ایک سی سی پی او نے ن لیگ کو ہیجرا بنا دیا

Nain

MPA (400+ posts)
ایک سی سی پی او نے ن لیگ کو ہیجرا بنا دیا اور شکایت لگانے لاہور ہائیکورٹ پہنچ گئے. لاہور ہائیکورٹ سے ن لیگ کو فوری اور سستا انصاف ملے گا، جیسے پچاس روپے کے اسٹام پیپر پر ملا تھا


 
Last edited:

Pathfinder

Chief Minister (5k+ posts)
ایک سی سی پی او نے ن لیگ کو ہیجرا بنا دیا اور شکایت لگانے لاہور ہائیکورٹ پہنچ گئے. لاہور ہائیکورٹ سے ن لیگ کو فوری اور سستا انصاف ملے گا، جیسے پچاس روپے کے اسٹام پیپر پر ملا تھا


this putrid looking rana. disgusting s#it.
 

Truthstands

Minister (2k+ posts)
He was law minister during the Noora league, he put all criminals in police and judiciary.
No Judge or ASI can be appointed until pledges to them. Today they're enjoying the benefits of their trees.
IK should need to do the same with them bring the most notorious against them.
Forget about reforms. No judge wants reform, how they will school fee for their kids with govt salary? How they will buy luxury house? How to visit UAE for fun?
There is only one way, shoot all these judgest and lawyers. Bring PTI hardcore police officers, Police court Marshall and just shoot the police man gangup with criminals.
 

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)

ایک سی سی پی او نے ن لیگ کو ہیجرا بنا دیا


قانون کے دائرے میں رہتے ہوۓ یہ جو بھی کاروائی کرے وہ منظور ہے لیکن رب کے دربار میں عاجزانہ دعا ہے کہ یہ بندہ کہیں شہباز کا "عابد باکسر" یا زرداری کا "راؤ انوار" نہ بن جائے
عمران اپنی زندگی کے آخری سانس تک اس ملک کا قیمتی سرمایہ ہے اور عمر شیخ جیسے لوگ جب پکڑ میں آتے ہیں تو اپنی سزا سے بچنے کے لیے سارا ملبہ حکمران پر ڈال دیتے ہیں . بس الله عمران کو کسی بھی ایسے امتحان میں نہ ڈالے . آمین
 

Nain

MPA (400+ posts)

ایک سی سی پی او نے ن لیگ کو ہیجرا بنا دیا


قانون کے دائرے میں رہتے ہوۓ یہ جو بھی کاروائی کرے وہ منظور ہے لیکن رب کے دربار میں عاجزانہ دعا ہے کہ یہ بندہ کہیں شہباز کا "عابد باکسر" یا زرداری کا "راؤ انوار" نہ بن جائے
عمران اپنی زندگی کے آخری سانس تک اس ملک کا قیمتی سرمایہ ہے اور عمر شیخ جیسے لوگ جب پکڑ میں آتے ہیں تو اپنی سزا سے بچنے کے لیے سارا ملبہ حکمران پر ڈال دیتے ہیں . بس الله عمران کو کسی بھی ایسے امتحان میں نہ ڈالے . آمین
لیکن کبھی کبھار کوئلے کے کام میں ہاتھ گندے کرنا پڑتے ہیں
 

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)
لیکن کبھی کبھار کوئلے کے کام میں ہاتھ گندے کرنا پڑتے ہیں


بات تو ٹھیک ہے
لاکن
کام تدبیر سے کیا جائے تو کوئلہ بھی سفید ہو جاتا ہے میرے دوست
 

Caballero

Senator (1k+ posts)
Bhangio ka maslaa hay kay unko cheezain zara daer say samajh ati hain

these same Bhangis will be cursing this new CCPO in less then 6 months jo apni baji ka rishta lakay kharain hain ajj


Ehel12HWoAEqVaH

Ehel2DeXYAAE4Sw

Ehel2RGWkAAY_hv

https://twitter.com/x/status/1303751133085696000
Nain !Haider Pathfinder Truthstands Dr Adam Shaw Khan ali_786
 
Last edited:

Truthstands

Minister (2k+ posts)

Onlypakistan

Chief Minister (5k+ posts)
PUNJAB MAE ABI TAK CRIMINAL GANG NOORA LEAGUE KI SARPARASTI MAE SARGARM HAEN IN KO KHATAM KERNEY K LEYE IN K SARPARAST KO KHATAM KERNA HO GA.
 

