انجینرنگ پروڈکٹس میں خود انحصاری . . . . پاکستان کی اہم ضرورت

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
سائنس دانوں نے چند سال پہلے ایک نیا میٹریل بنایا . یہ نیا میٹریل کاربن فائبر کہلاتا ہے . اس نئے میٹریل کی خوبی ہے کہ یہ سٹیل سے کئی گنا مضبوط اور کئی گنا ہلکا ہے . اپنی انہی خوبیوں کی وجہ سے یہ میٹریل اسپورٹس کار ، جنگی جہاز اور کئی اہم صنعتوں میں استعمال ہوتا ہے
مغرب میں کئی کمپنیاں یہ میٹریل بنا رہی تھیں ، اب ہوا یوں کہ اس میٹریل کی اہمیت کی بناء پر چین نے بھی مغربی کمپنیوں سے یہ میٹریل خریدنے پر دلچسپی دکھائی تومغربی کمپنیوں نے شدید مخالفت کی. چین سے کہا گیا کہ وہ پہلے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرے ، ہانگ کانگ ، تائیوان کو آزاد کرے اور ملک میں لیبر قوانین کو درست کرے وغیرہ وغیرہ
چین نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے دلچسپ حل نکالا . چین نے اپنے ملک کے ہی لوگوں کو یہ میٹریل بنانے کا ٹاسک دیا
بظاہر یہ کام مشکل لگتا ہے لیکن اس وقت اس میٹریل سے متعلقہ تمام علوم کتابوں میں موجود ہیں ، لہٰذا چینی ماھرین نے بھی چند ماہ کے اندر اندر یہ میٹریل بنا لیا اور اس وقت آپ علی بابا ڈاٹ کام پر یہ میٹریل تھوک کے حساب سے خرید سکتے ہیں
. . . . . . . . .
پاکستان بھی کئی انجینرنگ پروڈکٹس کے لئے مغرب کا محتاج ہے ، خوش قسمتی سے حکومت کو اس بات کا اندازہ ہے اور حکومت پاکستان میں پلانٹ لگانا چاہتی بھی ہے لیکن حکومت کی اپروچ غلط ہے
آپ کے سامنے ٹیلی کمیونیکشن کمپنیوں مثلا جاز ، زونگ وغیرہ کی مثال ہے آپ کے سامنے یونی لیور کی مثال ہے نیسلے ، کاڈبری وغیرہ سب کچھ بیرونی کمپنیوں کے تحت ہی پاکستان میں بنتا ہے لیکن منافع باہر جاتا ہے
حکومت چاہتی ہے کہ موبائل فون بنانے کا کارخانہ پاکستان میں لگے ، اس کے لئے چینی کارخانہ داروں نے یہاں پلانٹ لگایا ہے . میرے خیال میں اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہونے والا . . . . .. چینی انویسٹر سارا منافع باہر لے جائے گا . یونی لیور ، جاز ، زونگ کی طرح عشروں بعد بھی حالات ایسے ہی چلتے جایئں گے
اس لئے حکومت سے پر زور اپیل ہے کہ انجینرنگ مصنوعات پاکستان میں پاکستانی انجنیئر سے ہی بنوانے پر کام کرے
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)

