میں حیران ہوتا ہوں پاکستانی قوم کے حماقت سے پُر رویے پر کہ انہیں اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ اپنے جسم پر اپنی مرضی کیوں؟ میں ان تمام حضرات سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ بھئی اگر میرے جسم پر میری اپنی مرضی نہیں چلنی تو پھر کس کی مرضی چلنی ہے؟ ذرا اس کی وضاحت تو کردیں۔۔ مذہبی حضرات فرماتے ہیں کہ جی انسان کے جسم پر تو خدا کی مرضی چلنی ہے، انسان کی نہیں۔۔ چلیے جی ! آپ کی یہ لاجک لمحہ بھر کو مان لیتے ہیں کہ جس نے بنایا ہے اگر وہ چاہتا ہے کہ اپنی مخلوق پر اس کی مرضی چلے تو کچھ بات سمجھ میں آسکتی ہے، مگر پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون بتائے گا کہ خدا کی مرضی کیا ہے؟ کیا یہ سڑی ہوئی سوچ والے ملا حضرات خدا کے نمائندے بن کر ہمیں بتائیں گے کہ وہ ہمارے جسموں کے ساتھ کیا کرنا چاہتا ہے۔۔ ؟ یہ ملا حضرات جو اس قدر قدیم سوچ اور نظریات کے مالک ہیں کہ آج کے زمانے میں سماج کے کسی گوشے میں فٹ ہی نہیں ہوتے، یہ ہمیں بتائیں گے کہ ہم نے کیسا لباس پہننا ہے؟ بال کیسے تراشنے ہیں، داڑھی رکھنی ہے یا نہیں، جنسی ضرورت کیسے پوری کرنی ہے؟ یہ ملا حضرات جو اس قابل بھی نہیں کہ اپنی دو وقت کی روٹی خود کما سکیں، بھیک مانگ مانگ کر یہ اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتے ہیں، یہ ہمیں بتائیں گے کہ ہمارا جسم کیسا ہونا چاہئے۔۔؟
اگر خدا کو یہ ناپسند ہے کہ انسان اپنے جسم پر اپنی مرضی چلائے تو (بقول ملا حضرات کے) وہ تو قادرِ مطلق ہے، کچھ بھی کرسکتا ہے، وہ ہمیں خود ہی روک لے گا۔۔ ملاحضرات کو بیچ میں اپنا لچُ تلنے کی کیا ضرورت ہے۔۔
جدید دنیا میں ہر شخص جب تک کسی دوسرے کو نقصان نہیں پہنچاتا اور سماج کیلئے انفرادی حیثیت میں نقصان کا باعث نہیں بنتا، تب تک وہ اپنے جسم پر اختیارِ کلی کا مالک ہے ، وہ جیسے چاہے کپڑے پہن سکتا ہے، جس کے ساتھ چاہے شادی کرسکتا ہے، چاہے تو بغیر شادی کے جنسی تعلقات رکھ سکتا ہے، یہ کلی طور پر اس کا اپنا اختیار ہے۔ وہ چاہے تو مونچھیں رکھے، چاہے تو داڑھی رکھے ، چاہے تو روزانہ داڑھی مونڈھ کر گٹر برد کرے، اپنے جسم کے بالوں پر ہر انسان کا اپنا اختیار ہے۔۔
المیہ ملاحظہ کیجئے کہ اکیسیویں صدی میں بھی ہماری قوم کے جہلاء کو یہ بتانا پڑرہا ہے کہ بھئی لباس کے معاملے میں، جسمانی وضع قطع کے معاملے میں ، جنسی تعلقات کے معاملے میں ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کرے۔۔ ہر مرد کو یہ حق حاصل ہے، ہر عورت کو یہ حق حاصل ہے۔۔ آپ مذہب کے نام پر یا سماج کے نام پر کسی مرد یا عورت سے یہ حق نہیں چھین سکتے۔۔۔ میں داد دیتا ہوں ان خواتین کو جو ہر سال میرا جسم میری مرضی کے بینرز اٹھا کر اس قوم کا خوابیدہ شعور بیدار کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔۔۔