AhmadSaleem264

Minister (2k+ posts)
Bhangio ka maslaa hay kay unko cheezain zara daer say samajh ati hain

these same Bhangis will be cursing this new CCPO in less then 6 months jo apni baji ka rishta lakay kharain hain ajj


Ehel12HWoAEqVaH

Ehel2DeXYAAE4Sw

Ehel2RGWkAAY_hv

https://twitter.com/x/status/1303751133085696000
Nain !Haider Pathfinder Truthstands Dr Adam Shaw Khan ali_786
 

AhmadSaleem264

Minister (2k+ posts)
سی سی پی او لاہور یعنی کیپیٹل سٹی پولیس افسر لاہور کی سیٹ بڑی اہم سمجھی جاتی ہے۔ لاہور پنجاب کا اہم تر ین شہر ہے، یہاں پر پوسٹنگ کسی بھی پولیس افسر کا خواب ہے۔ چند دن پہلے تک سی سی پی او لاہور کے لیے ڈی جی خان کے سابق آرپی او عمر شیخ کی تعیناتی کی خبرصرف ایک خاص حوالے سے اہم سمجھی گئی۔ کہا گیا کہ وزیراعلیٰ نے جو پولیس افسر ڈی جی خان کے لیے موزوں نہیں سمجھا، اسے لاہور میں کیوں لگا رہے ہیں؟ عثمان بزدار پر بعض طنزیہ کالم لکھے گئے، وہ مختلف طناز سوشل میڈیا ایکٹوسٹوں کے نوکدار، تیکھے ٹویٹس کا نشانہ بھی بنے۔ یہ کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ اس نئے سی سی پی او کے مسئلے پر آئی جی پنجاب تبدیل ہونے کی نوبت آ جائے گی ۔

عمر شیخ ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے ریجنل پولیس آفیسر (RPO) رہے ہیں۔ وہاں پر انہوں نے خاصی مستعدی سے کام کیا اور ڈیرہ کی کئی طاقتور شخصیات کی ناراضی کی پروا بھی نہ کی، انہوں نے مظفر گڑھ اور لیہ کے کئی جرائم پیشہ گروہوں کا خاتمہ کیا۔ لیہ کے دوست بتاتے ہیں کہ لوگ شکایات لے کر اپنے ڈسٹرکٹ پولیس افسر کے پاس جانے کے بجائے ڈی جی خان آرپی او عمر شیخ کے پاس جاتے کہ وہاں سے ریلیف کا امکان تھا۔ عمر شیخ کا تعلق خان پور سے ہے، چمڑے کا کاروبار کرنے والی شیخ برادری سے ہیں۔ خاصے دبنگ پولیس افسر مشہور ہیں، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جہاں تعینات ہوں، وہاں کے تگڑے لوگوں پر ہاتھ ڈال کر پنجابی محاورے کے مطابق تھرتھلی مچا دیتے ہیں۔ ڈی جی خان میں انہوں نے مقامی طاقتور سرداروں کی ایک نہ سنی، ان سے ارکان اسمبلی خفا تھے۔

