحجاج السهمي
علقمة بن كلدة
العاص بن منبه
ابا العاص بن قيس بن عديّ
معاوية بن المغيرة بن ابي العاص
لوذان بن ربيع
مسعود بن امية بن المغيرة
حاجب بن السائب بن عويمر
أوس بن المغيرة بن لوذان
زيد بن مليص
عاصم بن ابي عوف
سعيد بن وهب حليف بني عامر
معاوية بن [یا عامر بن] عبد القيس
السائب بن مالك
ابا الحكم بن الاخنس
هشام بن ابي امية بن المغيرة
عبد الله بن المنذر بن ابي رفاعة
عبد الله بن جميل بن زهير بن الحارث بن اسد
شیبہ بن ربیعہ

سیرت ابن ھشام جلد 3 صفحہ 263 تا 270 غزوہ بدر باب من قتل ببدر من المشركين
(7)



وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ ۗ إِنَّمَا أَنتَ مُنذِرٌ ۖ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ
سورة الرعد ( 13 ) ، الآية : 7
ترجمہ:۔
اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی (معجزه) کیوں نہیں اتاری گئی۔ سوائے اس کے نہیں کہ آپ تو صرف خبردار کرنے والے ہیں۔ اور ہر قوم کے لئے (ایک) ہادی ہے۔

ما أخرجه الطبري بإسناد حسن من طريق سعيد بن جبير ، عن بن عباس قال : لما نـزلت (إنما أنت منذر ولكل قوم هاد) ، وضع صلى الله عليه وسلم يده على صدره فقال: أنا المنذر(ولكل قوم هاد), وأومأ بيده إلى منكب عليّ, فقال: أنت الهادي يا عليّ, بك يهتدي المهتدون بَعْدي
الراوي : سعيد بن جبير المحدث : ابن حجر العسقلاني
المصدر : فتح الباري لابن حجر الصفحة أو الرقم: 8/226 خلاصة حكم المحدث : إسناده حسن


ترجمہ
اور طبری نے حسن سند کے ساتھ سعید بن جبیر کے طرق سے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ إنما أنت منذر ولكل قوم هاد تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنا ہاتھ اپنے سینہ پر رکھا اور کہا کہ میں منذر (ڈرانے والا) ہوں، اور آیت کے اس حصے ولكل قوم هاد پر اپنا ہاتھ علی کرم اللہ وجہہ کے کندھے پر رکھ کر کہا کہ اے علیؑ! تم ہادی ہو۔ تمہارے ذریعے ہدایت حاصل کرنے والے میرے بعد ہدایت حاصل کریں گے


حدثنا ‏ ‏عبد الله ‏ ‏، حدثني ‏ ‏عثمان بن أبي شيبة ‏ ، حدثنا ‏ ‏مطلب بن زياد ‏ ‏، عن ‏ ‏السدي ‏ ‏، عن ‏ ‏عبد خير ‏ ‏، عن ‏ ‏علي ‏ ‏في قوله إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ قالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ و آلہ وسلَّمَ المُنذرُ والهادِ رجلٌ من بَني هاشمٍ
الراوي :عبد خير الهمداني المحدث : أحمد شاكر
المصدر : مسند أحمد الصفحة أو الرقم: 2/227 خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
Source
رَوَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الصَّغِيرِ وَالْأَوْسَطِ، وَرِجَالُ الْمُسْنَدِ ثِقَاتٌ (الهيثمي
اس کی روایت عبداللہ بن احمد اور طبرانی نے کی، اور مسند کے راوی ثقہ ہیں (الهيثمي


الراوي : علي بن أبي طالب المحدث : الهيثمي
المصدر : مجمع الزوائد الصفحة أو الرقم: 7/44 خلاصة حكم المحدث : رجاله ثقات

Source

ترجمہ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اس آیت إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ کے بارے میں روایت ہے کہ آپ کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم المنذر ہیں اور الھاد بنی ہاشم میں سے ایک شخص ہے۔



اسم الكتاب: المعجم الأوسط للطبراني
اسم المصنف: سليمان بن أحمد الطبراني
سنة الوفاة: 360
عدد الأجزاء: 10
دار النشر: دار الحرمين
بلد النشر: القاهرة
سنة النشر: 1415
رقم الطبعة: الأولى
المحقق: طارق بن عوض الله بن محمد، عبد المحسن بن إبراهيم


۔(1384)- [1361]
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ , قَالَ : نا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , قَالَ : نا مُطَّلِبُ بْنُ زِيَادٍ ، عَنِ السُّرِّيِّ ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ ، عَنْ عَلِيٍّ، فِي قَوْلِهِ إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ، قَالَ، "رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم الْمُنْذِرُ وَالْهَادِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ "، لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ السّرِّيِّ إِلا الْمُطَّلِبُ، تَفَرَّدَ بِهِ: عُثْمَانُ
نوٹ: یہ حدیث سنداً حسن ہے



وأخبرنا أبو بكر محمد بن محمد بن أبي شكر المؤدب بأصبهان أن محمد بن رجاء بن إبراهيم بن عمر بن الحسن بن يونس أخبرهم قراءة عليه أنا أحمد بن عبدالرحمن الذكواني أنا أبو بكر أحمد بن موسى بن مردويه الحافظ قثنا محمد بن علي بن دحيم قثنا أحمد بن حازم قال ثنا عثمان بن محمد عن مطلب بن زياد عن السدي عن عبد خير عن علي في قول الله عز وجل إِنَّمَا أَنتَ مُنذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ قال المنذر رسول الله صلى الله عليه وسلم والهاد رجل من بني هاشم ( إسناده حسن
الأحاديث المختارة للضياء المقدسي حدیث نمبر 668، 669
ترجمہ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اس آیت إِنَّمَا أَنتَ مُنذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ کے بارے میں روایت ہے کہ آپ کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ المنذر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں اور الھاد بنی ھاشم میں سے ایک شخص ہے۔



أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو عُثْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ السَّمَّاكِ، ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَنْصُورٍ الْحَارِثِيُّ، ثَنَا حُسَيْنُ بْنُ حَسَنٍ الْأَشْقَرُ، ثَنَا مَنْصُورُ بْنُ أَبِي الْأَسْوَدِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَسَدِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ‏:‏ ‏(‏إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ‏)‏ قَالَ عَلِيٌّ‏:‏ رَسُولُ اللَّهِ- صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ- الْمُنْذِرُ، وَأَنَا الْهَادِي‏.‏
هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ‏.‏
مستدرک علی الصحیحین حدیث نمبر 4702۔
ترجمہ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اس آیت إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ‏ کے بارے میں روایت ہے کہ آپ کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم المنذر ہیں اور میں الھادی ہوں

أَفَمَن يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَن يُتَّبَعَ أَمَّن لَّا يَهِدِّي إِلَّا أَن يُهْدَىٰ ۖ فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ
آیا جو حق کے راستہ کی طرف ھدایت کرتا ہو وه زیاده اتباع کے ﻻئق ہے یا وه جس کو بغیر بتائے خود ہی راستہ نہ سوجھے؟ پس تم کو کیا ہوگیا ہے تم کیسے فیصلے کرتے ہو۔

(جاری ہے)
 
Last edited:

Zoq_Elia

Senator (1k+ posts)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ایک تعارف
(قرآن و حدیث کی روشنی میں)

(8)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَىٰ ۚ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِن وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ وَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّى تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
سورة الحجرات (49) ، الآية : 1 تا 5


ترجمہ
اللہ کے نام کے ساتھ الرحمان اور الرحیم۔ اے ایمان والو الله اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے پہل نہ کرو اور الله سے ڈرتے رہو بے شک الله سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔ اے ایمان والو اپنی آوازیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آواز سے بلند نہ کیا کرو اور نہ بلند آواز سے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بات کیا کرو جیسا کہ تم ایک دوسرے سے کیا کرتے ہو کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔ بے شک جو لوگ اپنی آوازیں رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حضور دھیمی کر لیتے ہیں یہی لوگ ہیں کہ الله نے ان کے دلوں کو پرہیزگاری کے لیے جانچ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا اجر ہے۔ بے شک جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ و االہ وسلم کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں اکثر ان میں سے عقل نہیں رکھتے۔ اور اگر وہ لوگ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ خود ہی ان کی طرف باہر تشریف لے آتے تو یہ اُن کے لئے بہتر ہوتا، اور اﷲ بڑا بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔


عن علیؑ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم يا مَعشرَ قُرَيْشٍ ليَبعثنَّ اللَّهُ عليكم رجُلًا امتحنَ اللَّهُ بِهِ الإيمانَ يَضربُ رقابَكُم على الدِّين فقالَ أبو بَكْرٍ: أَنا هوَ يا رسولَ اللَّهِ ؟ قالَ: لا . فقالَ عمرُ رضيَ اللَّهُ عنهُ: أَنا هوَ يا رسولَ اللَّهِ ؟ قالَ لا، ولَكِنَّهُ خاصِفُ النَّعلِ في المسجِدِ . قالَ: وَكانَ قد ألقَى إلى عليٍّ رضيَ اللَّهُ عنهُ نعلَهُ يخصِفُها
الراوي : علي کرم اللہ وجہہ المحدث : العيني
المصدر : نخب الافكار الصفحة أو الرقم: 16/496 خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
ترجمہ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ائے گروہ قریش اللہ تعالٰی ضرور تمھاری طرف ایسے شخص کو بھیجے گا جس کا امتحان اللہ ایمان کے ساتھ لے چکا ہے۔ وہ دین کی خاطر تمھاری گردنوں پر وار کرے گا۔ پس حضرت ابوبکرؓ بولے، ائے اللہ کے رسول کیا وہ میں ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، نہیں۔ پس حضرت عمر بولے، کیا وہ میں ہوں اے اللہ کے رسول۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، نہیں، لیکن وہ مسجد میں جوتا مرمت والا ہے۔ اور اُس وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنا جوتا علی کرم اللہ وجہہ کو مرمت کرنے کیلیے دیا تھا۔


عن علي عليه السلام قال: لما كنا يوم الحديبية؛ خرج لنا أناس من المشركين منهم سهيل بن عمر وناس من رؤساء المشركين، فقالوا يا رسول الله خرج إليك ناس من أبنائنا وإخواننا وأرقائنا فارددهم إلينا، فإن كان بهم فقه في الدين فسنفقهم، فقال النبي صلى الله عليه و آلہ وسلم: يا معشر قريش لتنتهن أو ليبعثن الله عليكم من يضرب رقابكم بالسيف: على الدين، قد امتحن الله قلبه على الإيمان فقالوا: من هو يا رسول الله؟ وقال أبو بكر: من هو يا رسول الله؟ وقال عمر: من هو يا رسول الله، قال: هو خاصف النعل وكان أعطى علياً نعله يخصفها، ثم التفت علي إلى من عنده وقال: إن رسول الله صلى الله عليه و آلہ وسلم، قال: من كذب علي متعمداً فليتبوأ مقعده من النار. أخرجه الترمذي وقال حسن صحيح
الكتاب : الرياض النضرة في مناقب العشرة المؤلف : المحب الطبري جلد 1 صفحہ 264
الراوي : علي بن أبي طالب المحدث :الترمذي
المصدر : سنن الترمذي الصفحة أو الرقم: 3715 خلاصة حكم المحدث : حسن صحيح
ترجمہ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ حدیبیہ والے دن موجود تھے مشرکین مکہ ہماری طرف آئے اُن میں سھیل بن عمرؤ اور دوسرے سرداران مشرکین شامل تھے۔ پس وہ بولے ائے اللہ کے رسول آپ کی طرف لوگوں میں سے ہمارے بھائی، ہماری خواتین اور ہمارے غلام بھاگ کر آئے ہیں۔ پس وہ ہمیں لوٹا دیجیے۔ وہ دین کی سمجھ نہیں رکھتے پس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ائے گروہ قریش باز آ جاؤ نہیں تو اللہ تعالٰی ضرور تمھاری طرف اُس کو بھیجے گا جو دین کیلیے تمھاری گردنوں پر تلوار سے وار کرئے گا۔ اللہ اُس کے دل کا ایمان پر امتحان لے چکا ہے۔ اے اللہ کے رسول وہ کون ہے؟؟؟ اور حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ وہ کون ہے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم؟؟؟ اور حضرت عمر نے بھی پوچھا کہ اے اللہ کے رسول وہ کون ہے۔؟؟؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جوتا مرمت کرنے والا ہے اور آپ نے اپنا جوتا علی کرم اللہ وجہہ کو مرمت کرنے کیلیے دیا ہوا تھا اسکے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ اُس کی طرف متوجہ ہوئے اور بولے بے شک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے۔ ترمذی نے اسے روایت کیا اور کہا کہ یہ روایت حسن صحیح ہے۔


سمعتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يقول لما افتَتحَ مكةَ وأتاه أُناسٌ من قريش فقالوا يا محمدُ إنا حلفاؤك وقومُك وإنه قد لحِقَ بك أبناؤنا وأرِقَّاؤنا وليس بهم رغبةٌ في الإسلامِ وإنما فرُّوا من العملِ فاردُدْهم علينا فشاور أبا بكرٍ رضيَ اللهُ عنهُ في أمرهم فقال صدقُوا يا رسولَ اللهِ فتغيَّر وجهُه فقال يا عمرُ ما ترى فقال مثلَ قولِ أبِي بكرٍ فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يا معشرَ قريشٍ لَيبعثنَّ اللهُ عزَّ وجلَّ عليكم رجلًا منكم امتحن اللهُ عزَّ وجلَّ قلبَه للإيمانِ لِيضربَ رقابَكم على الدِّينِ فقال أبو بكرٍ أنا هو يا رسولَ اللهِ قال لا قال عمرُ أنا هو يا رسولَ اللهِ قال لا ولكنه خاصفُ النَّعلِ في المسجدِ قال وكان قد ألقى إلى عليٍّ عليه السَّلامُ نعلَه يخصِفُها قال وقال عليٌّ أما إني سمعتُه يقول لا تكذِبوا عليَّ فإنه من يكذبْ عليَّ يلِجِ النَّارَ
الراوي : علي بن أبي طالب المحدث :الطحاوي
المصدر : شرح مشكل الآثار الصفحة أو الرقم: 10/231 خلاصة حكم المحدث : رواته عدول أثبات
Source


عن منصور عن ربعي بن حراش عن علي بن أبي طالب بالرحبة قال: لما كان يوم الحديبية خرج إلينا ناس من المشركين فيهم سهيل بن عمرو وناس من المشركين فقالوا: يا رسول الله خرج إليك ناس من أبنائنا وإخواننا وأرقائنا، وليس لهم فقه في الدين، وإنما خرجوا فراراً من أموالنا وضياعنا فارددهم إلينا، قال: فإن لم يكن لهم فقه في الدين سنفقههم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "يا معشر قريش لتنتهن أو ليبعثن الله عليكم من يضرب رقابكم بالسيف على الدين قد امتحن الله قلبه على الإيمان"، قالوا: من هو يا رسول الله؟ فقال له أبو بكر: من هو يا رسول الله؟ وقال عمر: من هو يا رسول الله؟ قال: هو خاصف النعل، وكان قد أعطى علياً نعله يخصفها، ثم التفت إلينا علي فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "من كذب علي متعمداً فليتبوأ مقعده من النار
وأخرجه أحمد عن أسود بن عامر عن شريك به مختصراً ولم يذكر أن ذلك في الحديبية۔
وقال الترمذي بعد أن أخرج الحديث: هذا حديث حسن صحيح غريب لا نعرفه إلا من حديث ربعي عن علي، قال: وسمعت الجارود يقول: سمعت وكيعاً يقول: لم يكذب ربعي بن حراش في الإسلام كذبة، وأخبرني محمد بن إسماعيل عن عبد الله بن أبي الأسود قال: سمعت عبد الرحمن بن مهدي يقول: منصور بن المعتمر أثبت أهل الكوفة
وقد نقل السيوطي تصحيح هذا الحديث عن ابن جرير۔
قلت: نعم الحديث صحيح، ولكن بمجموع طرقه۔
الكتاب : مرويات غزوة الحديبية جمع وتخريج ودراسة جلد 1، صفحہ 183 المؤلف :حافظ بن محمد عبد الله الحكمي
الناشر :مطابع الجامعة الإسلامية، المدينة المنور


جاء النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ أُناسٌ من قريشٍ فقالوا يا محمدُ إنا جيرانُك وحلفاؤكَ وإنَّ من عبيدِنا قد أتَوك ليس بهم رغبةٌ في الدِّينِ ولا رغبةٌ في الفقهِ إنما فَرُّوا من ضياعِنا وأموالِنا فاردُدْهم إلينا فقال لأبي بكرٍ ما تقولُ فقال صدقوا إنهم لَجيرانُكَ وحلفاؤُك فتغيَّرَ وجهُ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ثم قال لعمرَ ما تقولُ قال صدقوا إنهم لَجيرانُكَ وحلفاؤُك فتغيَّر وجهُ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ثم قال يا معشرَ قريشٍ واللهِ لَيبعثنَّ اللهُ عليكم رجلًا منكم امتحن اللهُ قلبَه للإيمانِ فيضربُكم على الدِّينِ أو يضربُ بعضَكم قال أبو بكرٍ أنا هو يا رسولَ اللهِ قال لا قال عمرُ أنا هو يا رسولَ اللهِ قال لا ولكن ذلك الذي يَخصِفُ النَّعلِ وقد كان أعطى عليًّا نعلًا يَخصِفُها
الراوي : علي بن أبي طالب المحدث : الألباني
المصدر : السلسلة الصحيحة الصفحة أو الرقم: 5/643 خلاصة حكم المحدث : [فيه] شريك بن عبد الله سيئ الحفظ ولكنه يصلح للاستشهاد

Source



۔36402- عن علي قال: جاء النبي صلى الله عليه وسلم أناس من قريش فقالوا: يا محمد! إنا جيرانك وحلفاؤك وإن ناسا من عبيدنا قد أتوك ليس بهم رغبة في الدين ولا رغبة في الفقه، إنما فروا من ضياعنا وأموالنا فارددهم إلينا، فقال لأبي بكر: ما تقول: قال: صدقوا، إنهم لجيرانك وأحلافك، فتغير وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم قال لعمر: ما تقول؟ قال: صدقوا إنهم لجيرانك وحلفاؤك، فتغير وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا معشر قريش! والله ليبعثن الله عليكم رجلا قد امتحن الله قلبه بالإيمان فيضربكم على الدين أو يضرب بعضكم، فقال أبو بكر: أنا يا رسول الله! قال: لا، قال عمر: أنا يا رسول الله؟ قال:لا، ولكنه الذي يخصف النعل وكان أعطى عليا نعلا يخصفها. "حم" وابن جرير، وصححه، "ص".۔
۔(نوٹ: کتاب کے شروع میں بتا دیا گیا ہے کہ صحیح حدیث کے سامنے
"ص" حسن حدیث کے سامنے "ح" اور ضعیف حدیث کے سامنے "ض" لکھ دیا گیا ہے)۔
الكتاب : كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال جلد 13، صفحہ 127 الرقم: 36402 المؤلف : علاء الدين علي بن حسام الدين المتقي الهندي المحقق : بكري حياني - صفوة السقا حکم المحدث : صحیح

ترجمہ
۔(اوپر والی تینوں احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ) حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ مشرکین قریش میں سے کُچھ لوگ حدیبیہ والے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور بولے کہ ہم آپ کے پڑوسی اور حلیف ہیں۔ ہمارے رشتہ داروں اور غلاموں میں سے کُچھ لوگ بھاگ کر آپ کی طرف آ گئے ہیں اور وہ ہمارے اموال اور زمینوں کی حفاظت کیا کرتے تھے اُنھیں نہ دین سے کُچھ رُغبت ہے اور نہ ہی فقہ سے کوئی دلچسپی ہے۔ آپ ہمیں وہ واپس کر دیجیے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ سے دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ قریش سچ کہتے ہیں بے شک وہ آپ کے ہمسائے اور حلیف ہیں۔ یہ سُن کر آپ صلی اللہ علیہ و االہ وسلم کا چہرہ مبارک کا رنگ تبدیل ہوگیا۔ آپ نے حضرت عمر سے دریافت کیا تو انھوں نے بھی حضرت ابوبکرؓ کی طرح جواب دیا کہ قریش سچ کہتے ہیں بے شک وہ آپ کے پڑوسی اور حلیف ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چہرہ مبارک کی کیفیت تبدیل ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اے گروہ قریش اللہ عزوجل ضرور تمھاری طرف ایک ایسے شخص کو بھیجے گا جس کے دل کو اللہ ایمان سے جانچ پرکھ چکا ہے۔ وہ دین کے معاملہ میں تمھاری گردنوں پر وار کرے گا۔ پس حضرت ابوبکرؓ بولے۔ کیا وہ میں ہوں اے اللہ کے رسول؟؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب دیا نہیں۔ حضرت عمر نے کہا کہ کیا وہ میں ہوں ائے اللہ کے رسول؟؟؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ وہ مسجد میں جوتا مرمت کرنے والا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنا جوتا مرمت کرنے کیلیے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو دیا ہوا تھا اور وہ جوتا مرمت کر رہے تھے۔

