اے قا ئد ہم شرمندہ ہیں

QaiserMirza

Chief Minister (5k+ posts)
اے قا ئد ہم شرمندہ ہیں


زندہ قومیں ہمیشہ اپنے آزادی کے دن کو پرجوش اور پرعزم طریقے سے مناتی ہیں۔تاریخ کے روح کو فنا کر دینے والے مناظر، ظالموں کے ظلموں کے نشان،اجڑے گھروں کی داستانیں،ڈوبے اور ٹوٹے دل ، روح کو دہلا دینے والے مناظر، ان سب کو فراموش کر کے قومیں صرف اور صرف اس ایک لمحہ کو اپنی راحت کا سامان سمجھتی ہیں، جس ایک لمحہ میں ایک اعلان ان کے ملک کے وجود میں آنے کو یقینی بناتا ہے۔ اسی طرح ہم پاکستانی بھی آزادی کی ان تمام مشکلات، جدوجہد، مسائل اورعزت اورمال کی قربانیوں کو فراموش کرکے صرف 14 اگست کے دن کی پہلی ساعت کی اس گھڑی کو، جس میں برطانیہ کی حکومت نے پاکستان کے خیال کو شرمندہ تعبیر بنانے کی درخواست پر اپنی رضامندی کی مہر لگائی تھی، پورے جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں۔ ذرا سوچیئے تو کیا دلفریب منظر ہے کہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ بلند کرنے والی ساعت قوم کے لئے ان کی تمام قربانیوں سے افضل ہے، جو پاکستان کو حاصل کرنے کے لیے ایک پیشگی قیمت کے طور پر ادا کی گئی۔ مگر قوم پھر بھی پہلے آزادی پر خوش ہوتے ہیں اور بعد میں قربانیوں کو یاد کرتے ہیں۔
آج ہمارے رب نے ہم پر مہربان ہو کر ہمیں ایک اور آزادی کا سال بخشا ہے۔ آزادی کا جشن منانے کے لیے قومیں نت نئے طریقے اپناتی ہیں۔ گھروں کو سجایا جاتاہے، چراغاں کئے جاتے ہیں، خوشیوں کے گیت گائے جاتے ہیں۔ مٹھائیوں اور کھانوں کی خوشبو فضا کو مہکا جاتی ہے۔ نوجوان نسل آزاد فضاﺅں میں سانس لیتے ہوئےآزادی کو محسوس کرتی ہے۔ گو ہر شخص اپنے انداز میں خوشی منا رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح ہم جیسے لوگ اپنے قلم اٹھائے ملک کی وادیوں کی، اس کی مہکی فضاﺅں کی، چمن کے گلوں کی، اس کے قیمتی وسائل و ذخائر کی خوبیوں کو بیان کرنے میں، اپنے ملک کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں زمین آسمان ایک کر دیتے ہیں۔ پر یقین مانیے زندگی میں ایسا کٹھن مرحلہ کبھی درپیش نہ آیا جب ایسی حالت ہوئی کہ قلم اٹھایا پر لکھنے کو الفاظ نہیں تھے۔ حال تو بےحال تھا ہی، دل بھی جذبات سے عاری تھا۔
عام طور پر آزاد قومیں اپنی آزادی کا جشن اس ملک کی خوبیوں ، خوبصورتی اور اچھائیوں کو بیان کر کے مناتی ہیں۔ پر ہم پاکستانیوں کی قسمت دیکھیں کہ ہمارے پاس آزادی کا دن تو ہے، پر جشن منانے کا ساماں موجود نہیں رہا۔ ہم آزادی کا جشن کہاں تلاش کریں۔ وہ علاقے جو پاکستان کی خوبصورتی کے ضامن تھےآج سیلا ب کے پانی کی نذر ہو کر تاریخ کی ایک داستان بن کر رہ گئے ہیں۔ آسمان کی بلندیوں کو چھوتی ہوئی کوہ پیما کی خوبصورت وادیاں، جہاں پر پریاں بسیرا کئے ہوئے تھیں۔ آج وہاں ۲۵۱ لوگ اپنے ارمانوں کی میت لئے دفن ہو گئے ۔ یا پھر اس خصوصیت کو یاد کریں جس کی بناءپر یہ ملک بنا تھا۔ اورجو قوم مساوات اور بھائی چارہ کا درس دیتی تھی۔ آج اسی قوم میں خون کی ہولی صرف اور صرف مفاد پرستی اور خود غرضی کی بناءپر کھیلی جا رہی ہے۔ گویا مایوسی کا یہ عالم ہے کہ اب تو سب کاغذی باتیں لگتی ہیں۔ دل جلانے کی باتیں لگتی ہیں۔
ملک تو پہلے ہی اپنے سرپرستوں کی بدولت بجلی، آٹا اور پٹرول جیسے مسائل سے دوچار تھا۔ اس پر حالا ت کی ستم ظرفی یہ ہوئی کہ قدرت کی شاہکاری کا نمونہ پیش کرنے والی وادیاں ۲۵۱ لوگوں کے لیے قبرستان بن گئیں۔ یہ سب کیوں ہوا ؟ کیسے ہوا؟ کس کی لاپرواہی اتنی جانوں کی ضیاع کا سبب بنی؟سوال در سوال اٹھتے گئے پر جواب۔۔۔۔۔۔ جواب تو بس تحقیقات جاری ہیں کے مقولے پر ختم ہوتا نظر آیا۔ اور یوں سورج غروب ہو گیا۔ اگلی صبح سورج ایک اور ناگہانی عذاب اپنے ساتھ لئے طلوع ہوا۔ او ر یوں بستیاں در بستیاں پانی میں جل تھل کرنے لگیں۔ کہیں سامان گیا تو کہیں جان گئی، کہیں پل ٹوٹے تو کہیں آشیانے ڈوبے، کوئی یتیم ہوا تو کوئی بے اولاد ہو گیا۔ ایک قہر کا عالم جو بستیوں کو اجاڑ گیا۔ ابھی قدرتی آفات سے سنبھلے نہیں کہ انسان نے دلوں کی آگ بھڑکا دی۔ روشنیوں کا شہر اندھیروں میں ڈوب گیا۔ یہ کیسی بے بسی کا عالم ہے جہاں دیا جلنے کے لیے لہو مانگے، جہا ںمفاد پرستی، منافقت اور سیاست اپنا آپ چمکانے کیلیے عوام کی لاشوں کا استعمال کرے۔ کیا اقبال نے ایسے پاکستا ن کا تصور کیا تھا؟ کیا قائد نے ان حالات کی منظر کشائی کی تھی؟ یقینا نہیں ۔۔۔۔ انہوں نے تو ایک اسلامی قلعہ کا تصور کیا تھا۔ جہاں اطمینان ہونا تھا، جہاں اسلام ہونا تھا، جہاں ملک کے سربراہ ملک کی خوشحالی اور فلاح و بہبود کے لیے قربان ہونے تھے۔ پر افسوس ! ۔۔۔۔ اس ملک کو سربراہ تو میسر ہوئے پر کوئی مخلص نہ ہوا۔ کہیں نہ کہیں وہ اپنے عہدے کو قائم رکھنے کی جستجو میں نظر آئے یا پھر بنک بیلنس بنانے میں۔ ملک و قوم کے مفادات کو سوچنا ایک غیر معیاری بات پر غور و فکر کرنے کے مترادف سا بن گیا۔ بیشمار وسائل اور بے بہا وسائل ہونے کے باوجود ملک imf اور بیرونی امداد پر نظریں جمائے کھڑا ہے۔ جس ملکی وسائل اور خزانہ کو عوام کی بہتری او رخوشحالی پر خرچ ہونا چاہیے۔ وہ حکمرانوں کی نا اہلیوں کی بدولت غرق ہوتا چلا جارہا ہے۔ جس کے نتیجے میں عوام بدحال اور نڈھال سی ہو گئی ہے۔ چینی نہیں تو امتحان کی گھڑی ہے۔ آٹا نہیں تو امتحان کی گھڑی ہے۔ بجلی نہیں تو امتحان کی گھڑی ہے۔ سیلاب زدگان کے لیے کوئی راحت نہیں تو امتحان کی گھڑی ہے۔ کراچی کی لاشوں کے لیے کفن نہیں تو امتحان کی گھڑی ہے۔ آخر یہ امتحان کی گھڑی کس کے لیے ہے اور کس کی وجہ سے ہے؟ یقینا یہ امتحان سب کے سب عوام کے لیے ہیں۔ جب بھی کوئی امتحان کی گھڑی آئی۔ ہمارے حکمرانوں کے پاس ایک ہی جملہ ہوتا ہے۔ ہماری قوم سیسہ پلائی دیوار ہے جو ہر مصیبت سے نمٹنے کی طاقت رکھتے ہیں اور اپنے مصیبت میں کھڑے مستحق بھائیوں کی بھرپور مدد کرتے ہیں۔ اس لیے اس مشکل کی گھڑی میں دل کھول کر اپنے بہن بھائیوں کی مدد کیجئے۔