دلچسپ بات ہے کہ مزاری، دریشک اور دیگر مقامی شخصیات کے آپس میں اختلافات ہیں، مگر ریجنل پولیس آفیسر ڈی جی خان عمر شیخ کے تبادلے کے لیے یہ سب اکٹھے ہوگئے اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار پر دباؤ ڈال کر تبادلہ کرایا۔عمر شیخ کے بارے میں بعض اخباری رپورٹس میں کہا گیا کہ ان کی پروموشن برے ریکارڈ کی وجہ سے نہیں ہوئی اور وہ سی کیٹیگری کے افسر ہیں۔ بعض اخبارنویسوں کے خیال میں یہ حقیقت نہیں، ان کے خیال میں جو بھی افسر دبنگ ہو، جی حضوری نہ کرے اور طاقتور ارکان اسمبلی سے تعلقات نہ بنائے، اس کی فائل ایسی ہی ہوگی۔ اہم بات یہ ہے کہ جہاں کسی افسر کی پوسٹنگ ہو، وہاں کے لوگوں کی رائے کیا ہے؟ وہاں اس کی مدت ملازمت کے دوران لا اینڈ آرڈر کے معاملات بہتر ہوئے یا نہیں؟

پولیس افسروں کی دو تین کیٹیگریز معروف سمجھی جاتی ہیں، کچھ لوگ خاموشی سے بچ بچا کر کام کرتے ہیں ، افسروں کی جی حضوری کرتے ہیں، مقامی طاقتور شخصیات سے بنا کر رکھتے ہیں اور یوں سب کو راضی رکھتے ہوئے تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتے ہیں۔ بعض افسر لائق ہونے کے باوجود پبلک ریلشنگ میں کمزور ہوتے ہیں، اکثر انہیں اپنی صلاحیتوں کے مطابق پوسٹنگ نہیں ملتی، ملازمت کے دوران اور ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ہمیشہ شکوہ کناں رہتے ہیں کہ زمانے نے قدر نہیں کی۔ پولیس افسروں کی ایک قسم ایسی ہے جو دبنگ سٹائل میں کام کرتی ہے، یہ منہ زور اور اتھرے انداز کے افسر ہوتے ہیں۔اس کے ساتھ چونکہ ان کی میڈیا ریلشننگ اچھی رہتی ہے، رائے عامہ کا دباؤ ان کے حق میں استعمال ہوتا ہے۔ ماضی کے مشہور پولیس افسر ذوالفقار چیمہ کو لوگ اسی کیٹیگری میں شمار کرتے ہیں۔ کرائم پر لکھنے والے اخبارنویسوں کے خیال میں نئے سی سی پی او لاہور عمر شیخ بھی اسی کیٹیگری میں آتے ہیں، چیمہ صاحب کی طرح مضبوط اور دبنگ افسر ہیں اور میڈیا کے ساتھ بھی ان کا تعلق خوشگوار ہے۔

سی سی پی او لاہور کی تعیناتی وزیراعظم عمران خان کا فیصلہ تھا، کہا جاتا ہے کہ انہیں دو وفاقی مشیروں نے اس کا مشورہ دیا۔ شہزاد اکبر اور شہباز گل کے نام لیے جاتے ہیں۔ عمر شیخ ایک حوالے سے پولیس فورس میں زیادہ مقبول نہیں کہ وہ پولیس کے سخت احتساب کے قائل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم سے ان کی ملاقات ہوئی، عمران خان نے پوچھا کہ پولیس فورس میں کیسے بہتری لائی جا سکتی ہے؟ عمر شیخ کا جواب تھا کہ فوج کی طرح پولیس میں بھی کورٹ مارشل کا سسٹم لایا جائے، غلطی کرنے والوں کو سخت سزائیں دی جائیں، پھر دیکھیں پولیس فورس ٹھیک ہوتی ہے یا نہیں۔