امام طحاوی نے کہا ہے کہ اسکے راوی ثقہ عادل ہیں
ترمذی نے حدیث کو اپنی کتاب میں نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح اور غریب ہے۔ علامہ جلال الدین سیوطی نے ابن جریر سے اس روایت کی تصحیح نقل کی ہے اور میں (
حافظ بن محمد عبد الله الحكمي ) کہتا ہوں کہ ہاں یہ حدیث مجموعی طور پر اپنے طرق کے اعتبار سے صحیح ہے۔
علامہ علی متقی اور کنزل العمال کے محقق بکری حیانی نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ اور اس حدیث کی تصحیح ابن جریر سے بھی نقل کی ہے
علامہ ناصر الدین البانی اپنی کتاب السلسلۃ الصحیحہ میں اس حدیث کو سند سے بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اس سند میں شریک بن عبد اللہ ہے جو حافظے میں کمزور ہے مگر اُس کی حدیث صحیح مانی گئی ہے


أَخْبَرَنَا صَالِحُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُؤَدِّبُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ كَامِلٍ الْقَاضِي ، قَالَ : حَدَّثَنِي أَبُو يَحْيَى زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى بْنِ مَرْوَانَ النَّاقِدُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْفَيْدِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، قَالَ : حَدَّثَنِي قَيْسُ بْنُ مُسْلِمٍ ، وَأَبُو كُلْثُومٍ ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَلِيًّا ، يَقُولُ وَهُوَ بِالْمَدَائِنِ : جَاءَ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إِنَّهُ قَدْ خَرَجَ إِلَيْكَ نَاسٌ مِنْ أَرِقَّائِنَا لَيْسَ بِهِمُ الدِّينُ تَعَبُّدًا ، فَارْدُدْهُمْ عَلَيْنَا ، فَقَالَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ : صَدَقَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : "لَنْ تَنْتَهُوا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ حَتَّى يَبْعَثَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ رَجُلا امْتَحَنَ اللَّهُ قَلْبَهُ بِالإِيمَانِ ، يَضْرِبُ رِقَابَكُمْ وَأَنْتُمْ مُجْفِلُونَ عَنْهُ إِجْفَالَ النَّعَمِ " ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : أَنَا هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : " لا " ، قَالَ لَهُ عُمَرُ : أَنَا هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : " لا ، وَلَكِنَّهُ خَاصِفُ النَّعْلِ " ، قَالَ : وَفِي كَفِّ عَلِيٍّ نَعْلٌ يَخْصِفُهَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . ۔
الراوي : علي بن أبي طالبؑ المحدث : الألباني
المصدر : السلسلة الصحيحة الصفحة أو الرقم: 5/642 خلاصة حكم المحدث : إسناده حسن إن كان الفيدي قد حفظه

ترجمہ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ سھیل بن عمرو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آیا اور بولا کہ ہمارے غلاموں میں سے کُچھ لوگ بھاگ کر آپ کی طرف آ گئے ہیں جنھیں دین کی باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں پس آپ وہ ہمیں لوٹا دیں۔ پس حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ نے بھی کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ سچ کہ رہا ہے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، اگر قریش کے لوگ اپنی ان حرکتوں سے باز نہ آئے تو اللہ ضرور اُن کی طرف ایسے شخص کو بھیجے گا جس کے دل کو اللہ نے ایمان کے ساتھ اچھی طرح جانچ پرکھ لیا ہے وہ تمھاری گردنوں پر وار کرے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس ابوبکرؓ بولے کیا وہ میں ہوں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ و االہ وسلم نے فرمایا، نہیں حضرت عمر نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پوچھا، کیا وہ میں ہوں اے اللہ کے رسول؟؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، نہیں (تم نہیں) بلکہ وہ جوتے کی مرمت کرنے والا ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے
اپنے جوتے گانٹھنے کیلیے حضرت علیؑ کو دیے ہوئے تھے۔
علامہ البانی کہتے ہیں کہ اس حدیث کی اسناد حسن ہے۔



أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الشَّيْبَانِيُّ ، ثنا ابْنُ أَبِي غَرَزَةَ ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ الأَصْبَهَانِيُّ ، ثنا شَرِيكٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : لَمَّا افْتَتَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ أَتَاهُ نَاسٌ مِنْ قُرَيْشٍ ، فَقَالُوا : يَا مُحَمَّدُ ، إِنَّا حُلَفَاؤُكَ وَقَوْمُكَ وَإِنَّهُ لَحِقَ بِكَ أَرِقَاؤُنَا لَيْسَ لَهُمْ رَغْبَةٌ فِي الإِسْلامِ ، وَإِنَّمَا فَرُّوا مِنَ الْعَمَلِ ، فَارْدُدْهُمْ عَلَيْنَا ، فَشَاوَرَ أَبَا بَكْرٍ فِي أَمْرِهِمْ ، فَقَالَ : صَدَقُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ ، فَقَالَ لِعُمَرَ : " مَا تَرَى ؟ " , فَقَالَ مِثْلَ قَوْلِ أَبِي بَكْرٍ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ : " يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ ، لَيَبْعَثَنَّ اللَّهُ عَلَيْكُمْ رَجُلا مِنْكُمُ امْتَحَنَ اللَّهُ قَلْبَهُ لِلإِيمَانِ ، فَيَضْرِبَ رِقَابَكُمْ عَلَى الدِّينِ " , فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : أَنَا هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟قَالَ : " لا " ، قَالَ عُمَرُ : أَنَا هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : " لا ، وَلَكِنَّهُ خَاصِفُ النَّعْلِ فِي الْمَسْجِدِ " وَقَدْ كَانَ أَلْقَى نَعْلَهُ إِلَى عَلِيٍّ يَخْصِفُهَا ، ثُمَّ قَالَ : أَمَا إِنِّي سَمِعْتُهُ , يَقُولُ : " لا تَكْذِبُوا عَلَيَّ فَإِنَّهُ مَنْ يَكْذِبْ عَلَيَّ يَلِجِ النَّارَ " هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ , وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ۔
المستدرک علی الصحیحین حدیث نمبر 2541، مولف: حاکم نیشاپوری حکم المحدث: صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ
Source

ترجمہ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ فتح مکہ والے دن قریش سے کُچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آے اور بولے اے محمد ہم آپ کے حلیف اور آپکی قوم سے ہیں۔ اسلئے ہمارا آپ پر ایک حق ہے۔ ہمارے غلاموں میں سے کُچھ لوگ بھاگ کر آپ کی طرف آ گئے تھے اُنھیں نہ اسلام سے کُچھ رُغبت ہے اور نہ ہی عمل سے کوئی دلچسپی ہے۔ آپ ہمیں وہ واپس کر دیجیے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ سے مشورہ کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ قریش سچ کہتے ہیں۔ پھر آپ نے حضرت عمر سے دریافت کیا کہ تمھاری کیا راے ہے تو انھوں نے بھی حضرت ابوبکرؓ کی طرح جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اے گروہ قریش اللہ عزوجل ضرور تمھاری طرف ایک ایسے شخص کو بھیجے گا جس کے دل کو اللہ ایمان سے جانچ پرکھ چکا ہے۔ وہ دین کے معاملہ میں تمھاری گردنوں پر وار کرے گا۔ پس حضرت ابوبکرؓ بولے۔ کیا وہ میں ہوں اے اللہ کے رسول؟؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب دیا نہیں۔ حضرت عمر نے کہا کہ کیا وہ میں ہوں ائے اللہ کے رسول؟؟؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ وہ مسجد میں جوتا مرمت کرنے والا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنا جوتا مرمت کرنے کیلیے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو دیا ہوا تھا اور وہ جوتا مرمت کر رہے تھے۔ پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس نے جان بوجھ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنائے۔
امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث مسلم کے معیار پر صحیح ہے لیکن انھوں نے نہیں بیان کی۔
اس حدیث کے شواھد کیلیے یہاں کلک کیجیے


(9)

إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِندَ اللّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلاَ تَكُن مِّن الْمُمْتَرِينَ فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ إِنَّ هَـذَا لَهُوَ الْقَصَصُ الْحَقُّ وَمَا مِنْ إِلَـهٍ إِلاَّ اللّهُ وَإِنَّ اللّهَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

سورة آلعمران (03) ، الآية : 59 تا 62
ترجمہ

بے شک عیسیٰ کی مثال الله کے نزدیک آدم کی سی ہے اسے مٹی سے بنایا پھر اسے کہا کہ ہو جا پھر ہو گیا حق وہی ہے جو تیرے رب کی طرف سے ہے پس آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں۔ پس جو کوئی آپ سے اس بات میں کٹ حُجتی کرے بعد اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پاس صحیح علم آ چکا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہہ دیجیے آؤ بُلا لائیں ہم اپنے بیٹوں کو اور اور تم (تمھارے) اپنے بیٹوں کو اور ہم اپنی خواتین کو اور تم (تمہاری) اپنی خواتین کو اور ہم اپنے نفسوں کو اور تم (تمہارے) اپنے نفسوں کو اور پھر سب التجا کریں اور الله کی لعنت ڈالیں ان پر جو جھوٹے ہوں۔ بے شک یہی ہے وہ جو کہ حق کا قصہ ہے اورالله کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور بے شک الله ہی زبردست حکمت والا ہے


پس منظر اور واقعہ مباھلہ

۔"نجران" مکہ اور یمن کے درمیان ایک شہر تھا جس میں 73 بستیاں تھیں، صدر اسلام میں وہاں عیسائی مذہب رائج تھا اور اس وقت وہاں بہت ہی پڑھے لکھے اور عظیم علماء رہتے تھے، خلاصہ کے طور پر یہ کہہ دینا بہتر ہوگا کہ اس وقت نجران، آج کا ویٹکان سٹی تھا۔ اس وقت شہر نجران کا بادشاہ عاقب نام کا ایک شخص تھا، جس کے ہاتھ میں مذہب کی باگ ڈور تھی اس کا نام ابو حارثہ تھا، اور اس دور میں جو شخص ہر دلعزیز، محترم اور لوگوں کے نزدیک قابل اعتماد سمجھا جاتا تھا اس کا نام ایہم تھا۔ جب پورے عالم میں اسلام کی آواز گونجی تو عیسائی علماء جنہوں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں جو بشارتیں توریت اور انجیل میں پڑھ رکھی تھیں اس کے سلسلہ میں ہمیشہ ہی بہت حساس رہتے تھے جب انہوں نے اسلام کی آواز سنی تو تحقیق کرنا شروع کر دیا۔

نجران کے عیسائی عوام نے اپنے نمائندوں کے ساتھ ایک خصوصی گروہ بنا کر تین مرتبہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تاکہ وہ اچھی طرح اور قریب سے ان کی نبوت کی تحقیق کرسکیں۔ ایک دفعہ یہ گروہ ہجرت سے پہلے مکہ روانہ ہوا اور وہاں پہنچ کر اس نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مناظرہ کیا اور دو دفعہ ہجرت کے بعد مدینہ میں آکر اس گروہ نے آپ سے مناظرہ کیا۔ ہم ان کے تینوں مناظروں کا خلاصہ پیش کررہے ہیں۔

۔1۔علمائے نجران سے پہلا مناظرہ: نجران کے عیسائی علماء کا ایک گروہ مکہ کی طرف اس قصد سے روانہ ہوا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قریب سے دیکھے اور ان کی نبوت کے بارے میں تحقیق کرے، یہ لوگ کعبہ کے نزدیک پہنچ کر پیغمبر کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور وہیں مناظرہ اور گفتگو شروع کر دی۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بڑی خوش اخلاقی سے ان کے سوالات سنے اور جواب دیئے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قرآن کریم کی چند آیتیں تلاوت فرمائیں جنہیں سن کر ان لوگوں کے دل بھر آئے، اور فرط جذبات سے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور اپنی تحقیقات میں انہیں ایسی چیزیں معلوم ہوئیں جو توریت اور انجیل سے بالکل مطابقت رکھتی تھیں جب انہوں نے یہ تمام چیزیں پیغمبر کی ذات میں دیکھیں تو مسلمان ہو گئے۔ مشرکین بالخصوص ابوجہل اس مناظرہ سے بہت زیادہ ناراض ہوا اور جب نمائندہ نجران مناظرہ ختم کر کے واپس جانے لگے تو ابوجہل چند لوگوں کے ساتھ آیا اور راستے میں انھیں گالیاں دینے لگا اور کہنے لگا کہ ہم نے تم لوگوں جیسا پاگل اور دیوانہ آج تک نہیں دیکھا تم لوگوں نے اپنی قوم و ملت کے ساتھ خیانت کی اور اپنے مذہب کو چھوڑ کر اسلام کے گرویدہ ہو گئے ان لوگوں نے بڑے ہی نرم لہجہ میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ آج کے بعد ہم سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے ہم نے جو بھی کیا ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دو۔

۔2۔عیسائیوں کے اکابر علماء سے مناظرہ
دوسرا مناظرہ نجران کے عظیم سیاسی مذہبی راہنماوٴں سے مدینہ میں ہجرت کے نویں سال واقع ہوا جس کی نوبت مباہلہ تک پہنچ گئی اور وہ اس طرح ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو خطوط سربراہان مملکت کو روانہ کئے تھے ان کے ضمن میں ایک خط آپ نے نجران کے پوپ ابو حارثہ کو بھی لکھا تھا جس میں آپ نے اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی۔ چار افراد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس خط کو لے کر نجران کے لئے روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خط کو پوپ کی خدمت میں پیش کیا، پوپ خط پڑھ کر بہت ناراض ہوا اور غصہ میں آکر اسے پھاڑ ڈالا اور آپ کے ان نامہ بروں کا کوئی احترام نہیں کیا اور یہ ارادہ کیا کہ اس خط کے سلسلہ میں نجران کے پڑھے لکھے لوگ غور و فکر کریں، نجران کے پڑھے لکھے اور مقدس لوگ جیسے شرحبیل، عبداللہ بن جبّار بن فیض غور و فکر اور مشورہ کے لئے بلائے گئے۔ ان تینوں افراد نے کہا: چونکہ یہ بات نبوت سے متعلق ہے اس لئے ہم اس سلسلہ میں کسی بھی طرح کا کوئی نظریہ نہیں دے سکتے ہیں۔ پوپ نے اس مسئلہ کو نجران کے عوام کے سامنے پیش کیا، ان کی رائے لینے پر بھی یہی نتیجہ نکلا کہ ہماری قوم کی طرف سے کچھ ہوشمند اور علم و عقل کے لحاظ سے زبردست افراد مدینہ میں محمد بن عبد اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے پاس جائیں اور ان سے اس سلسلہ میں بحث و مناظرہ کریں تاکہ حقیقت واضح ہو جائے۔

اس سلسلہ میں بحث و گفتگو بہت زیادہ ہوئی لیکن آخر میں یہ طے پایا کہ نجران کے ساٹھ افراد جن میں سے چودہ عظیم علماء منجملہ عاقب ابو حارثہ اور ایہم بھی تھے مناظرے کے لئے مدینہ جائیں۔ ساٹھ آدمیوں پر مشتمل یہ قافلہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مناظرہ کے لئے مدینہ کی طرف روانہ ہوا۔ بیشک کسی بھی مذہب کے بارے میں بحث و مناظرہ جو بغیر دھوکا دہی اور فریب کے ہو اور اس میں منطقی بحث ہو تو بہت اچھی چیز ہے لیکن اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ بحث و مناظرہ کو سازش اور فریب کا رنگ دے کر عوام کو دھوکا دے تو یقینا ایسے بحث و مناظرہ کو شدت سے روکنا چاہیئے۔ نجران کے نمائندوں نے جان بوجھ کر بہت ہی زرق و برق لباس زیب تن کیے اور بہت سے زیور پہنے تاکہ مدینہ پہنچ کر اہل مدینہ کو اپنی طرف جذب کرلیں اور کمزور عقیدہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیں۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بڑی ہوشیاری سے ان کے اس فعل کی طرف توجہ کی اور ان کے اس فریب کو ناکارہ بنانے کے لئے ایک طریقہ اپنایا کہ جب علمائے نجران پیغمبر کی خدمت میں اس زرق و برق لباس میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان کی طرف بالکل توجہ نہیں دی اور نہ ہی ان سے کوئی بات کی، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اتباع میں وہاں بیٹھے ہوئے مسلمانوں نے بھی ان سے کسی طرح کی کوئی بات نہیں کی۔ علمائے نجران تین دن تک مدینہ میں سرگرداں رہے اور بے توجہی کا سبب معلوم کیا تو یہ لوگ انھیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس لے گئے اور تمام حالات سے انھیں آگاہ کیا حضرت علی
کرم اللہ وجہہ نے علمائے نجران سے فرمایا: تم اپنے زرق و برق لباس اتار کر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں عام لوگوں کی طرح جاوٴ انشاءاللہ ضرور تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو گے۔

علمائے نجران نے علی ابن ابی طالب
کرم اللہ وجہہ کے اس حکم کا اتباع کیا اور کامیاب ہوئے۔

مناظرہ میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ بحث و گفتگو میں ہر طرح کی آزادی ہو اور مناظرہ کی فضا بھی ہموار ہو، پیغمبر مسجد میں پنجگانہ نماز کو باجماعت ادا کرتے تھے اور تمام مسلمان آپ کے گرد جمع ہو جاتے تھے، عیسائی گروہ مسلمانوں کے اس طرح کے اجتماع سے بہت ہی حیران تھا لیکن تمام عیسائی اپنے عقیدے کے مطابق ایک گوشے میں مشرق (بیت المقدس ) کی طرف رخ کر کے نماز ادا کیا کرنے لگے، بعض مسلمانوں نے چاہا کہ ان کی اس آزادی میں مانع ہوں لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو روک دیا۔ ہمیں اس مختصر سی بات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عیسائی علماء مدینہ میں بالکل آزاد تھے اور ان پر کسی بھی طرح کی قید و بندش نہیں تھی اور نہ ہی وہ کسی کے تحت تھے۔ نتیجہ میں تین روز گزر جانے پر نماز جماعت کے بعد مسجد ہی میں ایک جلسہ کا انعقاد کیا گیا۔

علمائے نجران کے 60 افراد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے بیٹھ گئے اور بحث و مناظرہ کو سننے کے لئے تھوڑے فاصلہ پر صحابہؓ بھی بیٹھ گئے، قابل توجہ بات یہ تھی کہ چند یہودیوں نے بھی مسیحیوں اور مسلمانوں سے بحث کرنے کے لئے اس جلسہ میں شرکت کی تھی۔ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے محبت اور خلوص سے ان کو خوش آمدید کہتے ہوئے اپنی بات شروع کی اور آئے ہوئے علمائے نجران کو توحید و اسلام کی دعوت دی اور فرمایا: آوٴ ہم سب مل کر وحدہ لا شریک کی عبادت کریں تاکہ ہم سب کے سب ایک زمرہ میں آ جائیں اور خدا کے پرچم تلے اپنی زندگی گزاریں اس کے بعد آپ نے قرآن کریم کی چند آیات تلاوت فرمائیں۔

پوپ: اگر اسلام کا مطلب خدا پر ایمان رکھنا اور اس کے احکام پر عمل کرنا ہے تو ہم تم سے پہلے ہی مسلمان ہیں۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم: حقیقی اسلام کی چند علامتیں ہیں اور تین چیزیں ہمارے درمیان ایسی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ تم لوگ اہل اسلام نہیں ہو، پہلی یہ کہ تم صلیب کی پوجا کرتے ہو، دوسری یہ کہ تم سور کے گوشت کو حلال جانتے ہو، تیسری یہ کہ تم اس بات کے معتقد ہو کہ خدا صاحب اولاد ہے۔
علمائے نجران: ہمارے عقیدہ کے مطابق حضرت مسیح خدا ہیں کیونکہ انہوں نے مردوں کو زندہ کیا ہے اور لاعلاج بیماروں کو شفا بخشی ہے حضرت مسیح نے مٹی سے پرندہ بنایا اس میں روح پھونکی اور وہ اڑ گیا وغیرہ وغیرہ اس طرح کے ان کے تمام کام ان کی خدائی پر دلالت کرتے ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم : نہیں ایسا نہیں ہے کوئی بھی ایسا کام خدائی پر دلالت نہیں کرتا ہے بلکہ وہ خدا کے ایک بندہ ہی ہیں، جنھیں خداوند متعال نے جناب مریم علیہ السلام کے رحم میں رکھا اور اس طرح کے تمام معجزات انہیں عنایت فرمائے۔ وہ کھانا کھاتے تھے پانی پیتے تھے ان کے بدن پر گوشت، ہڈی اور کھال تھی اور اس طرح جو بھی ہو گا وہ خدا نہیں ہو سکتا ہے۔

