نواز کا جیل سے اور شہباز کا ای سی ایل سے باہر آنا، بلاول کا شیخ رشید کی ٹرین کو ہائی جیک کرنا دراصل اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے دوستی کے پیغامات ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ عالمی حالات و واقعات کے تناظر میں شدید دباؤ کا شکار ہے۔
کل فاٹف کے لوگ پاکستان آئے ہیں اور حکومت (اسٹیبلشمنٹ) سے جواب دہی طلب کر رہے ہیں۔
معلوم یہ ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی اکڑ کم ہوئی ہے اور جن سیاسی جماعتوں کو نیب اور عدالتوں کے ذریعے سے عتاب کا نشانہ بنایا تھا، اب ان کو ریلیف دینا چاہ رہی ہے تاکہ عالمی دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے اندرون ملک سے حمایت مل سکے۔
شہباز میاں نے کل مس آرڈرن کو خط لکھ کر اپنی موجودگی اور 'اہمیت' کا احساس دلایا ہے۔
شہباز کی اس اہمیت سے جنرل باجوہ بھی باخبر ہیں۔
مجھے نہیں معلوم کہ سیاسی منظر نامے میں ان تبدیلیوں کا اور کیا مطلب ہے۔
کیا عمران خان کو واپس بھیجنے کی تیاری ہورہی ہے؟ کیا اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی کارکردگی سے 'مطمئن' نہیں ہے؟
عمران کی پوری کابینہ تقریباً وہی ہے جو مشرف کی تھی، پھر اگر یہ کابینہ ناکام ہورہی ہے تو اس میں عمران کا کیا قصور؟ یہ تو اسٹیبلشمنٹ کی ناکامی ہوئی، کابینہ پوری کی پوری اسٹیبلشمنٹ کی چنی ہوئی ہے۔
غالباً اسٹیبلشمنٹ کو احساس ہو چلا ہے کہ موجودہ علاقائی اور ملکی حالات میں حکومت چلانا، خالہ جان کے گھر کولہو کا بیل چلانے کی طرح آسان نہیں ہے۔
جس کا کام اسی کو ساجھے۔
فوج کا کام سرحدوں کا دفاع ہے۔ یہی ہونا چاہیے۔
زبردستی ایک احمق انسان کو وزیرخارجہ بنا کر یہ سمجھ لینا کہ دنیا بھر کو چونا لگا دیں گے، اپنے آپ کو دھوکہ دینے والی بات ہے۔
پلوامہ کے بعد سے دوست و دشمن تمام ممالک نے ہی ہندوستان کا ساتھ دیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جن صاحب کو یوم پاکستان کے موقع پر مہمان خصوصی کے طور پر بلایا وہ بھی امیدوں پر 50 من برف ڈال کر چلے گئے۔
جرنیل برادری کو اب احساس ہو رہا ہوگا کہ نواز شریف کی دشمنی میں انہوں نے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لی ہے۔ یہ بات میں پہلے بھی کر چکا ہوں کہ نواز جو کام پیار سے کرنا چاہ رہا تھا، عمران خان / جنرل باجوہ وہی کام بحالت مجبوری کر رہے ہیں۔
نواز ہندوستان کے ساتھ تعلقات نارمل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مودی کے ساتھ ملاقات و بات چیت کر رہا تھا۔ آپ کو برا لگ رہا تھا۔ آپ اسے مودی کے یار اور غدار کے خطابات سے نواز رہے تھے۔ آپ کو خود پر بڑا زعم اور غرور تھا کہ آپ اپنی طاقت کے زور سے ہندوستان کو کبوتر بنا کر اڑا سکتے ہیں۔ لیکن ابھی سچ تو یہ ہے کہ آپ کو خود کبوتر بننا پڑ رہا ہے۔
جہادیوں پر آپ یو ٹرن لے رہے ہیں (خواہ دکھانے کے لیے سہی)، فاٹف کو وضاحتیں پیش کر رہے ہیں، بتا رہے ہیں کہ ہم یہ کر رہے ہیں، وہ کر رہے ہیں۔ ہم اب اچھے بچے اور شریف انسان بن گئے ہیں۔ اب ہم نے کوئی 'غلط کام' نہیں کرنے۔ پلیز ہمیں بلیک لسٹ میں نہ ڈالیں۔۔
جذباتی پاکستانیوں کو تھوڑے دنوں کے لیے دھوکے میں رکھا جاسکتا ہے۔ ان کو آپ بہلا پھسلا سکتے ہیں کہ ہم نے ابھی نندن کو اس لیے رہا کیا کہ ہم امن پسند لوگ ہیں اور جنگ نہیں چاہتے۔ ہندوستان کے 2 طیارے گرا کر ہم نے اس کو گردن سے دبوچ لیا۔۔اس طرح کے دھوکے جذباتی لوگوں کو 'فتح کے سرور' میں ڈالنے کے کام آسکتے ہیں، حقیقت سے نظریں چرانے کے نہیں۔
