سچی بات تو یہ ہے کہ نہ تو حکومت اور نہ ہی ریاست انتہا پسندی سے مکمل طور پر لڑنے کے لیے اتنی تیار ہے جتنی ہونی چاہیے تھی۔ ٹی ایل پی (تحریک لّبیک پاکستان) کے کیس میں ہم نے دیکھا کہ ریاست کو کیسے پیچھے ہٹنا پڑا اور یہ اس بم کی نشاندہی کرتا ہے جو ٹِک ٹِک بج رہا رہا ہے۔۔۔ جو ریاست قانون کا نفاذ نہیں کر سکتی، اُس کے وجود پر سوال کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس صورت میں آپ خانہ جنگی کی طرف بڑھتے جائیں گے۔۔۔‘
تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ سعد حسین رضوی کی کوٹ لکھپت جیل سے رہائی کے چند گھنٹوں بعد پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا یہ بیان پاکستان کے قریباً تمام ہی ٹی وی چینلز کی شہ سرخی (ہیڈ لائن) تھا۔
فواد چوہدری نے ان خیالات کا اظہار جمعرات (کل) کی شام پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیش سٹڈیز کے زیر اہتمام ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا۔
سعد رضوی کو 12 اپریل 2021 کو لوگوں کو احتجاج اور پُرتشدّد مظاہروں پر اکسانے جیسے الزامات کے تحت گرفتار کیا تھا۔ ان کی رہائی 31 اکتوبر کو حکومتِ پاکستان اور ٹی ایل پی کے درمیان ہونے والے معاہدے کے نتیجے میں عمل میں آئی ہے۔
نہ تو یہ تحریک لبیک کا پہلا احتجاج تھا اور نہ ہی حکومتِ پاکستان کا اس تنظیم سے یہ پہلا معاہدہ۔
اپنی چھ برس کی سیاسی عمر میں مختلف مطالبات منوانے کے لیے تحریک لبیک سات مرتبہ اسی نوعیت کے احتجاج منظم کر چکی ہے۔ ہر مرتبہ ان احتجاجوں نے پُرتشدد شکل اختیار کی اور ان کا اختتام ہر بار حکومتِ وقت سے کسی نہ کسی معاہدے پر ہوا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ہر مرتبہ ایسے معاہدوں کے لیے فوج یا اس کے خفیہ اداروں کو کھلی یا درپردہ مداخلت کرنا پڑی اور ہر بار حکومت وقت اپنے موقف سے پیچھے ہٹتی یا دباؤ میں آتی ہوئی محسوس ہوئی اور بظاہر ہر بار تحریک لبیک اپنے ’مطالبات‘ منوانے میں کامیاب دکھائی دی۔
تاہم اس مرتبہ مختلف یہ ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی حکومتی ترجمان یا وزیر نے اپنی پسپائی کو ایسے تسلیم کیا ہے جیسے فواد چوہدری نے۔
سوال یہ ہے کہ اس ’نومولود‘ تحریک نے اتنی سی مُدّت میں اتنی بڑی عوامی طاقت کیسے حاصل کر لی اور ملک کی اس پانچویں اور پنجاب کی تیسری بڑی سیاسی قوت سمجھی جانے والی اس تحریک کی بے مثال مقبولیت کا راز کیا ہے؟
خادم رضوی: ابتدا کب اور کس ماحول میں ہوئی؟
تحریک لبیک پاکستان کی بنیاد اس کے بانی امیر مولانا خادم حسین رضوی نے یکم اگست 2015 کو رکھی۔
خادم رضوی کے قریبی ذرائع کے مطابق وہ 22 مئی 1966 کو پنجاب کے شمالی ضلع اٹک کے علاقے پنڈی گھیپ میں حاجی لعل خان کے گھرانے میں پیدا ہوئے جو مذہب کے طرف جھکاؤ رکھتے تھے اور اُن کے ایک بھائی امیر حسین پاکستانی فوج کے (جونیئر کمیشنڈ) افسر تھے۔
سُنی بریلوی فرقے کے پیشوا امام احمد رضا خان بریلوی کے مقلد خادم رضوی نے حفظِ قرآن و تجوید کی تعلیم جہلم اور دینہ کے مدارس سے حاصل کی اور پھر لاہور کی ’جامعہ نظامیہ‘ سے ’شیخ الحدیث‘ کی سند حاصل کی۔