مانا کہ ہر مشکل گھڑی میں خوش نصیبی سے آدھی قوم رینگتی ہوئی بچ جاتی ہے تو کیاآپ حکمرانوں کا یہی فرض ہے کہ منبر پر چڑھ کر قوم کے سیسہ پلائی دیوار ہونے کی یقین دہانی کرواتے پھریں۔ خدارا ملک سے وفاداری اور اس کی بقاء کے لیے اپنی جان قربان کرنے کا عہد جو آپ نے اپنی نشست سنبھالتے لیا تھا۔ اس عہد کی کچھ تو پاسداری کیجئے۔ کچھ تو خوف خدا کیجئے۔ اپنے نہیں عوام کے مفاد کو ترجیح دیجئے۔ یہ ملک ایک امانت ہے رب کی طرف سے، اقبال اور قائد کی جانب سے ۔ اور اس ملک کے عہدیدار اور حکمران اس کے امین۔۔۔
امین کے مفہوم کو سمجھتے ہوئے کچھ تو وفاداری کا ثبوت دیجئے۔ بیانات بہت ہوئے کچھ تو عمل کیجئے۔ دکھی انسانیت کی خدمت ہر مسلمان کی اولین نشانی ہے۔ خدارا کچھ تو انسانیت کا ثبوت دیجئے۔ ایک دوسرے کو مرد الزام ٹھہرانے کی بجائے مل کر کام کیجئے۔ انفرادی نہیں اجتماعی مفاد کا تصور کیجئے۔
حکمرانوں کی نا اہلیوں اور بے وقتی تدبیروں کی بدولت عوام بھی دہرے مسائل کا شکار ہو گئی ہے۔ عوام کا فرد ضروریات زندگی کی خاطر حلال و حرام کی پرواہ کئے بغیر اپنا پیٹ پال رہا ہے۔ جھوٹ ، فریب، مکاری،رشوت خوری کیوں کر اس قوم کی پہچان بن کررہ گئے ہیں؟ کیوں ہم نفسا نفسی کے عالم میس مبتلا ہیں۔ جسے دیکھو عارضی نمود و نمائش کے درد میں مبتلا ہے۔ زندگی کا اصل مقصد تو فراموش ہو ہی چکا ہے۔ اپنا ضمیر بھی کہیں گروی رکھنے کا رواج دن بدن عروج پر ہے۔ نوجوان نسل اپنی تہذیب و تمدن اور ثقافت کو نظر انداز کئے مغربی تہذیب پہ وارفتگی سے نچھاور ہوتی نظر آ رہی ہے۔ حوا کی بیٹی غیر مسلموں کی روش پر چلتے ہوئے تیزی سے مشرق سے کوچ کر کے مغرب کی جانب رواں دواں ہے۔منافقت، دھوکا دہی، آوارگی، غداری، انا پرستی، خودغرضی اورلالچ ایسی برائیاں ہیں کہ اگر یہ معاشرے میں پھیل جائیں تو وبا کی طرح بہت کچھ تباہ و برباد کر دیتی ہیں۔ اور شاید نہیں بلکہ یقینا یہی اسباب حالیہ تباہی کی وجہ ہیں۔ جو آہستہ آہستہ پنپ رہی ہیں۔ اپنے ملک کی حالت کے ذمہ دار ہمارے اعمال ہی ہیں۔ خدارا اس ملک کے حکمرانوں کو اس کی عوام کو صراط مستقیم دکھا اور ہمیں اقبال اور قائد کی اس امانت کے امین بننے کی توفیق عطا فرما۔ آج ملک و قوم جس بے بسی کے عالم میں مبتلا ہے۔ اس کے ذمہ دار ہم ہیں، خطاوار ہم ہیں۔ اس لیے اے قائد! تجھ سے شرمندہ ہم ہیں۔


