او آئی سی اس معاملے میں تو متحرک ہو

Doctor sb

Senator (1k+ posts)
او آئی سی اس معاملے میں تو متحرک ہو
------------------------------------------------
دو روز قبل کی خبر ہے کہ فرانس کے شہر پیرس میں ایک سکول ٹیچر کا قتل ہوا- خبر کے مطابق ٹیچر نے کلاس میں بچوں کو متنازع کارٹون دیکھاۓ اور انہیں زیربحث لایا- کلاس میں دیگر قومیتوں کے مسلم بچے بھی زیرتعلیم تھے جنھوں نے اس بات کا ذکر گھروں میں کیا جس پر والدین کی جانب سے صداۓ احتجاج بلند ہوئی- سکول انتظامیہ نے معاملے کی حساسیت کو درخور اعتناء نہ سمجھا بلکہ جواز کے لیے قانونی اور منطقی تاویلیں گھڑیں- معاملہ مسلم تنظیموں کے نوٹس میں لایا گیا
جنھوں نے اسکول انتظامیہ سے شکایت کی اور استاد کے خلاف ضروری تادیبی کاروائی کا مطالبہ کیا ۔۔۔ مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی

اس دوران استاد کو قتل کی دھمکیاں بھی ملتی رہیں جس پر پولیس کو بروقت آگاہ کیا گیا- امن وامان کے ذمہ دار اداروں کی کوتاہی سمجھیے یا تجاہل عارفانہ، کہ انھوں نے بھی معاملے کی جانچ پڑتال نہ کی اور یوں ایک 18 سالہ چیچن نژاد مسلم نوجوان نے استاد کو قتل کردیا- اور خود بھی پولیس کی گولیوں کا شکار ہوگیا- واضح رہے کہ نوجوان اس سکول کا طالبعلم نہ تھا

قتل ہونے پر پورا ملک سکتے میں آگیا- واقعے کو اسلامی دہشت گردی کا لیبل لگا کر ملک بھر میں مسلم تنظمیوں و افراد کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا ہے- درجنوں افراد گرفتار جبکہ چھاپوں کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے
اس قتل سے کچھ ماہ قبل ایسی نوعیت کا ایک اور واقعہ بھی پیش آچکا ہے جب رسواۓ زمانہ میگزین چارلی ایبڈو نے خاکے شائع کرکے پرامن معاشرے میں فساد کھڑا کرنے کی کوشش کی- تب بھی ایک پاکستانی نوجوان نے اخبار کے دفتر پر حملہ کرکے چند افراد کو زخمی کیا تھا
ہمارا مشاہدہ وتجربہ اس بات پر گواہ ہے کہ اس قسم کا جذباتی ردعمل ہمیشہ کوئنٹرپروڈکٹیو رہا ہے یعنی نتائج نیتوں کے برعکس ہی رہے ہیں

انہی خاکوں کی مثال لے لیجیۓ- 2005ء میں پہلی مرتبہ شائع ہوۓ اور تب سے اب تک متعدد بار یہ نازیبا جسارتیں ہوچکیں- 2015ء میں چارلی ایبڈو کے دفتر پر حملے میں کئی ہلاکتیں بھی ہوئیں مگر دلی آزاری کا یہ مکروہ سلسلہ نہ رکا
اس کے برعکس فرانس میں دائیں بازو کے شدت پسندوں نے ان اموات کو کلچر پر حملے کا جواز بناکر سیاسی راہ ہموار کی، ووٹرز میں مسلم شدت پسندی اور تہذیبی تصادم کا پراپگینڈہ کرکے پارلیمان میں قابل زکر نشستیں حاصل کرلیں- جس کے اثرات اب مسلم مہاجرین کی آمد پر پابندی اور اسلامی شعائر پر قدغنوں کی صورت دیکھا جارہا ہے
تاک میں بیٹھے ایسے مفاد پرست عناصر مواقع کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ چند لاشیں گریں، انتشار پھیلے اور وہ مذہبی تعصب، نفرت، اور سیاسی تقسیم کا الاؤ مزید دھکائیں اور ماحول کی پراگندگی میں اضافہ کریں- نارمل حالات میں جن کی سیاسی دکان نہیں چمک پاتی
فرانس کا موجودہ صدر میکران جو سوشلسٹ ایجنڈے پر برسراقتدار آیا، اس سے امید تھی کہ وہ اس مسئلے کا پائیدار حل تلاش کرے گا مگر افسوس وہ بھی ایک کٹرمذہبی شدت پسند نکلا جس کی زبان ان دنوں تعصب اور نفرت کے شعلے اگل رہی ہے- اپنے حالیہ بیانات میں وہ کئی بار اسلام اور مسلمانوں کو موردالزام ٹھہرا چکا- اس کے روئیے میں نرگسیت، غرور، اور قدیم سامراجی تفاخر واضح دیکھائی دیتا ہے
یورپین ممالک بالخصوص فرانس کی اس معاملے کی حساسیت کو اہمیت نہ دینا کولونئیل زہنیت کی عکاسی کرتا ہے جس میں مقبوضہ قوم کی ثقافت، مذہبی اقدار، اور اخلاقی اصولوں کو پرکاہ حثیت نہیں دی جاتی بلکہ کمترنظر سے دیکھا جاتا تھا
آخر یہ کہاں کی آزادی اظہار راۓ ہے کہ جس میں اربوں انسانوں کے مذہبی جذبات برانگیختہ کرنے کی کھلم کھلا چھوٹ ہے اور اس پر ہٹ دھرمی بھی دیکھائی جا رہی ہے