سرکاری ملازمین کی کرپشن . . . .ایک اہم مسلہ
پاکستان میں سٹیل مل ، ریلوے ، پی آئی اے وغیرہ انجینرنگ سے متعلقہ شعبے ہیں اور یہاں کا برا حال سب کے سامنے ہے . اس لئے یہ نقطہ بہت وزن رکھتا ہے کہ نئے انجینرنگ پروجیکٹس اگر شروع کر لئے جایئں تو کیا گارنٹی ہے کہ ان کا بھی حال ان جیسا نہیں ہو گا ؟
اس بارے میں میں سوچتا ہوں کہ ہمیں پہلے کی گئی غلطیوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے
ہم نے سٹیل مل ، ریلوے ، پی آئی اے جیسے اداروں کی پکی تنخواہ لگا دی ، چاہے وہ منافع کمائیں یا نہ کمائیں . اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سرکاری ملازم بلکل ہی کام کرنا چھوڑ گئے اور بیٹھ کر تنخواہ لینے لگے
عام ملازم بیٹھ کر تنخواہ لینے لگے اور بڑی پوسٹوں پر لوگ کرپشن کرنے لگے ، پھر کچھ عرصے کے بعد ریکارڈ جلانے جیسے واقعات پیش آنے لگے
اس کے علاوہ ان سرکاری اداروں میں سیاست دانوں نے بھی اپنے لوگ بھرتی کیے اور اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ایک ملازم کی جگہ دس دس ملازم بھرتی ہیں اور پاکستان کو ایک ملازم یورپ کے ریٹ پر پڑتا ہے
حل کیا ہے ؟
قابل اور ایماندار بندہ اور ایسا نظام جس میں بے ایمانی ممکن ہی نہ ہو
آج کل تمام بڑے پروجیکٹ کمپیوٹرائزڈ کیے جاتے ہیں ، پروجیکٹ شروع کرنے سے پہلے معلوم ہوتا ہے کہ اس پروجیکٹ میں کیا کیا چھوٹے ٹاسک ہوں گے ان پر انجنیئرز کا کتنا وقت لگے گا اور کتنا خرچہ آئے گا
کمپیوٹرائزڈ نظام کی وجہ سے ریکارڈ جلایا نہیں جا سکتا ، نہ ہی بے ایمانی کی جا سکتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وزیر آزم صاحب گھر پر بیٹھے ہی پروجیکٹ کی پروگریس دیکھ سکتے ہیں
. .
فکس تنخواہ کا نظام ختم کیا جائے ، ہر بندے کے سامنے کام ہو اس کام کی مزدوری ہو . بندے کو پتہ ہو کہ میں نے یہ کام کیا تو میرے اتنے پیسے بنیں گے . اور اگر کوئی شخص کام نہیں کرتا تو اس کی تنخواہ بھی نہیں بنے گی
کمپیوٹرزڈ نظام کی وجہ سے یہ سب کرنا بہت آسان ہے

 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)

مثال . . . . . ڈیم کے لئے ٹربائن
سب جانتے ہیں کہ پاکستان کو ڈیم اور سستی بجلی بنانے کی بہت ضرورت ہے پچھلی حکومتوں نے بجلی کے مہنگے منصوبے شروع کیے ، سوال یہ ہے کہ ان منصوبوں کے ختم ہونے کے بعد کیا ہو گا ؟
کیا وہی کمپنیاں اب کے بار سستے منصوبے لگا کر دیں گی ؟ یا ہم خود سستے منصوبے بنائیں گے

ڈیم میں موجود پانی کے ذخیرے کو بجلی میں بدلنے کے لئے ٹربائن کی ضرورت ہوتی ہے
پاکستان میں یہ ٹربائن بنائی جا سکتی ہیں . اس کے لئے مشینیں موجود ہیں ، ایک بار انجنیئرز کی ٹیم اس کام کو کر لے تو پھر بڑے چھوٹے ڈیم کے لئے ٹربائن ہم خود بنا سکتے ہیں
اس سے پاکستان میں لوگوں کو روزگار بھی ملے گا اور ہم خود انحصاری کی طرف بھی جایئں گے
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
موبائل فون پروڈکشن
روبوٹکس اور خود کار مشینیں
الیکٹرک بائیک
میکانکی زرائے سے سولر پاور سے بجلی بنانا
زرعی مصنوعات کی ویلیو ایڈیشن
وغیرہ وغیرہ
 
Last edited:

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
موبائل فون پروڈکشن
روبوٹکس اور خود کار مشینیں
الیکٹرک بائیک
میکانکی زرائے سے سولر پاور سے بجلی بنانا
زرعی مصنوعات کی ویلیو ایڈیشن
وغیرہ وغیرہ
شاہ جی، کم از کم آپ کی سوچ کو سو میں سے سوا سو نمبر دینے پڑیں گے، کہ آپ کی سوچ کی سمت بلکل درست ہے۔