اے میرے رب ، اس گلستان میں جشن بہاراں کر دے
تو سہارا کر دے ، تو کنارہ کر دے
رگ خون سے سینچا تھا جس چمن کو
اس فضاءچمن کو تو سہانا کر دے
مٹا دے ، جلا دے دشمنوں کی سازشوں کو
معجزہ تیرا صفہ ہستی دہرائے، ایسا کوئی اشارہ کر دے
نہ رہے آوارگی، نہ رہے منافقت، نہ رہے غداری
ہماری ہستی کو اے رب! تو مخلصانہ کر دے۔


شاہین جاوید۔ ریاض
 

DashingPun

MPA (400+ posts)
06_03.gif

Tuba Tuba
Ager Pakistan main rehna ho ga tu g ay bhutto kehna ho ga
so shameful slogan
 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
Mirza Sahib, u may be sorry, I could be , Gazoo or Hawk may be, and so on 99.9 % Pakistani people.

But the 1% is not for sure...

That 1 % is the ruling class...They are not people , thay r class...
 

HUNJRA

Councller (250+ posts)
i WANT TO TELL YOU GUYS A VERY VERY REAL FACE OF MAJOR COUNTRIES.

ABOUT ALL COUNTRIES SUFFERED YEARS AND YEARS TO COME TO THE POSITION WE CAN SEE THEM TODAY ON THE TOP IN ALL FIELDS.

AND THIS WAS THE MUSLIM BUT I WILL SYA TRUE MUSLIM OF PAKISTANIS LUCK GOD GAVE THEM /US A GIFT IN RAMDAN ON THE MOST MUBARK NIGHT .

BUT THE PEOPLE OF MY COUNTRY NEVER EXPECTED A SEPRATE COUNTRY SO QUICKLY BUT WHEN GOD DECIDED HE JUST SAY
KUN FAYA KOON

AND THEN IT WAS OUR DUTY TO BRING THIS COUNTRY FARWARD AND MAKE IT A REALL ISLAMIC STATE WITH ALL THE ISLAMIC RULES AND LAW WHICH HAS BEEN EXPLAINED US FROM THE PRPHET MUHAMMAD (PUH) BEFORE 1500 YEARS AGO.

BUT UNFORTUNATLY IT WAS OUR BAD LUCK WE CANT FIND A WOUNDERFUL AND SINCER LEADERSHIP .

BUT OBISULY NATIONS SPEND LONG TIME TO BE DEVELOPED SO DONT WORRY
JUST LOOK AT YOURSELF YOU CAN WRITE AND THINK ANY THING RIGHT NOW THAT IS BETTER FOR THE MOTHERLAND
SO THIS IS THE BEGINING OF THE ERA THAT IS COMING FOR THE GREATER PAKISTAN

WE WILL BE THE SUPPER POWER VERY SOON INSHALLA
AND THE PEOPLE LIKE ZUUUUUUUUURDARI
WILL BE HANGED AND WILL BE A SYMBLE IN HISTORY OF PAKISTAN SO THAT UNTILL THE DAY OF JUDGMENT NO ONE CAN COME TO HARM THIS GREAT NATION