مداری کے بندر کی یہ اوقات نہیں ہوتی کہ وہ مداری کے اشاروں پر نہ ناچے . بے شک تماشا بندر کا ہی ہوتا ہے لیکن ڈگڈگی مداری کی ہی اسے نچاتی ہے . سلیکٹڈ لوگ جب کسی ملک کو حکمران بنتے ہیں تو ان کی حیثیت بھی مداری کے بندر جیسی ہی ہوتی ہے . لیکن یہاں بندر نہیں ایک ڈونکی راجا ہے . ڈونکی راجا کا کام ہے دن رات ڈینگیں مارنا . جہاں بھی جاتا ہے لمبی لمبی چھوڑتا ہے جیسے شیر کی کھال میں کھوتا خود کو شیر سمجھ رہا ہوتا ہے . آہستہ آہستہ لوگوں پر اس کی ڈینگوں کی حقیقت کھل رہی ہے . کیوں یہ آج سے نہیں اپنی پوری زندگی لمبی لمبی چھوڑنے کا عادی مجرم ہے . دو ہزار چودہ کے دھرنے کی ڈینگیں الیکشن کمپین کی ڈینگیں . کیا نہیں جھوٹ بولے قوم سے کیا کیا جھوٹے وعدے نہیں کیے. اب جب چھبیس ہزار دفع وہ ہی بات دہرائی کہ میں این آر او نہیں دوں گا ، لیکن لینے والوں نے لے لیا اور دینے والوں نے دے دیا .
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ طاقت کا مرکز آج بھی عوام نہیں اسٹبلشمنٹ ہے . اسٹبلشمنٹ اپنی کامیاب حکمت عملی سے ایک کو سلیکٹ کرتی ہے اور دوسرے کو ریجکٹ . اب موسوصف گلے کی ہڈی بن چکے ہیں . نہ کوئی کردکردی نہ کوئی کام بس ڈینگیں مارنا ہی ڈونکی راجا کی قابلیت ہے . ایسے بندے کے ساتھ کوئی کیسے چل سکتا ہے جس کے پلے بنیادی سوچ سمجھ بھی نہ ہو بس وہ بکواس کرنی جانتا ہو . صاف نظر آ رہا ہے ملکی معیشت ڈوب رہی ہے انڈسٹریل گروتھ کم ہو کاروبار تباہ ہو مہنگائی عروج پر ڈونکی کنگ قوم کو خوشخبری سناتا ہے فزیکل ڈیفیسٹ ختم ہو گیا اچھا مبارک ہو کتنا ڈالر گرا ، کتنی مہنگائی کم ہوئی معیشت پر کیا اثر آیا . جہاں قوم تین سو روپے ٹماٹر خرید رہی ہو وہاں ڈونکی سرکار ڈینگوں میں قوم کو فزیکل ڈیفیسٹ سمجھا رہی ہے . ملک تباہ کرنے میں اس بندے نے کوئی کسر نہیں چھوڑی . آدھ کروڑ لوگ بیروزگار ہو چکے اور جو ہر سال لاکھوں نوجوانوں کے لیے نوکریوں کی ضرورت ہے وہ تو ایک لمحہ فکریہ ہے . ایسے کھلاڑیوں کے ہاتھ جب قوم کی تقدیر لگ جاتی ہے تو ملک و قوم ایسے ہی تباہ ہوتے ہیں . اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ ملک کے حالات بدل رہے ہیں تو وہ اس پاس کے لوگوں سے پوچھے کہ کیسے اس تبدیلی سرکار ان کے منہ سے روٹی کا نوالہ بھی چھین لیا ہے . ہم تو پہلے کہتے ہیں کہ اس کو ایک سال اور ملنا چاہئیے تاکہ یہ ملک کو مزید تباہ کرے اور اپنی قوم کے نام کو مزید روشن کرے .. ڈونکی راجا آخر تمھاری ڈینگیں کب تب لوگوں کے کانوں میں رس گھولیں گی
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ طاقت کا مرکز آج بھی عوام نہیں اسٹبلشمنٹ ہے . اسٹبلشمنٹ اپنی کامیاب حکمت عملی سے ایک کو سلیکٹ کرتی ہے اور دوسرے کو ریجکٹ . اب موسوصف گلے کی ہڈی بن چکے ہیں . نہ کوئی کردکردی نہ کوئی کام بس ڈینگیں مارنا ہی ڈونکی راجا کی قابلیت ہے . ایسے بندے کے ساتھ کوئی کیسے چل سکتا ہے جس کے پلے بنیادی سوچ سمجھ بھی نہ ہو بس وہ بکواس کرنی جانتا ہو . صاف نظر آ رہا ہے ملکی معیشت ڈوب رہی ہے انڈسٹریل گروتھ کم ہو کاروبار تباہ ہو مہنگائی عروج پر ڈونکی کنگ قوم کو خوشخبری سناتا ہے فزیکل ڈیفیسٹ ختم ہو گیا اچھا مبارک ہو کتنا ڈالر گرا ، کتنی مہنگائی کم ہوئی معیشت پر کیا اثر آیا . جہاں قوم تین سو روپے ٹماٹر خرید رہی ہو وہاں ڈونکی سرکار ڈینگوں میں قوم کو فزیکل ڈیفیسٹ سمجھا رہی ہے . ملک تباہ کرنے میں اس بندے نے کوئی کسر نہیں چھوڑی . آدھ کروڑ لوگ بیروزگار ہو چکے اور جو ہر سال لاکھوں نوجوانوں کے لیے نوکریوں کی ضرورت ہے وہ تو ایک لمحہ فکریہ ہے . ایسے کھلاڑیوں کے ہاتھ جب قوم کی تقدیر لگ جاتی ہے تو ملک و قوم ایسے ہی تباہ ہوتے ہیں . اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ ملک کے حالات بدل رہے ہیں تو وہ اس پاس کے لوگوں سے پوچھے کہ کیسے اس تبدیلی سرکار ان کے منہ سے روٹی کا نوالہ بھی چھین لیا ہے . ہم تو پہلے کہتے ہیں کہ اس کو ایک سال اور ملنا چاہئیے تاکہ یہ ملک کو مزید تباہ کرے اور اپنی قوم کے نام کو مزید روشن کرے .. ڈونکی راجا آخر تمھاری ڈینگیں کب تب لوگوں کے کانوں میں رس گھولیں گی