سوال مسلم ریاستوں کے حکمرانوں بالخصوص او آئی سی کے کرتا دھرتاؤں سے ہے کہ اگر کشمیر وفلسطین کے مسئلہ پر وہ اجلاس طلب نہیں کرسکتے تو کم ازکم اس معاملے پر ہی یگانگت دیکھا دیں- مٹھی بھر یہودی اگر ہولوکاسٹ پر قانون سازی کروا سکتے ہیں تو پچاس اسلامی مملکتیں کیوں نہیں اپنی مجموعی طاقت ایک پلڑے میں رکھ کر اسے باوقعت بناتیں؟ آخر ایسا کرنے میں کیا امر مانع ہے
 

Diesel

Chief Minister (5k+ posts)
arabs ke hukamra in gooro ke ghulam agents ha.. goore inko security provide karte ha. goroo ki support inko na ho To inki hukamrani dabardoos.. OIC ka asal maqsad poor musalman countries ko apne under rakna ha. Jis tara ke recently IK ne aik alag muslim block ke liye awaz otayi Lekin prince MBS ne IK ka plan dabardos kar diya..
 

1234567

Minister (2k+ posts)
او آئی سی اس معاملے میں تو متحرک ہو
------------------------------------------------
دو روز قبل کی خبر ہے کہ فرانس کے شہر پیرس میں ایک سکول ٹیچر کا قتل ہوا- خبر کے مطابق ٹیچر نے کلاس میں بچوں کو متنازع کارٹون دیکھاۓ اور انہیں زیربحث لایا- کلاس میں دیگر قومیتوں کے مسلم بچے بھی زیرتعلیم تھے جنھوں نے اس بات کا ذکر گھروں میں کیا جس پر والدین کی جانب سے صداۓ احتجاج بلند ہوئی- سکول انتظامیہ نے معاملے کی حساسیت کو درخور اعتناء نہ سمجھا بلکہ جواز کے لیے قانونی اور منطقی تاویلیں گھڑیں- معاملہ مسلم تنظیموں کے نوٹس میں لایا گیا
جنھوں نے اسکول انتظامیہ سے شکایت کی اور استاد کے خلاف ضروری تادیبی کاروائی کا مطالبہ کیا ۔۔۔ مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی

اس دوران استاد کو قتل کی دھمکیاں بھی ملتی رہیں جس پر پولیس کو بروقت آگاہ کیا گیا- امن وامان کے ذمہ دار اداروں کی کوتاہی سمجھیے یا تجاہل عارفانہ، کہ انھوں نے بھی معاملے کی جانچ پڑتال نہ کی اور یوں ایک 18 سالہ چیچن نژاد مسلم نوجوان نے استاد کو قتل کردیا- اور خود بھی پولیس کی گولیوں کا شکار ہوگیا- واضح رہے کہ نوجوان اس سکول کا طالبعلم نہ تھا