سنہ 2009 میں خادم رضوی راولپنڈی سے لاہور تک سفر کے دوران ایک حادثے کا شکار ہوئے جس کے نتیجے میں ٹانگوں میں چوٹ کی وجہ سے وہ چلنے سے معذور ہو گئے۔
کچھ ذرائع کا موقف ہے کہ وہ خود گاڑی چلاتے ہوئے گجرانوالہ کے قریب نیند کا غلبہ ہو جانے کی وجہ سے اس حادثے کا شکار ہوئے، جبکہ بعض ذرائع کے مطابق گاڑی ڈرائیور چلا رہا تھا۔
قریباً 10 برس قبل ایک واقعے نے نہ صرف خادم رضوی کی زندگی بدل کر رکھ دی بلکہ تحریک لبیک کے قیام کی وجہ بھی بن گیا۔
یہ چار جنوری 2011 کی صبح تھی جب پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے (اس وقت کے) گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو ان ہی کی حفاظت پر مامور پنجاب پولیس کے ایک اہلکار ملک ممتاز حسین قادری نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں قتل کر دیا۔
ممتاز قادری کے اعتراف جرم کے بعد انھیں پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ اس سزا کے خلاف ہائی کورٹ، سپریم کورٹ اور اس وقت کے صدر پاکستان کو کی گئی اپیلیں مسترد ہوئیں۔
’تحریک لبیک یا رسول اللّہ‘ کا قیام
بالآخر یکم اگست 2015 کو کراچی کے نشتر پارک میں ایک عوامی اجتماع کے دوران انھوں نے 'تحریک لبیک یا رسول اللّہ' کے قیام کا اعلان کر دیا۔
اس اجتماع میں 75 افراد نے مولانا خادم حسین رضوی کو امیر تسلیم کرتے ہوئے ان کے ہاتھ پر 'بیعت' کی۔
خادم رضوی کی تحریک لبیک سمیت تمام مذہبی و فرقہ وارانہ جماعتوں کے مسلسل اور شدید احتجاج کے باوجود بالآخر پیر 29 فروری 2016 کو اڈیالہ جیل میں گورنر تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو پھانسی دے دی گئی۔
اگلے ہی روز یعنی یکم مارچ 2016 کو راولپنڈی کے لیاقت نیشنل پارک میں ممتاز قادری کی نماز جنازہ منعقد ہوئی تو اتنی بڑی تعداد میں عوامی شرکت ہوئی جس نے ریاست کے 'بڑوں' کے ساتھ ساتھ قومی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو بھی حیرت زدہ کر کے رکھ دیا۔
پاکستانی ذرائع ابلاغ میں اس تدفین کو براہ راست نشر کرنے یا اس سے متعلق خبریں دکھانے پر پابندی رہی مگر بین الاقوامی نشریاتی اداروں اور عالمی میڈیا میں اس تدفین کو نمایاں جگہ ملی۔
عالمی ذرائع ابلاغ اور نشریاتی اداروں کے مطابق بھی نمازِ جنازہ اور تدفین میں ایک لاکھ (یا زائد) افراد شریک رہے۔
اس اجتماع میں 75 افراد نے مولانا خادم حسین رضوی کو امیر تسلیم کرتے ہوئے ان کے ہاتھ پر 'بیعت' کی۔
خادم رضوی کی تحریک لبیک سمیت تمام مذہبی و فرقہ وارانہ جماعتوں کے مسلسل اور شدید احتجاج کے باوجود بالآخر پیر 29 فروری 2016 کو اڈیالہ جیل میں گورنر تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو پھانسی دے دی گئی۔
اگلے ہی روز یعنی یکم مارچ 2016 کو راولپنڈی کے لیاقت نیشنل پارک میں ممتاز قادری کی نماز جنازہ منعقد ہوئی تو اتنی بڑی تعداد میں عوامی شرکت ہوئی جس نے ریاست کے 'بڑوں' کے ساتھ ساتھ قومی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو بھی حیرت زدہ کر کے رکھ دیا۔
