بنیاد پرستی اور ذرائع ابلاغ پر مباحثے کی حقیقت

6iftikhardurani.jpg


افتخار درانی

مغربی قوتوں کیجانب سے ابلاغیات کے مختلف طریقوں کے استعمال پر بہت کچھ تحریر کیا جا چکا ہے جو قوموں پر اپنا تسلط جمانے کیلئے میڈیا کو ہمیشہ ایک سیاسی آلے کے طور پر برتتی آئی ہیں۔ اہل عالم نے سرد جنگ کے دنوں میں اس کا مشاہدہ کیا جب میڈیا کی مدد سے ایک خطرناک اور فساد انگیز مشرقی اشتراکی قوت روس کے مقابلے میں امریکہ کی بطور ایک زیرک اور محب وطن قوت کے طور پر قومی شناخت کی ازسرِ نو داغ بیل ڈالی گئی۔

عموماً صفِ اوّل کے ذرائع ابلاغ، مطلق العنان حکومتوں کے حامل چین اور شمالی کوریا کے حوالے سے پراپیگنڈہ کرنے والی قوتیں قرار دیتے ہیں مگر یہ گمراہ کن ہے کیونکہ تاریخ کی گواہی اس سے یکسر مختلف ہے۔

انیسویں صدی کے یونانی انقلاب کے دوران عثمانیوں کے اقتدار سے نجات کیلئے عثمانی سلطنت کیخلاف اسلاموفوبیا کا تاثر تراشا گیا اور جھوٹے پراپیگنڈے کیلئے اس کا خوب ڈھنڈورا پیٹا گیا۔

اکیسویں صدی میں نو گیارہ کے واقعے اور افغانستان میں طالبان کیخلاف جنگ کے بعد اسلاموفوبیا کو ہوا دینے کیلئے ذرائع ابلاغ کو برتا گیا جس کی مدد سے انفرادی گروہوں، جن میں ہر قسم کے لوگ موجود ہوتے ہیں، کی بجائے مجموعی طور پر مسلمانوں کی پیشانی پر منفی تشخص چسپاں کیا گیا۔ کم و بیش یہی معاملہ اہلِ فلسطین سے بھی روا رکھا گیا جن کیخلاف نفرت و عداوت کو ہوا دینے کیلئے اسرائیلی اداروں نے عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعے فلسطینیوں کی سرگرمیوں کے حوالے تواتر سے جھوٹی معلومات کو فروغ دیا۔

عراق جنگ کے پس منظر میں بھی اصلاً بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار کے طور پر ذرائع ابلاغ ہی کو بروئے کار لایا گیا جن سے دنیا بھر کے مسلمانوں کیخلاف منفی تاثرات پختہ ہوا۔

پراپیگنڈہ کے آثار کو تو ہر جگہ پائے جاتے ہیں مگر سماجی میڈیا کے ذریعے اس کے دائرہ اثر میں غیر معمولی وسعت پیدا ہوئی ہے۔ دورِ جدید میں ہم اشتہارات، ذرائع ابلاغ کی مہمات حتٰی کہ سماجی میڈیا پر چلائے جانے والے معمول کے مواد کے ہمارے فکری عمل پر مرتب ہونے والے اثرات سے کسی حد تک بے بہرہ ہو چکے ہیں اور اکثر اوقات ہمیں مقبولِ عام رجحانات کی جانب کشش محسوس کرتے ہیں۔ پراپیگنڈے کیلئے استعمال کی جانے والی لفاظی و اصطلاحات پانچویں نسل کی جنگ (ففتھ جنریشن وارفیئر) کا ایک جزوِ لاینفک بن چکا ہے۔

ہمارے الفاظ کے چناؤ اور جملوں کی ترکیب سے بات کا پورا سیاق و سباق بدل جاتا ہے جس کا براہِ راست اثر اس بات پر پڑتا ہے جو ہم کہنا چاہتے ہیں۔ اس کا اطلاق انہی الفاظ و کلام پر نہیں ہوتا جنہیں ہم دورانِ گفتگو دوسروں کے سامنے رکھتے ہیں بلکہ ان پر بھی ہوتا ہے جنہیں ہم خود کلامی کیلئے استعمال میں لاتے ہیں۔

