صفوی فرقہ
صفوی فرقہ کے سیاسی جرائم میں ایک یہ ہے کہ انہوں نے خلافتِ عثمانیہ کے خلاف خروج کیا اور سن 1500 عیسوی میں اپنی ایک علیحدہ ریاست قائم کی اور وہاں رافضیت کو بطور دین نافذ کیا اور اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ انہوں نے اہل السنۃ کے ساتھ جنگ کی جو کہ وہاں اکثریت میں تھے یہاں تک کہ اس علاقے میں سنیوں کی تعداد 65% تک تھی۔ پھر1588 عیسوی میں انہوں نے شاہ عباس صفوی کے عہد میں انگریز کے ساتھ اتحاد کیا اور انہیں اپنے ملک میں بسایا اور ان کے ساتھ ایسے منصوبے بنائے تاکہ خلافتِ عثمانیہ کے خلاف تحریک چلائی جا سکے۔ ان کے اجتماعات میں انگریز موجود ہوتے تھے جن میں مشہور ''سر انتھونی اوررابرٹ چارلی''تھے۔
جبکہ ان کے ایسے جرائم جن کا تعلق عقیدہ سے ہے کہ انہوں نے ایرانی حاجیوں کو بیت اللہ، مکہ مکرمہ کی بجائے ''مشہد'' کا حج کرنے کی طرف لگا دیا۔ ان کے شاہ عباس صفوی نے مشہد میں حج ادا کیا اس کام کو شروع کرتے ہوئے وہ اپنے قدموں پر پیدل چل کے گیا تاکہ لوگوں کو بیت اللہ کے حج سے پھیرے اور خود اس کام کے لیے نمونہ بن جائے۔ اس وقت سے مشہد شہر ایرانی رافضیوں کے لیے ایک مقدس شہر بن گیا ہے۔ صفویوں نے شاہ عباس کے عہد میں مغربی مشنریوں کو اپنے ملک میں آنے کی اجازت دی یہاں تک کہ انہیں گرجے تعمیر کرنے کی اجازت دی اور انگریز کے ساتھ اقتصادی، عسکری اور سیاسی تعاون کے پل بنائے۔
چنانچہ اس کا ذکر کرتے ہوئے ''سلیم واکیم''نے اپنی کتاب ''ایرانی تہذیب''میں کہا کہ '' پرتگالیوں کے علاقہ میں ظہور کے بعد ایران نے برطانیہ ، فرانس اور ہالینڈ کے ساتھ تجارتی تعلقات استوار کرنا شروع کیے یہاں تک کہ یہ تعلقات 1857 میں شاہ عباس کے عہد میں ہی ڈپلومیٹک لیول سے بڑھتے ہوئے اتفاقی اور دینی سطح پر پہنچ گئے۔پھر علاقے میں مغرب کے ساتھ تعلقات میں پالیسی کی تبدیلی واضح محسوس کی گئی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ شاہ نے ڈپلومیٹس، تاجر ، صعنت کار اور فوجیوں کے علاوہ مغربی مشنریوں اور ان کے پادریوں کو ملک میں آنے کی اجازت دی۔ حتی کہ انہوں نے بہت سے گرجا گھر تعمیر کیے۔