لیکن شاہ جی، یہاں کے نظام کی شائد ابھی تک آپ کو سمجھ نہیں آئی۔

شاہ جی، ی ہجو پانچ سال کی باری لگانے والا چکر ہے، ہم اسمیں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایک حکومت میں اگر ایک دیانتدار بندہ آکر کوئی کام کر بھی لے تو اگلی حکومت میں آنے والا بے ایمان بندہ اس سب کے کیئے کرائے پر پانی پھیر دیتا ہے۔

پاکستان اسٹیل ملز مشرف کے دور میں منافع میں تھی۔

پھر اس سے بڑا لطیفہ جو سامنے آیا وہ یہ تھا کہ پاکستان اپنی ضرورت کا تمام پلاسٹک اور ربّر درآمد کرتا ہے۔ یعنی کہ ہمارا تیفتھا جو ہماری ریفائنری سے نکلتا ہے ہم اسے ایکسپورٹ کرتے ہیں اور پھر اسی سے بنا پلاسٹک اور ربر امپورٹ کرتے ہیں۔

انجینیئرنگ تو ہنوز دور است، یہ اس سادے سے کام پر کوئی توجہّ نہیں دے سکے۔
خیر آئی سی آئی نے ہمّت کر کے کراچی کے پورٹ قاسم کے علاقے میں ایک نیفتھا کریکنگ کا پلانٹ لگایا، جو کہ اپنے وقت کا پرائیویٹ سیکٹر کا سب سے بڑا پروجیکٹ تھا۔

پھر قسمت کا کرنا یوں ہوا کہ زرداری صاحب کی حکومت آئی اور انھوں نے امپورٹ ہونے والے پلاسٹک اور ربر پر ڈیوٹی بہت کم کردی، اپنوں کو نوازنے کے لیئے اور نتیجتاً آئی سی آئی کا پلانٹ اب کھنڈر بن چکا ہے۔
اسکو بعد از ایک اور ’’لا فارج‘‘ نامی کمپنی نے خریدا، لیکن کچھ حاصل نہیں ہوا۔ صرف ایک شخص کی شرارت کی وجہ سے۔

انھی حرکتوں کی وجہ سے بہت ساری کمپنیاں جو پاکستان میں آنا چاہتی ہیں، نہیں آتیں، بلکہ ہمارے مقابلے میں انڈیا، بنگلہ دیش یا پھر سری لنکا جیسے ملک میں چلی جاتی ہیں۔ فی الحال آپ ویتنام اور تھائی لینڈ کو دیکھ لیں۔ ہمارا مقابلہ ہے تو نہیں ان کے ساتھ، لیکن اس وقت وہ انڈسٹری میں اٹھتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

گورنمنٹ کو ضروری نہیں کہ انجینیئرنگ کے ادارے خود بنائے، کیونکہ یہاں بنیادی مفادات کا تضاد آجاتا ہے۔ حکومت کا کام نہیں ہے کاروبار کرنا اور وہ بھی اپنے ہی صنعت کاروں کے مقابلے میں۔

بہتر یہی ہوگا کہ جو پرائیویٹ سیکٹر کی کمپنیاں یہاں انویسٹمنٹ کرنا چاہتی ہیں، حکومت ان کی بھرپور سپورٹ کرے اور قوانین ایسے بنائے کہ اگر پانچ سال بعد حکومت بدل بھی جائے تب بھی اس انڈسٹری کو کوئی اور حکومت تنگ نہ کرے۔
 

Kam

Minister (2k+ posts)
موبائل فون پروڈکشن
روبوٹکس اور خود کار مشینیں
الیکٹرک بائیک
میکانکی زرائے سے سولر پاور سے بجلی بنانا
زرعی مصنوعات کی ویلیو ایڈیشن
وغیرہ وغیرہ
Dear we need two kind of approaches.
One is Automobile sector. Since we are not available with enough technological background, so better would to start license based manufacturing. But we have to make sure that all things are being manufactured in Pakistan from Engine to Power Transmission, body and automation.
For this Government intervention is needed, we can request Russian Government to transfer us manufacturing units for Automobiles and provide us with R&D and QA/QC under some agreement and they can get payment of their patent. In this way, we will develop local skills as well as we will start a process for self reliance.
By current method of assembling, only major companies are saving their transport cost for shipment, they are not giving us any favor.