قتل ہونے پر پورا ملک سکتے میں آگیا- واقعے کو اسلامی دہشت گردی کا لیبل لگا کر ملک بھر میں مسلم تنظمیوں و افراد کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا ہے- درجنوں افراد گرفتار جبکہ چھاپوں کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے
اس قتل سے کچھ ماہ قبل ایسی نوعیت کا ایک اور واقعہ بھی پیش آچکا ہے جب رسواۓ زمانہ میگزین چارلی ایبڈو نے خاکے شائع کرکے پرامن معاشرے میں فساد کھڑا کرنے کی کوشش کی- تب بھی ایک پاکستانی نوجوان نے اخبار کے دفتر پر حملہ کرکے چند افراد کو زخمی کیا تھا
ہمارا مشاہدہ وتجربہ اس بات پر گواہ ہے کہ اس قسم کا جذباتی ردعمل ہمیشہ کوئنٹرپروڈکٹیو رہا ہے یعنی نتائج نیتوں کے برعکس ہی رہے ہیں

انہی خاکوں کی مثال لے لیجیۓ- 2005ء میں پہلی مرتبہ شائع ہوۓ اور تب سے اب تک متعدد بار یہ نازیبا جسارتیں ہوچکیں- 2015ء میں چارلی ایبڈو کے دفتر پر حملے میں کئی ہلاکتیں بھی ہوئیں مگر دلی آزاری کا یہ مکروہ سلسلہ نہ رکا
اس کے برعکس فرانس میں دائیں بازو کے شدت پسندوں نے ان اموات کو کلچر پر حملے کا جواز بناکر سیاسی راہ ہموار کی، ووٹرز میں مسلم شدت پسندی اور تہذیبی تصادم کا پراپگینڈہ کرکے پارلیمان میں قابل زکر نشستیں حاصل کرلیں- جس کے اثرات اب مسلم مہاجرین کی آمد پر پابندی اور اسلامی شعائر پر قدغنوں کی صورت دیکھا جارہا ہے
تاک میں بیٹھے ایسے مفاد پرست عناصر مواقع کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ چند لاشیں گریں، انتشار پھیلے اور وہ مذہبی تعصب، نفرت، اور سیاسی تقسیم کا الاؤ مزید دھکائیں اور ماحول کی پراگندگی میں اضافہ کریں- نارمل حالات میں جن کی سیاسی دکان نہیں چمک پاتی
فرانس کا موجودہ صدر میکران جو سوشلسٹ ایجنڈے پر برسراقتدار آیا، اس سے امید تھی کہ وہ اس مسئلے کا پائیدار حل تلاش کرے گا مگر افسوس وہ بھی ایک کٹرمذہبی شدت پسند نکلا جس کی زبان ان دنوں تعصب اور نفرت کے شعلے اگل رہی ہے- اپنے حالیہ بیانات میں وہ کئی بار اسلام اور مسلمانوں کو موردالزام ٹھہرا چکا- اس کے روئیے میں نرگسیت، غرور، اور قدیم سامراجی تفاخر واضح دیکھائی دیتا ہے
یورپین ممالک بالخصوص فرانس کی اس معاملے کی حساسیت کو اہمیت نہ دینا کولونئیل زہنیت کی عکاسی کرتا ہے جس میں مقبوضہ قوم کی ثقافت، مذہبی اقدار، اور اخلاقی اصولوں کو پرکاہ حثیت نہیں دی جاتی بلکہ کمترنظر سے دیکھا جاتا تھا
آخر یہ کہاں کی آزادی اظہار راۓ ہے کہ جس میں اربوں انسانوں کے مذہبی جذبات برانگیختہ کرنے کی کھلم کھلا چھوٹ ہے اور اس پر ہٹ دھرمی بھی دیکھائی جا رہی ہے

سوال مسلم ریاستوں کے حکمرانوں بالخصوص او آئی سی کے کرتا دھرتاؤں سے ہے کہ اگر کشمیر وفلسطین کے مسئلہ پر وہ اجلاس طلب نہیں کرسکتے تو کم ازکم اس معاملے پر ہی یگانگت دیکھا دیں- مٹھی بھر یہودی اگر ہولوکاسٹ پر قانون سازی کروا سکتے ہیں تو پچاس اسلامی مملکتیں کیوں نہیں اپنی مجموعی طاقت ایک پلڑے میں رکھ کر اسے باوقعت بناتیں؟ آخر ایسا کرنے میں کیا امر مانع ہے
Article is good but you are expecting SHEMALES ( ہجڑا) to be become father.