انتخابات میں کون جیتے گا؟

Rollercoaster

MPA (400+ posts)

انتخابات میں کون جیتے گا؟
عمار مسعود
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف سیاسی طور پر بہت خوش قسمت آدمی ہیں۔ گذشتہ پانچ سال کے اخبارات نکال کر دیکھ لیں۔ کون کون سا الزام ہے جو نواز شریف پر نہیں لگا۔ ایک سو چھبیس دن جاری رہنے والے دھرنے میں کون سی گالی ہے جو نواز شریف کو نہیں دی گئی۔ دھاندلی کے وہ الزام لگے جن کو وقت نے صرف وٹس ایپ کی افواہیں ثابت کیا۔ اربوں کھربوں کی کرپشن کا نعرہ لگا مگر ابھی تک ایک پائی بھی چوری کی ثابت نہیں ہو سکی۔ گھر والوں کو گالی دی گئی۔ بیٹی کے نام کے طعنے دیئے گئے۔ بائی پاس آپریشن کو جعلی قرار دیا گیا۔ کینسر کی آخری سٹیج پر اہلیہ کی بیماری کو بہانہ قرار دیا گیا۔ کبھی قومی اسمبلی میں جواب دینا پڑا، کبھی عدالتوں میں پیش ہونا پڑا، کبھی بیٹے کی تصویر لیک کی گئی، کبھی ڈان لیکس میں قریبی ساتھیوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ کبھی غدار کا الزام لگا کبھی توہین مذہب کا مرتکب ٹھرایا گیا۔ کبھی بھارت کے ساتھ کاروبار کے طعنے دیئے گئے ۔ کبھی گورنس کے ایشو پر انصاف کے در بلا لیا گیا۔ کبھی وزارت عظمی سے نااہل کر دیا گیا ،کبھی پارٹی کی صدارت سے محروم کر دیا گیا۔ کبھی کبھی ملازمتوں میں اقربا پروری پر پرسش ہو ئی، کبھی چوہدری نثار روٹھ گئے۔ کبھی کسی جلسے میں جوتا پھینکا گیا اور کبھی قریبی ساتھی پر گولی چل گئی۔ کسی دوست کے منہ پر سیاہی مل دی گئی، کسی کو برخواست کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اس سب کے باوجود نواز شریف آج بھی پاکستانی سیاست میں راج کر رہے ہیں۔ کوئی ٹاک شو ان کے نام کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، عدالت کا کوئی فیصلہ ان کے فیصلے کے ذکر کے بغیر نافذ نہیں ہوتا۔ اپوزیشن کا کوئی اجلاس ان کے ذکر کے بغیر مکمل نہِں ہوتا، مخالف سیاسی جماعتوں کا کوئی اتحاد ان کا نام لئے بغیر عمل پذیر نہیں ہوتا۔ انتخابات کا ذکر بھی انھی کے نام سے اینکر حضرات شروع کر تے ہیں اور کالم نگاروں کی تجزیوں کی تان بھی نواز شریف پر ٹوٹتی ہے۔ خبر بھی نواز شریف کی اہم ہوتی ہے، جلسہ بھی نمایاں ہوتا ہے، بیان بھی اثر پذیر رہتا ہے۔نواز شریف بحیثیت سیاستدان دو ہزار تیرہ سے زیادہ مقبول ہو رہے ہیں۔ زیادہ اثر پذیر ہو رہے ہیں۔

Nawaz-Sharif-jalsa-in-Peshawar.gif


اس سارے بیان سے نواز شریف کی بڑائی مقصود نہیں ہے بلکہ ان قوتوں کی حماقت اور نااہلی کی طرف توجہ مبذول کروانا ہے جو مائنس نواز کا فارمولا لے کر منظر عام پر آئی تھیں۔ اگر نواز شریف آج پہلے سے زیادہ مقبول ہیں اور اس ملک کی سیاست میں سب سے حتمی رائے رکھتے ہیں تو یہ ایک لمحہ فکریہ ہے ان قوتوں کے لِئے جو گذشتہ پانچ سال سے نواز شریف کی تضحیک کے مشن پر تھیں۔ بجائے اس کے کہ ان پانچ برسوں میں یہ قوتوں اپنی کوشش ناتمام پر شرمسار ہوں یہ قوتیں ہر دفعہ ایک نیا الزام لے کر سامنے آتی ہیں جو چند دنوں میں ہوا ہو جاتا ہے۔ طعنہ دینے والوں کے لئے طعنہ بن جاتا ہے۔