آگ سے کھیلنے کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ چند جرنیلوں کے ایڈونچرزم کا خمیازہ پوری پاکستانی قوم کو نہیں بھگتنا چاہیے۔ ایوب خان کی بہادری اور عقل مندی کی وجہ سے مشرقی پاکستان گیا، اور مشرف کی کارگل گزاری کی وجہ سے 20 سال بعد 2019 میں بھی جنگ کا ماحول ہے۔
کل فاٹف کے لوگ پاکستان آئے ہیں اور حکومت (اسٹیبلشمنٹ) سے جواب دہی طلب کر رہے ہیں۔
معلوم یہ ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی اکڑ کم ہوئی ہے اور جن سیاسی جماعتوں کو نیب اور عدالتوں کے ذریعے سے عتاب کا نشانہ بنایا تھا، اب ان کو ریلیف دینا چاہ رہی ہے تاکہ عالمی دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے اندرون ملک سے حمایت مل سکے۔
شہباز میاں نے کل مس آرڈرن کو خط لکھ کر اپنی موجودگی اور 'اہمیت' کا احساس دلایا ہے۔
شہباز کی اس اہمیت سے جنرل باجوہ بھی باخبر ہیں۔
مجھے نہیں معلوم کہ سیاسی منظر نامے میں ان تبدیلیوں کا اور کیا مطلب ہے۔
کیا عمران خان کو واپس بھیجنے کی تیاری ہورہی ہے؟ کیا اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی کارکردگی سے 'مطمئن' نہیں ہے؟
عمران کی پوری کابینہ تقریباً وہی ہے جو مشرف کی تھی، پھر اگر یہ کابینہ ناکام ہورہی ہے تو اس میں عمران کا کیا قصور؟ یہ تو اسٹیبلشمنٹ کی ناکامی ہوئی، کابینہ پوری کی پوری اسٹیبلشمنٹ کی چنی ہوئی ہے۔
غالباً اسٹیبلشمنٹ کو احساس ہو چلا ہے کہ موجودہ علاقائی اور ملکی حالات میں حکومت چلانا، خالہ جان کے گھر کولہو کا بیل چلانے کی طرح آسان نہیں ہے۔
جس کا کام اسی کو ساجھے۔
فوج کا کام سرحدوں کا دفاع ہے۔ یہی ہونا چاہیے۔
زبردستی ایک احمق انسان کو وزیرخارجہ بنا کر یہ سمجھ لینا کہ دنیا بھر کو چونا لگا دیں گے، اپنے آپ کو دھوکہ دینے والی بات ہے۔
پلوامہ کے بعد سے دوست و دشمن تمام ممالک نے ہی ہندوستان کا ساتھ دیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جن صاحب کو یوم پاکستان کے موقع پر مہمان خصوصی کے طور پر بلایا وہ بھی امیدوں پر 50 من برف ڈال کر چلے گئے۔
جرنیل برادری کو اب احساس ہو رہا ہوگا کہ نواز شریف کی دشمنی میں انہوں نے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لی ہے۔ یہ بات میں پہلے بھی کر چکا ہوں کہ نواز جو کام پیار سے کرنا چاہ رہا تھا، عمران خان / جنرل باجوہ وہی کام بحالت مجبوری کر رہے ہیں۔
نواز ہندوستان کے ساتھ تعلقات نارمل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مودی کے ساتھ ملاقات و بات چیت کر رہا تھا۔ آپ کو برا لگ رہا تھا۔ آپ اسے مودی کے یار اور غدار کے خطابات سے نواز رہے تھے۔ آپ کو خود پر بڑا زعم اور غرور تھا کہ آپ اپنی طاقت کے زور سے ہندوستان کو کبوتر بنا کر اڑا سکتے ہیں۔ لیکن ابھی سچ تو یہ ہے کہ آپ کو خود کبوتر بننا پڑ رہا ہے۔
جہادیوں پر آپ یو ٹرن لے رہے ہیں (خواہ دکھانے کے لیے سہی)، فاٹف کو وضاحتیں پیش کر رہے ہیں، بتا رہے ہیں کہ ہم یہ کر رہے ہیں، وہ کر رہے ہیں۔ ہم اب اچھے بچے اور شریف انسان بن گئے ہیں۔ اب ہم نے کوئی 'غلط کام' نہیں کرنے۔ پلیز ہمیں بلیک لسٹ میں نہ ڈالیں۔۔
جذباتی پاکستانیوں کو تھوڑے دنوں کے لیے دھوکے میں رکھا جاسکتا ہے۔ ان کو آپ بہلا پھسلا سکتے ہیں کہ ہم نے ابھی نندن کو اس لیے رہا کیا کہ ہم امن پسند لوگ ہیں اور جنگ نہیں چاہتے۔ ہندوستان کے 2 طیارے گرا کر ہم نے اس کو گردن سے دبوچ لیا۔۔اس طرح کے دھوکے جذباتی لوگوں کو 'فتح کے سرور' میں ڈالنے کے کام آسکتے ہیں، حقیقت سے نظریں چرانے کے نہیں۔
آگ سے کھیلنے کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ چند جرنیلوں کے ایڈونچرزم کا خمیازہ پوری پاکستانی قوم کو نہیں بھگتنا چاہیے۔ ایوب خان کی بہادری اور عقل مندی کی وجہ سے مشرقی پاکستان گیا، اور مشرف کی کارگل گزاری کی وجہ سے 20 سال بعد 2019 میں بھی جنگ کا ماحول ہے۔