پاکستانی ذرائع ابلاغ میں اس تدفین کو براہ راست نشر کرنے یا اس سے متعلق خبریں دکھانے پر پابندی رہی مگر بین الاقوامی نشریاتی اداروں اور عالمی میڈیا میں اس تدفین کو نمایاں جگہ ملی۔
عالمی ذرائع ابلاغ اور نشریاتی اداروں کے مطابق بھی نمازِ جنازہ اور تدفین میں ایک لاکھ (یا زائد) افراد شریک رہے۔
پہلا بڑا احتجاج
ممتاز قادری کی تدفین کا عمل مکمل ہوتے ہی ملک بھر کے مختلف شہروں میں اس پھانسی کے خلاف احتجاج شروع ہوا اور کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پشاور میں اجتماعات و مظاہرے ہوئے جن میں خادم رضوی کی تحریک پیش پیش رہی۔
خادم رضوی نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں ایک دھرنا دیا جو پُرتشدد ہوگیا۔
پولیس رپورٹس کے مطابق اس احتجاج کی وجہ سے اسلام آباد ایکسپریس وے بند رہی اور فیض آباد کے پل کو بند کر کے گاڑیوں پر پتھراؤ کیا گیا، اس تشدد آمیز احتجاج کے دوران توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات ملک کے دیگرحصّوں میں بھی رونما ہوئے۔
خادم رضوی نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں ایک دھرنا دیا جو پُرتشدد ہوگیا۔
پولیس رپورٹس کے مطابق اس احتجاج کی وجہ سے اسلام آباد ایکسپریس وے بند رہی اور فیض آباد کے پل کو بند کر کے گاڑیوں پر پتھراؤ کیا گیا، اس تشدد آمیز احتجاج کے دوران توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات ملک کے دیگرحصّوں میں بھی رونما ہوئے۔
فیض آباد دھرنہ
اکتوبر 2017 کے اوائل یعنی مسلم لیگ (ن) کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے دور میں الیکشن ایکٹ 2017 میں ترامیم کے معاملے پر ایک پارلیمانی تنازع پیدا ہوگیا۔
اُن میں سے ایک شق انتخابی امیدواروں کے ختمِ نبوّت پر یقین رکھنے کے حلف نامے سے متعلق تھی۔
متنازع ترامیم کے تحت جب بعض الفاظ کے ردو بدل کا معاملہ سامنے آیا تو حکومت نے اسے غلطی سے تعبیر کیا جبکہ حزب اختلاف نے سیاسی موقع غنیمت جان کر معاملے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کر دیا۔
اگرچہ حزب اختلاف کی نشاندہی پر حکومت نے ترامیم کے مسوّدے و متن کو پرانے الفاظ میں ہی بحال کر دیا مگر خادم رضوی اور اُن کی 'تحریک لّبیک یا رسول اللّہ' نے اسے ایک 'بڑی سازش کا حصّہ' قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ حکومت نے اس شق کا متن جان بوجھ کر بدلنے کی کوشش کی اور اس کے ذمہ دار (اس وقت کے) وزیر قانون زاہد حامد ہیں۔
خادم رضوی اور اُن کی تحریک نے وزیر قانون کے استعفے کا مطالبہ کر دیا اور دھمکی دی کہ اگر مطالبہ نہ مانا گیا تو وہ اسلام آباد میں دھرنا دے دیں گے۔
مطالبہ پورا نہ ہونے پر تحریک لّبیک نے اس دھمکی کو عملی جامہ پہنایا اور آٹھ نومبر 2017 کو خادم رضوی کے حامی مظاہرین نے اسلام آباد کو راولپنڈی سے ملانے والی شاہراہ بند کر دی اور ٹریفک معطل ہونے سے ایک نومولود بچّے کی جان چلی گئی۔
تحریک لبیک نے دوسرا اہم احتجاج اپریل 2018 میں اس وقت کیا جب اس کے حامی مظاہرین نے پنجاب بھر کی اہم شاہراہیں یہ کہتے ہوئے بند کر دیں کہ حکومت 2017 کے معاہدے کے مطالبات پر عملدرآمد کرے۔