Second house hold items. I give one example such as AC or refrigerator. All costly items are being imported such as compressor, even copper tubing. Then what's the use in naming the local manufacturing, its only assembling by tightening fewer nuts bolts.

Automation industry is another big step. You see every thing is being automated from house hold items to industry.



Overall major problem is in our education system. Our students should be trained electrician and should have skills to handle all instrument part when they come out of the High School. We need to create Labs and give practical hand to the students. This way of ratta system is not going to bring any change.
If a high school student can not repair his mobile, then he should considered as fail.
If a high school student cannot repair his switch board, then he should be considered as fail as well.
Only i want to insist a practical hand, everyone should have with theory. If more practical, theory will become easy.
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)

شاہ جی، کم از کم آپ کی سوچ کو سو میں سے سوا سو نمبر دینے پڑیں گے، کہ آپ کی سوچ کی سمت بلکل درست ہے۔

لیکن شاہ جی، یہاں کے نظام کی شائد ابھی تک آپ کو سمجھ نہیں آئی۔

شاہ جی، ی ہجو پانچ سال کی باری لگانے والا چکر ہے، ہم اسمیں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایک حکومت میں اگر ایک دیانتدار بندہ آکر کوئی کام کر بھی لے تو اگلی حکومت میں آنے والا بے ایمان بندہ اس سب کے کیئے کرائے پر پانی پھیر دیتا ہے۔

پاکستان اسٹیل ملز مشرف کے دور میں منافع میں تھی۔

پھر اس سے بڑا لطیفہ جو سامنے آیا وہ یہ تھا کہ پاکستان اپنی ضرورت کا تمام پلاسٹک اور ربّر درآمد کرتا ہے۔ یعنی کہ ہمارا تیفتھا جو ہماری ریفائنری سے نکلتا ہے ہم اسے ایکسپورٹ کرتے ہیں اور پھر اسی سے بنا پلاسٹک اور ربر امپورٹ کرتے ہیں۔

انجینیئرنگ تو ہنوز دور است، یہ اس سادے سے کام پر کوئی توجہّ نہیں دے سکے۔
خیر آئی سی آئی نے ہمّت کر کے کراچی کے پورٹ قاسم کے علاقے میں ایک نیفتھا کریکنگ کا پلانٹ لگایا، جو کہ اپنے وقت کا پرائیویٹ سیکٹر کا سب سے بڑا پروجیکٹ تھا۔

پھر قسمت کا کرنا یوں ہوا کہ زرداری صاحب کی حکومت آئی اور انھوں نے امپورٹ ہونے والے پلاسٹک اور ربر پر ڈیوٹی بہت کم کردی، اپنوں کو نوازنے کے لیئے اور نتیجتاً آئی سی آئی کا پلانٹ اب کھنڈر بن چکا ہے۔
اسکو بعد از ایک اور ’’لا فارج‘‘ نامی کمپنی نے خریدا، لیکن کچھ حاصل نہیں ہوا۔ صرف ایک شخص کی شرارت کی وجہ سے۔

انھی حرکتوں کی وجہ سے بہت ساری کمپنیاں جو پاکستان میں آنا چاہتی ہیں، نہیں آتیں، بلکہ ہمارے مقابلے میں انڈیا، بنگلہ دیش یا پھر سری لنکا جیسے ملک میں چلی جاتی ہیں۔ فی الحال آپ ویتنام اور تھائی لینڈ کو دیکھ لیں۔ ہمارا مقابلہ ہے تو نہیں ان کے ساتھ، لیکن اس وقت وہ انڈسٹری میں اٹھتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔


بہتر یہی ہوگا کہ جو پرائیویٹ سیکٹر کی کمپنیاں یہاں انویسٹمنٹ کرنا چاہتی ہیں، حکومت ان کی بھرپور سپورٹ کرے اور قوانین ایسے بنائے کہ اگر پانچ سال بعد حکومت بدل بھی جائے تب بھی اس انڈسٹری کو کوئی اور حکومت تنگ نہ کرے۔