سب سے پہلے ہمیں یہ ادراک ہونا چاہئیے کہ معلومات کے حصول کیلئے ہم دستیاب وسائل یا پلیٹ فارمز میں سے جس بھی وسیلے پر انحصار کرتے ہیں اس پر مختلف قسم کی آراء و نکتہ ہائے نظر کی بھرمار ہوتی ہے۔ جب یہ ادراک حاصل ہوجائے تو پھر خود کو پراپیگنڈہ کے منفی اثرات سے محفوظ بنانے کیلئے تین تدابیر اختیار کرسکتے ہیں۔

سب سے پہلے تو یہ کہ جب بھی کسی فرد یا صورتحال کے متعلق آپ کی فکر و رائے میں تبدیلی پیدا کرنے والا کوئی خیال آپ کے ذہن میں قدم رکھتا ہے تو آپ دیکھئے کہ آیا یہ خیال آپ کے ذہن میں منفی پہلو ابھارتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو آپ ایک لمحے کو رکئیے اور خود کو اس خیال سے الگ کرتے ہوئے اس کے متبادل خیالات کو اپنے ذہن میں جگہ دیجئے اور اس منفی پہلو کو مثبت پہلو سے بدلنے کی کوشش کیجئے۔

اہلِ اسلام بشمول اہلِ پاکستان کے حوالے سے سماج میں پھیلائے گئے منفی تاثر کی تازہ ترین مثال “اسلامی شدت پسندی“ کی ہے۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے اس پہلو کو یکسر انداز کرتے ہوئے کہ اس تاثر سے کسی خاص قوم کے لوگوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، اس غلط تاثر کو دنیا بھر میں ہوا دی۔

اس تاثر نے ان نظریہ سازوں، دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی ساری محنت پر پانی پھر دیا جو نہایت محنت سے معاملے کے خوبصورت اور مثبت پہلو اجاگر کرتے اور تعمیری مباحثے اور گفتگو کے امکانات کو یکسر مسدود کردیا کیونکہ پراپیگنڈہ کے زیرِ اثر لوگ پہلے ہی منفی تصورات اپنے ذہنوں میں پختہ کرچکے تھے اور اس کے علاوہ کسی دوسرے امکان کو دل و دماغ میں جگہ دینے کو تیار نہیں۔

پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے متعارف کردہ ”یکساں تعلیمی نصاب“ کو بھی اسی قسم کی صورتحال کا سامنا ہے جس کے بارے میں اس الزام کو ہوا دی گئی ہے کہ اس کے پیشِ نظر پاکستان میں اسلامی بنیاد پرستی اور انتہاء پسندی کا فروغ ہے۔ حالانکہ یکساں نصابِ تعلیم کا مقصد سماج میں مختلف طبقات کی ضروریات سے مسابقت رکھنے والے مروجہ انواع و اقسام کے تعلیمی نظاموں اور طبقاتی تفریق کے خاتمے کی سبیل کرتے ہوئے ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں میں یکساں نصاب و نظامِ تعلیم لاگو کرنا تھا۔

چنانچہ معاملے کو باقاعدہ سمجھے بغیر دیر پا اہداف و توجیہات کو یکسر انداز کرتے ہوئے یکساں نصابِ تعلیم کے باب میں بھی نہایت لاپرواہی سے ”بنیاد پرستی“ اور ”شدت پسندی“ جیسی اصطلاحات برتی گئیں۔

اس معاملے کو سمجھنے کیلئے کہ بنیاد پرستی کیونکر وقوع پذیر ہوتی ہے، برطانیہ کی ایک دانشگاہ، نیوکاسل یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ پانے والے ڈاکٹر مبارک احمد کی جانب رجوع کیجئے جنہوں نے ”نظریہ اور بنیاد پرستی“ کے عنوان سے تحریر کئے گئے اپنے مقالے میں اسلامی بنیاد پرستوں کے ذہن کے مطالعے کیلئے ہانا آرڈنٹ کے معیارِ نظریہ سے استفادہ کیا۔

