بے گھر ہونے کے ساتھ ساتھ سیلاب متاثرین کا ذریعہ معاش بھی چھن گیا

floo11j11.jpg

سیلاب متاثرین کا کہنا ہے کہ سیلاب نے چھت تو چھینی ہی تھی، ہزاروں خاندانوں سے روزگار بھی چھین لیا، بلوچستان میں سیلابی ریلوں نے سیب کے ہزاروں درخت جڑوں سے اکھاڑ دیے۔


سیلابی ریلوں نے مقامی کسانوں سے ذریعہ معاش بھی چھین لیا، متاثرہ علاقوں میں سیب کے 50 فیصد باغات تباہ ہوگئے جس سے ہزاروں زمیندار دیوالیہ ہو گئے۔

بعض سیلاب متاثرین کے مال مویشی بھی سیلاب کی نذر ہوگئے جو تونسہ، راجن پور کے متاثرین کا روزگار کا اہم ذریعہ تھا۔


متاثرین کے مطابق بچ جانے والی سیب کی پیداوار کا راستے بند ہونے کے باعث منڈی تک پہنچنا مشکل ہو گیا ہے۔

دوسری جانب سیلاب متاثرین نے حکومت کی جانب سے ملنے والی امداد پر بھی شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امداد کے نام پر آٹے کا ایک چھوٹا سا تھیلا دیا جاتا ہے، یہ امداد ہے یا امداد کے نام پر مذاق؟ دنیا بھر سے جو امداد آئی وہ کہاں گئی؟

سیلاب متاثرین کا کہنا ہے کہ ہمارے بچے بخار اور گیسڑو میں مبتلا ہیں، حاملہ خواتین کے لیے بھی سہولیات نہیں ہیں، ہم پہلے سے ہی سیلاب سے متاثر ہیں، خدارا ہمیں مزید اذیت میں مبتلا نہ کیا جائے۔