سینئر قانون دان حامد خان نے کہا ہے کہ اگر پارلیمنٹ سے پاس ہونے والا کوئی بھی قانون آئین کے خلاف ہے تو سپریم کورٹ اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔
نجی ٹی وی چینل جی این ا ین کے پروگرام" ویو پوائنٹ" میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے حامد خان نے میزبان کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ میں مشترکہ اجلاس کے دوران قانون سازی کی گئی، سپریم کورٹ کبھی بھی کسی قانون سازی کی جانچ کرنے کا اختیار رکھتی ہے کہ آیا کوئی بھی قانون آئین کی کسی شق کے خلاف تو نہیں ہے۔
انکے مطابق اور اگر ایسا ہو تو سپریم کورٹ اس قانون کو معطل یا کالعدم قرار دینے کا اختیار بھی رکھتی ہے۔
حامد خان نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ سے رجوع کرنے والا مدعی یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائے کہ مجوزہ قانون سازی آئین کی کسی شق کے خلاف ہے یا لوگوں کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے تو سپریم کورٹ اس قانون سازی کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔
حامد خان نے جسٹس ثاقب نثار کی آڈیو لیک سامنے آنے سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ غیر معمولی اہمیت کے حامل معاملات میں تحقیقاتی کمیشن بنایا جاسکتا ہے ، یہاں تو معاملہ عدلیہ کی آزادی اور تشخص پر سوال اٹھایا گیا ہے۔
سینئر قانون دان نے کہا کہ اس معاملے میں عدالت کو اختیار ہے کہ وہ کوئی تحقیقات کمیشن بنائے جو اس مبینہ آڈیو سامنے آنے سے متعلق تحقیقات کرے، اس معاملے میں میری رائے ہے کہ تحقیقاتی کمیشن ضرور بنایا جانا چاہیے، اس سے تنازعات کا شکار پاکستانی عدلیہ کو بحران سے نکلنے میں مدد ملے گی۔