ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
---------------------------------------
کوتاہ نظری اور کج فہمی کا اندازہ لگائیے کہ دو مسلم مملکتوں کی مصالحت بھی کچھ حلقوں کو ہضم نہیں ہو رہی- وجہ " حب " عمران ہے- تعصب بھی بھلا کیا مرض ہے، سمجھدار بھی مبتلا ہوجاۓ تو اپنے ضمیرکی ملامت پر کان ڈھانپ لیتا ہے
عالمی استعماری قوتیں جو مسلم ممالک کی تباہی کے درپے ہیں، جس میں بڑا کردار خود مسلم قیادتوں کا بھی ہے، کا تازہ شکار اب سعودیہ و ایران ہیں- پراکسی جنگوں سے دونوں ممالک ایک دوسرے کو نیچا نہ دیکھا سکے تو خم ٹھونک کر آمنے سامنے آگۓ- حالیہ واقعات بشمول ایرانی بحری جہازوں کی راہ میں رکاوٹیں اور سعودی تیل تنصیبات پر حملوں نے پہلے سے موجودہ مخاصمت پر جلتی پر تیل کا کام کیا- ایران جو امریکہ و یورپی معاشی پابندیوں سے زیربار ہے، 2015ء کے جوہری معاہدے سے امریکی انحراف کے بعد معاشی طورپر مزید کمزور ہوا ہے- باوجود امریکی دباؤ کہ ایران نے جھکنے سے انکار کیا اور پروقار انداز میں قومی موقف پر ڈٹا رہا
اپنی مذموم چالیں ناکام ہوتی دیکھ کرامریکی سامراج نے سعودی عرب کو کئی بار اکسایا کہ وہ ایران کے ساتھ محاذ آرائی میں اضافہ کرے- سعودی قیادت جو ان چالوں سے بخوبی باخبرہے، نے مفاہمت کا رستہ اپنایا اور پاکستان ایسے دیرینہ حلیف سے ثالثی کا طلب گار ہوا- پاکستان نے موقع کو غنیمت جانا اور اسی سلسلے میں دونوں برادر ریاستوں کے دورے طے ہوۓ
تصور کیجیے کہ دونوں حریف ممالک مذاکرات کے زریعے باہمی مخالفت کم کردیں اور یوں یمن وشام میں جاری خون ریزی کم ہوجاۓ- قائدانہ کردار ادا کرنے سے پاکستان کا وقار بلند ہوگا- دونوں ممالک کو قریب لانا یوں بھی پاکستان کا اخلاقی فرض ہے کہ ایک نے بروقت معاشی مدد کی جبکہ دوسرے نے کشمیر پر موقف کی پرزور تائید کی
اب آئیے اس سازشی تھیوری کی طرف کہ پاکستان یہ کام امریکہ کے کہنے پر کر رہا ہے- سوال یہ ہے کہ امریکہ کیوں چاہے گا دو مسلم ممالک اپنے مسائل پرامن طریقے سے طے کریں جبکہ اس ممکنہ جنگ میں ہر دو اطراف سے اس کے مفادات وابستہ ہیں- جنگ کی صورت میں سعودیہ کو اسلحے کی فروخت اور ایران کی بربادی اسرائیل کے مکمل مفاد میں ہے- یعنی ہرصورت میں استعماری قوتوں کے مفاد پنہاں ہیں
انسانی ومالی جانوں کے ضیاع کے علاؤہ یہ جنگ اس لیے بھی سودمند نہیں کہ تیل کی آسمان کو چھوتی قیمتیں ترقی پذیر معیشتوں کو تاراج کردیں گے- امریکہ چونکہ تیل کے بےپناہ زخیرہ پر بیٹھا ہے لہذا اس کی معیشت بہرطور محفوظ رہے گی
آخری نکتہ، پاکستان ہی کیوں؟ ترکی، انڈونیشیا، ملائشیاء یا مصر کیوں نہیں ثالثی کرواتے یا مصالحت کے لیے اپنا کردار ادا کرتے؟ موجودہ عالمی منظر نامہ دیکھا جاۓ تو ہر بڑا موثر مسلم ملک سعودی - ایران کیمپ میں تقسیم ہوچکا ہے- ترکی کی اگر مثال لیں تو ترکی شام میں ایران کا مخالف فریق جبکہ سعودی شاہی خاندان کا شدید ناقد ہے- اسی طرح دیگر ممالک بھی اس قضیہ سے دامن گیر نہیں ہونا چاہتے- مفادات کا سودا کہہ لیں یا پھر بےحسی- مگر شاید یہ کردار پاکستان کے حصہ میں لکھا جا چکا اور شاید عمران خان کی قسمت میں