ممکن ہے کہ وزیراعظم کو یہ جواب پسند آیا ہو۔ لاہور میں انہیں سخت اور تگڑے پولیس افسر کی ضرورت ہوگی۔ ایک اور ایڈوانٹیج یا ڈس ایڈوانٹیج یہ بھی تھا کہ عمر شیخ ن لیگ کے پسندیدہ افسر نہیں رہے، انہیں ہمیشہ کھڈے لائن لگائے رکھا گیا۔ شہباز شریف نے دس سال مسلسل پنجاب میں حکومت کی، اس سے پہلے نوے کے عشرے میں دو بار وہ پنجاب کے معاملات میں مدارالمہام ( آل اِن آل) تھے۔ شریف خاندان کا مخصوص سٹائل ہے کہ وہ اپنی پسند کے پولیس افسروں کی باقاعدہ فصل کاشت کرتے ہیں، ان کی دیکھ بھال کرتے اور پھر مناسب وقت آنے پر انہیں بہترین مواقع فراہم کرتے ہیں۔ جو بیوروکریٹ یا پولیس افسرا نہیں پسند نہیں ہوتے، وہ ہمیشہ محروم رہتے اور کونے کھدروں میں جگہ پاتے ہیں۔ عمر شیخ بھی ایسے ہی افسر بتائے جاتے ہیں۔

عمر شیخ کو سی سی پی اوبناتے ہوئے آئی جی کو لاتعلق رکھا گیا۔ بہتر ہوتا کہ پوسٹنگ سے پہلے عمر شیخ کی آئی جی سے ایک خصوصی ملاقات کرا دی جاتی۔ ایسا نہیں ہوا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آئی جی نے علم ہونے پر اس تقرر کی مخالفت کی، ویسے کچھ عرصہ قبل عمر شیخ کی پوسٹنگ کے معاملے پر بھی آئی جی ان کی مخالفت کر چکے تھے۔ یوں ابتدا ہی میں معاندانہ جذبات پیدا ہوگئے۔

دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اس تعیناتی سے پہلے سوشل میڈیا پر بعض تحریریں گردش کرتی رہیں، جن میں یہ کہا گیا کہ ن لیگ کے کارکنوں کو کچلنے کے لیے اس پولیس افسر کو لایا جا رہا ہے۔ اس کے جواب میں بھی ایسی تحریریں چلتی رہیں جن میں دعویٰ کیا گیا کہ پنجاب میں ن لیگ کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے پولیس افسران اور بیوروکریسی عمر شیخ کی مخالفت کر رہی ہے کیونکہ یہ پرو ن لیگی افسر نہیں ہیں اورجاتی عمرہ سے وفاداری کے جذبات نہیں رکھتے۔

طوفان بعد میں اٹھا، مگر اس کے آثار پہلے سے نمایاں تھے۔ سی سی پی او عمر شیخ نے اپنے ماتحت افسروں سے میٹنگ میں واضح اور غیر مبہم الفاظ میں کہا کہ جو کچھ بھی ہوگا، وہ میرے نوٹس اور منظوری کے بغیر نہیں ہوگا، چاہے حکم اوپر (آئی جی) سے بھی آیا ہو۔ سابق آئی جی شعیب دستگیر تک یہ اطلاع پہنچی تو وہ سخت برہم ہوئے اور انہوں نے فوری طور پر اعلیٰ حکام کو کہہ دیا کہ میں بطور آئی جی کام کرنے کو تیار نہیں۔ یہ خبر ہنگامہ خیز تھی۔ اس پر خاصا شور اٹھا۔ آئی جی شعیب دستگیر کو منانے کی کوشش کی گئی۔ عمر شیخ نے ان سے ملنے کر وضاحت کی کوشش کی، مگر آئی جی نے ملنے سے انکار کر دیا۔

عمر شیخ نے انہیں تفصیلی واٹس ایپ میسج کیے، جو بعد میں بعض لوگوں سے شیئر بھی کیے گئے۔ ان واٹس ایپ میسجز میں عمر شیخ نے اپنی اس بات کی وضاحت کی اور کہا کہ آپ تک غلط تناظر میں بات پہنچی ہے، تاہم میں اس پر معذرت کے لیے تیار ہوں، آپ مجھے ملنے کا وقت دیں، آپ میرے کمانڈر ہیں اور میں آپ کا ماتحت ہوں۔ انہی واٹس ایپ میسجز میں کہیں یہ ذکر بھی تھا کہ ماڈل ٹاؤن سانحہ کے بعد کی جوڈیشل انکوائری میں اس وقت کے آئی جی پنجاب نے بیان دیا کہ سی سی پی او ایک مجاز افسر ہے اور پولیس آرڈر کے تحت کیپٹیل سٹی پولیس اتھارٹی اپنے فیصلوں کی خود ذمہ دار ہے، میں نے اسی لیے ماتحتوں سے کہا کہ جب ذمہ داری میرے اوپر آنی ہے تب ہر معاملے کی منظوری بھی مجھ سے لی جائے وغیرہ وغیرہ۔ آئی جی شعیب دستگیر نے مگر کسی بھی قسم کی وضاحت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور وہ چارج چھوڑنے کے اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے۔