ایک نمائندہ: حضرت مسیح خدا کے بیٹے ہیں کیونکہ ان کی ماں جناب مریم علیہ السلام نے بغیر کسی سے شادی کئے انھیں جنم دیا، یہی ہماری دلیل ہے کہ وہ خدا کے بیٹے ہیں اور خدا ان کا باپ ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وحی الٰہی سورہٴ آل عمران آیت 59 اور60 کو تلاوت کرتے ہوئے فرمایا: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مثال آدم جیسی ہے جس طرح خداوند متعال نے جناب آدم علیہ السلام کو بغیر ماں باپ کے خاک سے پیدا کیا اسی طرح جناب عیسیٰ کو بغیر باپ کے پیدا کیا اور اگر باپ کا نہ ہونا خدا کے بیٹے ہونے پر دلیل بن سکتا ہے تو جناب آدم علیہ السلام کے لئے یہ زیادہ مناسب ہے کہ کیونکہ ان کے باپ اور ماں دونوں نہیں تھے۔

علمائے نجران نے جب یہ دیکھا کہ جو بھی بات کہی جاتی ہے اس کا دندان شکن جواب ملتا ہے تو وہ حضرات جو ریاست دنیا کے چکر میں اسلام لانا نہیں چاہتے تھے انہوں نے مناظرہ کو ختم کر دیا اور کہنے لگے اس طرح کے جوابات ہمیں مطمئن نہیں کر رہے ہیں لہٰذا ہم آپ سے مباہلہ کرنے پر تیار ہیں یعنی دونوں طرف کے لوگ ایک جگہ جمع ہو کر خداوند عالم سے دعا اور راز و نیاز کریں اور جھوٹوں پر لعنت کریں تاکہ خدا جھوٹوں کو ہلاک کردے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورہ آل عمران کی آیت 61 کے نازل ہونے پر انکی اس بات کو قبول کر لیا۔

تمام مسلمانوں کو اس بات کی اطلاع ہو گئی اور وہیں لوگ بیٹھ کر چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ دیکھئے مباہلہ میں کیا ہوتا ہے؟ لوگ بڑی بےصبری سے مباہلہ کا انتظار کر رہے تھے کہ بڑے انتظار کے بعد ۲۴ ذی الحجة کا دن آ ہی گیا، علمائے نجران اپنے خاص جلسہ میں نفسیاتی طور پر یہ طے کر چکے تھے کہ اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ کثیر تعداد میں لوگ آئیں تو بغیر کسی خوف اور جھجھک کے ان کے ساتھ مباہلہ کے لئے تیار ہو جانا، کیونکہ اس صورت میں کوئی حقیقت نہیں ہے اس لئے کہ وہ لوگوں کو جمع کرکے دنیاوی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، لیکن اگر یہ دیکھو کہ پیغمبر اپنے چند خاص افراد کے ساتھ مباہلہ کے لئے آئے ہوئے ہیں تو ہر گز مباہلہ نہ کرنا کیونکہ نتیجہ بہت ہی خطرناک نکلے گا۔

علمائے نجران مباہلہ کی مخصوص جگہ پر پہنچے اور انجیل و توریت پڑھ کر خدا کی بارگاہ میں راز و نیاز کرکے مباہلہ کے لئے تیار ہو گئے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا انتظار کرنے لگے۔

اچانک لوگوں نے دیکھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بشمول خود پانچ افراد یعنی اپنی بیٹی جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور اپنے داماد علی کرم اللہ وجہہ اور اپنے دونوں بیٹوں امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے ساتھ تشریف لا رہے ہیں، اسطرح کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کو اُٹھایا ہوا ہے۔ حضرت امام حسن علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہاتھ پکڑے آپ صلی اللہ علیہ و االہ وسلم کے داہنی جانب چل رہے ہیں۔ سیدۃ النساء فاطمہ سلام اللہ علیھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیچھے ہیں اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ سب سے پیچھے چلتے آ رہے ہیں بالکل قرآن کی آیہ مباہلہ میں دیئے ہوئے حکم الہی کے مطابق اور ترتیب سے۔ شرحبیل (عیسائیوں کا ایک عظیم اور بڑا عالم ) نے اپنے دوستوں سے کہا کہ خدا کی قسم !میں وہ صورتیں دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ خدا سے چاہیں کہ پہاڑ اپنی جگہ ہٹ جائے تو یقینا وہ اپنی جگہ سے ہٹ جائے گا ان سے ڈرو اور مباہلہ نہ کرو، اگر آج محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مباہلہ کرو گے تو نجران کا ایک بھی عیسائی اس روئے زمین پر باقی نہیں رہے گا خدا کے لئے میری بات ضرور مان لو چاہے بعد میں کچھ ماننا یا نہ ماننا۔ شرحبیل کے اصرار نے نجران کے علماء کے دلوں میں عجیب اضطرابی کیفیت پیدا کر دی اور انہوں نے اپنے ایک آدمی کو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں بھیج کر ترک مباہلہ کی درخواست کی اور صلح کیلئے التماس کیا۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے کرم اور رحمت خداوند سے ان کی اس گزارش کو قبول کیا اور صلح نامہ لکھا گیا جو چار نکات پر مشتمل تھا:۔

۔1۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نمائندہ نجران میں ایک ماہ یا ایک ماہ سے زیادہ مہمان کی حیثیت سے رہ سکتے ہیں۔

۔2۔ اہل نجران کی یہ ذمہ داری ہے (تمام اسلامی ممالک کی امنیت کے سلسلہ میں) کہ وہ ہر سال دو ہزار جوڑے کپڑے دو قسط میں مسلمانوں کو دیں۔

۔3۔ جب بھی کبھی یمن میں اسلام کے خلاف کوئی سازش بلند ہو تو اہل نجران کے لئے واجب ہے کہ وہ ۳۰ ڈھال، ۳۰ گھوڑے اور ۱۳۰ اونٹ عاریہ کے طور پر حکومت اسلامی کی حفاظت کے لئے دیں۔

۔4۔اس صلح نامہ کے بعد اہل نجران کے لئے سود کھانا حرام ہے۔

علماء نجران کی اس کمیٹی نے صلح نامہ کی تمام شرائط کو قبول کر لیا اور وہ لوگ شکست خوردہ حالت میں مدینہ سے نجران کی طرف روانہ ہوئے۔

۔3۔ علمائے نجران کے تیسرے گروہ سے مناظرہ: نجران کے عیسائیوں کا تیسرا گروہ جو قبیلہ بنی الحارث سے تعلق رکھتا تھا اس نے نجران میں تحقیق کر کے اسلام قبول کر لیا تھا بعض ان کی نمائندگی کرنے کے لئے ساتھ مدینہ آئے اور پیغمبر کی خدمت میں مشرف ہو کر اظہار اسلام کیا اور کہا کہ ہم شکر ادا کرتے ہیں کہ خداوند متعال نے آپ کے ذریعہ ہم لوگوں کو ہدایت کی۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے پوچھا: تم لوگ کیسے اپنے دشمنوں پر غالب ہوئے؟ انہوں نے کہا: اول یہ کہ ہم لوگوں میں کسی طرح کا کوئی تفرقہ و اختلاف نہیں تھا دوسرے یہ کہ ہم نے کسی پر ظلم کی ابتداء نہیں کی۔ پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا: صدقتم تم نے سچ کہا۔
نتیجہ یہ ہے:۔
جیسا کہ پہلے بھی ہم نے ذکر کیا ہے کہ نجران کے پہلے اور تیسرے گروہوں نے اسلام کے بارے میں اچھی طرح تحقیق کی اور اس کے بعد اسلام کو قبول کر لیا لیکن دوسرا گروہ وہ تھا جس کیساتھ مباہلہ کی نوبت پہنچ گئی اور آخر کار انہوں نے مباہلہ ترک کرنے کی خواہش کی انہوں نے بھی اسلام کے قوانین کے سلسلہ میں تحقیق کی اور اس کی حقانیت کو سمجھ گئے لیکن انہوں نے اپنے پہلے گروہ کی روش اختیار نہ کی اور مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر ظاہر ًاسلام قبول نہیں کیا۔

۔۱۔ پوپ نے پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کا خط پھاڑ ڈالا یہ اس کی ریاست طلبی اور تعصب کی دلیل تھی جو حق قبول کرنے میں مانع ہوا۔

۔۲۔ وہ مباہلہ کے لئے تیار نہیں ہوئے کیونکہ اگر وہ اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حقانیت کے سلسلے میں تحقیق نہ کی ہوتی تو مباہلہ کے ترک کرنے کی درخواست ہرگز نہ کرتے۔ یہ خود اس بات کی علامت ہے کہ وہ اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مکتب کے بارے میں اچھی خاصی تحقیق رکھتے تھے اور اس کی حقانیت کو سمجھ چکے تھے۔

۔۳۔ تاریخ میں یہ ملتا ہے کہ نجران کے نمائندے جب مدینہ سے واپس جا رہے تھے تو ایک نمائندہ نے راستہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو برا بھلا کہا تو ابو حارثہ (پوپ) نے اسے ڈانٹا اور کہا کہ پیغمبر کو کہیں بُرا بھلا کہتے ہیں؟ یہی بات اس کا باعث ہوئی کہ اس شخص نے مدینہ واپس آکر اسلام قبول کر لیا۔ تاریخ کا یہ رخ بھی اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ علمائے نجران پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صداقت کو سمجھ گئے تھے۔

۔۴۔ نجران کے علماء جب واپس پہنچے تو لوگوں کو اپنی روداد سنائی، ان کی روداد سن کر نجران کا ایک راہب اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے عبادت خانہ سے چیخ کر کہا: اے لوگو! جلدی آوٴ اور مجھے نیچے لے چلو ورنہ میں ابھی اپنے آپ کو نیچے گرا کر اپنی زندگی تمام کر لوں گا۔

لوگ اسے سہار ا دے کر عبادت خانہ سے نیچے لے آئے وہ دوڑا ہوا مدینہ کی طرف آیا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں رہ کر اس نے کچھ مدت تک علمی استفادہ کیا اور قرآنی آیتیں سنیں، کچھ دنوں بعد وہ نجران واپس گیا، واپس جاتے وقت وہ پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم سے یہ وعدہ کر کے گیا تھا کہ جب مدینہ دوبارہ آئے گا تو اسلام قبول کر لے گا لیکن وہ کامیاب نہیں ہوا۔ غرض تمام چیزیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ان کے نزدیک حقیقت اسلام ثابت ہو چکی تھی اور وہ اچھی خاصی تحقیق بھی کر چکے تھے لیکن چند چیزیں جیسے ریاست طلبی، دنیا داری خنزیر جیسے حرام جانور کا گوشت کھانے اور اہل نجران سے خوف وغیرہ ان کے اسلام قبول کرنے میں رکاوٹ بن رہیں تھیں۔ اس واقعہ مباہلہ سے جہاں اہلبیت اطہار ک عظمت اورو اسلام کی فتح و کامیابی کا اشارہ ملتا ہے ساتھ ہی اقلیتوں کے ساتھ قرآنی روش و سلوک کا بھی سبق ملتا ہے۔

۔(حوالہ جات: تفسیر کشاف زمخشری، تفسیر درمنثور سیوطی، تفسیر کبیر فخرالدین رازی اور تفسیر ابن کثیر وغیرہ بذیل تفسیر آلعمران آیت 59 تا 61، مدارج النبوۃ شیخ عبد الحق محدث دھلوی اور سیرت ابن ہشام بذیل واقعات 9 ہجری واقعہ مباھلہ)۔




لما أنزل اللهُ هذه الآيةُ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ الآية دعا رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ علَيهِ وسلَّمَ عليًّا وفاطمةَ وحسَنًا وحُسينًا ، فقالَ : اللَّهمَّ هؤلاءِ أَهلي
الراوي : سعد بن أبي وقاص المحدث : الألباني
المصدر : صحيح الترمذي الصفحة أو الرقم: 2999 خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
ترجمہ
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ نازل ہوئی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیھم السلام کو اکٹھا کیا اور فرمایا، ائے اللہ بس یہی ہیں میرے اھل۔




ولما نزلت هذه الآيةُ : فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ [ 3 / آل عمران / 61 ] دعا رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ عليًّا وفاطمةَ وحسنًا وحُسَينًا فقال " اللهمَّ ! هؤلاءِ أهلي
الراوي : سعد بن أبي وقاصؓ المحدث : مسلم
المصدر : صحيح مسلم الصفحة أو الرقم: 2404 خلاصة حكم المحدث : صحيح

ترجمہ
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ نازل ہوئی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیھم السلام کو اکٹھا کیا اور فرمایا، ائے اللہ بس یہی ہیں میرے اھل۔



أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ أخذ يومَ المباهلةِ بيدِ عليٍّ وحسنٍ وحسينٍ وجعلوا فاطمةَ وراءَهمْ ثمَّ قال هؤلاءِ أبناؤُنا وأنفسُنا ونساؤُنا فهلمُّوا أنفسَكمْ وأبناءَكمْ ونساءَكمْ ثمَّ نبتهلْ فنجعلْ لعنةَ اللهِ على الكاذبينَ
الراوي : عبدالله بن عباسؓ المحدث : الحاكم
المصدر : معرفة علوم الحديث الصفحة أو الرقم: 97 خلاصة حكم المحدث : متواتر

ترجمہ
حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ مباھلہ والے دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی، حسن اور حسین علیھم السلام کا ہاتھ پکڑا اور جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا اُن کے ساتھ پیچھے تھیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، یہ ہیں ہمارے بیٹے اور ہمارے نفس اور ہماری خواتین۔ پس تم بھی اپنے نفسوں، اپنے بیٹوں اور اپنی خواتین کو لے آؤ اور پھر مل کر دعا کرتے ہیں اور جھوٹوں کیلیے پر اللہ کی لعنت ڈالتے ہیں۔ کتاب کے محدث حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث متواتر ہے



قدِمَ على النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ العاقبُ والطَّيِّبُ ، فدَعاهما إلى الملاعنةِ فواعَداهُ على أن يُلاعناهُ الغداةَ . قالَ : فغدا رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ، فأخذَ بيدِ عليٍّ وفاطمةَ والحسنِ والحُسَيْنِ ، ثمَّ أرسلَ إليهما فأبيا أن يُجيبا وأقرَّا له بالخَراجِ ، قالَ : فقالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ : والَّذي بعثَني بالحقِّ لو قال لا لأُمطرَ عليهمُ الوادي نارًا قالَ جابرٌ : وفيهِم نزلت تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ قالَ جابرٌ : أَنْفُسَنا وأَنْفُسَكُمْ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ وعليَّ بنَ أبي طالبٍ وأبناءَنا الحسَنَ والحُسَيْنَ ونساءَنا فاطمةَ ۔
الراوي : جابر بن عبدالله انصاریؓ المحدث : أحمد شاكر
المصدر : عمدة التفسير الصفحة أو الرقم: 1/378 خلاصة حكم المحدث : [أشار في المقدمة إلى صحته



وقال أبو بكر بن مردويه : حدثنا سليمان بن أحمد ، حدثنا أحمد بن داود المكي ، حدثنا بشر بن مهران ، أخبرنا محمد بن دينار ، عن داود بن أبي هند ، عن الشعبي ، عن جابر قال : قدم على النبي صلى الله عليه وسلم العاقب والطيب ، فدعاهما إلى الملاعنة فواعداه على أن يلاعناه الغداة . قال : فغدا رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فأخذ بيد علي وفاطمة والحسن والحسين ، ثم أرسل إليهما فأبيا أن يجيئا وأقرا بالخراج ، قال : فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " والذي بعثني بالحق لو قالا لا لأمطر عليهم الوادي نارا " قال جابر : فيهم نزلت ( ندع أبناءنا وأبناءكم ونساءنا ونساءكم وأنفسنا وأنفسكم ) قال جابر : ( وأنفسنا وأنفسكم ) رسول الله صلى الله عليه وسلم وعلي بن أبي طالب ( وأبناءنا ) : الحسن والحسين ( ونساءنا ) فاطمة .۔
وهكذا رواه الحاكم في مستدركه ، عن علي بن عيسى ، عن أحمد بن محمد الأزهري عن علي بن حجر ، عن علي بن مسهر ، عن داود بن أبي هند ، به بمعناه . ثم قال : صحيح على شرط مسلم ، ولم يخرجاه ۔

ترجمہ
حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؓ سے روایت ہے کہ عاقب اور طیب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آئے۔ پس بالآخر انھوں نے (جھوٹوں پر) لعنت کرنے کو قبول کیا۔ پس طے پایا کہ اگلے دن (جھوٹوں پر) لعنت کی جائے گی۔ پس اگلے دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیھم السلام کا ہاتھ پکڑا اور اُن کی طرف روانہ ہوئے۔ پس وہ (اھل نجران) ڈر گئے اور جزیہ دینا قبول کیا۔ حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، اُس پاک ذات کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اگر وہ نہ مانتے تو اُن پر اس وادی میں آسمان سے آگ برستی۔ حضرت جابر انصاریؓ فرماتے ہیں کہ یہ آیت ندع أبناءنا وأبناءكم ونساءنا ونساءكم وأنفسنا وأنفسكم اسی بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس آیت میں أنفسنا وأنفسكم سے مراد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ ہیں۔ اور أبناءنا سے مراد حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیھما السلام مراد ہیں اور نساءنا سے مراد جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا ہیں۔ (ابن کثیر کہتے ہیں) کہ یہی روایت حاکم نے مستدرک میں کی ہے اور کہا ہے کہ یہ روایت مسلم کے معیار پر صحیح ہے لیکن انھوں نے بیان نہیں کی۔


أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الأَحْوَصُ بْنُ جَوَابٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ يُثَيْعٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَيَنْتَهِيَنَّ بَنُو وَلِيعَةَ ، أَوْ لأَبْعَثَنَّ إِلَيْهِمْ رَجُلا كَنَفْسِي ، يُنْفِذُ فِيهِمْ أَمْرِي ، فَيَقْتُلَ الْمُقَاتِلَةُ ، وَيَسْبِيَ الذُّرِّيَّةَ۔ فَمَا رَاعَنِي إِلا وَكَفُّ عُمَرَ فِي حُجْزَتِي مِنْ خَلْفِي : مَنْ يَعْنِي ؟ فَقُلْتُ : مَا إِيَّاكَ يَعْنِي ، وَلا صَاحِبَكَ ، قَالَ : فَمَنْ يَعْنِي ؟ قَالَ : خَاصِفُ النَّعْلِ ، قَالَ : وَعَلِيٌّ يَخْصِفُ نَعْلا۔
سنن نسائی الکبرٰی، کتاب الخصائص باب علی کنفسی رقم الحديث: 8138
درجہ حدیث : صحیح (سند میں موجود راویوں کا درجہ دیکھیں نام پر کلک کریں)۔

ترجمہ
حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و االہ وسلم نے فرمایا، بنو ولیعہ کو باز آجانا چاہیے ورنہ میں اُن کی طرف ایسے شخص کو بھیجوں کا جو میرے نفس (جان) کی مانند ہے۔ وہ میرا حکم ان پر نافذ کرے گا اور اُن کو جنگ میں قتل کرے گا اور اُن کی اولاد کو قید کرلے گا۔ حضرت ابوذرؓ فرماتے ہیں کہ ابھی میں حیرانی کے ساتھ اسی بات پر غور کر رہا تھا کہ پیچھے سے حضرت عمر اچانک آ گئے۔ اور بولے اس بات سے کون مراد ہے؟؟ پس میں بولا کہ میں نہیں جانتا کہ کون مراد ہے؟؟ لیکن آپ کا ساتھی (ابوبکرؓ) مراد نہیں۔۔۔ پس حضرت عمر نے پھر پوچھا کہ کون مراد ہے؟؟ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، جوتا مرمت کرنے والا۔ تو وہ (عمرؓ) بولے جوتا تو علی کرم اللہ وجہہ مرمت کر رہے ہیں۔




حَدَّثَنَا أَبُو الْجَوَابِ ، عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ يُثَيْعٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَيَنْتَهِيَنَّ أَوْ لَأَبْعَثَنَّ إلَيْهِمْ رَجُلًا كَنَفْسِي فَيُمْضِي فِيهِمْ أَمْرِي , فَيَقْتُلُ الْمُقَاتِلَةَ وَيَسْبِي الذُّرِّيَّةَ "۔
مصنف ابن أبي شيبة كِتَابُ الْفَضَائِلِ فَضَائِلُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ رقم الحديث: 31456
درجہ حدیث: صحیح (سند میں موجود راویوں کا حال دیکھنے کیلیے نام پر کلک کریں)۔ترجمہ
حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و االہ وسلم نے فرمایا، اُنھیں باز آجانا چاہیے ورنہ میں اُن کی طرف ایسے شخص کو بھیجوں کا جو میرے نفس (جان) کی مانند ہے۔ وہ میرا حکم ان پر نافذ کرے گا اور اُن کو جنگ میں قتل کرے گا اور اُن کی اولاد کو قید کرلے گا۔


حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الرَّازِيُّ ، قَالَ : نا الْحُسَيْنُ بْنُ عِيسَى بْنِ مَيْسَرَةَ الرَّازِيُّ ، قَالَ : نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْقُدُّوسِ ، قَالَ : نا الأَعْمَشُ ، عَنْ مُوسَى بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَلِيدَ بْنَ عُقْبَةَ إِلَى بَنِي وَلِيعَةَ ، وَكَانَتْ بَيْنَهُمْ شَحْنَاءُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ ، فَلَمَّا بَلَغَ بَنِي وَلِيعَةَ اسْتَقْبَلُوهُ لِيَنْظُرُوا مَا فِي نَفْسِهِ ، فَخَشِيَ الْقَوْمَ فَرَجَعَ إِلَى رَسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إِنَّ بَنِي وَلِيعَةَ أَرَادُوا قَتْلِي ، وَمَنَعُونِي الصَّدَقَةَ . فَلَمَّا بَلَغَ بَنِي وَلِيعَةَ الَّذِي قَالَ الْوَلِيدُ : عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، لَقَدْ كَذَبَ الْوَلِيدُ ، وَلَكِنْ كَانَتْ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ شَحْنَاءُ ، فَخَشِينَا أَنْ يُعَاقِبَنَا بِالَّذِي كَانَ بَيْنَنَا ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَيَنْتَهِيَنَّ بَنُو وَلِيعَةَ أَوْ لأَبْعَثَنَّ إِلَيْهِمْ رَجُلا عِنْدِي كَنَفْسِي ، يَقْتُلُ مُقَاتِلَتَهُمْ ، وَيَسْبِي ذَرَارِيَّهُمْ ، وَهُوَ هَذَا " ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى كَتِفِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، قَالَ : وَأَنْزَلَ اللَّهُ فِي الْوَلِيدِ : يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ سورة الحجرات آية 6 الآيَةَ . لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الأَعْمَشِ إِلا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْقُدُّوسِ ۔
المعجم الأوسط للطبراني بَابُ الْعَيْنِ مَنِ اسْمُهُ : عَلِيٌّ رقم الحديث: 3923
ترجمہ
حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ولید بن عقبہ کو بنی ولعیۃ کی طرف بھیجا۔ ولید بن عقبہ اور بنی ولیعۃ کے مابین زمانہ جاھلیت سے کسی بات کی وجہ سے پرخاش (دُشمنی) تھی۔ پس وہ (ولید بن عقبہ) بنی ولیعۃ کے پاس پہنچا۔ بنی ولیعۃ والے اُس کے استقبال کیلیے باہر نکلے لیکن یہ ولید بن عقبہ اپنے جی میں اُن سے ڈر گیا اور اُس قوم سے ملے بغیر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف واپس لوٹ گیا اور الزام لگایا کہ بنو ولیعتہ والے مجھے قتل کا ارادہ رکھتے تھے اور اُنھوں نے صدقات کو بھی مجھ سے روک لیا تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بنی ولیعۃ کو بلا بھیجا پس اُن کا وفد آیا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مخاطب ہوا کہ ائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بے شک ولید نے آپ سے جھوٹ بولا۔ اور ہمارے اور اُس کے درمیان پرخاش (دُشمنی) ہے۔ پس ہم اس بات سے ڈر گئے کہ کہیں یہ (الزام لگا کر) ہمیں کوئی سزا نہ دلوائے اس وجہ سے، جو کُچھ ہمارے اور اسکے بیچ میں ہے۔ پس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و االہ وسلم نے ارشاد فرمایا، بنو ولیعہ کو باز آجانا چاہیے ورنہ میں اُن کی طرف ایسے شخص کو بھیجوں کا جو میرے نفس (جان) کی مانند ہے۔ وہ میرا حکم ان پر نافذ کرے گا اور اُن کو جنگ میں قتل کرے گا اور اُن کی اولاد کو قید کرلے گا۔ اور وہ یہ ہے۔ اور پھر ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ و االہ وسلم نے اپنے ہاتھ کے ساتھ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے کندھے کو تھپ تھپایا۔ اور پھر حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے ولید کے متعلق یہ آیت يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ سورة الحجرات آية 6 اتاری۔
طبرانی کہتے ہیں کہ عبداللہ ابن قدوس کے علاوہ جابرؓ سے کس اور نے اسکو روایت نہیں کیا

اس حدیث کے مزید شواھد دیکھنے کیلیے یہاں کلک کریں



(10)



وَوَهَبْنَا لَهُ مِن رَّحْمَتِنَا أَخَاهُ هَارُونَ نَبِيًّا
سورة مریم (19) ، الآية : 53
اور ہم نے اپنی رحمت سے ان کے بھائی ہارون علیہ السلام کو نبی بنا کر انہیں (موسٰی کو) بخشا۔




وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَجَعَلْنَا مَعَهُ أَخَاهُ هَارُونَ وَزِيرًا
3سورة الفرقان (25) ، الآية : 5
اور البتہ تحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور ہم نے اُن کے ساتھ اُن کے بھائی ہارون کو اُنکا وزیر بنایا



قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي وَيَسِّرْلِي أَمْرِي وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي يَفْقَهُوا قَوْلِي وَاجْعَل لِّي وَزِيرًا مِّنْ أَهْلِي هَارُونَ أَخِي اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي كَيْ نُسَبِّحَكَ كَثِيرًا وَنَذْكُرَكَ كَثِيرًا إِنَّكَ كُنتَ بِنَا بَصِيرًا قَالَ قَدْ أُوتِيتَ سُؤْلَكَ يَا مُوسَى
3سورة طھ (20) ، الآية : 25 تا 5

۔(موسٰی علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میرے لئے میرا سینہ کشادہ فرما دے۔ اورمیرے لیے میرا امر (کار رسالت) آسان کردے۔ اور میری زبان کی گرہ کھول دے۔ کہ وہ (لوگ) میری بات (آسانی سے) سمجھ سکیں۔ اور میرے اھل میں سے میرا ایک وزیر بنا دے۔ میرے بھائی ھارون کو۔ اُس سے میری کمر کو مضبوط فرما دے۔ اور اُسے میرے امر میں شریک فرما دے۔ تاکہ ہم کثرت سے تیری تسبیح کریں اور ہم کثرت سے تیرا ذکر کریں۔ بیشک تو ہمیں خوب دیکھنے والا ہے۔ (اللہ نے) ارشاد فرمایا: اے موسٰی! میں نے تمہاری ہر مانگ تمہیں عطا کردی۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ وَوَضَعْنَا عَنكَ وِزْرَكَ الَّذِي أَنقَضَ ظَهْرَكَ وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا فَإِذَا فَرَغْتَ فَانصَبْ وَإِلَىٰ رَبِّكَ فَارْغَب
سورة الم نشرح (94
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
کیا ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خاطر آپ کا سینہ (انوارِ علم و حکمت اور معرفت کے لئے) کشادہ نہیں فرما دیا۔ اور ہم نے آپ (کی ذمہ داری) کا بھاری بوجھ آپ سے اتار دیا۔ جس نے آپ کی کمر دُہری کر دی تھی۔ اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا۔ پس بے شک دشواری کے ساتھ آسانی ہے۔ بے شک (اس) دشواری کے ساتھ آسانی (بھی) ہے۔ پس جب آپ فراغت پائیں تو نصب کر دیں اور اپنے رب کی طرف راغب ہو جائیں۔


وَوَاعَدْنَا مُوسَىٰ ثَلَاثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ۚ وَقَالَ مُوسَىٰ لِأَخِيهِ هَارُونَ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ
14سورة اعراف (07) ، الآية : 2

اور ہم نے موسٰی علیہ السلام سے تیس راتوں کا وعدہ فرمایا اور ہم نے اسے (مزید) دس (راتیں) ملا کر پورا کیا، سو ان کے رب کی میعاد چالیس راتوں میں پوری ہوگئی۔ اور موسٰی علیہ السلام نے اپنے بھائی ہارون علیہ السلام سے فرمایا: تم میری قوم میں میرے خلیفہ (جانشین) بن جاؤ اور اصلاح کرتے رہو اور فساد کرنے والوں کی راہ کی پیروی مت کرنا۔




وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَىٰ مُوسَىٰ وَهَارُونَ وَنَجَّيْنَاهُمَا وَقَوْمَهُمَا مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ وَنَصَرْنَاهُمْ فَكَانُوا هُمُ الْغَالِبِينَ وَآتَيْنَاهُمَا الْكِتَابَ الْمُسْتَبِينَ وَهَدَيْنَاهُمَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ وَتَرَكْنَا عَلَيْهِمَا فِي الْآخِرِينَ سَلَامٌ عَلَىٰ مُوسَىٰ وَهَارُونَ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ إِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ
سورة الصافات (37) ، الآية : 114 تا 122

اور بے شک ہم نے موسٰی اور ہارون علیھما السلام پر بھی احسان کئے۔ اور ہم نے خود ان دونوں کو اور دونوں کی قوم کو سخت تکلیف سے نجات بخشی۔ اور ہم نے اُن کی مدد فرمائی تو وہی غالب ہوگئے۔ اور ہم نے ان دونوں کو واضح اور بیّن کتاب عطا فرمائی۔ اور ہم نے ان دونوں کو سیدھی راہ پر چلایا۔ اور ہم نے ان دونوں کا (ذکرِ خیر) پیچھے آنے والوں میں باقی رکھا۔ سلام ہو موسٰی اور ہارون پر۔ بے شک ہم نیکو کاروں کو اسی طرح صِلہ دیا کرتے ہیں۔ بے شک وہ دونوں ہمارے (کامل) ایمان والے بندوں میں سے تھے۔



وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَارُونُ مِن قَبْلُ يَا قَوْمِ إِنَّمَا فُتِنتُم بِهِ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَنُ فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُواْ أَمْرِي قَالُوا لَن نَّبْرَحَ عَلَيْهِ عَاكِفِينَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَيْنَا مُوسَى
9سورة طھ (20) ، الآية : 90 اور 1

اور بیشک ہارون (علیہ السلام) نے ان کو اس سے پہلے (تنبیہاً) کہہ دیا تھا کہ اے قوم! تم اس کے ذریعہ تو بس فتنہ میں ہی مبتلا ہوگئے ہو، حالانکہ بیشک تمہارا رب (یہ نہیں وہی) رحمان ہے پس تم میری پیروی کرو اور میرے حکم کی اطاعت کرو۔ وہ بولے ہم برابر اسی پر جمے بیٹھے رہیں گے یہاں تک کہ موسیٰ ہمارے پاس لوٹ کر آئے



وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا قَالُواْ أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ قَالَ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاءُ وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَن يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلآئِكَةُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
سورة بقرہ (02) ، الآية : 247 اور 248

اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا: بیشک اﷲ نے تمہارے لئے طالوت کو بادشاہ مقرّر فرمایا ہے، تو کہنے لگے کہ اسے ہم پر حکمرانی کیسے مل گئی حالانکہ ہم اس سے حکومت (کرنے) کے زیادہ حق دار ہیں اسے تو دولت کی فراوانی بھی نہیں دی گئی، (نبی نے) فرمایا: بیشک اﷲ نے اسے تم پر منتخب کر لیا ہے اور اسے علم اور جسم میں زیادہ کشادگی عطا فرما دی ہے، اور اﷲ اپنی سلطنت (کی امانت) جسے چاہتا ہے عطا فرما دیتا ہے، اور اﷲ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہے۔ اور ان کے نبی نے ان سے فرمایا: اس کی سلطنت (کے مِن جانِبِ اﷲ ہونے) کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس صندوق آئے گا اس میں تمہارے رب کی طرف سے سکونِ قلب کا سامان ہوگا اور کچھ آلِ موسٰی اور آلِ ہارون کے چھوڑے ہوئے تبرکات ہوں گے اُسے فرشتوں نے اٹھایا ہوا ہوگا، اگر تم ایمان والے ہو تو بیشک اس میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے



حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ ، وَأَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ الْقَوَارِيرِيُّ ، وَسُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ كُلُّهُمْ ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ الْمَاجِشُونِ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الصَّبَّاحِ ، حَدَّثَنَا يُوسُفُ أَبُو سَلَمَةَ الْمَاجِشُونُ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ : " أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي" ، قَالَ سَعِيدٌ : فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُشَافِهَ بِهَا سَعْدًا ، فَلَقِيتُ سَعْدًا : فَحَدَّثْتُهُ بِمَا حَدَّثَنِي عَامِرٌ ، فَقَالَ : أَنَا سَمِعْتُهُ ، فَقُلْتُ : آنْتَ سَمِعْتَهُ ؟ فَوَضَعَ إِصْبَعَيْهِ عَلَى أُذُنَيْهِ ، فَقَالَ : نَعَمْ ، وَإِلَّا فَاسْتَكَّتَا ۔

صحيح مسلم جلد 6 كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ بَاب مِنْ فَضَائِلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ الرقم الحدیث: 4425, 4426, 4427, 4428
Source

ترجمہ
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو مخاطب کرکے فرمایا، تمھیں مجھ سے وہی منزلت حاصل ہے جو ھارونؑ کو موسٰیؑ سے تھی سوائے اسکے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ راوی حدیث سعید کہتے ہیں کہ پس سعدؓ مجھے ملے پس میں نے جو کُچھ عامر سے سُنا تھا اُنھیں سُنایا پس وہ (سعد بن ابی وقاصؓ) بولے میں نے یہ سُنا ہے۔ پس میں نے کہا، کیا واقعی آپ نے سُنا ہے۔ تو حضرت سعدؓ نے دونوں ہاتھ اپنے کانوں کو لگاتے ہوئے کہا کہ ہاں سُنا ہے، اور اگر نہ سُنا ہو تو یہ بہرے ہو جائیں۔





حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ الْحَكَمِ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى تَبُوكَ وَاسْتَخْلَفَ عَلِيًّا ، فَقَالَ : أَتُخَلِّفُنِي فِي الصِّبْيَانِ وَالنِّسَاءِ ، قَالَ : " أَلَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى ؟ إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ نَبِيٌّ بَعْدِي " ، وَقَالَ أَبُو دَاوُدَ : حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ الْحَكَمِ ، سَمِعْتُ مُصْعَبًا
صحيح البخاري كِتَاب الْمَنَاقِبِ بَاب مَنَاقِبِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ الْقُرَشِيِّ الرقم الحدیث: 3453
صحيح البخاري كِتَاب الْمَغَازِي بَاب غَزْوَةِ تَبُوكَ الرقم الحدیث: 4089
Source

ترجمہ
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تبوک کیلیے روانہ ہوئے تو علی کرم اللہ وجہہ کو پیچھے چھوڑا پس وہ بولے ائے اللہ کے رسول کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جاتے ہیں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، کیا آپ راضی نہیں ہو کہ آپ کو مجھ سے وہی منزلت حاصل ہے جو ھارون کو موسٰی سے تھی۔ سوائے اسکے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔


حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، عَنْ عَبْدِ السَّلَامِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، أن النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَلِيٍّ : " أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي " . قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ سَعْدٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَيُسْتَغْرَبُ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ ۔ جامع الترمذي كِتَاب الدَّعَوَاتِ أبوابُ الْمَنَاقِبِ بَاب مَنَاقِبِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ
رقم الحديث: 3693
جامع الترمذي كِتَاب الدَّعَوَاتِ أبوابُ الْمَنَاقِبِ بَاب مَنَاقِبِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ رقم الحديث:
3692
Source


ترجمہ
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو مخاطب کرکے فرمایا، تمھیں مجھ سے وہی منزلت حاصل ہے جو ھارونؑ کو موسٰیؑ سے تھی سوائے اسکے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور اس بارے میں یحیی بن سعید الانصاریؓ کی بھی روایت ہے۔

یہ حدیث سنن ابن ماجہ، سنن نسائی، مسند احمد بن حنبل، صحیح ابن حبان، مسند أبي داود الطيالسي، البحر الزخار بمسند البزار، مسند أبي يعلى الموصلي، مصنف ابن أبي شيبة، المعجم الكبير للطبراني اور مستدرک علی الصحیحین میں بھی مختلف اسناد کے ساتھ موجود ہے


یہ حدیث متواتر ہے اور 20 سے زیادہ صحابہ کرامؓ سے مروی ہے دیکھیے کتاب نظم المتناثر من الحدیث المتواتر حدیث نمبر 233 اور کتاب الازھار المتناثرہ فی الاحادیث المتواترہ۔



فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : وَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ وَخَرَجَ بِالنَّاسِ مَعَهُ ، قَالَ : فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ : أَخْرَجُ مَعَكَ ؟ قَالَ : فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ : " لا " . فَبَكَى عَلِيٌّ ، فَقَالَ لَهُ : " أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلا أَنَّهُ لَيْسَ بَعْدِي نَبِيٌّ ، إِنَّهُ لا يَنْبَغِي أَنْ أَذْهَبَ إِلا وَأَنْتَ خَلِيفَتِي
مسند أحمد بن حنبل 1/330-331 قال احمد شاکر: إسناده صحيح . المستدرك 3/133 قال الحاكم : هذا حديث صحيح الإسناد ، ولم يخرجاه بهذه السياقة . ووافقه الذهبي . مجمع الزوائد 9/119 قال الهيثمي : رواه أحمد والطبراني في الكبير والأوسط باختصار ، ورجال أحمد رجال الصحيح ، غير أبي بلج الفزاري وهو ثقة وفيه لين ۔ درالسحابة الصفحة أو الرقم: 153 قال الشوکانی: رجالھ الثقات و قال البانی: صحیح الاسناد
Source
Source
Source


ترجمہ
حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تبوک کیلیے مدینہ سے باہ نکلے تو مدینہ کے لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ نکلے پس حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے پوچھا کیا میں بھی آپ کے ساتھ آؤں؟ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، نہیں۔ یہ سُن کر مولا علی کرم اللہ وجہہ رونے لگے پس آپ صلی اللہ علیہ و االہ وسلم نے اُن سے فرمایا،کیا آپ اس بات سے راضی نہیں ہیں کہ آپ کو مُجھ سے وہی منزلت حاصل ہے جو ھارونؑ کو موسٰیؑ سے تھی سوائے اسکے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ میرے لیے جائز نہیں کہ میں چلا جاؤں سوائے اسکے کہ آپ میرے خلیفہ (جانشین) ہوں۔




ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ ، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سُلَيْمٍ أَبِي بَلْجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ : " أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى ، إِلا أَنَّكَ لَسْتَ نَبِيًّا ، إِنَّهُ لا يَنْبَغِي أَنْ أَذْهَبَ إِلا وَأَنْتَ خَلِيفَتِي فِي كُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ بَعْدِي " ۔
السنة لابن أبي عاصم بَابٌ فِي ذِكْرِ خِلافَةِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رقم الحديث: 986، 1145
الراوي : عبدالله بن عباس المحدث : الألباني
المصدر : تخريج كتاب السنة الصفحة أو الرقم: 1188 خلاصة حكم المحدث : إسناده حسن

Source
Source


ترجمہ
حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو فرمایا، آپ کو مُجھ سے وہی منزلت حاصل ہے جو ھارونؑ کو موسٰیؑ سے تھی سوائے اسکے کہ آپ نبی نہیں ہیں۔ میرے لیے جائز نہیں کہ میں چلا جاؤں سوائے اسکے کہ آپ تمام مومنین میں میرے بعد میرے خلیفہ (جانشین) ہوں۔




أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ هِبَةُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أنا بَكْرٍ الْخَطِيبُ ، أنا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ النَّرْسِيُّ ، أنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الشَّافِعِيُّ ، نا أَحْمَدُ بْنُ الْحُسَيْنِ أَبُو الْحَسَنِ ، نا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ الأَوْدِيُّ ، نا أَحْمَدُ بْنُ الْمُفَضَّلِ ، نا جَعْفَرٌ الأَحْمَرُ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ سُلَيْمَانَ ، عَنْ حُصَيْنٍ التَّغْلِبِيِّ ، عَنْ أَسَمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَقُولُ كَمَا قَالَ أَخِي مُوسَى رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي {25** وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي {26** سورة طه آية 25-26 وَاجْعَلْ لِي وَزِيرًا مِنْ أَهْلِي سورة طه آية 29 عَلِيًّا أَخِي اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي سورة طه آية 31 إلى آخر الآيات ۔
Source
Source
Source

ترجمہ
حضرت اسماء بنت عمیسؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا۔میں بھی ایسے ہی کہتا ہوں جیسے کہ میرے بھائی موسٰیؑ نے کہا تھا اے میرے رب! میرے لئے میرا سینہ کشادہ فرما دے۔ اورمیرے لیے میرا امر (کار رسالت) آسان کردے۔ اور میری زبان کی گرہ کھول دے۔ کہ وہ (لوگ) میری بات (آسانی سے) سمجھ سکیں۔ اور میرے اھل میں سے میرا ایک وزیر بنا دے۔ میرے بھائی علی کو۔ اُس سے میری کمر کو مضبوط فرما دے اور اُسے میرے امر میں شریک فرما دے۔ تاکہ ہم کثرت سے تیری تسبیح کریں اور ہم کثرت سے تیرا ذکر کریں۔ بیشک تو ہی ہمارا نگران ہے۔



دَّثَحَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْقَطَّانُ الْبَغْدَادِيُّ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ قَادِمٍ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ صَالِحِ بْنِ حَيٍّ ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ جُمَيْعِ بْنِ عُمَيْرٍ التَّيْمِيِّ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : آخَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَصْحَابِهِ فَجَاءَ عَلِيٌّ تَدْمَعُ عَيْنَاهُ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ آخَيْتَ بَيْنَ أَصْحَابِكَ وَلَمْ تُؤَاخِ بَيْنِي وَبَيْنَ أَحَدٍ ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَنْتَ أَخِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ " . قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ ، وَفِي الْبَابِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أَوْفَى ۔

جامع الترمذي كِتَاب الدَّعَوَاتِ أبوابُ الْمَنَاقِبِ بَاب مَنَاقِبِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ رقم الحديث: 3683
Source

حضرت عبد اللہ ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و االہ وسلم نے تمام صحابہ کے درمیان اخوت قائم کردی۔ پس حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھیگی آنکھوں کے ساتھ آئے اور بولے ائے اللہ کے رسول آپ نے اپنے اصحاب کے درمیان اخوت قائم کردی لکن مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا؟؟ پس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا،ائے علی تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو۔ ابو عیسٰی ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔


قثنا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حَدَّثَنِي حُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي مَطَرٌ الْوَرَّاقُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آخَى بَيْنَ أَصْحَابِهِ ، فَبَقِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ , وَعُمَرُ , وَعَلِيٌّ فَآخَى بَيْنَ أَبِي بَكْرٍ , وَعُمَرَ ، وَقَالَ لِعَلِيٍّ : " أَنْتَ أَخِي ، وَأَنَا أَخُوكَ " ۔
فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل
أَخْبَارُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي رقم الحديث: 876
Source
حضرت سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صحابہ کے درمیان اخوت قائم کی تو حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور علی کرم اللہ وجہہ کو باقی رکھ چھوڑا۔ اور ابوبکرؓ کو عمرؓ کا بھائی بنا دیا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا، آپ میرے بھائی ہیں اور میں آپ کا بھائی ہوں۔


حَدَّثَنَا خَيْرُ بْنُ عَرَفَةَ ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هِلالٍ ، ثنا عَافِيَةُ بْنُ أَيُّوبَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ مَكْحُولٍ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، قَالَ : " لَمَّا آخَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَصْحَابِهِ آخَى بَيْنِي وَبَيْنَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ

مسند الشاميين للطبراني مَا انْتَهَى إِلَيْنَا مِنْ مُسْنَدِ يَزِيدَ بْنِ يَزِيدَ رقم الحديث: 618
Source

حضرت ابی امامہؓ سے روایت ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صحابہؓ کے مابین اخوت قائم کی تو اپنے اور علی کرم اللہ وجہہ کے درمیان بھی اخوت قائم کی۔

اس حدیث کے شواھد دیکھنے کیلیے یہاں کلک کریں۔

(جاری ہے)
 
Last edited:

Zoq_Elia

Senator (1k+ posts)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ایک تعارف

(قرآن و حدیث کی روشنی میں)

(11)



هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الْأَلْبَابِ

سورة آلعمران (03) ، الآية : 07

وہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جس میں سے کچھ آیات محکم ہیں وہی ام الکتاب ہیں اور باقی آیات متشابہ (یعنی معنی میں کئی احتمال اور اشتباہ رکھنے والی) ہیں، سو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے اس میں سے صرف متشابہات کی پیروی کرتے ہیں (فقط) فتنہ پروری کی خواہش کے زیرِ اثر اور اصل مراد کی بجائے من پسند معنی مراد لینے کی غرض سے، اور اِن آیات کی اصل مراد (تاویل) کو کوئی نہیں جانتا سوائے اللہ کے اور علم میں راسخ (پختہ) لوگوں کے، جو کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے، سب (کتاب) ہمارے رب کی طرف سے ہے، اور نصیحت تو صرف اہلِ دانش کو ہی نصیب ہوتی ہے۔


وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلاَمَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنْزٌ لَّهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَنْ يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ذَلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا

سورة الکھف (18) ، الآية : 82

اور وہ جو دیوار تھی تو وہ شہر میں (رہنے والے) دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کے لئے ایک خزانہ (مدفون) تھا اور ان کا باپ صالح (شخص) تھا، سو آپ کے رب نے ارادہ کیا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور آپ کے رب کی رحمت سے وہ اپنا خزانہ (خود ہی) نکالیں، اور میں نے (جو کچھ بھی کیا) وہ اَز خود نہیں کیا، یہ ان (واقعات) کی حقیقت ہے جن پر آپ صبر نہ کر سکے




أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِِسْمَاعِيلَ بْنِ رَجَاءٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " إِِنَّ مِنْكُمْ مَنْ يُقَاتِلُ عَلَى تَأْوِيلِ الْقُرْآنِ ، كَمَا قَاتَلْتُ عَلَى تَنْزِيلِهِ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ : أَنَا هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ : لا ، قَالَ عُمَرُ : أَنَا هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : لا ، وَلَكِنْ خَاصِفُ النَّعْلِ ، قَالَ : وَكَانَ أَعْطَى عَلِيًّا نَعْلَهُ يَخْصِفُهُ "۔
الراوي : أبو سعيد الخدري المحدث : ابن حبان
المصدر : صحيح ابن حبان الصفحة أو الرقم: 6937 خلاصة حكم المحدث : أخرجه في صحيحه
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سُنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہ رہے تھے، ’’بے شک تم میں وہ موجود ہے جو تاویل قرآن پر جہاد کرے گا جیسے کہ میں نے تنزیل قرآن پر جہاد کیا‘‘ حضرت ابوبکرؓ نے پوچھا کہ کیا وہ میں ہوں ائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم؟؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب دیا، ’’ نہیں‘‘۔ حضرت عمر بولے، ’’کیا وہ میں ہوں ائے اللہ کے رسول‘‘ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب دیا، ’’نہیں، لیکن وہ جوتا گانٹھنے والا ہے‘‘۔ حضرت ابو سعید خُدریؓ فرماتے ہیں کہ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنا جوتا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو مرمت کرنے کیلیے دیا ہوا تھا۔


یہی حدیث مندرجہ ذیل مصادر میں مختلف اسناد کے ساتھ موجود ہے

الراوي : أبو سعيد الخدري المحدث : الهيثمي
المصدر : مجمع الزوائد الصفحة أو الرقم: 5/189 خلاصة حكم المحدث : رجاله رجال الصحيح

Source


الراوي : أبو سعيد الخدري المحدث : الذهبي
المصدر : تلخيص العلل المتناهية الصفحة أو الرقم: 81 خلاصة حكم المحدث : إسناده جيد

Source


الراوي : أبو سعيد الخدري المحدث : الهيثمي
المصدر : مجمع الزوائد الصفحة أو الرقم: 6/247 خلاصة حكم المحدث : إسناده حسن

Source



كنَّا جلوسًا ننتظرُ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ فخرجَ علينا من بعضِ بيوتِ نسائِهِ قالَ فقُمنا بعدَه فانقطعت نعلُهُ فتخلَّفَ عليها عليٌّ يخصِفُها ومضى رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ومضينا معهُ ثمَّ قامَ ينتظرُهُ وقمنا معهُ فقالَ إنَّ منكم من يقاتِلُ على تأويلِ القرآنِ كما قاتلتُ على تنزيلِهِ . فاستشرفنا لها وفينا أبو بكرٍ وعمرُ فقالَ لا. ولكنَّهُ خاصِفُ النَّعلِ . قالَ فجئنا نبشِّرُهُ قالَ فكأنَّهُ قد سمِعَهُ من رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ
الراوي : أبو سعيد الخدري المحدث : الشوكاني
المصدر : در السحابة الصفحة أو الرقم: 167 خلاصة حكم المحدث : إسناده رجاله رجال الصحيح غير فطر بن خليفة وهو ثقة

Source


الراوي : أبو سعيد الخدري المحدث : الألباني
المصدر : السلسلة الصحيحة الصفحة أو الرقم: 5/639 خلاصة حكم المحدث :
على شرط مسلم
Source


حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے ہم اکٹھے بیٹھے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی کسی زوجہ کے گھر سے برآمد ہوئے۔ پس ہم کھڑے ہوگئے. آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جوتا پھٹا ہوا تھا پس وہ آپ نے مرمت کرنے کیلیے حضرت علیؑ کو عطا کیا اور آہستہ آہستہ چلنے لگے۔ ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ چلنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انتظار کرتے ہوئے رُک گئے ہم بھی رک گئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا،’’ بے شک تم میں وہ موجود ہے جو تاویل قرآن پر جہاد کرے گا جیسا کہ مں نے تنزیل قرآن پر جہاد کیا‘‘۔ پس ہم نے اپنے میں موجود ابوبکرؓ اور عمرؓ کا گُمان کیا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا،’’نہیں وہ نہیں، بلکہ جوتا سینے والا‘‘۔ پس ہم نے علیؑ اس بات کی مبارک دی۔ لیکن ایسے لگتا تھا جیسے وہ پہلے سے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سُن چکے تھے۔



كنا قعودا ننتظرُ رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم فخرجَ إلينا من حُجْرةِ عائشةَ رضي الله عنها فانقطعتْ نعلهُ فرمَى بها إلى عليّ عليهِ السلامُ ثم جلسَ فقال إن منكُم لمن ليقاتلنََّ على تأويلِ القرآنِ كما قاتلتُ على تنزيلهِ فقال أبو بكرٍ رضيَ اللهُ عنهُ أنَا قال لا قال عمرُ رضي الله عنه أنَا قال لا ولكنهُ خاصِفُ النعلِ في الحجرةِ قال رجاءُ الزُّبَيْدِيّ فأتى رجل عليّا في الرحبةِ فقال يا أميرَ المؤمنينَ هل كان في حديثِ النعلِ شيء قال اللهم إنّكَ لتشهدُ أنّه مما كان رسولُ اللهِ صلى الله عليه و آلھ وسلم يسرّهُ إليّ
الراوي : أبو سعيد الخدري المحدث : الطحاوي
المصدر : شرح مشكل الآثار الصفحة أو الرقم: 10/237 خلاصة حكم المحدث : رواته عدول أثبات

Source

حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے ہم بیٹھے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے۔ پس وہ جناب عائشہ کے حجرے سے برآمد ہوئے۔ اُن کا جوتا ٹوٹ گیا تھا جو انھوں نے حضرت علی علیہ السلام کو مرمت کرنے کیلیے عنایت کیا تھا۔ پھر وہ ہمارے پاس آکر بیٹھگئے اور فرمایا،’’بے شک تم میں وہ موجود ہے جو تاویل قرآن پر اسی طرح جہاد کرے گا جیسے میں نے تنزیل قرآن پر جہاد کیا‘‘۔ پس ابوبکر رضی اللہ بولے میں؟؟ فرمایا،’’نہیں‘‘۔ حضرت عمرؓ مخاطب ہوئے کہ میں؟؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا،’’نہیں، بلکہ حجرے میں جوتا مرمت کرنے والا ہے‘‘۔ حضرت ابو سعید خُدری فرماتے ہیں کہ رحبہ میں (جنگ جمل سے پہلے) ایک شخص حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس آیا اور بولا ائے امیرالمومنین کیا اس جوتے والی حدیث میں کوئی شے (سبق) ہے۔ تو آپ کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ بے شک میں گواھی دیتا ہوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لوگوں (کے سمجھنے) کیلیے معاملہ بہت آسان کردیا ہے۔

اس حدیث کے مزید مصادر دیکھنے کیلیے یہاں کلک کریں



(12)


إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ وَمَن يَتَوَلَّ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ فَإِنَّ حِزْبَ اللّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ
سورة المائدہ (05) ، الآية : 55 اور 56

سوائے اسکے نہیں کہ تمھارے ولی تو بس اللہ اور اسکا رسول اور وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ ہوتے ہیں رکوع میں۔ اور جس نے بھی اللہ اور اُسکے رسول اور ان ایمان والوں کو اپنا ولی بنایا۔ پس بے شک (یہ) اللہ کا گروہ ہے جو کہ غالب رہنے والا ہے۔


يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً
سورة النساء (04) ، الآية : 59


ائے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے رسول اور اولی الامر کی اطاعت کرو۔ پس اگر تمھارے درمیان کسی بات پر تنازعہ ہو جائے تو اگر تم اللہ اور قیامت والے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اُس کو اللہ اور رسول کی کی طرف پلٹا دو۔ اور اسی میں تمھارے لیے بھلائی اور بہترین انجام ہے۔


حَدَّثَنَا ابنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنِي أَجْلَحُ الْكِنْدِيُّ ، عَنْ عَبدِ اللَّهِ بنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ برَيْدَةَ ، قَالَ : بعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بعْثَيْنِ إِلَى الْيَمَنِ ، عَلَى أَحَدِهِمَا عَلِيُّ بنُ أَبي طَالِب ، وَعَلَى الْآخَرِ خَالِدُ بنُ الْوَلِيدِ ، فَقَالَ : " إِذَا الْتَقَيْتُمْ فَعَلِيٌّ عَلَى النَّاسِ ، وَإِنْ افْتَرَقْتُمَا ، فَكُلُّ وَاحِدٍ مِنْكُمَا عَلَى جُنْدِهِ " ، قَالَ : فَلَقِينَا بنِي زَيْدٍ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ ، فَاقْتَتَلْنَا ، فَظَهَرَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ ، فَقَتَلْنَا الْمُقَاتِلَةَ ، وَسَبيْنَا الذُّرِّيَّةَ ، فَاصْطَفَى عَلِيٌّ امْرَأَةً مِنَ السَّبيِ لِنَفْسِهِ ، قَالَ برَيْدَةُ : فَكَتَب مَعِي خَالِدُ بنُ الْوَلِيدِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخْبرُهُ بذَلِكَ ، فَلَمَّا أَتَيْتُ النَّبيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، دَفَعْتُ الْكِتَاب ، فَقُرِئَ عَلَيْهِ ، فَرَأَيْتُ الْغَضَب فِي وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، هَذَا مَكَانُ الْعَائِذِ ، بعَثْتَنِي مَعَ رَجُلٍ وَأَمَرْتَنِي أَنْ أُطِيعَهُ ، فَفَعَلْتُ مَا أُرْسِلْتُ بهِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا تَقَعْ فِي عَلِيٍّ ، فَإِنَّهُ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ ، وَهُوَ وَلِيُّكُمْ بعْدِي ، وَإِنَّهُ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ ، وَهُوَ وَلِيُّكُمْ بعْدِي " ۔
مسند أحمد بن حنبل مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رقم الحديث: 22409
Source

حضرت بریدہؓ سے روایت ہے کہ (بخذف واقعات) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا،’’علی کی تقصیر مت کرو۔ پس وہ مجھ سے ہے اور میں اُس سے ہوں اور وہ میرے بعد تمھارا ولی ہے۔ پس وہ مجھ سے ہے اور میں اُس سے ہوں اور وہ میرے بعد تمھارا ولی ہے‘‘۔


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ ، عَنْ يَزِيدَ الرِّشْكِ ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَيْشًا , وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْهِمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فَمَضَى فِي السَّرِيَّةِ , فَأَصَابَ جَارِيَةً , فَأَنْكَرُوا عَلَيْهِ , وَتَعَاقَدَ أَرْبَعَةٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالُوا : إِذَا لَقِينَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرْنَاهُ بِمَا صَنَعَ عَلِيٌّ ، وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ إِذَا رَجَعُوا مِنَ السَّفَرِ بَدَءُوا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَسَلَّمُوا عَلَيْهِ , ثُمَّ انْصَرَفُوا إِلَى رِحَالِهِمْ ، فَلَمَّا قَدِمَتِ السَّرِيَّةُ سَلَّمُوا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَامَ أَحَدُ الْأَرْبَعَةِ , فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَمْ تَرَ إِلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ صَنَعَ كَذَا وَكَذَا ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ قَامَ الثَّانِي فَقَالَ مِثْلَ مَقَالَتِهِ ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ ، ثُمَّ قَامَ الثَّالِثُ فَقَالَ مِثْلَ مَقَالَتِهِ , فَأَعْرَضَ عَنْهُ ، ثُمَّ قَامَ الرَّابِعُ فَقَالَ مِثْلَ مَا قَالُوا ، فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْغَضَبُ يُعْرَفُ فِي وَجْهِهِ فَقَالَ : " مَا تُرِيدُونَ مِنْ عَلِيٍّ , مَا تُرِيدُونَ مِنْ عَلِيٍّ , مَا تُرِيدُونَ مِنْ عَلِيٍّ ، إِنَّ عَلِيًّا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ , وَهُوَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِي " . قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ

جامع الترمذي كِتَاب الدَّعَوَاتِ أبوابُ الْمَنَاقِبِ رقم الحديث: 3674
Source
الراوي : عمران بن الحصين المحدث : الألباني
المصدر : صحيح الجامع الصفحة أو الرقم: 5598 خلاصة حكم المحدث : صحيح
Source

الراوي : عمران بن حصين المحدث : ابن حبان
المصدر : صحيح ابن حبان الصفحة أو الرقم: 6929 خلاصة حكم المحدث : أخرجه في صحيحه
Source

الراوي : عمران بن الحصين المحدث : الألباني
المصدر : صحيح الترمذي الصفحة أو الرقم: 3712 خلاصة حكم المحدث : صحيح
حضرت عمران بن حصینؓ سے روایت ہے (بخذف واقعات) اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جلال سے فرمایا،’’ تم علی سے کیا چاہتے ہو؟ تم علی سے کیا چاہتے ہو؟ تم علی سے کیا چاہتے ہو؟ بے شک علی مُجھ سے ہے اور میں اُس سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مومن کا ولی ہے‘‘۔



أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ حَمْدَانَ الْقَطِيعِيُّ، بِبَغْدَادَ مِنْ أَصْلِ كِتَابِهِ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، ثنا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، ثنا أَبُو عَوَانَةَ، ثنا أَبُو بَلْجٍ، ثنا عَمْرُو بْنُ مَيْمُونٍ، قَالَ: إِنِّي لَجَالِسٌ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ، فقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنْتَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِي وَمُؤْمِنَةٍ ۔
قال حاکم هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ بِهَذِهِ السِّيَاقَةِ

قال ذھبی فی التعلیق 4652 - صحيح

المستدرك على الصحيحين كِتَابُ مَعْرِفَةِ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ... وَمِنِ مَنَاقِبِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيِّ بْنِ ... ذِكْرُ إِسْلامِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيٍّ رقم الحديث: 4652
Source

حضرت عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا، ’’آپ میرے بعد ہر ایمان والے مرد اور عورت کے ولی ہیں‘‘۔



أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ : أنا يَحْيَى بنُ آدَمَ ، قَالَ : أنا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ : حَدَّثَنِي حَبَشِيُّ بْنُ جُنَادَةَ السَّلُولِيُّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " عَلِيٌّ مِنِّي ، وَأَنَا مِنْهُ ، وَلا يُؤَدِّي عَنِّي إِلا أَنَا ، أَوْ عَلِيٌّ
السنن الكبرى للنسائي كِتَابُ : الْمَنَاقِبِ مَنَاقِبُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ رقم الحديث: 7831
Source

حبشی بن جنادہ السلولی سے رویت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا،’’علی مجھ سے ہے اور میں اُس سے ہوں۔ اور میری طرف سے کوئی ادا نہیں کر سکتا سوائے میرے یا علیؑ کے‘‘۔


نا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ حُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ ، سَمِعْتُ رسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " عَلِيٌّ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ ، وَلا يُؤُدِّي عَنِّي إِلا عَلِيٌّ
مسند ابن أبي شيبة رقم الحديث: 847
Source

حبشی بن جنادہ السلولی سے رویت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا،’’علی مجھ سے ہے اور میں اُس سے ہوں۔ اور میری طرف سے کوئی ادا نہیں کر سکتا سوائے علیؑ کے‘‘۔

ان احادیث کے مزید مصادر دیکھنے کیلیے یہاں کلک کریں


أنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم حضَر الشجرةَ بخمٍّ ثم خرَج آخذًا بيدِ عليٍّ فقال: ألستُم تَشهَدونَ أنَّ اللهَ ربُّكم ؟ قالوا: بَلى قال: ألستُم تَشهَدونَ أن اللهَ ورسولَه أولى بكم مِن أنفسِكم وأنَّ اللهَ ورسولَه مولاكم ؟ قالوا: بَلى قال: فمَن كان اللهُ ورسولُه مَولاه فإنَّ هذا مَولاه وقد تركتُ فيكم ما إن أخَذتُم به لن تَضِلُّوا كتابُ اللهِ سببُه بيدِه وسببُه بأيديكم وأهلُ بيتي۔
الراوي : علي بن أبي طالب المحدث : البوصيري
المصدر : إتحاف الخيرة المهرة الصفحة أو الرقم: 7/210 خلاصة حكم المحدث : سنده صحيح
الراوي : علي بن أبي طالب المحدث : ابن حجر العسقلاني
المصدر : المطالب العالية الصفحة أو الرقم: 4/252 خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح

حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ بے شک نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خم کی وادی میں ایک درخت کے نیچے قیام کیا۔ ہھر حضرت علیؑ کا ہاتھ پکڑے ہوئے باہر آئے۔ پس صحابہؓ سے مخاطب ہوئے،’’کیا تم گواھی دیتے ہو کہ اللہ تمھارا رب ہے؟‘‘ سب نے کہا،’’ ہاں گواھی دیتے ہیں‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا،’’ کیا تم گواھی دیتے ہو کہ اللہ اور اُس کا رسول تمھاری جانوں پر تم سے بھی بڑھ کر حق رکھتے ہیں اور یہ کہ اللہ اور اُسکا رسول تمھارے مولا ہیں‘‘۔ سب نے کہا،’’ ہاں ہم گواھی دیتے ہیں‘‘۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا،’’پس جسکا اللہ اور اُسکا رسول مولا ہے اُسکا یہ علی بھی مولا ہے۔ اور میں تمھارے درمیان وہ چیز چھوڑے جاتا ہوں اگر تم اسے مضبوطی سے تھامے رکھو تو میرے بعد کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ اللہ کی کتاب جس کا ایک سرا اُس اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا سرا تمھارے ہاتھ میں اورمیرے اھل بیت‘‘۔



جاء رهطٌ إلى عليٍّ بالرَّحْبةِ ، فقالوا : السلامُ عليكَ يا مولانا ، قال : كيف أكون مولاكم ، وأنتم قومٌ عُرْبٌ ؟ قالوا : سمِعْنا رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يومَ غديرِ خُمَّ يقول : من كنتُ مولاهُ فعليٌّ مولاه قال رباحٌ : فلما مضَوا تبعتُهم فسألتُ : مَن هؤلاءِ ؟ قالوا : نفرٌ من الأنصارِ فيهم أبو أيوبٍ الأنصاريُّ
الراوي : نفر من الأنصار و أبو أيوب الأنصاري المحدث : الألباني
المصدر : السلسلة الصحيحة الصفحة أو الرقم: 4/340 خلاصة حكم المحدث :إسناده جيد رجاله ثقات

Source
الراوي : نفر من الأنصار منهم أبو أيوب الأنصاري المحدث : الهيثمي
المصدر : مجمع الزوائد الصفحة أو الرقم: 9/106 خلاصة حكم المحدث :‏‏ رجاله ثقات

Source
الراوي : رياح بن الحارث المحدث : الشوكاني
المصدر : در السحابة الصفحة أو الرقم: 142 خلاصة حكم المحدث : رجاله ثقات

رباح بن الحارثؓ سے روایت ہے کہ لوگوں کا ایک گروہ حضرت علیؑ کے پاس رحبہ میں آیا۔ پس انھوں نے حضرت علیؑ سے کہا کہ،’’ اے ہمارے مولا آپ پر سلام ہو‘‘۔ حضرت علی نے پوچھا،’’میں تمھارا مولا کیسے ہوا جبکہ تم عرب قوم ہو؟‘‘ تو انھوں نے کہا کہ،’’ہم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ آپ صلی اللہ علہ و آلہ وسلم نے فرمایا،’’جس کا میں مولا ہوں پس اُسکا علی مولا ہے۔‘‘رباح کہتے ہیں کہ میں اُن کے پیچھے گیا تاکہ سوال کروں کہ یہ کون لوگ ہیں تو کہا گیا کہ یہ انصار کا ایک گروہ ہے جس میں ابوایوب انصاریؓ شامل ہیں۔


حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَكِيمٍ الْأَوْدِيُّ ، أَنْبَأَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ وَهْبٍ ، وَعَنْ زَيْدِ بْنِ يُثَيْعٍ ، قَالَا : نَشَدَ عَلِيٌّ النَّاسَ فِي الرَّحَبَةِ : مَنْ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ إِلَّا قَامَ ، قَالَ : فَقَامَ مِنْ قِبَلِ سَعِيدٍ سِتَّةٌ ، وَمِنْ قِبَلِ زَيْدٍ سِتَّةٌ ، فَشَهِدُوا أَنَّهُمْ سَمِعُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لِعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ : " أَلَيْسَ اللَّهُ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ ؟ " ، قَالُوا : بَلَى ، قَالَ : " اللَّهُمَّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ " ، حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَكِيمٍ ، أَنْبَأَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرٍو ذِي مُرٍّ ، بِمِثْلِ حَدِيثِ أَبِي إِسْحَاقَ ، يَعْنِي عَنْ سَعِيدٍ وَزَيْدٍ وَزَادَ فِيهِ : " وَانْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ ، وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ " ، حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ ، حَدَّثَنَا عَلِيٌّ ، أخبرنا شَرِيكٌ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَهُ
۔
مسند أحمد بن حنبل مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ وَمِنْ مُسْنَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ رقم الحديث: 926
الراوي : سعيد بن وهب و زيد بن يثيع المحدث : أحمد شاكر
المصدر : مسند أحمد الصفحة أو الرقم: 2/195 خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح



حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَرْقَمَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، قَالَ : شَهِدْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي الرَّحَبَةِ يَنْشُدُ النَّاسَ : أَنْشُدُ اللَّهَ مَنْ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ : " مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ " ، لَمَّا قَامَ فَشَهِدَ ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ : فَقَامَ اثْنَا عَشَرَ بَدْرِيًّا ، كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى أَحَدِهِمْ ، فَقَالُوا : نَشْهَدُ أَنَّا سَمِعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ : " أَلَسْتُ أَوْلَى بِالْمسلمين مِنْ أَنْفُسِهِمْ ، وَأَزْوَاجِي أُمَّهَاتُهُمْ ؟ " ، فَقُلْنَا : بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ : " فَمَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ

مسند أحمد بن حنبل مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ وَمِنْ مُسْنَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ رقم الحديث: 935
الراوي : عبدالرحمن بن أبي ليلى المحدث : أحمد شاكر
المصدر : مسند أحمد الصفحة أو الرقم: 2/199 خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح

الراوي : زياد بن أبي زياد المحدث : أحمد شاكر
المصدر : مسند أحمد الصفحة أو الرقم: 2/75 خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح

دونوں احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ عبدالرحمن بن أبي ليلى اور زيد بن يثيع بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے رحبہ کے مقام پر لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگوں میں سے جس جس نے غدیر خم کے دن خود اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبانی یہ سنا ہو کہ جس کا میں مولا ہوں پس اُس کا علی مولا ہے وہ اُٹھ کر اس بات کی گواہی دے۔ 6 آدمی سعد کے سامنے سے اور 6 آدمی زید بن ارقم کے سامنے سے اُٹھ کھڑے ہوے اور وہ سب کے سب بدری صحابہؓ تھے۔ انھوں نے کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو غدیر خم کے دن یہ فرماتے ہوئے سُنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا،’’ کیا اللہ اور اُس کا رسول تمھاری جانوں پر خود تم سے بڑھ کر حق رکھتے ہیں؟‘‘ تو ہم سب نے کہا کہ ائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایسا ہی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا،’’ جس کا میں مولا ہوں پس اُسکا علی مولا ہے۔ اے اللہ دوست رکھ اُس کو جو علی کو دوست رکھے اور دُشمن ہوجا اُسکا جو علی سے دُشمنی رکھے‘‘۔

۔4576 - حدثنا أبو الحسين محمد بن أحمد بن تميم الحنظلي ببغداد ثنا أبو قلابة عبد الملك بن محمد الرقاشي ثنا يحيى بن حماد و حدثني أبو بكر محمد بن بالويه و أبو بكر أحمد بن جعفر البزار قالا : ثنا عبد الله بن أحمد بن حنبل حدثني أبي ثنا يحيى بن حماد و ثنا أبو نصر أحمد بن سهل ا لفقيه ببخارى ثنا صالح بن محمد الحافظ البغدادي ثنا خلف بن سالم المخرمي ثنا يحيى بن حماد ثنا أبو عوانة عن سليمان الأعمش قال : ثنا حبيب بن أبي ثابت عن أبي الطفيل عن زيد بن أرقم رضي الله عنه قال : لما رجع رسول الله صلى الله عليه و سلم من حجة الوداع و نزل غدير خم أمر بدوحات فقمن فقال : كأني قد دعيت فأجبت إني قد تركت فيكم الثقلين أحدهما أكبر من الآخر كتاب الله تعالى و عترتي فانظروا كيف تخلفوني فيهما فإنهما لن يتفرقا حتى يردا علي الحوض ثم قال : إن الله عز و جل مولاي و أنا مولى كل مؤمن ثم أخذ بيد علي رضي الله عنه فقال : من كنت مولاه فهذا وليه اللهم وال من والاه و عاد من عاداه و ذكر الحديث بطوله
هذا حديث صحيح على شرط الشيخين و لم يخرجاه بطوله
شاهده حديث سلمة بن كهيل عن أبي الطفيل أيضا صحيح على شرطهما
تعليق الذهبي قي التلخيص : سكت عنه الذهبي في التلخيص

المستدرك على الصحيحين جلد 3 صفحہ 118 حدیث نمبر 4576
حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع سے لوٹتے ہوئے جب غدیر خم کا مقام آیا تو ہمیں پڑاؤ ڈالنے کا حکم دیا گیا پس ہم ٹھہر گئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا،’’ مجھے بلاوا آگیا ہے اور میں نے قبول کرلیا ہے۔ بے شک میں تمھارے درمیان دو قیمتی ترین چیزیں (ثقلین) چھوڑے جاتا ہوں۔ اس مں سے ہر ایک دوسے سے بڑھ کر ہے۔ اللہ کی کتاب اور میری عترت۔ پس دھیان رکھو کہ تم میرے بعد ان سے کیسا سلوک کرتے ہو۔ پس یہ ایک دوسرے سے کبھی جدا نہیں ہوں گے حتٰی کہ حوض کوثر پر میرے پاس اسی طرح وارد ہوں گے۔‘‘ پھر فرمایا،’’ بے شک اللہ میرا مولا ہے اور تمام مومنین کا مولا ہوں۔ پھر حضرت علیؑ کا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا اور کہا۔ جس کا میں مولا ہوں اُسکا یہ ولی ہے۔ ائے اللہ محبت رکھ اُس سے جو علی سے محبت رکھے اور عداوت رکھ اُس سے جو علی سے عداوت رکھے‘‘۔
حاکم اور ذھبی کے مطابق یہ حدیث بخاری اور مسلم کے معیار پر صحیح ہے۔

فَذَكَرَ مَا قَدْ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ شُعَيْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِي زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، يَعَنْي ابْنَ أَبِي عُمَرَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ , عَنْ مُهَاجِرِ بْنِ مِسْمَارٍ , قَالَ : أَخَبَرَتْنِي عَائِشَةُ ابْنَةُ سَعْدٍ , عَنْ سَعْدٍ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِطَرِيقِ مَكَّةَ وَهُوَ مُتَوَجِّهٌ إِلَيْهَا , فَلَمَّا بَلَغَ غَدِيرَ خُمٍّ وَقَفَ النَّاسُ , ثُمَّ رَدَّ مَنْ مَضَى ، وَلَحِقَهُ مَنْ تَخَلَّفَ , فَلَمَّا اجْتَمَعَ النَّاسُ إِلَيْهِ ، قَالَ : " أَيُّهَا النَّاسُ , هَلْ بَلَّغْتُ ؟ " قَالُوا : نَعَمْ , قَالَ : " اللَّهُمُ اشْهَدْ " ، ثَلاثَ مَرَّاتٍ يَقُولُهُا , ثُمَّ قَالَ : " أَيُّهَا النَّاسُ , مَنْ وَلِيُّكُمْ ؟ " قَالُوا : اللَّهُ وَرَسُولُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثَلاثًا . ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، فَأَقَامَهُ ، ثُمَّ قَالَ : " مَنْ كَانَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلِيَّهُ ، فَهَذَا وَلِيُّهُ , اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ , وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ

مشكل الآثار للطحاوي بَابُ بَيَانِ مُشْكِلِ مَا رُوِيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ رقم الحديث: 1528
Source

حضرت سعد بن مالکؓ سے روایت ہے کہ ہم مکہ کے پاس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ تھے۔ جب غدیر خم کا مقام آیا تو لوگوں میں منادی کردی گئی کہ رُک جائیں۔ جو آگے نکل گئے تھے انھیں بلا لیا گیا اور جو پیچھے رہ گئے تھے اُن کا انتظار کیا گیا۔۔ پس جب تمام لوگ جمع ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا،’’اے لوگو کیا میں نے اللہ کا دین پہنچا دیا؟‘‘۔ سب بولےِ’’ہاں آپ نے پہنچا دیا‘‘۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا،’’ ائے اللہ تو گواہ رہنا‘‘۔ تین بار یہی کہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا،’’تمھارا ولی کون ہے؟‘‘ سب نے کہا،’’اللہ اور اُسکا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم‘‘۔آپ نے تین بار پوچھا لوگوں نے تین بار جواب دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا اور بولے،’’ جس کا اللہ اور اُسکا رسول ولی ہے پس اُس کا یہ علی ولی ہے۔ ائے اللہ دوست رکھ اُسے جو علی کو دوست رکھے اور دشمن ہو جا اُس کا جو علی سے عداوت رکھے‘‘۔



ما رجعَ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم عن حجةِ الوداعِ ونزلَ بغديرِ خُمّ أمرَ بدوْحاتٍ فقمِمْنَ ثم قال كأنّي قد دُعيتُ فأجبتُ إني قد تركتُ فيكُم الثقلينِ أحدهما أكبرُ من الآخرَ كتابُ اللهِ عز وجل وعتْرتِي أهل بيتي فانظروا كيفَ تخلفُونِي فيهما فإنّهما لن يتفرّقَا حتى يردَا علي الحوضَ ثم قال إن الله عز وجلَ مولاي وأنا وَلِيّ كل مؤمنٍ ثم أخذَ بيد عليّ فقال من كنتُ وليّهُ فهذا وليّه اللهمّ والِ من والاهُ وعادِ من عاداهُ فقلت لزيدٍ سمعتَهُ من رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم قال ما كانَ في الدوحاتِ أحدٌ إلا رآهُ بعينيهِ وسمع بأذنيهِ
الراوي : زيد بن أرقم المحدث : الطحاوي
المصدر : شرح مشكل الآثار الصفحة أو الرقم: 5/18 خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح

Source

حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حجۃ الوداع سے واپسی پر جب غدیر خم کے مقام پر پہنچے تو پڑاؤ کا حکم دیا پس ہم لوگ ٹھہر گئے۔ پس اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا،’’مجھے بلاوا آگیا ہے اور میں نے قبول کر لیا ہے۔ میں تمھارے درمیان دو قیمتی ترین چیزیں (ثقلین) چھوڑے جاتا ہوں۔ ان میں سے ہر ایک دوسری سے بڑھ کر ہے۔ اللہ عزوجل کی کتاب اور میری عترت میرے اھل بیت۔ پس دیکھو کہ تم میرے بعد ان دونوں سے کیا سلوک کرتے ہو۔ جان لو کہ یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے حتٰی کہ اسی طرح اکٹھے حوض کوثر پر وارد ہوں گے‘‘۔ پھر فرمایا،’’بے شک اللہ عزوجل میرا مولا ہے اور میں تمام مومنین کا مولا ہوں‘‘۔ پھر حضرت علیؑ کا ہاتھ پکڑا (اور بلند کیا) اور فرمایا،’’جس کا میں ولی ہوں پس اُسکا یہ ولی ہے۔ اے اللہ دوست رکھ اُسے جو علی کو دوست رکھے اور دُشمن ہو جا اُسکا جو علیؑ سے عداوت رکھے‘‘۔


یہ حدیث متواتر ہے اور اس کی بہت سی اسناد صحیح اور حسن ہیں اور صحابہ کی ایک جماعت (100 سے کُچھ اوپر) سے یہ حدیث مروی ہے۔ دیکھیے یہ لنک اور یہ لنک اور کتاب نظم المتناثر فی الحدیث المتواتر اور کتاب الازھار المتناثرہ فی الاحادیث المتواترہ۔

اور اس حدیث کے371 شواھد دیکھنے کیلیے یہاں کلک کریں

قال رسولُ اللهِ إني تارِكٌ فيكم الخَلِيفَتَيْنِ من بَعْدِي كتابَ اللهِ وعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي وإنهما لن يَتَفَرَّقا حتى يَرِدَا عَلَىَّ الحَوْضَ
الراوي : زيد بن ثابت المحدث : الألباني
المصدر : تخريج كتاب السنة الصفحة أو الرقم: 754 خلاصة حكم المحدث :صحيح


إني تركتُ فيكم خليفتينِ كتابَ اللهِ وأهلَ بيتي وإنهما لن يتفرَّقا حتى يرِدا علَىَّ الحوضَ
الراوي : زيد بن ثابت المحدث : الهيثمي
المصدر : مجمع الزوائد الصفحة أو الرقم: 1/175 خلاصة حكم المحدث : رجاله ثقات‏‏

Source


إِنَّي تاركٌ فيكم خليفتينِ : كتابُ اللهِ حبلٌ ممدودٌ ما بينَ السماءِ والأرْضِ ، وعترتي أهلُ بيتي ، و إِنَّهما لن يتفرقا حتى يرَِدا عَلَيَّ الحوْضَ
الراوي : زيد بن ثابت المحدث : الألباني
المصدر : صحيح الجامع الصفحة أو الرقم: 2457 خلاصة حكم المحدث : صحيح

Source

إنِّي تاركٌ فيكم خليفتين كتابَ اللهِ عزَّ وجلَّ حبلٌ ممدودٌ ما بينَ السَّماءِ والأرضِ أو ما بينَ السَّماءِ إلى الأرضِ وعِترتي أهلَ بيتي وإنَّهما لن يفتَرِقا حتَّى يَرِدا عليَّ الحوضَ
الراوي : زيد بن ثابت المحدث : الهيثمي
المصدر : مجمع الزوائد الصفحة أو الرقم: 9/165 خلاصة حكم المحدث : إسناده جيد‏‏

Source

حضرت زید بن ثابتؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا،’’ میں تمھارے درمیان اپنے دو جانشین (خلیفہ) چھوڑے جا رہا ہوں ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے میری عترت میرے اھلبیت۔ یہ ایک دوسرے سے کبھی جدا نہ ہوں گے حتٰی کہ اسی حالت میں میرے پاس اکٹھے ہی حوض کوثر پر وارد ہوں گے‘‘۔

اس حدیث کے مصادر دیکھنے کیلیے یہاں کلک کریں
اس حدیث کے مصادر بصیغہ ثقلین دیکھنے کیلیے یہاں کلک کریں






(13)


وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا كَذَّبَتْ ثَمُودُ بِطَغْوَاهَا إِذِ انبَعَثَ أَشْقَاهَا فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ نَاقَةَ اللَّهِ وَسُقْيَاهَا فَكَذَّبُوهُ فَعَقَرُوهَا فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُم بِذَنبِهِمْ فَسَوَّاهَا وَلَا يَخَافُ عُقْبَاهَا
سورة الشمس (91) ، الآية : 07 تا آخر


اور نفس کی قسم اور اس کی جس نے اس کو درست کیا۔ پھر اس کو اس کی بدی اور نیکی سمجھائی۔ بے شک وہ کامیاب ہوا جس نے اسے پاک کر لیا۔ اور بے شک وہ غارت ہوا جس نے اس کو آلودہ کر لیا۔ ثمود نے اپنی سرکشی کے باعث (اپنے پیغمبر صالح علیہ السلام کو) جھٹلایا۔ جبکہ ان میں سے ایک بڑا شقی (بد بخت) اٹھا۔ ان سے اﷲ کے رسول نے فرمایا: نَاقَةَ اللَّهِ (اللہ کی اونٹنی) کی اور اس کو پانی پلانے (کے دن) کی حفاظت کرنا۔ تو انہوں نے اسے جھٹلایا پھر ناقہ کی کوچیں کاٹ دیں تو ان پر ان کے رب نے ان کے گناہ کے سبب تباہی ڈال کر وہ بستی برابر کردی۔ اور وہ نہیں ڈرتا پیچھے سے پکڑ لینے سے۔


وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـهٍ غَيْرُهُ قَدْ جَاءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ هَـذِهِ نَاقَةُ اللّهِ لَكُمْ آيَةً فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللّهِ وَلاَ تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
سورة اعراف (07) ، الآية : 73


اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا۔ انھوں نے فرمایا اے میری قوم الله کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تمہیں تمہارے رب کی طرف سے دلیل پہنچ چکی ہے یہ الله کی اونٹنی تمہارے لیے نشانی ہے سو اسے چھوڑ دو کہ الله کی زمین میں کھائے اور اسے برائی کے ساتھ مت چھونا ورنہ تمہیں دردناک عذاب پکڑ لے گا