---------------------------------------
کوتاہ نظری اور کج فہمی کا اندازہ لگائیے کہ دو مسلم مملکتوں کی مصالحت بھی کچھ حلقوں کو ہضم نہیں ہو رہی- وجہ " حب " عمران ہے- تعصب بھی بھلا کیا مرض ہے، سمجھدار بھی مبتلا ہوجاۓ تو اپنے ضمیرکی ملامت پر کان ڈھانپ لیتا ہے
عالمی استعماری قوتیں جو مسلم ممالک کی تباہی کے درپے ہیں، جس میں بڑا کردار خود مسلم قیادتوں کا بھی ہے، کا تازہ شکار اب سعودیہ و ایران ہیں- پراکسی جنگوں سے دونوں ممالک ایک دوسرے کو نیچا نہ دیکھا سکے تو خم ٹھونک کر آمنے سامنے آگۓ- حالیہ واقعات بشمول ایرانی بحری جہازوں کی راہ میں رکاوٹیں اور سعودی تیل تنصیبات پر حملوں نے پہلے سے موجودہ مخاصمت پر جلتی پر تیل کا کام کیا- ایران جو امریکہ و یورپی معاشی پابندیوں سے زیربار ہے، 2015ء کے جوہری معاہدے سے امریکی انحراف کے بعد معاشی طورپر مزید کمزور ہوا ہے- باوجود امریکی دباؤ کہ ایران نے جھکنے سے انکار کیا اور پروقار انداز میں قومی موقف پر ڈٹا رہا
اپنی مذموم چالیں ناکام ہوتی دیکھ کرامریکی سامراج نے سعودی عرب کو کئی بار اکسایا کہ وہ ایران کے ساتھ محاذ آرائی میں اضافہ کرے- سعودی قیادت جو ان چالوں سے بخوبی باخبرہے، نے مفاہمت کا رستہ اپنایا اور پاکستان ایسے دیرینہ حلیف سے ثالثی کا طلب گار ہوا- پاکستان نے موقع کو غنیمت جانا اور اسی سلسلے میں دونوں برادر ریاستوں کے دورے طے ہوۓ
تصور کیجیے کہ دونوں حریف ممالک مذاکرات کے زریعے باہمی مخالفت کم کردیں اور یوں یمن وشام میں جاری خون ریزی کم ہوجاۓ- قائدانہ کردار ادا کرنے سے پاکستان کا وقار بلند ہوگا- دونوں ممالک کو قریب لانا یوں بھی پاکستان کا اخلاقی فرض ہے کہ ایک نے بروقت معاشی مدد کی جبکہ دوسرے نے کشمیر پر موقف کی پرزور تائید کی
اب آئیے اس سازشی تھیوری کی طرف کہ پاکستان یہ کام امریکہ کے کہنے پر کر رہا ہے- سوال یہ ہے کہ امریکہ کیوں چاہے گا دو مسلم ممالک اپنے مسائل پرامن طریقے سے طے کریں جبکہ اس ممکنہ جنگ میں ہر دو اطراف سے اس کے مفادات وابستہ ہیں- جنگ کی صورت میں سعودیہ کو اسلحے کی فروخت اور ایران کی بربادی اسرائیل کے مکمل مفاد میں ہے- یعنی ہرصورت میں استعماری قوتوں کے مفاد پنہاں ہیں
انسانی ومالی جانوں کے ضیاع کے علاؤہ یہ جنگ اس لیے بھی سودمند نہیں کہ تیل کی آسمان کو چھوتی قیمتیں ترقی پذیر معیشتوں کو تاراج کردیں گے- امریکہ چونکہ تیل کے بےپناہ زخیرہ پر بیٹھا ہے لہذا اس کی معیشت بہرطور محفوظ رہے گی
آخری نکتہ، پاکستان ہی کیوں؟ ترکی، انڈونیشیا، ملائشیاء یا مصر کیوں نہیں ثالثی کرواتے یا مصالحت کے لیے اپنا کردار ادا کرتے؟ موجودہ عالمی منظر نامہ دیکھا جاۓ تو ہر بڑا موثر مسلم ملک سعودی - ایران کیمپ میں تقسیم ہوچکا ہے- ترکی کی اگر مثال لیں تو ترکی شام میں ایران کا مخالف فریق جبکہ سعودی شاہی خاندان کا شدید ناقد ہے- اسی طرح دیگر ممالک بھی اس قضیہ سے دامن گیر نہیں ہونا چاہتے- مفادات کا سودا کہہ لیں یا پھر بےحسی- مگر شاید یہ کردار پاکستان کے حصہ میں لکھا جا چکا اور شاید عمران خان کی قسمت میں