باخبر ذرائع کا یہ کہنا ہے کہ سابق آئی جی اچھے افسر ہیں، مگر ان کا خاص مزاج اور ٹمپرامنٹ تھا۔ پنجاب میں آنے والے دنوں میں خاصی سیاسی ہنگامہ آرائی کے امکانات ہیں، ممکن ہے وہ اس جھمیلے سے باہر رہنا چاہتے ہوں، ان کی سروس بھی غالباً زیادہ نہیں رہ گئی۔ ان کے اس بے لچک مؤقف کی یہی وجہ سمجھ آتی ہے، ورنہ پولیس سروس میں کوئی بے لچک اور انا پسند افسر اتنی بڑی سیٹ تک جا ہی نہیں سکتا، بہت پہلے سسٹم اسے نکال باہر کرتا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کو جب یہ سب تفصیلات بتائی گئیں تو ان کا فوری ردعمل تھا کہ آئی جی کا کام چھوڑ دینے کا فیصلہ ناقابل فہم ہے، وہ آئی جی ہیں، اگر سی سی پی او نے کچھ غلط کہا ہے تو اسے بلا کر اس کی سخت کلاس لیں، اب اگرو ہ معذرت کر رہا ہے تو پھر معاملہ ختم ہوجانا چاہیے۔ اس لیے فوری طور پر وزیراعظم نے آئی جی تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

نئے سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے میڈیا کو جو چند انٹرویوز دیے، ان میں واضح اور غیر مبہم لہجہ اپنایا۔ وہ لاہور میں قبضہ گروپوں کے خلاف آپریشن کرنا چاہتے ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ لاہور میں صرف تین ماہ کے اندر تبدیلی نظر آئے گی، وہ پولیس سے پولیس کی زبان میں بات کرنے کے حامی ہیں اور پولیس کے بگڑے افسروں اور جوانوں کو سیدھا کرنے کے متمنی۔ یہ سب لاہور جیسے شہر میں چلانا آسان نہیں۔ قبضہ گروپ طاقتور ہیں اور ان کا مختلف سیاسی جماعتوں میں گہرا اثرونفوذ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سی سی پی او کس حد تک کامیاب رہتے ہیں؟

دلچسپ رویہ مسلم لیگ ن کا رہا، جنہوں نے فوری طور پر اس ٹرانسفر سے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی کوشش کی۔ احسن اقبال نے پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ آئی جی کو اس لیے تبدیل کیا گیا کہ وہ ن لیگ کے خلاف کارروائی کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان کے پاس اس دعوے کے حق میں کیا ثبوت ہیں، اس کی وضاحت وہ نہیں کر پائے۔ مسلم لیگ ن ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتی ہے۔ وہ آئی جی پولیس کے تبادلے کو تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی ناتجربہ کاری اور نااہلی کے کھاتے میں ڈالنا چاہتی ہے اور ساتھ ہی سی سی پی او پر دباؤ ڈالنے کی خواہشمند بھی ہے تاکہ مستقبل میں ن لیگی کارکنوں کے حوالے سے زیادہ سخت رویہ نہ اپنایا جا سکے۔ یہ کارڈ کس حد تک مؤثر ہوتا ہے؟ اس کا اندازہ بھی چند ہفتوں میں ہوجائے گا۔