آخر یہ ایف اے ٹی ایف کا سرکس کب تک چلتا رہے گا، اور حکومت (ملٹری و سول) نے کیونکر اسے اپنے سر پر سوار کیا ہوا ہے۔اب تو ایسا لگنے لگا ہے کہ حکومت خود بھی ہہی چاہتی ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے مطالبات کے بعد دیگرے آتے رہیں، اور وہ ان کی آڑ میں اپنے ایجندے کو آگے بڑھائے۔ یاد رہے مدارس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے لے کر جماعت الدعوہ کی مشکیں کسنیں تک، تمام کام ایف آے ٹی ایف کی آر میں کئے جا رہے ہیں۔ اگر ملک میں عاصمہ جہانگیر کی حکومت بھی ہوتی، تب بھی وہ قوم کے محسن، حافظ سعید پر یوں ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہ کرتی۔
حقیقت یہ ہے کہ ملک کو اس وقت ایسے حکمرانوں کی ضرورت ہے، جو آئی ایم ایف، یو این اور اس کے ذیلی اداروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے، انہیں یاد دلائے کہ کشمیر کے حوالے سے ان کی کیا ذمہ داری ہے۔ انڈیا کشمیر میں کیا کر رہا ہے، اور ایف اے ٹی ایف نے آر ایس ایس، بجرنگ دل، اور دوسری دہشت گرد تنظیموں سے کیونکر نظریں چرا رکھی ہیں۔مگر موجودہ حکمرانوں کا یہ حال ہے کہ ابھی اشارہ بھی نہیں ہوتا، اور وہ پہلے ہی زمین بوس ہو جاتے ہیں ، جس سے یہ شک پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ملی بھگت سے ہو رہا ہے، اور حکومت صرف ایف اے ٹی ایف کا کندھا استعمال کر رہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ملک کو اس وقت ایسے حکمرانوں کی ضرورت ہے، جو آئی ایم ایف، یو این اور اس کے ذیلی اداروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے، انہیں یاد دلائے کہ کشمیر کے حوالے سے ان کی کیا ذمہ داری ہے۔ انڈیا کشمیر میں کیا کر رہا ہے، اور ایف اے ٹی ایف نے آر ایس ایس، بجرنگ دل، اور دوسری دہشت گرد تنظیموں سے کیونکر نظریں چرا رکھی ہیں۔مگر موجودہ حکمرانوں کا یہ حال ہے کہ ابھی اشارہ بھی نہیں ہوتا، اور وہ پہلے ہی زمین بوس ہو جاتے ہیں ، جس سے یہ شک پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ملی بھگت سے ہو رہا ہے، اور حکومت صرف ایف اے ٹی ایف کا کندھا استعمال کر رہی ہے۔