اس دوران بھی بدامنی، کشیدگی ، اشتعال انگیزی اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات ہوئے جن میں کئی افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات آتی رہیں۔
اُن میں سے ایک شق انتخابی امیدواروں کے ختمِ نبوّت پر یقین رکھنے کے حلف نامے سے متعلق تھی۔
متنازع ترامیم کے تحت جب بعض الفاظ کے ردو بدل کا معاملہ سامنے آیا تو حکومت نے اسے غلطی سے تعبیر کیا جبکہ حزب اختلاف نے سیاسی موقع غنیمت جان کر معاملے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کر دیا۔
اگرچہ حزب اختلاف کی نشاندہی پر حکومت نے ترامیم کے مسوّدے و متن کو پرانے الفاظ میں ہی بحال کر دیا مگر خادم رضوی اور اُن کی 'تحریک لّبیک یا رسول اللّہ' نے اسے ایک 'بڑی سازش کا حصّہ' قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ حکومت نے اس شق کا متن جان بوجھ کر بدلنے کی کوشش کی اور اس کے ذمہ دار (اس وقت کے) وزیر قانون زاہد حامد ہیں۔
خادم رضوی اور اُن کی تحریک نے وزیر قانون کے استعفے کا مطالبہ کر دیا اور دھمکی دی کہ اگر مطالبہ نہ مانا گیا تو وہ اسلام آباد میں دھرنا دے دیں گے۔
مطالبہ پورا نہ ہونے پر تحریک لّبیک نے اس دھمکی کو عملی جامہ پہنایا اور آٹھ نومبر 2017 کو خادم رضوی کے حامی مظاہرین نے اسلام آباد کو راولپنڈی سے ملانے والی شاہراہ بند کر دی اور ٹریفک معطل ہونے سے ایک نومولود بچّے کی جان چلی گئی۔
تحریک لبیک نے دوسرا اہم احتجاج اپریل 2018 میں اس وقت کیا جب اس کے حامی مظاہرین نے پنجاب بھر کی اہم شاہراہیں یہ کہتے ہوئے بند کر دیں کہ حکومت 2017 کے معاہدے کے مطالبات پر عملدرآمد کرے۔
اس دوران بھی بدامنی، کشیدگی ، اشتعال انگیزی اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات ہوئے جن میں کئی افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات آتی رہیں۔
تیسرا بڑا احتجاج
ادھر آٹھ اکتوبر 2018 کو (اس وقت کے) چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس مظہر عالم پر مشتمل ایک بنچ نے آسیہ بی بی کیا کا فیصلہ معاملے کی حساسیت کے پیشِ نظر پہلے تو محفوظ کر لیا لیکن 31 اکتوبر کو 56 صفحات پر مبنی سپریم کورٹ کے فیصلے میں حکم دیا گیا کہ آسیہ بی بی کو فی الفور رہا کر دیا جائے۔
اِس فیصلے نے ایک بار پھر ایسے تشدد آمیز احتجاج کی چنگاری بھڑکا دی جس میں بھی خادم رضوی اورتحریک لّبیک پیش پیش تھے۔
16 نومبر 2020 میں فرانس میں پیغمبر اسلام کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت پر خادم رضوی نے اپنی تنظیم سمیت ایک مرتبہ پھر احتجاج کے لیے اسلام آباد کا رخ کیا۔
اس بار بھی احتجاج نے تشدد کا راستہ اپنایا اور درجنوں پولیس اہلکار مشتعل ڈنڈا بردار مظاہرین کے ہاتھوں زخمی ہوئے۔
پولیس رپورٹس کے مطابق دارالحکومت جانے والے تمام راستے اور شاہراہوں کی بندش کے بعد پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی حرکت میں آئے اور مشتعل مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس استعمال کی گئی۔
