نبی کریمﷺ نے فرمایا:
حدثنا محمد بن المثنى العنزي ، حدثنا يحيي يعني ابن سعيد ، عن عبيد الله ، عن نافع ، عن صفية ، عن بعض ازواج النبي صلى الله عليه وسلم، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من اتى عرافا فساله عن شيء، لم تقبل له صلاة اربعين ليلة ".
صفیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بی بی سے سنا، وہ کہتی تھیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص عراف کے پاس جائے اس سے کوئی بات پوچھے تو اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہ ہو گی۔“
حدیث نمبر: 5821
كِتَاب السَّلَامِ
صحيح مسلم
یہ تو صرف کاہن کے پاس جانے کی سزا ہے۔ البتہ جو اسے عالم الغیب سمجھے اور اس کی باتوں کی تصدیق کرے ان پر ایمان لائے تو وہ کافر ہوجاتا ہے۔
نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:
من أتى كاهناً فصدقه بما يقول فقد كفر بما أنزل على محمد ۔۔۔ أبو داؤد
. باب فِي الْكَاهِنِ
حدیث نمبر: 3904
کہ جو کسی کاہن کے پاس جائے اور اس کی باتوں کی تصدیق کر دے تو نبی کریمﷺ پر اترنے والے دین (قرآن وسنت) کا منکر ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الطھارة 102 (135)، سنن ابن ماجہ/الطھارة 122 (639)، (تحفة الأشراف: 13536)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/86، 2/408، 476، 6/305)، سنن الدارمی/الطھارة 113 (259) (صحیح)»
حدثنا خالد بن مخلد , حدثنا سليمان بن بلال , قال: حدثني صالح بن كيسان , عن عبيد الله بن عبد الله , عن زيد بن خالد رضي الله عنه , قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الحديبية , فاصابنا مطر ذات ليلة , فصلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم الصبح , ثم اقبل علينا فقال:" اتدرون ماذا قال ربكم؟" قلنا: الله ورسوله اعلم , فقال:" قال الله: اصبح من عبادي مؤمن بي وكافر بي , فاما من قال: مطرنا برحمة الله وبرزق الله وبفضل الله فهو مؤمن بي كافر بالكوكب , واما من قال: مطرنا بنجم كذا فهو مؤمن بالكوكب كافر بي".
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے صالح بن کیسان نے بیان کیا ‘ ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے زید بن خالد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حدیبیہ کے سال ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے تو ایک دن، رات کو بارش ہوئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھانے کے بعد ہم سے خطاب کیا اور دریافت فرمایا کہ معلوم ہے تمہارے رب نے کیا کہا؟ ہم نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صبح ہوئی تو میرے کچھ بندوں نے اس حالت میں صبح کی کہ ان کا ایمان مجھ پر تھا اور کچھ نے اس حالت میں صبح کی کہ وہ میرا انکار کئے ہوئے تھے۔ تو جس نے کہا کہ ہم پر یہ بارش اللہ کے رزق ‘ اللہ کی رحمت اور اللہ کے فضل سے ہوئی ہے تو وہ مجھ پر ایمان لانے والا ہے اور ستارے کا انکار کرنے والا ہے اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ بارش فلاں ستارے کی تاثیر سے ہوئی ہے تو وہ ستاروں پر ایمان لانے والا اور میرے ساتھ کفر کرنے والا ہے۔
حدیث نمبر: 4147
كِتَاب الْمَغَازِي
صحيح البخاري
اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
ایسی چیزوں کے حوالے سے ایک اصول ہے: جو چیزیں اسباب و ذرائع کے تحت آتی ہوں، تو اس میں کوئی اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر کوئی رائے یا خبر دے، تو وہ درست ہے۔وہ چیزیں جو مافوق الاسباب ہوتی ہیں، ان میں انسانوں کی خبر کا بھی کوئی اعتماد نہیں، اور ایسے کاموں میں دلچسپی ورغبت رکھنا بھی گناہ ہے۔
واللہ اعلم
حدثنا محمد بن المثنى العنزي ، حدثنا يحيي يعني ابن سعيد ، عن عبيد الله ، عن نافع ، عن صفية ، عن بعض ازواج النبي صلى الله عليه وسلم، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من اتى عرافا فساله عن شيء، لم تقبل له صلاة اربعين ليلة ".
صفیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بی بی سے سنا، وہ کہتی تھیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص عراف کے پاس جائے اس سے کوئی بات پوچھے تو اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہ ہو گی۔“
حدیث نمبر: 5821
كِتَاب السَّلَامِ
صحيح مسلم
یہ تو صرف کاہن کے پاس جانے کی سزا ہے۔ البتہ جو اسے عالم الغیب سمجھے اور اس کی باتوں کی تصدیق کرے ان پر ایمان لائے تو وہ کافر ہوجاتا ہے۔
نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:
من أتى كاهناً فصدقه بما يقول فقد كفر بما أنزل على محمد ۔۔۔ أبو داؤد
. باب فِي الْكَاهِنِ
حدیث نمبر: 3904
کہ جو کسی کاہن کے پاس جائے اور اس کی باتوں کی تصدیق کر دے تو نبی کریمﷺ پر اترنے والے دین (قرآن وسنت) کا منکر ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الطھارة 102 (135)، سنن ابن ماجہ/الطھارة 122 (639)، (تحفة الأشراف: 13536)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/86، 2/408، 476، 6/305)، سنن الدارمی/الطھارة 113 (259) (صحیح)»
حدثنا خالد بن مخلد , حدثنا سليمان بن بلال , قال: حدثني صالح بن كيسان , عن عبيد الله بن عبد الله , عن زيد بن خالد رضي الله عنه , قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الحديبية , فاصابنا مطر ذات ليلة , فصلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم الصبح , ثم اقبل علينا فقال:" اتدرون ماذا قال ربكم؟" قلنا: الله ورسوله اعلم , فقال:" قال الله: اصبح من عبادي مؤمن بي وكافر بي , فاما من قال: مطرنا برحمة الله وبرزق الله وبفضل الله فهو مؤمن بي كافر بالكوكب , واما من قال: مطرنا بنجم كذا فهو مؤمن بالكوكب كافر بي".
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے صالح بن کیسان نے بیان کیا ‘ ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے زید بن خالد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حدیبیہ کے سال ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے تو ایک دن، رات کو بارش ہوئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھانے کے بعد ہم سے خطاب کیا اور دریافت فرمایا کہ معلوم ہے تمہارے رب نے کیا کہا؟ ہم نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صبح ہوئی تو میرے کچھ بندوں نے اس حالت میں صبح کی کہ ان کا ایمان مجھ پر تھا اور کچھ نے اس حالت میں صبح کی کہ وہ میرا انکار کئے ہوئے تھے۔ تو جس نے کہا کہ ہم پر یہ بارش اللہ کے رزق ‘ اللہ کی رحمت اور اللہ کے فضل سے ہوئی ہے تو وہ مجھ پر ایمان لانے والا ہے اور ستارے کا انکار کرنے والا ہے اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ بارش فلاں ستارے کی تاثیر سے ہوئی ہے تو وہ ستاروں پر ایمان لانے والا اور میرے ساتھ کفر کرنے والا ہے۔
حدیث نمبر: 4147
كِتَاب الْمَغَازِي
صحيح البخاري
اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
ایسی چیزوں کے حوالے سے ایک اصول ہے: جو چیزیں اسباب و ذرائع کے تحت آتی ہوں، تو اس میں کوئی اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر کوئی رائے یا خبر دے، تو وہ درست ہے۔وہ چیزیں جو مافوق الاسباب ہوتی ہیں، ان میں انسانوں کی خبر کا بھی کوئی اعتماد نہیں، اور ایسے کاموں میں دلچسپی ورغبت رکھنا بھی گناہ ہے۔
واللہ اعلم