آٹا اور چینی کی قیمتیں غریب کی پنہچ سے باہر ہوچکی ہیں، گیس اور بجلی کی قیمتیں آے دن بڑھتی رہتی ہیں مجھے اس کی بھی پرواہ نہیں ہے۔ کیونکہ گیس میرے گھر میں کبھی لگی ہی نہیں تھی اور بجلی کا میٹر تو عرصہ ہوا کٹ چکا ہے ، ویسے ابھی آج ہی بجلی کے صارفین سے کہا گیا ہے کہ اپنے بلوں میں ایک ایک صفر کا اضافہ کرلیں ، یعنی ایک سو بل تھا تو ایک ہزار سمجھیں اور چار سو تھا تو ایک ہزار چار سو کرلیں، مجھے اپنی فکر نہیں ساتھ والے ماسٹر کا سوچ کر رونا آتا ہے۔ جس کی تنخواہ تو دو سو روپے بڑھی تھی مگر بجلی کا بل ایک ہزار بڑھ گیا؟
دوائیاں تو اب لینی ہی نہیں پڑتیں، جب پیسے ہی نہیں تو دوا کیسی، ویسے بھی ہر بیماری کا علاج بابا فرید کی قبر کی مٹی میں مل جاتا ہے تو پریشانی کیسی؟
پہلے مزدوری کرنے جاتے تو دو روٹی چاے کے ساتھ کھا کر دوپہر کیلئے دو روٹی باندھ کر ساتھ لے جاتے تھے۔ گھر میں آٹا نہ ہوتا تو جہاں مزدوری کرتے وہاں مالک کے گھر والے ترس کھا کر کھانا دے دیتے تھے کہ کام تو انہی کا کرنا ہوتا تھا۔ شام کو تھکے ماندے آتے تو روٹی کے ساتھ دہی میں نمک مرچ ڈال کر بڑا اچھا گزارہ ہوجاتا تھا۔ مگر اب تو عالمی لیول کے لیڈرز اور نیا پاکستان زیر تعمیر ہے، ٹھیکیدار کچھ زیادہ ہی سلو ہے شائد بھاگنے کی تیاری میں ہے۔ ہم دیہاڑی دار لوگ اپنے کام دھندے میں بہت کچھ جان جاتے ہیں، ہمیں پتا ہوتا ہے کہ بلڈنگ کی تعمیر میں کہاں سیمنٹ لگایا اور کہاں سیمنٹ کھایا ہے کہاں سے سریا کم کیا گیا ہے، ہمیں ٹھیکیدار کی چال سے ہی پتا چل جاتا ہے کہ یہ بھاگنے والا ہے اس سے پہلے کہ یہ بھاگ جاے کوی نیا کام ڈھونڈھ لو۔
وزیراعظم صاحب آپ کا نیا پاکستان جس رفتار سے زیر تعمیر ہے یہ نہیں بنے گا اور لگتا ہے کہ یہ ادھوری بلڈنگ سالوں تک بھوت بنگلے کا سماں پیش کرے گی کیونکہ اس کا ٹھیکیدار بھاگنے والا ہے کچھ کرلو، ہمارا کیا ہم تو کانڈی تیسی لے کر پھر فٹ پاتھ پر بیٹھ جائیں گے
چینی ایک سو دس کی بجاے دس روپے بھی کردو تو مجھے کیا میرے پاس تو دس روپے بھی تب ہونگے جب مجھے دیہاڑی ملے گی؟ اور اب دیہاڑی دینے والے بھی ذرا فاصلے پر کھڑے ہوکر دیہاڑی تلاش کررہے ہیں
ہم مزدور لوگ جانتے ہیں کہ خان صاحب کی کابینہ میں ایک بندہ بھی ایسا نہیں جس نے کبھی غربت دیکھی ہو، کبھی دہی میں مرچ نمک ڈال کر روٹی کھای ہو یا جس کے بچوں نے مالک کے بچوں کی اترن پہنی ہو
کابینہ کے اکثر وزیر تو امیرزادے ہیں، بہت ہی نرم و نازک، سرخ و سفید ،تراش خراش لباس، ایسے نفیس طبع کہ ہم مزدور انہین ہاتھ بھی لگادیں تو میلے پڑ جائیں گے
ظاہر ہے شہزادوں کے کام بھی امیرانہ ہوتے ہیں۔ جب گیس خریدنی تھی تو اتفاق سے سوے رہے اور جب آنکھ کھلی تو ایک سو بائیس ارب کا نقصان ہوچکا تھا مجال ہے جو پیشانی پر فکر کا ایک بل بھی آیا ہو،،،، اپنے نفیس سوٹ سے ان دیکھی گرد جھاڑ کر فقط اتنا کہا،،،،، منسٹر ہاوس جانے سے زیادہ ہی ایگزاسٹ ہوگیا تھا۔ اب احتیاط کے ساتھ آرام زیادہ کروں گا
میرا بیٹا کہتا ہے ابا ان وزیروں کو تو ملکہ برطانیہ ہونا چاہئے ان کے سر پر ایک ایک سونے جواہرات کا مرصع تاج بھی ہوجاے تو کیا مضائقہ ہے؟
مجھے ان بے چارے نرم و نازک امیرزادوں سے کوی بیر نہیں ہے، میں تو ان کی لمبی زندگی اور دولت و عیش کوش کی دعا کرتا ہوں میں نہیں چاہتا کہ انکو کبھی کھردرے بان کی چارپای پر مزدور کی طرح کنڈ رگڑنی پڑے
مجھے انکی دولت سے حسد نہیں ہے نہ ہی میں انکا بدخواہ ہوں ، مجھےتو صرف اپنا پوچھنا تھا کہ زندگی کی ہاتھ سے پھسلتی ہوی ڈور کو کیسے روکوں؟؟؟؟
کل ایک کار سے ٹکر ہوگئی جس کے مالک نے مجھے پانچ سو دے دئیے اور دارو پٹی بھی فری میں کروا دی، میرے ساتھی مزدوروں نے کہا کہ پانچ سو کیلئے تم نے جان داو پر لگا دی؟
میں نے کہا کہ مزدور کے پاس داو پر لگانے کیلئے ایک جان ہی تو بچی ہے۔
جنرل صاحب،،،،میں جواب لے کر ہی جاوں گا،،،مجھے پرواہ ہی نہیں حکومت کس کی ہے،،،یہ آپ کی ڈیوٹی ہے آپ ہی جانیں ،،،،،، مجھے تو بس آپ مہربانی کرکے اتنا بتا دو کہ اب میں کیسے جیوں؟؟؟