کئی مقامات پر فساد کے بعد بالآخر پھر ایک ہی روز بعد یعنی پیر 17 نومبر کو عمران خان حکومت اور تحریک لّبیک کے درمیان پھر 'اچانک' ہی ایک اور معاہدہ ہو جانے کی خبریں آئیں اور اس مرتبہ معاہدے پر حکومت کی جانب سے وزیر مذہبی امور نور الحق قادری اور سیکریٹری داخلہ بریگیڈئیر اعجاز شاہ سمیت کئی حکام نے دستخط کیے۔
اِس فیصلے نے ایک بار پھر ایسے تشدد آمیز احتجاج کی چنگاری بھڑکا دی جس میں بھی خادم رضوی اورتحریک لّبیک پیش پیش تھے۔
16 نومبر 2020 میں فرانس میں پیغمبر اسلام کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت پر خادم رضوی نے اپنی تنظیم سمیت ایک مرتبہ پھر احتجاج کے لیے اسلام آباد کا رخ کیا۔
اس بار بھی احتجاج نے تشدد کا راستہ اپنایا اور درجنوں پولیس اہلکار مشتعل ڈنڈا بردار مظاہرین کے ہاتھوں زخمی ہوئے۔
پولیس رپورٹس کے مطابق دارالحکومت جانے والے تمام راستے اور شاہراہوں کی بندش کے بعد پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی حرکت میں آئے اور مشتعل مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس استعمال کی گئی۔
کئی مقامات پر فساد کے بعد بالآخر پھر ایک ہی روز بعد یعنی پیر 17 نومبر کو عمران خان حکومت اور تحریک لّبیک کے درمیان پھر 'اچانک' ہی ایک اور معاہدہ ہو جانے کی خبریں آئیں اور اس مرتبہ معاہدے پر حکومت کی جانب سے وزیر مذہبی امور نور الحق قادری اور سیکریٹری داخلہ بریگیڈئیر اعجاز شاہ سمیت کئی حکام نے دستخط کیے۔
مولانا خادم حسین کی وفات
اس معاہدے کے دو ہی دن بعد یعنی جمعرات 19 نومبر 2020 کی شام تحریک لّبیک کے بانی امیر مولانا خادم حسین رضوی ایک ہنگامہ خیز اور شہرت و تنازعات سے بھرپور زندگی گزار کر محض چند روزہ معمولی بیماری کے بعد 54 برس کی عمر میں لاہور میں انتقال کر گئے۔
شیخ زید ہسپتال کے ریکارڈ کے مطابق جمعرات کی شب 8 جب کر 48 منٹ پر جب انھیں ہسپتال لایا گیا تو وہ زندہ نہیں تھے۔ اُن کی نمازِ جنازہ 21 نومبر کی صبح 10 بجے مینارِ پاکستان لاہور میں ادا کی گئی جس میں بلا مبالغہ لاکھوں افراد نے شرکت کی۔
انھیں لاہور کی 'مسجدِ رحمت اللعالمین' کے 'مدرسۂ ابوذر غفّاری' کے احاطے میں دفن کیا گیا اور 21 نومبر 2020 کو ان کے صاحبزادے سعد حسین رضوی کو ان کا جانشین اور تحریک کا دوسرا امیر مقرر کر دیا گیا۔
سعد رضوی اپنے والد کے مدرسے ابوذر غفاری میں درس نظامی (ایم اے کے مساوی مذہبی تعلیم) کے طالبعلم رہے۔
اپنے والد اور پیشرو خادم رضوی کی طرح سعد حسین رضوی نے بھی احتجاج کا راستہ ہی اپنایا۔
نئی قیادت نے جنوری 2021 میں حکومت کو تنبیہ کی کہ اگر فرانسیسی سفیر کی بیدخلی کے معاہدے پر 17 فروری تک عملدرآمد نہ ہوا تو تحریک سڑکوں پر احتجاج کرے گی۔
اس دھمکی پر ایک بار پھر حکومت اور تحریک لّبیک کے نئے امیر کے درمیان معاہدہ پر دستخط کیے گئے۔
اس نئے معاہدے کے تحت یہ طے ہوا کہ نہ صرف حکومت کو فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے لیے 20 اپریل 2021 تک پارلیمان سے رجوع کرے گی بلکہ فورتھ شیڈول (نقل و حرکت سے حُکّام کو آگاہ رکھنے والے کڑے قوانین) میں شامل کیے جانے والے تحریک لّبیک کے تمام اراکین کے نام بھی فہرست سے خارج کر دیے جائیں گے۔
