بی آر ٹی اور شہباز شریف کا تجربہ
------------------------------------
حکومتی امور چلانے کے لیے تجربہ کار ہونا کس قدر اہم ہے؟ پی ٹی آئی کی حالیہ کارکردگی اس پر شاہد ہے- بھلے سے آپ دیانت دار ہوں، محنتی ہوں، اور فوکسڈ ہوں مگر اگر تجربے کی کمی ہو اور ایک مناسب ٹیم کا ساتھ نہ ہو تو ذاتی اوصاف ہونے کے باوجود اہداف کا حصول ممکن نہیں ہوتا
کامیابی ملنا مزید مشکل ہو جاتی ہے جب حکومت بیساکھیوں پر کھڑی ہو، اداروں کی صورت میں محدودات ہوں، اور حکومتی کرتا دھرتا کنفویژن کا شکار ہوں
جمہوری حکومتوں کے سامنے ایسے مسائل ہونا نئی بات نہیں- قیادت اگر دوراندیش اور قوت فیصلہ رکھتی ہو تو دستیاب مہلت میں بھی پرفارم کرجاتی ہے- پی ٹی آئی حکومت دو سالہ تجرباتی وقت گزار چکی، اب عمل کرنے اور کچھ زمینی منصوبوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے جنھیں انتخابی مدت کے پورا ہونے پر کیش کروا سکے- اس مقصد کے لیے اسے شہبازشریف تجربے سے مستفید ہونا چاہیے
سوال یہاں شہبازشریف سے مشورہ یا خدمات مستعار لینے کا نہیں بلکہ اس حکمتِ عملی کو سمجھنا ہے جو کئی ادوار کے بعد شریف برادران جان وسمجھ سکے
سال 2008 کے الیکشن کے بعد شہباز شریف نے بڑے عوامی منصوبوں پر بیوروکریسی سے معمول کے مطابق کام لینے کی بجاۓ یہ راہ اپنایا کہ اسے
incentivize
کیا- قابل افسران کی فہرست مرتب کرنے کے بعد انہیں پروجیکٹ مینجر کے طور پر الگ سے مشاہرہ دیا- ان سہولیات دینے کی دیر تھی کہ منصوبے دنوں ہفتوں میں مکمل ہونے لگے- یہ وہی چاۓ پانی ہے جس کا ہمارے معاشرے میں رواج ہے جو گھسے رِنگ پسٹن کو گریس لگانے کا کام کرتی ہے- زنگ لگی سرکاری مشینری سے بی آر ٹی ایسے بڑے منصوبے تبھی بروقت مکمل ہوں گے جب انہیں سرکاری تنخواہ سے ہٹ کر مالی ترغیب ملے گی
اس حکمت عملی میں اگرچہ نقائص ہیں مگر حکومت مثالیت پسند بننے کی بجاۓ حقیقت پسند بنے- زمینی حقائق کو مدنظر رکھے- موجودہ کارکردگی کے ساتھ عمران خان کو دوبارہ کوئی چانس نہیں ملنے والا- تو جو کرنا ہے انہی کچھ ماہ وسال میں ہونا ہے
عمران خان اپنی اسٹریٹجی پر نظرِ ثانی کریں- کابینہ میں بیٹھے چلے کارتوسوں سے تو کچھ ہونے والا نہیں- کچھ آوٹ آف باکس کرنے کی ضرورت ہے جس سے تبدیلی سرکار کا بھرم رہ جاۓ
------------------------------------
حکومتی امور چلانے کے لیے تجربہ کار ہونا کس قدر اہم ہے؟ پی ٹی آئی کی حالیہ کارکردگی اس پر شاہد ہے- بھلے سے آپ دیانت دار ہوں، محنتی ہوں، اور فوکسڈ ہوں مگر اگر تجربے کی کمی ہو اور ایک مناسب ٹیم کا ساتھ نہ ہو تو ذاتی اوصاف ہونے کے باوجود اہداف کا حصول ممکن نہیں ہوتا
کامیابی ملنا مزید مشکل ہو جاتی ہے جب حکومت بیساکھیوں پر کھڑی ہو، اداروں کی صورت میں محدودات ہوں، اور حکومتی کرتا دھرتا کنفویژن کا شکار ہوں
جمہوری حکومتوں کے سامنے ایسے مسائل ہونا نئی بات نہیں- قیادت اگر دوراندیش اور قوت فیصلہ رکھتی ہو تو دستیاب مہلت میں بھی پرفارم کرجاتی ہے- پی ٹی آئی حکومت دو سالہ تجرباتی وقت گزار چکی، اب عمل کرنے اور کچھ زمینی منصوبوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے جنھیں انتخابی مدت کے پورا ہونے پر کیش کروا سکے- اس مقصد کے لیے اسے شہبازشریف تجربے سے مستفید ہونا چاہیے
سوال یہاں شہبازشریف سے مشورہ یا خدمات مستعار لینے کا نہیں بلکہ اس حکمتِ عملی کو سمجھنا ہے جو کئی ادوار کے بعد شریف برادران جان وسمجھ سکے
سال 2008 کے الیکشن کے بعد شہباز شریف نے بڑے عوامی منصوبوں پر بیوروکریسی سے معمول کے مطابق کام لینے کی بجاۓ یہ راہ اپنایا کہ اسے
incentivize
کیا- قابل افسران کی فہرست مرتب کرنے کے بعد انہیں پروجیکٹ مینجر کے طور پر الگ سے مشاہرہ دیا- ان سہولیات دینے کی دیر تھی کہ منصوبے دنوں ہفتوں میں مکمل ہونے لگے- یہ وہی چاۓ پانی ہے جس کا ہمارے معاشرے میں رواج ہے جو گھسے رِنگ پسٹن کو گریس لگانے کا کام کرتی ہے- زنگ لگی سرکاری مشینری سے بی آر ٹی ایسے بڑے منصوبے تبھی بروقت مکمل ہوں گے جب انہیں سرکاری تنخواہ سے ہٹ کر مالی ترغیب ملے گی
اس حکمت عملی میں اگرچہ نقائص ہیں مگر حکومت مثالیت پسند بننے کی بجاۓ حقیقت پسند بنے- زمینی حقائق کو مدنظر رکھے- موجودہ کارکردگی کے ساتھ عمران خان کو دوبارہ کوئی چانس نہیں ملنے والا- تو جو کرنا ہے انہی کچھ ماہ وسال میں ہونا ہے
عمران خان اپنی اسٹریٹجی پر نظرِ ثانی کریں- کابینہ میں بیٹھے چلے کارتوسوں سے تو کچھ ہونے والا نہیں- کچھ آوٹ آف باکس کرنے کی ضرورت ہے جس سے تبدیلی سرکار کا بھرم رہ جاۓ