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ الدُّؤَلِيِّ يَزِيدَ بْنِ أُمَيَّةَ قَالَ : مَرِضَ عَلِيٌّ مَرَضًا خِفْنَا عَلَيْهِ مِنْهُ ، ثُمَّ إِنَّهُ نَقِهَ وَصَحَّ ، فَقُلْنَا : الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَصَحَّكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ، قَدْ كُنَّا خِفْنَا عَلَيْكَ فِي مَرَضِكَ هَذَا ، فَقَالَ : لَكِنِّي لَمْ أَخَفْ عَلَى نَفْسِي ، حَدَّثَنِي الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ ، قَالَ : " لا تَمُوتُ حَتَّى يُضْرَبَ هَذَا مِنْكَ ، يَعْنِي رَأْسَهُ ، وَتُخْضَبَ هَذِهِ دَمًا يَعْنِي لِحْيَتَهُ ، وَيَقْتُلَكَ أَشْقَاهَا ، كَمَا عَقَرَ نَاقَةَ اللَّهِ أَشْقَى بَنِي فُلانٍ خَصَّهُ إِلَى فَخِذِهِ الدُّنْيَا دُونَ ثَمُودَ "۔
مسند عبد بن حميد مسند عبد بن حميد مِنْ مُسْنَدِ أَبِي الْحَسَنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رقم الحديث: 93
Source


ابی سنانؒ سے روایت ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سخت بیمار ہوئے کہ ہم اُن کے بارے میں ڈرنے لگے۔ لیکن وہ جلد ہی صحت یاب ہوگئے۔ پس ہم نے کہا کہ ائے امیرالمومنین اُس اللہ کی حمد ہے جس نے آپ کو صحت یاب کیا۔ پس ہم اس مرض میں آپ کیلیے خوفزدہ ہوگئے تھے۔ پس آپ کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ لیکن میں ایک دفہ بھی اپنے لیے خوفزدہ نہیں ہوا کیونکہ مجھے ایک تصدیق یافتہ سچے نے خبر دی ہے کہ،’’ تمھیں موت نہیں آئے گی جب تک تمھارے سر پر یہاں ضرب نہ لگے۔ اور تمھاری یہ داڑھی خون میں تر نہ ہو جائے۔ اور تمھیں اس امت کا شقی ترین (بدبخت ترین) قتل کرے گا جیسا کہ قوم ثمود کے فلاں قبلیے کے شقی ترین شخص نے نَاقَةَ اللَّهِ کی کونچیں کاٹ ڈالیں تھیں۔‘‘۔


أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْقَارِيُّ ، ثنا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، أَخْبَرَنِي خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلالٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، أَنَّ أَبَا سِنَانٍ الدُّؤَلِيَّ حَدَّثَهُ ، أَنَّهُ عَادَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي شَكْوَى لَهُ أَشْكَاهَا ، قَالَ : فَقُلْتُ لَهُ : لَقَدْ تَخَوَّفْنَا عَلَيْكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فِي شَكْوَاكَ هَذِهِ ، فَقَالَ : لَكِنِّي وَاللَّهِ مَا تَخَوَّفْتُ عَلَى نَفْسِي مِنْهُ ، لأَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ الصَّادِقَ الْمَصْدُوقَ ، يَقُولُ : " إِنَّكَ سَتُضْرَبُ ضَرْبَةً هَا هُنَا وَضَرْبَةً هَا هُنَا ، وَأَشَارَ إِلَى صُدْغَيْهِ ، فَيَسِيلُ دَمُهَا حَتَّى تَخْتَضِبَ لِحْيَتُكَ ، وَيَكُونُ صَاحِبُهَا أَشْقَاهَا ، كَمَا كَانَ عَاقِرُ النَّاقَةِ أَشْقَى ثَمُودَ " . هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الْبُخَارِيِّ ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ۔

المستدرك على الصحيحين كِتَابُ مَعْرِفَةِ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ... وَمِنِ مَنَاقِبِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيِّ رقم الحديث: 4531
Source


ابی سنانؒ سے روایت ہے پس حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ میں نے اللہ کے تصدیق یافتہ صادق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا ہے۔’’بے شک آپ (علی) کو یہاں اور یہاں ضرب لگے گی اور حضرت علی نے اپنے سر کی طرف اشارہ کیا۔ اور آپ کے خون سے آپ کی داڑھی تر ہو جائے گی۔ اور جو یہ کرے گا وہ اس امت کا بدبخت (شقی) ترین شخص ہو گا جیسے قوم ثمود کے شقی ترین نے اُونٹنی کی کونچیں قلم کی تھیں‘‘۔

اس حدیث کے مزید شواھد دیکھنے کیلیے یہاں کلک کریں



(14)


إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا
سورة مریم (19) ، الآية : 96


بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور صالح اعمال کرتے رہے۔ رحمان اُنکے لیے قرار دے گا محبت کو


ذَلِكَ الَّذِي يُبَشِّرُ اللَّهُ عِبَادَهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى وَمَن يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهُ فِيهَا حُسْنًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَكُورٌ
سورة الشورٰی(42) ، الآية : 23



یہ وہ (انعام) ہے جس کی خوشخبری اللہ ایسے بندوں کو سناتا ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے، فرما دیجئے: میں اِس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت کا سوال نہیں کرتا لیکن اپنے قریبیوں سے محبت۔ اور جو شخص (یہ) نیکی کمائے گا ہم اس کے لئے اس نیکی کو مزید بڑھا دیں گے۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا قدر دان ہے

أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ أَن لَّن يُخْرِجَ اللَّهُ أَضْغَانَهُمْ وَلَوْ نَشَاءُ لَأَرَيْنَاكَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُم بِسِيمَاهُمْ وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِي لَحْنِ الْقَوْلِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَعْمَالَكُمْ
سورة محمد(47) ، الآية : 29 و 30


کیا وہ لوگ کہ جن کے دلوں میں مرض (نفاق) ہے یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ الله ان کے بغض (دبی دشمنی) ظاہر نہ کرے گا۔ اور اگر ہم چاہیں تو آپ کو بلاشبہ وہ (منافق) لوگ (اس طرح) دکھا دیں کہ آپ انہیں ان کے چہروں کی علامت سے ہی پہچان لیں، اور یقیناً آپ ان کے اندازِ کلام سے انہیں پہچان ہی لیں گے، اور اﷲ تمہارے سب اعمال کو خوب جانتا ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " إِذَا أَحَبَّ اللَّهُ عَبْدًا نَادَى جِبْرِيلَ إِنِّي قَدْ أَحْبَبْتُ فُلَانًا فَأَحِبَّهُ ، قَالَ : فَيُنَادِي فِي السَّمَاءِ ثُمَّ تَنْزِلُ لَهُ الْمَحَبَّةُ فِي أَهْلِ الْأَرْضِ ، فَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا سورة مريم آية 96 ، وَإِذَا أَبْغَضَ اللَّهُ عَبْدًا نَادَى جِبْرِيلَ إِنِّي أَبْغَضْتُ فُلَانًا ، فَيُنَادِي فِي السَّمَاءِ ثُمَّ تَنْزِلُ لَهُ الْبَغْضَاءُ فِي الْأَرْضِ " ، قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ ، وَقَدْ رَوَى عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا ۔
جامع الترمذي كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ بَاب وَمِنْ سُورَةِ النِّسَاءِ رقم الحديث: 3104
Source

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا۔’’بیشک اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل علیہ السلام کو بلا کر فرماتا ہے کہ میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں، پس تو بھی اس سے محبت کر۔ پھر جبرئیل علیہ السلام اس سے محبت کرتے ہیں اور آسمان میں منادی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے محبت کرتا ہے ، اس کے بعد زمین والوں کے دلوں میں اسکی محبت نازل کی جاتی ہے۔ اور یہی اللہ کا فرمان ہے إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا سورة مريم آية 96 اور جب اللہ تعالیٰ کسی آدمی سے ناراض ہوتا ہے تو جبرئیل علیہ السلام کو بلا کر فرماتا ہے کہ میں فلاں سے بغض رکھتا ہوں پس تم بھی اس سے بغض رکھو، پھر وہ بھی اس سے بغض رکھتے ہیں۔ پھر آسمان والوں میں منادی کر دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے بغض رکھتا ہے اس کے بعد زمین والوں میں اس کا بغض نازل کیا جاتا ہے‘‘۔
یہ حدیث بخاری، مسلم اور دوسری کتب احادیث میں بھی موجود ہے۔ دیکھنے کیلیے یہاں کلک کریں


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيُّ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي سَهْلٌ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ خَيْبَرَ : " لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ غَدًا رَجُلًا يُفْتَحُ عَلَى يَدَيْهِ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ،" فَبَاتَ النَّاسُ لَيْلَتَهُمْ أَيُّهُمْ يُعْطَى فَغَدَوْا كُلُّهُمْ يَرْجُوهُ ، فَقَالَ :" أَيْنَ عَلِيٌّ" فَقِيلَ يَشْتَكِي عَيْنَيْهِ فَبَصَقَ فِي عَيْنَيْهِ ، وَدَعَا لَهُ فَبَرَأَ كَأَنْ لَمْ يَكُنْ بِهِ وَجَعٌ فَأَعْطَاهُ ، فَقَالَ : "أُقَاتِلُهُمْ حَتَّى يَكُونُوا مِثْلَنَا ، فَقَالَ : انْفُذْ عَلَى رِسْلِكَ حَتَّى تَنْزِلَ بِسَاحَتِهِمْ ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ وَأَخْبِرْهُمْ بِمَا يَجِبُ عَلَيْهِمْ فَوَاللَّهِ لَأَنْ يَهْدِيَ اللَّهُ بِكَ رَجُلًا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ يَكُونَ لَكَ حُمْرُ النَّعَمِ "۔
صحيح البخاري رقم الحديث: 2803، 2768،2738، 3448، 3449، 3912، 3913
Source
Source


حضرت سھل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللی علیہ و آلہ وسلم نے خیبر والے دن فرمایا،’’ کل میں یہ جھنڈا اُس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ فتح عطا فرمائے گا۔ وہ اللہ اور اُس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اُسکا رسول اُس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ پس لوگوں نے وہ تمام رات اس امید میں گزاری کہ دیکھیں یہ جھنڈا کل کس خوش نصیب کو ملتا ہے۔ صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، ’’علیؑ کہاں ہیں‘‘۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بتایا گیا کہ اُن کی آنکھوں میں آشوب چشم ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اُن کی آنکھوں پر اپنا لعاب دہن لگایا اور وہ ٹھیک ہوگئے۔ پس آپ نے جھنڈا اُنھیں عنایت کیا اور کہا،’’اُن سے لڑو حتٰی کہ وہ بھی ہماری طرح اسلام کا اقرار کر لیں۔ پس روانہ ہو جاؤ اور اُن کے پڑاؤ ڈالنے کی جگہ پر قیام کرو۔ پھر نھیں اسلام کی دعوت دو اور انھیں اس بارے بتاؤ جو اُن پر لازم ہے۔ پس اللہ کی قسم اگر ایک آدمی کو بھی اللہ تمھاری وجہ سے ھدایت دے تو یہ تمھیں سرخ اُونٹوں سے زیادہ بہتر ہے۔‘‘۔


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقَارِيَّ ، عَنْ سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ يَوْمَ خَيْبَرَ : " لَأُعْطِيَنَّ هَذِهِ الرَّايَةَ رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ، يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَى يَدَيْهِ" ، قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : مَا أَحْبَبْتُ الْإِمَارَةَ إِلَّا يَوْمَئِذٍ ، قَالَ : فَتَسَاوَرْتُ لَهَا رَجَاءَ أَنْ أُدْعَى لَهَا ، قَالَ : فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ ، فَأَعْطَاهُ إِيَّاهَا ، وَقَالَ : "امْشِ وَلَا تَلْتَفِتْ حَتَّى يَفْتَحَ اللَّهُ عَلَيْكَ ، قَالَ : فَسَارَ عَلِيٌّ شَيْئًا ، ثُمَّ وَقَفَ وَلَمْ يَلْتَفِتْ ، فَصَرَخَ يَا رَسُولَ اللَّهِ : عَلَى مَاذَا أُقَاتِلُ النَّاسَ ؟ قَالَ : قَاتِلْهُمْ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ فَقَدْ مَنَعُوا مِنْكَ دِمَاءَهُمْ ، وَأَمْوَالَهُمْ ، إِلَّا بِحَقِّهَا ، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ "۔
صحيح مسلم كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ بَاب مِنْ فَضَائِلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ رقم الحديث: 4429، 4430، 4431
Source
Source



حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خیبر والے دن کہا،’’ کل میں یہ جھنڈا اُس کو دوں گا جو اللہ اور اُسکے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اُس کے ہاتھ پر فتح دے گا۔‘‘ حضرت عمرؓ کہا کرتے تھے۔ میں نے اُس دن کے علاوہ کبھی امارت کی خواہش نہیں کی۔ پس میں اسی امید میں تھا کہ اس کیلیے مجھے بلایا جائے گا۔ صبح ہوئی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی ابن ابی طالبؑ کو بُلا بھیجا اور اُنھیں جھنڈا عطا کیا اور فرمایا، ’’ روانہ ہو جاؤ اور کسی اور طرف توجہ نہ دو حتٰی کہ اللہ تمھیں فتح دے۔‘‘ پس علیؑ کُچھ دور تک چلے پھر رک گئے لیکن اپنا رُخ نہیں پلٹا پس حضرت علیؑ نے پُکار کر کہا ائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں کب تک اُن لوگوں سے لڑوں؟؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا،’’ اُن سے لڑو حتٰی کہ وہ گواھی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔ پس جب وہ یہ گواھی دے لیں تو انھوں نے اپنی جان اور مال محفوظ کرلیا سوائے یہ کہ اُن کی طرف کوئی حق (قصاص، شرعی سزا) باقی نہ ہو۔ اور اُن کا حساب کتاب اللہ کے ذمہ ہے‘‘۔


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : أَمَّرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا , فَقَالَ : مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا تُرَابٍ ؟ قَالَ : أَمَّا مَا ذَكَرْتَ ثَلَاثًا قَالَهُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَنْ أَسُبَّهُ لَأَنْ تَكُونَ لِي وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لِعَلِيٍّ وَخَلَفَهُ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ ، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ : يَا رَسُولَ اللَّهِ تَخْلُفُنِي مَعَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى ، إِلَّا أَنَّهُ لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي " ، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ يَوْمَ خَيْبَرَ : " لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ " ، قَالَ : فَتَطَاوَلْنَا لَهَا ، فَقَالَ : " ادْعُوا لِي عَلِيًّا " , فَأَتَاهُ وَبِهِ رَمَدٌ فَبَصَقَ فِي عَيْنِهِ ، فَدَفَعَ الرَّايَةَ إِلَيْهِ فَفَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ ، وَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ سورة آل عمران آية 61 الْآيَةَ ، دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا , وَفَاطِمَةَ , وَحَسَنًا , وَحُسَيْنًا , فَقَالَ : " اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِي " . قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ۔
جامع الترمذي كِتَاب الدَّعَوَاتِ أبوابُ الْمَنَاقِبِ رقم الحديث: 3687
Source


حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کہتے ہیں کہ معاویہ بن ابوسفیان نے جب انھیں گورنر بنایا تو کہا کہ کیا وجہ ہے کہ آپ ابوتراب کو سب (برا بھلا کہنا) نہیں کرتے۔ تو انھوں نے جواب دیا کہ جب تک حضرت علیؑ کے بارے میں مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کہی ہوئی یہ تین باتیں یاد رہیں گی میں انھیں ہرگز سب نہیں کروں گا۔ اِن میں سے کوئی ایک بھی میرے لیے ہوتی تو مجھے یہ بات سرخ اُونٹوں سے زیادہ محبوب ہوتی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علیؑ کو ایک غزوہ میں اپنے پیچھے چھوڑا پس حضرت علی کرم اللہ وجہہ بولے۔ ائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مجھے بچوں اور عورتوں کے درمیان چھوڑے جاتے ہیں؟؟؟ پس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا،’’ کیا آپ راضی نہیں ہیں کہ آپ کو مجھ سے وہی منزلت ہے جو ھارونؑ کو موسٰیؑ سے تھی سوائے اسکے کہ میرے بعد نبوت نہیں‘‘۔ اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خیبر والے دن فرماتے ہوئے سُنا،’’کل میں یہ جھنڈا اُس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اُسکے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اُسکا رسول اُس سے محبت کرتے ہیں‘‘۔ پس ہم اُسکے لیے دوڑے کہ جھنڈا ہمیں ملے مگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا،’’علیؑ کو میرے پاس لاؤ‘‘۔ پس اُن کو لایا گیا اُنھیں آشوب چشم تھا پس اللہ کے رسول نے اپنا لعاب اُن کی آنکھوں میں لگایا اور جھنڈا اُنھیں عطا کیا پس اللہ نے انھیں فتح دی۔ اور جب یہ آیت نازل ہوئی نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ سورة آل عمران آية 61 تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیھم السلام کو اکٹھا کیا اور فرمایا،’’ ائے اللہ بس یہی ہیں میرے اھل‘‘۔ ابو عیسٰی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

اس حدیث کے مزید مصادر دیکھنے کیلیے یہاں کلک کریں


حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ . ح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى وَاللَّفْظُ لَهُ ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ زِرٍّ ، قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ ، إِنَّهُ لَعَهْدُ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، إِلَيَّ أَنْ " لَا يُحِبَّنِي إِلَّا مُؤْمِنٌ ، وَلَا يُبْغِضَنِي إِلَّا مُنَافِق
صحيح مسلم كِتَاب الإِيمَانِ بَاب الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ حُبَّ الأَنْصَار وَعَلِيٍّ من الایمان رقم الحديث: 116
Source
Source



حضرت زر بن جیشؓ سے روایت ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا۔ اُس کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور روح کو پیدا کیا بے شک نبی اُمی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے یہ عھد کیا ہے کہ کوئی مجھ سے محبت نہیں کرے گا سوائے مومن کے اور کوئی مجھ سے بغض نہیں رکھے گا سوائے منافق کے۔


حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ عُثْمَانَ ابْنِ أَخِي يَحْيَى بْنِ عِيسَى ، حَدَّثَنَا أَبُو عِيسَى الرَّمْلِيُّ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ : " لَقَدْ عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ الْأُمِّيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ لَا يُحِبُّكَ إِلَّا مُؤْمِنٌ ، وَلَا يَبْغَضُكَ إِلَّا مُنَافِقٌ " ۔ قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ ۔

جامع الترمذي كِتَاب الدَّعَوَاتِ أبوابُ الْمَنَاقِبِ رقم الحديث: 3698، 3680
Source
حضرت زر بن جیشؓ سے روایت ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ مجھ سے نبی اُمی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ وعدہ کیا ہے کہ ائے علی تُجھ سے مومن کے علاوہ کوئی محبت نہیں کرے گا اور تُجھ سے منافق کے علاوہ کوئی بغض نہیں رکھے گا۔ ابوعیسٰی ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔



حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَلْمٍ ، قَالَ : نَا أَبُو الأَزْهَرِ النَّيْسَابُورِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، وَحْدِي ، قَالَ : نَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : نَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَلِيٍّ ، فَقَالَ : " لا يُحِبُّكَ إِلا مُؤْمِنٌ ، وَلا يَبْغُضُكَ إِلا مُنَافِقٌ ، مَنْ أَحَبَّكَ فَقَدْ أَحَبَّنِي ، وَمَنْ أَبْغَضَكَ فَقَدْ أَبْغَضَنِي ، وَحَبِيبِي حَبِيبُ اللَّهِ ، وَبَغِيضِي بَغِيضُ اللَّهِ ، وَيْلٌ لِمَنْ أَبْغَضَكَ بَعْدِي "۔
المعجم الأوسط للطبراني بَابُ الْعَيْنِ مَنِ اسْمُهُ : عَبْدُ الرَّحْمَنِ رقم الحديث: 4891
Source
حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علیؑ کی طرف دیکھا اور فرمایا،’’ تُجھ سے کوئی محبت نہیں رکھے گا سوائے مومن کے اور تجھ سے کوئی بغض نہیں رکھے گا سوائے منافق کے۔ جس نے تُجھ سے محبت کی پس اُس نے مُجھ سے محبت کی اور جس نے تُجھ سے بُغض رکھا پس اُس نے مُجھ سے بُغض رکھا۔ اور میرا محبوب اللہ کا محبوب ہے اور میرے مبغوض پر اللہ کا غضب ہے۔ اور افسوس ہے اُس پر جو میرے بعد تُجھ سے بُغض رکھے‘‘۔


ثنا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ ، ثنا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدِ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ : " مَا كُنَّا نَعْرِفُ الْمُنَافِقِينَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، إِلا بِبُغْضِ عَلِيٍّ " ۔
جزء الحميري رقم الحديث: 39