'لیکن پھر ایک اچانک فیصلے کے تحت 12 اپریل 2021 کو سعد رضوی کو حراست میں لے کر اُن پر انسداد دہشت گردی قانون کے تحت مقدمہ قائم کر دیا گیا۔'
اور رضوی کی گرفتاری سے تحریک لّبیک کے کارکنوں اور حامیوں میں زبردست بے چینی پھیل گئی۔
ایک بار پھر لاہور ، کراچی اور اسلام جیسے شہروں سمیت کئی شہروں میں دھرنے دیے گئے۔ سڑکیں، شاہراہیں اور راستے بند کر دیے گئے ٹریفک معطل ہوگیا۔ احتجاج کا دائرہ سندھ اور بلوچستان تک پھیل گیا اور خضدار میں ایک ہلاکت کے بعد صورتحال اور کشیدہ ہوگئی۔ ملک بھر میں عوام شدید پریشانی کا شکار دکھائی دیے۔
اس بار احتجاج پر قابو پانے کی کوششوں میں دو پولیس اہلکاروں سمیت پانچ افراد ہلاک اور 300 سے زائد زخمی ہوئے۔
جیل حُکّام اور تحریک لّبیک کے رہنماؤں دونوں ہی نے دعویٰ کیا کہ سعد رضوی اور رہنماؤں کو 20 اپریل تک رہا کر دیا جائے مگر ایسا نہیں ہو سکا۔
شیخ زید ہسپتال کے ریکارڈ کے مطابق جمعرات کی شب 8 جب کر 48 منٹ پر جب انھیں ہسپتال لایا گیا تو وہ زندہ نہیں تھے۔ اُن کی نمازِ جنازہ 21 نومبر کی صبح 10 بجے مینارِ پاکستان لاہور میں ادا کی گئی جس میں بلا مبالغہ لاکھوں افراد نے شرکت کی۔
انھیں لاہور کی 'مسجدِ رحمت اللعالمین' کے 'مدرسۂ ابوذر غفّاری' کے احاطے میں دفن کیا گیا اور 21 نومبر 2020 کو ان کے صاحبزادے سعد حسین رضوی کو ان کا جانشین اور تحریک کا دوسرا امیر مقرر کر دیا گیا۔
سعد رضوی اپنے والد کے مدرسے ابوذر غفاری میں درس نظامی (ایم اے کے مساوی مذہبی تعلیم) کے طالبعلم رہے۔
اپنے والد اور پیشرو خادم رضوی کی طرح سعد حسین رضوی نے بھی احتجاج کا راستہ ہی اپنایا۔
نئی قیادت نے جنوری 2021 میں حکومت کو تنبیہ کی کہ اگر فرانسیسی سفیر کی بیدخلی کے معاہدے پر 17 فروری تک عملدرآمد نہ ہوا تو تحریک سڑکوں پر احتجاج کرے گی۔
اس دھمکی پر ایک بار پھر حکومت اور تحریک لّبیک کے نئے امیر کے درمیان معاہدہ پر دستخط کیے گئے۔
اس نئے معاہدے کے تحت یہ طے ہوا کہ نہ صرف حکومت کو فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے لیے 20 اپریل 2021 تک پارلیمان سے رجوع کرے گی بلکہ فورتھ شیڈول (نقل و حرکت سے حُکّام کو آگاہ رکھنے والے کڑے قوانین) میں شامل کیے جانے والے تحریک لّبیک کے تمام اراکین کے نام بھی فہرست سے خارج کر دیے جائیں گے۔
'لیکن پھر ایک اچانک فیصلے کے تحت 12 اپریل 2021 کو سعد رضوی کو حراست میں لے کر اُن پر انسداد دہشت گردی قانون کے تحت مقدمہ قائم کر دیا گیا۔'
اور رضوی کی گرفتاری سے تحریک لّبیک کے کارکنوں اور حامیوں میں زبردست بے چینی پھیل گئی۔
ایک بار پھر لاہور ، کراچی اور اسلام جیسے شہروں سمیت کئی شہروں میں دھرنے دیے گئے۔ سڑکیں، شاہراہیں اور راستے بند کر دیے گئے ٹریفک معطل ہوگیا۔ احتجاج کا دائرہ سندھ اور بلوچستان تک پھیل گیا اور خضدار میں ایک ہلاکت کے بعد صورتحال اور کشیدہ ہوگئی۔ ملک بھر میں عوام شدید پریشانی کا شکار دکھائی دیے۔
اس بار احتجاج پر قابو پانے کی کوششوں میں دو پولیس اہلکاروں سمیت پانچ افراد ہلاک اور 300 سے زائد زخمی ہوئے۔
