جب وقت کی وزیر اعظم نے ایک گستاخ رسول کو ملک سے فرار کروادیا تو اس وقت حضرت قائد اہل سنت شاہ احمد نورانی سخت جلال میں تھے، صبح کے پہلے اخبار میں خبر پڑھی تو نشست میں موجود احباب سے استفسار کیا کہ ان کی سزا کیا ہونی چاہیے، حاضرین نشست نے جواب دیا کہ حضرت بہتر سمجھتے ہیں، امام وقت کا جواب تھا کہ ان کی حکومت ختم ہوجائے گی اور اور آئندہ یہ کبھی وزیر اعظم نہیں بن سکیں گی اور ان کے نصیب میں اب در بدر کی ٹھوکریں ہیں، بظاہر یہ بات نا ممکن نظر آرہی تھی مگر ایک ماہ میں وہ حکومت سمٹ گئی اور پھر نہ ختم ہونے والا سفر اور دربدری شروع ہوگئی، ایک جگہ سے دوسری جگہ، ایک ملک میں پناہ پھر کسی اور ملک میں پناہ۔ جب مشرف کا زوال اور 2007 کا آغاز ہوا تو وہی سابق وزیر اعظم ملک میں واپس آئیں، حضرت قائد اہل سنت کا وصال ہوچکا تھا، ہر شخص یہ کہتا تھا کہ موصوفہ یقینی وزیر اعظم ہیں، مگر اللہ کے ولیوں کی زبان سے ادا کئے گئے الفاظ بے مقصد نہیں ہوتے ہیں، چند روز میں سارے کا سارا قافلہ سمٹ گیا اور ممکنہ وزیر اعظم اپنے انجام کو پہنچ گئیں،
پھر کیا ہوا، نواز شریف نے سودکو جائز قرار دیا، ناموس رسالت کے قانون کو چھیڑنے کی کوشش کی،مساجد کی اذانوں کے گلے گھونٹ دئے، موذن اور قاری اور علماء کرام کے خلاف مقدمے درج کئے، پاکستان کے خلاف دشمنوں سے مل کر سازش کی، بھارت سے تجارت کے لئے کشمیر کاز کو کمزور کیا، ایک عاشق رسول غازی ممتاز قادری کو شہید کروادیا اور عقیدہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سنگین ترین سازش کی اور قانون کو بے اثر کرنے کی کوشش کی، میری ناقص عقل نے پہلے واقعہ سے کچھ حاصل کیا تو میں نے یہ کہا کہ انشاء اللہ نواز شریف کا خاندان اب حکومت میں واپس نہیں آسکتا ہے اور ہر وہ شخص جو ختم نبوت کے قانون کے خلاف سازش میں ملوث ہے وہ اپنے انجام تک پہنچ جائے گا۔
انجام کا آغاز ایسے ہی ہوا
مسلم لیگ ن مرکز یا صوبے کہیں بھی حکومت کا حصہ نہیں ہے
میں یہ سمجھتا ہوں کہ آسیہ ملعونہ کے کیس میں جو جو ملوث ہیں ان کا بھی ایسا ہی حال ہونے والا ہے۔ جج صاحب اللہ عزوجل کائنات کا سب سے بڑا منصف ہے اور حقیقی انصاف اپنے قہر اور جلال دونوں سے کرتا ہے
عبداللہ نورانی