انتہائی مطلوب ملزم سےروابط کاالزام،بشیر میمن نےحفاظتی ضمانت کرا لی

11bashirmemonzamant.jpg

منی لانڈرنگ اور مختلف ملکوں میں فراڈ میں ملوث انتہائی مطلوب ملزم سے روابط کے الزامات کے بعد سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے حفاظتی ضمانت لے لی ہے۔

خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق وفاقی تحقیقاتی ایجنسی(ایف آئی اے) کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں 15 روزہ حفاظتی ضمانت کیلئے درخواست دائر کی گئی تھی۔

سندھ ہائی کورٹ میں بشیر میمن کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی جس میں بشیر میمن کے وکیل نے موقف اپنایا کہ سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کو سیاسی بنیادوں پر جھوٹے مقدمے میں پھنسانے کی کوشش کی جارہی ہے، اس معاملے میں متعلقہ عدالت سے رجوع کرنا چاہتے ہیں مگر انہیں گرفتاری کا خدشہ ہے۔

https://twitter.com/x/status/1477319703869927427
عدالت نے بشیر میمن کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد ان کی درخواست منظور کرتے ہوئے ان کی 15 روز کی حفاظتی ضمانت منظور کرلی ہے اور ساتھ ہی ہدایات جاری کی ہیں کہ بشیر میمن 15 روز کے اندر اندر متعلقہ عدالت سے رجو ع کریں۔

یادرہے کہ گزشتہ دنوں یہ انکشاف سامنے آیا تھا کہ عمر فاروق نامی مجرم ناروے اور سوئزرلینڈ کو مطلوب ہے جس کی جانب سے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی(ایف آئی اے ) کے سابق ڈی جی بشیر میمن اور وزارت خارجہ کےا علی افسران سے روابط کے ثبوت منظر عام پر آئے ہیں۔

انکشاف سامنے آنے کے بعد ایف آئی اے کی جانب سے سامنے آنے والے افسران کو نوٹسز جاری کیے گئے تھے ، بشیر میمن پر الزام ہے کہ انہوں نے عمر فاروق کا نام انٹرپول کی مطلوب افراد کی فہرست میں نکلوانے میں کردار ادا کیا تھا جس کے بعد عمر فاروق نے انہیں خط لکھ کر شکریہ بھی ادا کیا۔

ایف آئی اے نے بشیر میمن کو پوچھ گچھ کیلئے آج لاہورطلب کیا تھا اور ان سے پوچھا گیا تھا کہ بشیر میمن بتائیں کہ عمر فاروق سے ان کے تعلقات کی نوعیت کیا تھی، تعلقات کب سے قائم ہیں اور اس دوران کتنی بار ان کی ملاقاتیں ہوئیں۔

دوسری جانب بشیر میمن نے موقف اپنایا ہے کہ ایف آئی اے اس معاملے میں ان سے ان دستاویزات کا تقاضا کررہا ہے جو ان کی تحویل میں نہیں ہیں، انٹرپول کا ریڈ نوٹس سے ملزمان کے نام نکالنے کا اپنا طریقہ ہے، مجھ پر یہ الزام قانون سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔
 
Last edited:

hello

Chief Minister (5k+ posts)
صرف 50 روپے کے اسٹام پر اربوں روپے کے ملزم بھاگا دینے والی عدلیہ سے اور ان کے انمول رتن ججوں سے یہی امید کی جاسکتی ہے