اسٹبلشمنٹ نے اب اپنے کردار سے توجہ ہٹانے کے لیے بشیر میمن کو میدان میں اتار دیا ہے . اب سارا ملبہ عمران نیازی پر ڈالا جا رہا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ شریف خاندان سے سیاسی انتقام کی سب سے بڑی وجہ عمران نیازی ہے اور اسٹبلشمنٹ کا اس سیاسی انتقام سے کوئی تعلق نہیں . شریف خاندان کو سزا عمران نیازی کے دور میں نہیں ہوئی نگران حکومت کے دور میں ہوئی . عمران نیازی کی بڑھکیں اپنی جگہ لیکن وہ نون لیگ کو اتنا نقصان نہیں پہنچا سکا جتنا اسٹبلشمنٹ نے پہنچایا . اگر عمران نیازی انتقام میں اندھا ہوتا تو جو کام بشیر میمن نے نہیں کیا کوئی اور کر دیتا اور کسی اور طریقے سے کر دیتا . شریف خاندان نے جب جب اسٹبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے نقصان اٹھایا ہے . اس لیے اب شریف خاندان نے بھی یہ سوچ لیا ہے کہ انہیں بشر میمن کی بتی کے پیچھے لگ کر ان تمام جرنیلوں کو کلین چٹ دینی ہے جن کے نام وہ اپنی تقریروں میں لیتے رہے. مریم نواز کو چوہوں کے ساتھ کھانا کھلایا اور اس کے باتھ روم میں کیمرے لگاۓ . مطلب سو جوتے بھی کھاۓ اور سو پیاز بھی کھاۓ . اس بات کا اظہار الیکشن میں نون لیگ کا دھاندلی کا واویلا ہے جس کا مطلب واضح ہے نون لیگ اب نظام کی تبدیلی اور انقلاب کی سیاست نہیں کرے گی بلکہ ووٹ بینک اور الیکشن کی سیاست کرے گی
عمران نیازی بھی اپنی کھوتے والی اڑی پر ڈٹ گیا ہے وہ اسمبلیاں توڑنے کے لیے تیار ہے لیکن بزدار کی تبدیلی کے لیے تیار نہیں . اس لیے کھیل اب دلچسپ مرحلے میں داخل ہو گیا ہے . ایک طرف اسٹبلشمنٹ کا وہ حصہ ہے جو عمران نیازی کی مدد سے مزید ترقی کرنا چاہتا ہے اور دوسری طرف عمران نیازی کا مخالف دھڑا جو عمران نیازی کو نافرمانی پر سزا دینا چاہتا ہے . عمران نیازی جب بھی دھمکی لگاتا ہے تو وہ اپنے حمایتیوں کو تنبیہ کر رہا ہوتا ہے اگر میں نہ رہا تو تمہاری ترقی بھی نہیں رہے گی . تیسری طرف نواز شریف ان ہاؤس تبدیلی کے لیے تیار نہیں . نتیجے میں شدید قسم کا انتشار نظر آ رہا ہے . اصل لڑائی تو اسٹبلشمنٹ میں موجود عمران نیازی کے مخالفوں اور حامیوں میں ہی ہے . عمران نیازی کے مخالفوں نے اسے بہت زیادہ ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی ہے ترین والا ببو بھی آزمایا ہے لیکن عمران نیازی اپنی ضد پر قائم ہے . اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عمران نیازی کا مخالف دھڑا بہت طاقتور ہے اگر بجٹ کے موقع پر عمران نیازی کی گیم ہو گئی تو ملک میں مزید انتشار ہو گا . اسٹبلشمنٹ نہیں چاہے گی کہ جلد از جلد الیکشن ہوں اس لیے ہو سکتا ہے نگران حکومت لمبے عرصے کے لیے ملک پر مسلط رہے
عمران نیازی بھی اپنی کھوتے والی اڑی پر ڈٹ گیا ہے وہ اسمبلیاں توڑنے کے لیے تیار ہے لیکن بزدار کی تبدیلی کے لیے تیار نہیں . اس لیے کھیل اب دلچسپ مرحلے میں داخل ہو گیا ہے . ایک طرف اسٹبلشمنٹ کا وہ حصہ ہے جو عمران نیازی کی مدد سے مزید ترقی کرنا چاہتا ہے اور دوسری طرف عمران نیازی کا مخالف دھڑا جو عمران نیازی کو نافرمانی پر سزا دینا چاہتا ہے . عمران نیازی جب بھی دھمکی لگاتا ہے تو وہ اپنے حمایتیوں کو تنبیہ کر رہا ہوتا ہے اگر میں نہ رہا تو تمہاری ترقی بھی نہیں رہے گی . تیسری طرف نواز شریف ان ہاؤس تبدیلی کے لیے تیار نہیں . نتیجے میں شدید قسم کا انتشار نظر آ رہا ہے . اصل لڑائی تو اسٹبلشمنٹ میں موجود عمران نیازی کے مخالفوں اور حامیوں میں ہی ہے . عمران نیازی کے مخالفوں نے اسے بہت زیادہ ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی ہے ترین والا ببو بھی آزمایا ہے لیکن عمران نیازی اپنی ضد پر قائم ہے . اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عمران نیازی کا مخالف دھڑا بہت طاقتور ہے اگر بجٹ کے موقع پر عمران نیازی کی گیم ہو گئی تو ملک میں مزید انتشار ہو گا . اسٹبلشمنٹ نہیں چاہے گی کہ جلد از جلد الیکشن ہوں اس لیے ہو سکتا ہے نگران حکومت لمبے عرصے کے لیے ملک پر مسلط رہے