وہ تمام پاکستانی خواتین جن کو مذہبی اور سماجی جبر تلے برقعے اور چادروں میں لپیٹ لپیٹ کر گھروں کی چار دیواریوں میں بند رہنے پر مجبور کردیا گیا ہے، ان تمام خواتین کو ہمت کرنی چاہئے، کالا برقعہ یا دوپٹہ غلامی کی علامت ہے جو مرد نے عورت کے گلے میں لپیٹ رکھا ہے اور اس کے جسم کو مقید کررکھا ہے۔۔ عورت فرسودہ زمانوں کی ان زنجیروں کو اتار پھینکے۔۔ عورت کا چہرہ کوئی شرمگاہ نہیں کہ وہ ہر جگہ منہ چھپائے بے شناخت پھرتی رہے۔ عورت مکمل انسان ہے، اسے کسی برقعے یا دوپٹے کی ضرورت نہیں۔۔۔ نہ ہی ہے اسے اپنے چہرے کو شرمگاہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔۔ ہمارے سماج کی عورت جب تک ان زنجیروں سے آزادی حاصل نہیں کرلیتی تب تک وہ اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کر بروئے کار نہیں لاسکتی، تب تک وہ جدید دنیا میں اپنا کوئی حصہ نہیں ڈال سکتی۔۔۔
اگر خدا کو یہ ناپسند ہے کہ انسان اپنے جسم پر اپنی مرضی چلائے تو (بقول ملا حضرات کے) وہ تو قادرِ مطلق ہے، کچھ بھی کرسکتا ہے، وہ ہمیں خود ہی روک لے گا۔۔ ملاحضرات کو بیچ میں اپنا لچُ تلنے کی کیا ضرورت ہے۔۔
جدید دنیا میں ہر شخص جب تک کسی دوسرے کو نقصان نہیں پہنچاتا اور سماج کیلئے انفرادی حیثیت میں نقصان کا باعث نہیں بنتا، تب تک وہ اپنے جسم پر اختیارِ کلی کا مالک ہے ، وہ جیسے چاہے کپڑے پہن سکتا ہے، جس کے ساتھ چاہے شادی کرسکتا ہے، چاہے تو بغیر شادی کے جنسی تعلقات رکھ سکتا ہے، یہ کلی طور پر اس کا اپنا اختیار ہے۔ وہ چاہے تو مونچھیں رکھے، چاہے تو داڑھی رکھے ، چاہے تو روزانہ داڑھی مونڈھ کر گٹر برد کرے، اپنے جسم کے بالوں پر ہر انسان کا اپنا اختیار ہے۔۔
المیہ ملاحظہ کیجئے کہ اکیسیویں صدی میں بھی ہماری قوم کے جہلاء کو یہ بتانا پڑرہا ہے کہ بھئی لباس کے معاملے میں، جسمانی وضع قطع کے معاملے میں ، جنسی تعلقات کے معاملے میں ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کرے۔۔ ہر مرد کو یہ حق حاصل ہے، ہر عورت کو یہ حق حاصل ہے۔۔ آپ مذہب کے نام پر یا سماج کے نام پر کسی مرد یا عورت سے یہ حق نہیں چھین سکتے۔۔۔ میں داد دیتا ہوں ان خواتین کو جو ہر سال میرا جسم میری مرضی کے بینرز اٹھا کر اس قوم کا خوابیدہ شعور بیدار کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔۔۔
وہ تمام پاکستانی خواتین جن کو مذہبی اور سماجی جبر تلے برقعے اور چادروں میں لپیٹ لپیٹ کر گھروں کی چار دیواریوں میں بند رہنے پر مجبور کردیا گیا ہے، ان تمام خواتین کو ہمت کرنی چاہئے، کالا برقعہ یا دوپٹہ غلامی کی علامت ہے جو مرد نے عورت کے گلے میں لپیٹ رکھا ہے اور اس کے جسم کو مقید کررکھا ہے۔۔ عورت فرسودہ زمانوں کی ان زنجیروں کو اتار پھینکے۔۔ عورت کا چہرہ کوئی شرمگاہ نہیں کہ وہ ہر جگہ منہ چھپائے بے شناخت پھرتی رہے۔ عورت مکمل انسان ہے، اسے کسی برقعے یا دوپٹے کی ضرورت نہیں۔۔۔ نہ ہی ہے اسے اپنے چہرے کو شرمگاہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔۔ ہمارے سماج کی عورت جب تک ان زنجیروں سے آزادی حاصل نہیں کرلیتی تب تک وہ اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کر بروئے کار نہیں لاسکتی، تب تک وہ جدید دنیا میں اپنا کوئی حصہ نہیں ڈال سکتی۔۔۔