جیل حُکّام اور تحریک لّبیک کے رہنماؤں دونوں ہی نے دعویٰ کیا کہ سعد رضوی اور رہنماؤں کو 20 اپریل تک رہا کر دیا جائے مگر ایسا نہیں ہو سکا۔
تحریک لّبیک کالعدم قرار
تحریک لّبیک کے رجوع کرنے پر لاہور ہائی کورٹ کے جائزہ بورڈ نے بھی کہا کہ سعد رضوی کو حراست میں رکھے جانے کا کوئی جواز نہیں بنتا پھر بھی حکومت ان کی حراست کی مُدّت 90 روز کے لیے بڑھا دی گئی اور 14 اپریل کو موجودہ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے تحریک لّبیک پاکستان کو 'عسکریت پسند جماعت' قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کردی یعنی 'کالعدم' قرار دے دیا۔ تحریک لّبیک کے تمام مالی اثاثے منجمد کر کے سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی۔
لیکن چند ہی روز میں اسی حکومت نے جس نے تحریک لّبیک پر پابندی لگا کر اُسے کالعدم قرار دیا ، پھر اسی تحریک سے نہ صرف مذاکرات کیے بلکہ معاہدے کی پاسداری کے طور پر 20 اپریل کو فرانسیس سفیر کی ملک بدری سے متعلق قرارداد بھی پارلیمان میں پیش کر دی۔
لیکن تب بھی کوٹ لکھپت جیل میں قید سعد رضوی کو رہا نہ کیا گیا بلکہ 9 اکتوبر کو حکومت نے سعد رضوی کو رہا کیے جانے کے بارے میں لاہور ہائی کورٹ کے احکامات پر سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔
تحریک لّبیک نے دھمکی کہ اگر سعد رضوی 21 اکتوبر تک رہا نہ کیے گئے تو پھر دھرنا دیا جائے گا۔
سعد رضوی کی حراست کے خلاف بالآخر تحریک کے مشتعل کارکن 20 اکتوبر 2021 کو سڑکوں پر نکل آئے اور ملک کے بیشتر شہر ایک بار پھر حکومت اور تحریک کی اس 'پنجہ آزمائی' میں میدان کارزار بن گئے۔
اس بار لاہور کی ملتان روڈ سے شروع ہونے والی دو ہفتوں کی اس احتجاجی مہم میں چھ پولیس اہلکار ہلاک ہوئے درجنوں افراد زخمی ہوئے اور کروڑوں روپے کی املاک کو اور کروڑوں ڈالرز کے کاروبار کو نقصان ہوا۔ جبکہ لاہور میں منظم و مشتعل مطاہرین نے پولیس کے ضلعی افسر ایس پی سمیت 16 اہلکاروں کو یرغمال بنالیا۔
اس سوال پر کہ پولیس مشتعل مظاہرین پر قابو پانے کی بھرپور کوشش کرتی کیوں دکھائی نہیں دیتی ایک صوبے کے سابق آئی جی نے کہا کہ 'پولیس افسر حکومت کے حکم پر گولی چلائے مظاہرین کی ہلاکت ہو جائے تو انکوائری (تحقیات) بھگتے، نہ چلائے اور پولیس اہلکار شہید ہو جائیں تو انکوائری بھگتے! پھر کیا ہوتا ہے؟ حکومتِ وقت تو سیاسی مصلحت سے کام لے کر دوسرے دن یا دوسرے ہفتے مذاکرات بھی کر لیتی ہے معاہدہ بھی۔ اس بار بھی 6 پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ اور آپ نے کیا کیا؟ معاہدے و معافی کا وعدہ! شہید بھی پولیس ہوئی اور 4 نومبر کو تادیبی کارروائی کا سامنا بھی پولیس کو کرنا پڑا اور بطور سزا پورے پنجاب میں تبادلے بھی پولیس افسروں کے ہوئے۔'
اب جس معاہدے کے تحت سعد رضوی کو رہا کیا گیا ہے اس کو طے کرنے والی کمیٹی کے رکن اور پاکستان کی رویت ہلال کی سرکاری کمیٹی کے سابق سربراہ مفتی منیب نے 31 اکتوبر کو حکومت کی طرف سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ہمراہ پریس کانفرنس میں فریقین نے معاہدہ ہوجانے کا اعلان کیا لیکن اُس کی شرائط یا تفصیلات آج تک دونوں جانب سے ہی ظاہر نہیں کی گئیں۔