اس مطالعے میں اسلامی بنیاد پرستی کے مرکزی خواص کا سراغ لگانے اور اس ذہنیت کو سمجھنے کیلئے ایک جدید اور اچھوتا مطالعاتی سانچہ (Theoretical Framework) تیار کیا اور اس کی مدد سے ہانا آرڈنٹ کے معیارِ نظریہ کی روشنی میں ایک نظریاتی ذہن کے حوالے سے پانچ بنیادی عناصر کی نشاندہی کی جو کہ درج ذیل ہیں؛

1- خیال کا مافوق الفطرت ماخذ
2۔ عالمی غلبے کا دعویٰ
3۔ تشدد اور اقدام کا اعلان
4۔ معروضی دشمن
5۔ مصدقہ حقائق کا ارتداد

اگر یکساں نصابِ تعلیم کے بارے میں بنیاد پرستی کے فروغ کا آلہ ہونے کا تاثر قبول کیا جائے تو اسے مذکورہ بالا تمام پانچ بنیادوں پر پورا اترنا ہوگا جس کے امکانات یکسر ناپید ہیں کیونکہ یکساں نصابِ تعلیم کے اغراض و مقاصد جن میں سماج میں اتحاد، یکسانیت اور امن کا فروغ شامل ہیں، اس سب سے قطعاً مختلف ہیں جن کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے۔

پاکستانی ذرائع ابلاغ اہلِ مغرب کی جانب سے تراشیدہ مخصوص اصطلاحات کی تاریخ، توجیہ، پس منظر اور اغراض و مقاصد سے واقفیت کیلئے کسی تحقیق کی زحمت گوارا کئے بغیر نہایت فیاضی و دریا دلی سے ”بنیاد پرستی“ اور ”شدت پسندی“ جیسی اصطلاحات برتتے ہیں۔ یہ رسم یکساں نصابِ تعلیم تک ہی محدود نہیں بلکہ روزمرہ کی بنیاد پر ذرائع ابلاغ میں موضوعِ سخن بننے والے موضوعات و مضامین تک وسیع ہے۔

چنانچہ یکساں نصابِ تعلیم پر یہ الزام کہ اس سے نوجوانوں میں بنیاد پرستی پھیلے گی یا وہ شدت پسندی کی جانب مائل ہونگے یکسر بے بنیاد ہے کیونکہ مذکورہ بالا کسوٹی پر پرکھنے پر اس الزام میں کوئی جان نہیں ملتی۔ عمران خان بارہا بین المذاہب ہم آہنگی کی افادیت پر اصرار کرچکے ہیں اور اگر صورتحال پر بغور نگاہ دوڑائیں تو یکساں نصاب تعلیم سے یہ خیر بھی برآمد ہوگی کہ مذہب کی حقیقی اساس جو امن، تکریم اور منطق پر استوار ہے سے نوجوانوں کو روشناس کروایا جائے گا۔

صاحبِ تحریر گورنمنٹ اینڈ پبلک پالیسی میں ڈاکٹریٹ ہیں اور @DuraniIftikhar پر قابلِ رسائی ہیں۔
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
افغانستان میں روس کو شکست دینے کے بعد مغرب نے بیس سال اسلام مخالف پروپیگنڈا اور مسلمانوں کے خلاف جنگ میں صرف کئے۔ اس دوران روس اور چین دونوں معاشی اور عسکری قوت بن گئے اور پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک مغرب سے بیزار ہو گئے۔
 

Wake Up Pakistan

Chief Minister (5k+ posts)
افغانستان میں روس کو شکست دینے کے بعد مغرب نے بیس سال اسلام مخالف پروپیگنڈا اور مسلمانوں کے خلاف جنگ میں صرف کئے۔ اس دوران روس اور چین دونوں معاشی اور عسکری قوت بن گئے اور پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک مغرب سے بیزار ہو گئے۔
Alhamdulillah

ALLAH is best planner