Source

حضرت ابو سعید خدری انصاریؓ سے روایت ہے کہ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’ ہم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں منافقین کو صرف اُن کے حضرت علی ابن ابی طالبؑ کے ساتھ بغض رکھنے کیوجہ سے پہچانتے تھے۔‘‘۔



حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، قثنا عَلِيُّ بْنُ مُسْلِمٍ ، قثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، قَالَ : أنا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ السُّلَمِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، فَقَالَ : " مَا كُنَّا نَعْرِفُ مُنَافِقِينَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ إِلا بِبُغْضِهِمْ عَلِيًّا " ۔
[FONT=Geneva, Arial, Helvetica] فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل [FONT=Geneva, Arial, Helvetica] [/FONT] أَخْبَارُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي ... [FONT=Geneva, Arial, Helvetica] [/FONT] وَمِنْ فَضَائِلِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْ ... [/FONT] [FONT=Geneva, Arial, Helvetica] [/FONT]رقم الحديث: 941۔
Source

حضرت جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ ہم گروہ انصار اپنے منافقین کو نہیں پہنچانتے تھے مگر صرف اُن کے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ بُغض رکھنے کیوجہ سے۔




حدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْحَافِظُ بِهَمْدَانَ ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْفَسَوِيُّ ، ثنا إِسْحَاقُ بْنُ بِشْرٍ الْكَاهِلِيُّ ، ثنا شَرِيكٌ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : " مَا كُنَّا نَعْرِفُ الْمُنَافِقِينَ إِلا بِتَكْذِيبِهِمُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ، وَالتَّخَلُّفَ عَنِ الصَّلَوَاتِ ، وَالْبُغْضِ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ " . هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ .۔
المستدرك على الصحيحين كِتَابُ مَعْرِفَةِ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ... وَمِنِ مَنَاقِبِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيِّ
Source
حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ’’ ہم منافقین کو نہیں پہچنتے تھے سوائے ان باتوں کے ساتھ
اللہ اور اُسکے رسول کو جُھٹلانا
نماز کی پرواہ نہ کرنا
اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بغض رکھنا‘
‘۔

حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث مسلم کے معیار پر صحیح ہے لیکن انھوں نے بیان نہیں کی۔

ان احادیث کے مزید شواھد کو دیکھنے کیلیے یہاں کلک کریں۔



حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ حَفْصٍ وَمُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، قَالَا : حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو فَرْوَةَ مُسْلِمُ بْنُ سَالِمٍ الْهَمْدَانِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِيسَى سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَى ، قَالَ : لَقِيَنِي كَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ ، فَقَالَ : أَلَا أُهْدِي لَكَ هَدِيَّةً سَمِعْتُهَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ : بَلَى فَأَهْدِهَا لِي ، فَقَالَ : سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، كَيْفَ الصَّلَاةُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ عَلَّمَنَا كَيْفَ نُسَلِّمُ عَلَيْكُمْ ، قَالَ : قُولُوا : " اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ "۔
صحيح البخاري كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ بَاب الْأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ رقم الحديث: 3142، 4448، 5907

Source

حضرت کعب بن عجرہؓ سے روایت ہے کہ تمھارے لیے ایک ہدایت کی بات ہے جو میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنی۔ پس ہم نے کہا ضرور بتائیے ہم سُن رہے ہیں۔ پس کعب بن عجرہؓ بولے کہ ہم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سوال کیا کہ ائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ اھلبیت پر درود کس طرح بھیجا جائے۔ پس ہمیں تو اللہ نے صرف آپ اھلبیت پر سلام کا طریقہ سکھایا ہے۔ پس اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ یوں کہو،’’ائے اللہ درود بھیج محمد اور آل محمد پر جیسے تو نے درود بھیجا ابراھیم اور آل ابراھیم پر بے شک توں حمید اور مجید ہے اور ائے اللہ برکت دے محمد اور آل محمد کو جیسے تو نے برکت دی ابراھیم اور آل ابراھیم کو بے شک توں حمد کے لائق اور بڑی شان والا ہے‘‘۔

اس حدیث کے مصادر دیکھنے کیلیے یہاں کلک کریں

اللھم صلی علی محمد و آل محمد
 
Last edited:

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
​بہتر ہو گا کہ کتاب کا نام دے دو۔ پڑہ لیں گے۔ اتنی لمبی پوسٹ پڑہنے سے آنکھوں کا نقصان ہوتا ہے۔
 

swing

Chief Minister (5k+ posts)
سلام ہے حضرت علی رضی الله عنہ پر ، الله درجات بلند کرے الله کے رسول pbuhکے یاروں کے -آمین
 

swing

Chief Minister (5k+ posts)
​بہتر ہو گا کہ کتاب کا نام دے دو۔ پڑہ لیں گے۔ اتنی لمبی پوسٹ پڑہنے سے آنکھوں کا نقصان ہوتا ہے۔
کوئی نہیں بھائی جان ، اگر تعریف کی ہے حضرت علی رضی الله عنہ کی ہے تو اچھی بات ہے الله جزا دے اسے ،اور اگر کوئی غلط یا جھوٹ کہا یا سمجھا ہے تو الله دیکھ لے گا اس لیے ،ریفرنس مانگنے کی ضرورت نہیں ، کیوں کے الله کے رسولpbuh کے سارے ہی اصحاب ستاروں کی مانند ہیں ، اور محبت کے قابل ہیں
-
refrence pr firqa warana masail hain tou us per behas ka faida koi nahe -may ALLAH give us hadayat-aameen
 

JusticeLover

Minister (2k+ posts)
صحابہ میں افضل اور اعلی مقام حضرت علی کا علی کا دوست ھمارا دوست علی کا دشمن ھمارا دشمن۔
 

GeoG

Chief Minister (5k+ posts)
صحابہ میں افضل اور اعلی مقام حضرت علی کا علی کا دوست ھمارا دوست علی کا دشمن ھمارا دشمن۔

All four Kahlifas were friends
so thank you for giving same respect to first three Khalifas as well as Hazrat Ali (RA).
 

FaisalKh

Chief Minister (5k+ posts)

اگر عربی پڑھ سکتے ہو تو نیچے ہائی لائیٹڈ حصہ ضرور پڑھنا جس سے واضح ہوتا ہے کہ شیر خدا مولا علی مشکل کشا علیہ السلام نے ابو بکر کو ملنے کیلئے طلب کیا تو اکیلا آنے کو کہا عمر کے بارے خصوصی ہدایت کی کہ اسے اپنے ساتھ بالکل مت لانا کیونکہ مولا علی کو عمر کی موجودگی سے کراہت ہوتی تھی۔

Mahdi sahib ye alfaz bhi Hazrat Ali RA ke hain is per aap kya kahaingay?
Volume 5, Book 57, Number 34 :
Narrated by Ibn Abbas
When (the dead body of) 'Umar was put on his deathbed, the people gathered around him and invoked (Allah) and prayed for him before the body was taken away, and I was amongst them. Suddenly I felt somebody taking hold of my shoulder and found out that he was 'Ali bin Abi Talib. 'Ali invoked Allah's Mercy for 'Umar and said, "O 'Umar! You have not left behind you a person whose deeds I like to imitate and meet Allah with more than I like your deeds. By Allah! I always thought that Allah would keep you with your two companions, for very often I used to hear the Prophet saying, 'I, Abu Bakr and 'Umar went (somewhere); I, Abu Bakr and 'Umar entered (somewhere); and I, Abu Bakr and 'Umar went out."'

Aisi buhat saari riwayaat hain Hazrat Ali RA ki Hazrat Abu Bakr RA aur Hazrat Umar RA ke baare main. Main firqa waarana behes main nahi parna chaahta... agar kisi ki toheen/tazheek kiye bagher jawab de sakte hain to meherbani hogi...

Doosra un Shia bhaaion ke baare main aap ki kya raaye hai jo Tamaam Sahaba ka wesa hi ahtaraam karte hain jaisa Nabi Paak pbuh ne farmaya?
 

ALMAHDI

Banned
Mahdi sahib ye alfaz bhi Hazrat Ali RA ke hain is per aap kya kahaingay?
Volume 5, Book 57, Number 34 :
Narrated by Ibn Abbas
When (the dead body of) 'Umar was put on his deathbed, the people gathered around him and invoked (Allah) and prayed for him before the body was taken away, and I was amongst them. Suddenly I felt somebody taking hold of my shoulder and found out that he was 'Ali bin Abi Talib. 'Ali invoked Allah's Mercy for 'Umar and said, "O 'Umar! You have not left behind you a person whose deeds I like to imitate and meet Allah with more than I like your deeds. By Allah! I always thought that Allah would keep you with your two companions, for very often I used to hear the Prophet saying, 'I, Abu Bakr and 'Umar went (somewhere); I, Abu Bakr and 'Umar entered (somewhere); and I, Abu Bakr and 'Umar went out."'

Aisi buhat saari riwayaat hain Hazrat Ali RA ki Hazrat Abu Bakr RA aur Hazrat Umar RA ke baare main. Main firqa waarana behes main nahi parna chaahta... agar kisi ki toheen/tazheek kiye bagher jawab de sakte hain to meherbani hogi...

Doosra un Shia bhaaion ke baare main aap ki kya raaye hai jo Tamaam Sahaba ka wesa hi ahtaraam karte hain jaisa Nabi Paak pbuh ne farmaya?

فیض بھائی آپ نے خوش اخلاقی سے بات کی ہے تو میری جرات کہ میں آپکی دلآزاری کا سوچوں بھی؟
اس سے پہلے کہ میں آپکی بقیہ بات کا جواب دوں۔ سوچ کر بتلائیے کہ آپ اپنی ہی کتبِ حدیث کے حوالے دے رہے ہیں جن میں سے بہت کو ہم سرے سے مانتے ہیں نہیں یا پھر ضعیف سمجھتے ہیں۔
ہم آپکو آپکی کتابیں اس لیے دکھاتے ہیں تاکہ آپ ایک مرتبہ سوچنے پر مجبور ہوں اہلِ تشیع جن باتوں پر آپ سے اختلافی رائے رکھتے ہیں ان کی کم از کم تصدیق تو آپکی اپنی مسلمہ صحیح اور معتبر ترین کتب بھی کرتی ہیں۔ آپکو علم ہونا چاہیئے کہ صحاح ستہ ہمارے لیے مکمل قابلِ بھروسہ کتبِ احادیث نہیں ہیں۔

 

ALMAHDI

Banned
Doosra un Shia bhaaion ke baare main aap ki kya raaye hai jo Tamaam Sahaba ka wesa hi ahtaraam karte hain jaisa Nabi Paak pbuh ne farmaya?

ایک تصحیح فرما لیں۔ صحابہ کے احترام کے معاملے میں شیعانِ علی میں کوئی تفریق نہیں۔ تمام شیعہ اصحاب سمیت تمام قابل احترام ہستیوں کو بے پناہ احترام کرتے ہیں۔
 

FaisalKh

Chief Minister (5k+ posts)

فیض بھائی آپ نے خوش اخلاقی سے بات کی ہے تو میری جرات کہ میں آپکی دلآزاری کا سوچوں بھی؟
اس سے پہلے کہ میں آپکی بقیہ بات کا جواب دوں۔ سوچ کر بتلائیے کہ آپ اپنی ہی کتبِ حدیث کے حوالے دے رہے ہیں جن میں سے بہت کو ہم سرے سے مانتے ہیں نہیں یا پھر ضعیف سمجھتے ہیں۔
ہم آپکو آپکی کتابیں اس لیے دکھاتے ہیں تاکہ آپ ایک مرتبہ سوچنے پر مجبور ہوں اہلِ تشیع جن باتوں پر آپ سے اختلافی رائے رکھتے ہیں ان کی کم از کم تصدیق تو آپکی اپنی مسلمہ صحیح اور معتبر ترین کتب بھی کرتی ہیں۔ آپکو علم ہونا چاہیئے کہ صحاح ستہ ہمارے لیے مکمل قابلِ بھروسہ کتبِ احادیث نہیں ہیں۔


میں آپ کی راۓ کا احترام کرتا ہوں اور معاملہ الله پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہی انصاف کرنے والا ہے
میں صرف اتنا ہی کہونگا کہ میرے لئے وہ تمام کتابیں میری ہیں جو قرآن و حدیث کو فالو کرتی ہیں
 

نادان

Prime Minister (20k+ posts)

فیض بھائی آپ نے خوش اخلاقی سے بات کی ہے تو میری جرات کہ میں آپکی دلآزاری کا سوچوں بھی؟
اس سے پہلے کہ میں آپکی بقیہ بات کا جواب دوں۔ سوچ کر بتلائیے کہ آپ اپنی ہی کتبِ حدیث کے حوالے دے رہے ہیں جن میں سے بہت کو ہم سرے سے مانتے ہیں نہیں یا پھر ضعیف سمجھتے ہیں۔
ہم آپکو آپکی کتابیں اس لیے دکھاتے ہیں تاکہ آپ ایک مرتبہ سوچنے پر مجبور ہوں اہلِ تشیع جن باتوں پر آپ سے اختلافی رائے رکھتے ہیں ان کی کم از کم تصدیق تو آپکی اپنی مسلمہ صحیح اور معتبر ترین کتب بھی کرتی ہیں۔ آپکو علم ہونا چاہیئے کہ صحاح ستہ ہمارے لیے مکمل قابلِ بھروسہ کتبِ احادیث نہیں ہیں۔


صرف ایک چھوٹا سا سوال ...جن کتابوں کو آپ مانتے ہی نہیں ان کا ریفرنس دینے کا مقصد
 

ALMAHDI

Banned
صرف ایک چھوٹا سا سوال ...جن کتابوں کو آپ مانتے ہی نہیں ان کا ریفرنس دینے کا مقصد
مقصد میں نے اسی پوسٹ میں عرض کر دیا ہے جسے آپ نے کوٹ کیا ہے ایک مرتبہ دوبارہ ملاحظہ فرمائیں۔
اب اگر میں اپنی کتابوں سے کچھ پیش کروں گا تو دوسری طرف سے بآسانی کہہ دیا جائیگا کہ یہ باتیں ناقابلِ بھروسہ ہیں کیونکہ وہ ان کتب کو درست نہیں سمجھتے۔ اسی لیے اُنہیں اُنکی کتابوں سے حوالہ جات پیش کیے جاتے ہیں تاکہ بنیادی اعتراض شروع میں ہی ختم ہو جائے۔ اگر آپ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو سُنیں تو بین الادیان مباحث میں وہ ہندوؤں کو ہندو، عیسائیوں وغیرہ کو ان ہی کی مقدس کتب سے اقتباسات پیش کر کر کے قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

 

نادان

Prime Minister (20k+ posts)

مقصد میں نے اسی پوسٹ میں عرض کر دیا ہے جسے آپ نے کوٹ کیا ہے ایک مرتبہ دوبارہ ملاحظہ فرمائیں۔
اب اگر میں اپنی کتابوں سے کچھ پیش کروں گا تو دوسری طرف سے بآسانی کہہ دیا جائیگا کہ یہ باتیں ناقابلِ بھروسہ ہیں کیونکہ وہ ان کتب کو درست نہیں سمجھتے۔ اسی لیے اُنہیں اُنکی کتابوں سے حوالہ جات پیش کیے جاتے ہیں تاکہ بنیادی اعتراض شروع میں ہی ختم ہو جائے۔ اگر آپ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو سُنیں تو بین الادیان مباحث میں وہ ہندوؤں کو ہندو، عیسائیوں وغیرہ کو ان ہی کی مقدس کتب سے اقتباسات پیش کر کر کے قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

میں اپنی پوری ایمانداری سے اس نتیجے پر پونچی ہوں ...سب قصے کہانیاں ہیں ..قرآن واحد کتاب ہے جس کی حفاظت کا ذمہ الله نے لیا ہے ..اسی لئے قرآن اول ..قرآن ہی آخر ..اب ان قصے کہانیوں کی بنیاد پر اپنے عقیدے کی تعمیر میری سمجھ سے بالا تر ہے ..جو سوال روز قیامت کئے ہی نہیں جائیں گے .ان پر وقت ضائع کرنے کا فائدہ ..اس سے زیادہ ضروری ہے کہ اپنے اعمال پر توجہ دی جائے ..
میری سوچ سے آپ کو اختلاف ہو سکتا ہے .اور یہ آپ کا حق بھی ہے ..میرے لئے بیچ کی راہ ہی بہترین ہے ..جب کچھ ہمارے سامنے ہوا ہی نہیں ..اس پر بات کرنے سے فائدہ
 

Ahud1

Chief Minister (5k+ posts)
نبیpbuh ک بعد مجھے اسلام میں علی سب کچھ لگتا ہے علی نہ ہوتا تو شائد میں اللہ کو نہ پہچان پاتا
 

نادان

Prime Minister (20k+ posts)

مہدی صاحب ..میں دھیان سے پڑھ بھی چکی ہوں اور سمجھ بھی چکی ہوں ..بس ذرا دھیان رہے معاملہ گرمی تک نہ پونچھے ..ایک ہمبل ریکویسٹ ہے
 
Last edited by a moderator:

single

MPA (400+ posts)
نادان، بہت زبردست بات، میرے خیال میں تو آپ نے اس بحث کی بنیادیں ہلا دی ہیں، کہ کونسا صحابی اچھا، اور کونسا نہیں،


قرآن میں صاف الفاظ میں لکھا ہوا ہیں، الله فرماتے ہیں.کہ
'' اے نبی جو لوگ فرقہ بناتے ہیں اسلام میں، آپ کو ان سے کوئی واسطہ نہیں ''


پھر بھی ہمارے یہ پڑھے لکھے بندے نہیں سمجھ رہے، میں نے یہی سوال ایک دو دفع پوچھا ہےاسی فورم پر کچھ شیعہ دوستوں سے، لیکن جواب کویی نہیں دیتا،


اور یہ سوال سب کے لئے جو کہتے ہیں، ہم سنی ہے، شیعہ ہیں، وہابی یا کوئی اور.


الله ہم سب کو سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرماییں ، امین


ورنہ اتنی کنفیوزن پھیلا یی ہیں ان مذہبی ٹھیکیداروں نے، کہ سمجھ کسی کو کچھ نہ آوے، بس ان کی دکانیں چلتی رہے.

میں اپنی پوری ایمانداری سے اس نتیجے پر پونچی ہوں ...سب قصے کہانیاں ہیں ..قرآن واحد کتاب ہے جس کی حفاظت کا ذمہ الله نے لیا ہے ..اسی لئے قرآن اول ..قرآن ہی آخر ..اب ان قصے کہانیوں کی بنیاد پر اپنے عقیدے کی تعمیر میری سمجھ سے بالا تر ہے ..جو سوال روز قیامت کئے ہی نہیں جائیں گے .ان پر وقت ضائع کرنے کا فائدہ ..اس سے زیادہ ضروری ہے کہ اپنے اعمال پر توجہ دی جائے ..
میری سوچ سے آپ کو اختلاف ہو سکتا ہے .اور یہ آپ کا حق بھی ہے ..میرے لئے بیچ کی راہ ہی بہترین ہے ..جب کچھ ہمارے سامنے ہوا ہی نہیں ..اس پر بات کرنے سے فائدہ
 

Abdul Allah

Minister (2k+ posts)

شکر ہے تمہیں تھیلا اور بلی نظر تو آئی۔
ہمارے لیے وہ تمام ہستیاں قابلِ احترام ہیں جنہوں نے احکاماتِ الہیہ کی پابندی کرتے ہوئے محمد و آلِ محمد سے بے لوث وفا کی۔ نہ کبھی اُنہیں دُکھ دیے، نہ اُنکے دکھوں پر خوش ہوئے نہ اُنکے لیے ایذا رسانیوں کے رستے ہموار کیے۔
اب تم بتاؤ کہ جس سے خاتونِ جنت جگر گوشہ رسول سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا ناراض ہوں تم انکا احترام کرتے ہو یا پھر رسول اللہ کی نورِ نظر جن سے ناراض اور ناخوش ہوئیں اُن سے ناخوش ہو؟ کیونکہ ہمارے لیے رسول اللہ کا یہ حکم بہت واضح ہے کہ فاطمہ میرا ٹکڑا ہیں جس نے انہیں غضبناک کیا انہوں نے مجھے غضبناک کیا یہ حکم شیعہ سنی کتبِ احادیث میں صاف صاف لکھا ہے۔ہم انہیں کیسے مانیں جن سے سیدہ فاطمہ تا دمِ شہادت ناراض رہیں۔
اب تم بتاؤ کہ تم ایسے افراد کو کیا کہتے ہو جن سے رسول اللہ کی بیٹی ناراض رہیں اور اسی حالتِ ناراضگی میں دنیا سے پردہ فرما گئیں؟


Qisa Kahania par mat jao thanks


and do you know on what occasion Rasool Allah sw said that

کیونکہ ہمارے لیے رسول اللہ کا یہ حکم بہت واضح ہے کہ فاطمہ میرا ٹکڑا ہیں جس نے انہیں غضبناک کیا انہوں نے مجھے غضبناک کیا
 
Status
Not open for further replies.