اور اب 18 نومبر کو پاکستانی کے وفاقی وزیر اطلاعات فوّاد چوہدری کا یہ موقف سامنے آیا کہ 'حکومت اور ریاست انتہا پسندی سے مکمل طور پر
لڑنے کے لیے تیار نہیں۔ ٹی ایل پی (تحریک لّبیک پاکستان) کے کیس میں ریاست کو پیچھے ہٹنا پڑا۔'
سورس
لیکن چند ہی روز میں اسی حکومت نے جس نے تحریک لّبیک پر پابندی لگا کر اُسے کالعدم قرار دیا ، پھر اسی تحریک سے نہ صرف مذاکرات کیے بلکہ معاہدے کی پاسداری کے طور پر 20 اپریل کو فرانسیس سفیر کی ملک بدری سے متعلق قرارداد بھی پارلیمان میں پیش کر دی۔
لیکن تب بھی کوٹ لکھپت جیل میں قید سعد رضوی کو رہا نہ کیا گیا بلکہ 9 اکتوبر کو حکومت نے سعد رضوی کو رہا کیے جانے کے بارے میں لاہور ہائی کورٹ کے احکامات پر سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔
تحریک لّبیک نے دھمکی کہ اگر سعد رضوی 21 اکتوبر تک رہا نہ کیے گئے تو پھر دھرنا دیا جائے گا۔
سعد رضوی کی حراست کے خلاف بالآخر تحریک کے مشتعل کارکن 20 اکتوبر 2021 کو سڑکوں پر نکل آئے اور ملک کے بیشتر شہر ایک بار پھر حکومت اور تحریک کی اس 'پنجہ آزمائی' میں میدان کارزار بن گئے۔
اس بار لاہور کی ملتان روڈ سے شروع ہونے والی دو ہفتوں کی اس احتجاجی مہم میں چھ پولیس اہلکار ہلاک ہوئے درجنوں افراد زخمی ہوئے اور کروڑوں روپے کی املاک کو اور کروڑوں ڈالرز کے کاروبار کو نقصان ہوا۔ جبکہ لاہور میں منظم و مشتعل مطاہرین نے پولیس کے ضلعی افسر ایس پی سمیت 16 اہلکاروں کو یرغمال بنالیا۔
اس سوال پر کہ پولیس مشتعل مظاہرین پر قابو پانے کی بھرپور کوشش کرتی کیوں دکھائی نہیں دیتی ایک صوبے کے سابق آئی جی نے کہا کہ 'پولیس افسر حکومت کے حکم پر گولی چلائے مظاہرین کی ہلاکت ہو جائے تو انکوائری (تحقیات) بھگتے، نہ چلائے اور پولیس اہلکار شہید ہو جائیں تو انکوائری بھگتے! پھر کیا ہوتا ہے؟ حکومتِ وقت تو سیاسی مصلحت سے کام لے کر دوسرے دن یا دوسرے ہفتے مذاکرات بھی کر لیتی ہے معاہدہ بھی۔ اس بار بھی 6 پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ اور آپ نے کیا کیا؟ معاہدے و معافی کا وعدہ! شہید بھی پولیس ہوئی اور 4 نومبر کو تادیبی کارروائی کا سامنا بھی پولیس کو کرنا پڑا اور بطور سزا پورے پنجاب میں تبادلے بھی پولیس افسروں کے ہوئے۔'
اب جس معاہدے کے تحت سعد رضوی کو رہا کیا گیا ہے اس کو طے کرنے والی کمیٹی کے رکن اور پاکستان کی رویت ہلال کی سرکاری کمیٹی کے سابق سربراہ مفتی منیب نے 31 اکتوبر کو حکومت کی طرف سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ہمراہ پریس کانفرنس میں فریقین نے معاہدہ ہوجانے کا اعلان کیا لیکن اُس کی شرائط یا تفصیلات آج تک دونوں جانب سے ہی ظاہر نہیں کی گئیں۔
اور اب 18 نومبر کو پاکستانی کے وفاقی وزیر اطلاعات فوّاد چوہدری کا یہ موقف سامنے آیا کہ 'حکومت اور ریاست انتہا پسندی سے مکمل طور پر
لڑنے کے لیے تیار نہیں۔ ٹی ایل پی (تحریک لّبیک پاکستان) کے کیس میں ریاست کو پیچھے ہٹنا پڑا۔'
سورس