میرے خیال میں اگر بڑے پروجیکٹس میں فوجیوں کو شامل کر لیا جائے تو شاید بچت ہو سکتی ہے
میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ فوجی اکثر و بیشتر اچھے منتظم ثابت ہوئے ہے

گورنمنٹ کو ضروری نہیں کہ انجینیئرنگ کے ادارے خود بنائے، کیونکہ یہاں بنیادی مفادات کا تضاد آجاتا ہے۔ حکومت کا کام نہیں ہے کاروبار کرنا اور وہ بھی اپنے ہی صنعت کاروں کے مقابلے میں۔
اگر بڑے صنعت کار ہی نئی صنعتیں لگائیں گے تو اس طرح دولت چند ہاتھوں میں ہی سمٹ جائے گی
اور اگر حکومت صنعت لگائے تو وہ چاہے زیادہ منافع بھی کما لے ، پھر بھی عوام کو نقصان نہیں ہو گا
خیر ! صنعت کا پہیہ چلنے میں تو ہم متفق ہی ہیں
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)

میرے خیال میں اگر بڑے پروجیکٹس میں فوجیوں کو شامل کر لیا جائے تو شاید بچت ہو سکتی ہے
میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ فوجی اکثر و بیشتر اچھے منتظم ثابت ہوئے ہے

اگر بڑے صنعت کار ہی نئی صنعتیں لگائیں گے تو اس طرح دولت چند ہاتھوں میں ہی سمٹ جائے گی
اور اگر حکومت صنعت لگائے تو وہ چاہے زیادہ منافع بھی کما لے ، پھر بھی عوام کو نقصان نہیں ہو گا
خیر ! صنعت کا پہیہ چلنے میں تو ہم متفق ہی ہیں
شاہ جی بات تو سچ ہے۔۔۔۔ ہمارے یہاں اکثر پروجیکٹس وہی چلتے ہیں جو فوج کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ سی پیک کی ہی مثال لے لیں۔ چین نے بھی گارنٹی فوج کی ہی مانگی تھی۔

لیکن شاہ جی یہ کام فوج کا نہیں ہے۔ ہم کب سمجھیں گے اس بات کو؟ کب ہم ڈنڈے کے بغیر کام کرنے کے عادی ہونگے؟

فوجی منتظم اچھے ہوتے ہیں، لیکن پیشہ ورانہ بلاغت بہ نسبت ایک پیشہ ور سے بہت کم ہوتی ہے۔

فوج کے نیچے چلنے والے ادارے چل تو رہے ہیں، لیکن ان میں وقت کے ساتھ ساتھ جدّت کی کمی رہی ہے، لہٰذا آہستہ آہستہ وہ بھی سفید ہاتھی بنتے جارہے ہیں۔ پی او ایف کی مثال لے لیں، ۱۹۵۰ سے جو جی تھری کی رائفل بنا رہے ہیں، آجتک وہی بن رہی ہے وہاں۔

اس کی بہ نسبت جو ادارے پرائیویٹ سیکٹر میں گئے ہیں، وہاں کوئی نہ کوئی ایسی کاروائی چل ہی رہی ہوتی ہے کہ جس سے کام چلتا رہے۔ پی ٹی سی ایل کی مثال لے لیں۔ جب سے پرائیوٹائز ہوا ہے، کام چل رہا ہے، وگرنہ ہمیں یاد ہے کہ اگر فون کی لائن کا بھی مسئلہ آجاتا تھا تو لائن مین کو ڈھونڈھتے برسوں گزر جاتے تھے۔ اسی طرح بینکوں میں بھی دیکھ لیں کہ الائیڈ بینک، ایم سی بی، یو بی ایل اور حبیب بینک بمقابلہ نیشنل بینک۔

دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں روکنے کے لیئے گورنمنٹ کوئی نہ کوئی پالیسی بنا سکتی ہے۔ لیکن جیسے اللہ کی کتاب میں ہے کہ یہ تفریق انسانوں میں اس لیئے ہے کہ یہ ایک دوسرے سے کام لے سکیں۔ دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں ہونا اپنے اندر کوئی بری بات نہیں اگر محنت کرنے والے کو اسکا حق جائز طور پر ادا کیا جارہا ہے۔ ہم پتہ نہیں کیوں یہاں پر کارل مارکس کے شیدائی بنتے ہیں، لیکن دوسری طرف پھر کمیونزم سے بھی ڈرتے ہیں۔
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)

شاہ جی بات تو سچ ہے۔۔۔۔ ہمارے یہاں اکثر پروجیکٹس وہی چلتے ہیں جو فوج کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ سی پیک کی ہی مثال لے لیں۔ چین نے بھی گارنٹی فوج کی ہی مانگی تھی۔

لیکن شاہ جی یہ کام فوج کا نہیں ہے۔ ہم کب سمجھیں گے اس بات کو؟ کب ہم ڈنڈے کے بغیر کام کرنے کے عادی ہونگے؟

فوجی منتظم اچھے ہوتے ہیں، لیکن پیشہ ورانہ بلاغت بہ نسبت ایک پیشہ ور سے بہت کم ہوتی ہے۔

فوج کے نیچے چلنے والے ادارے چل تو رہے ہیں، لیکن ان میں وقت کے ساتھ ساتھ جدّت کی کمی رہی ہے، لہٰذا آہستہ آہستہ وہ بھی سفید ہاتھی بنتے جارہے ہیں۔ پی او ایف کی مثال لے لیں، ۱۹۵۰ سے جو جی تھری کی رائفل بنا رہے ہیں، آجتک وہی بن رہی ہے وہاں۔

اس کی بہ نسبت جو ادارے پرائیویٹ سیکٹر میں گئے ہیں، وہاں کوئی نہ کوئی ایسی کاروائی چل ہی رہی ہوتی ہے کہ جس سے کام چلتا رہے۔ پی ٹی سی ایل کی مثال لے لیں۔ جب سے پرائیوٹائز ہوا ہے، کام چل رہا ہے، وگرنہ ہمیں یاد ہے کہ اگر فون کی لائن کا بھی مسئلہ آجاتا تھا تو لائن مین کو ڈھونڈھتے برسوں گزر جاتے تھے۔ اسی طرح بینکوں میں بھی دیکھ لیں کہ الائیڈ بینک، ایم سی بی، یو بی ایل اور حبیب بینک بمقابلہ نیشنل بینک۔

دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں روکنے کے لیئے گورنمنٹ کوئی نہ کوئی پالیسی بنا سکتی ہے۔ لیکن جیسے اللہ کی کتاب میں ہے کہ یہ تفریق انسانوں میں اس لیئے ہے کہ یہ ایک دوسرے سے کام لے سکیں۔ دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں ہونا اپنے اندر کوئی بری بات نہیں اگر محنت کرنے والے کو اسکا حق جائز طور پر ادا کیا جارہا ہے۔ ہم پتہ نہیں کیوں یہاں پر کارل مارکس کے شیدائی بنتے ہیں، لیکن دوسری طرف پھر کمیونزم سے بھی ڈرتے ہیں۔

میری مراد صرف فوجیوں کو منتظم بنانے کی تھی یہ نہیں کہ سارا ادارہ ہی فوجیوں کے ہاتھوں میں دے دیا جائے
فوجی لوگ نظم و ضبط اچھا قائم رکھتے ہیں ، دوسرا فوجیوں پر لوگ آسانی سے پریشر نہیں ڈال سکتے
یہ بات بھی ظاہر ہے کہ اچھا منتظم اور اچھا ریسرچر الگ الگ ہی ہو سکتے ہیں
یہ بات درست ہے کہ ہم ریسرچ میں کافی پیچھے رہ گئے ہیں لیکن ابھی کے لئے ہمیں انجینرنگ پر کام کرنے کی ضرورت ہے
ایک بار جو چیزیں دنیا میں بن رہی ہیں وہ یہاں بن جایئں پھر جدت بھی آ جائے گی