اس سرخروی میں نواز شریف کی عقلمندی سے زیادہ ان قوتوں کی حماقتیں پوشیدہ ہیں جو اس ایجنڈے پر دو ہزار تیرہ سے مامور ہو گئی تھیں۔ ان کی نااہلی نے نواز شریف کا رتبہ زیادہ بلند کیا ہے۔ پانچ سال میں عمران خان نے ہر وہ طریقہ اختیار کر لیا جو کسی کو بدنام کرنے کے لئے کیا جا سکتا تھا۔ لیکن پانچ سالوں کے بعد اگر ہم منظر نامے کو دیکھیں تو عمران خان اپنی مقبولیت کھو رہے ہیں اور نواز شریف کی شہرت کا گراف بلند ہو رہا ہے۔ اس میں عقل والوں کے لئے بہت سی نشانیاں پوشیدہ ہیں۔

PMLN-Swat-Kabal-Ground-Jalsa.jpg

مائنس ون کا فارمولہ اس ملک میں اس وقت تک کارآمد نہیں ہو سکتا جب تک عوام کسی شخص یا جماعت کو مائنس کرنے کا فیصلہ نہ کریں۔ اس عوامی فیصلے سے پہلے ارباب بست کشاد چاہے ہرروز ہر چینل پر پروگرام کروائیں، سارے اخباروں میں ساری سطریں نواز مخالف لکھوائیں۔ جب تک مائنس ون کی آواز عوام کی طرف سے نہیں آئے گی کچھ نہیں بدلے گا۔



پیپلز پارٹی کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ یہ جماعت وفاق کی علامت سمجھی جاتی تھی ۔ دانشوروں اور جمہوریت پسندوں کا گڑھ مانی جاتی تھی۔ کوئی غیر جمہوری قوت اس کو ختم نہیں کر سکی۔ پیپلز پارٹی نے اپنا جنازہ خود اٹھایا ہے۔ اسے کسی اور کے کاندھے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ اس لئے کہ اس دو ہزار تیرہ میں پیپلز پارٹی کے لئے مائنس ون کی آواز عوام میں سے آئی تھی۔

نواز شریف کی موجودہ سیاسی پوزیشن کا سہرا دو باتوں کو جاتا ہے۔ ایک تو غیر جمہوری قوتوں کی جلد بازیوں اور حماقتوں نے نواز شریف کے بیانیے کو تقویت دی اور دوسری خوش بختی یہ ہوئی کہ نواز شریف کو عمران خان جیسی اپوزیشن نصیب ہوئی۔ ان پانچ سالوں میں جو جو کچھ عمران خان نے کہا آخر میں اس کے برعکس عمل کرنا پڑا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ وہی میڈیا جو گذشتہ پانچ سال عمران خان کے گن گاتا رہا وہی میڈیا اب عمران خان کی لن ترانیوں سے اکتا گیا ہے۔ وہی عمران خان جو کبھی نئے پاکستان کا نعرہ لگاتے تھے اب دو نہیں ایک پاکستان کے مطالبے پر اتر آئے ہیں۔ کرپشن کے خلاف جہاد کا نعرہ اب انہیں سجتا نہیں، تین سو پچاس ڈِیم بنانے کا وعدہ اب کر نہیں سکتے، کے پی کے سے بیرون ملک بجلی بھیجنے کا انقلابی منصوبہ بھی ناکام رہا، تعلیم کے سونامی نے بھی منہ کی کھائی، صحت کا سونامی بھی ڈوب گیا، موروثی سیاست کے خلاف انقلاب بھی خس و خاشاک بن گیا۔ ترقی کا خواب بھی بکھر گیا۔ گو نواز گو بھی ہو چکا ۔ اب عمران خان کے پاس کوئی نعرہ نہیں بچا۔ اب صرف ایک ” وزیر اعظم عمران خان” کی امید بچی ہے اور اس امید کے بر آنے کے کوئی امکان نطر نہیں آ رہے۔
PMLN-Swat-Kabal-Ground-Jalsa-1.jpg


کے پی کے تمام تر سروے تحریک انصاف کے دعووں کی قلعی کھول رہی ہے۔ لوگ بد ظن ہیں اور شدت سے بدظن ہیں۔ لہذا تحریک انصاف کو الیکشن میں کے پی کے سے کوئی امید رکھنا حماقت ہے۔ پنجاب کو خان صاحب ان پانچ سالوں میں اپنے آپ سے جتنا متنفر کر چکے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسی صوبے نے دو ہزار گیارہ میں خاں صاحب کا سر کا تاج بنا کر رکھا تھا اور اب اسی صوبے میں خان صاحب اپنی پارٹی کے نظریاتی کارکنوں کو نظر انداز کر کے لوٹوں میں ٹکٹیں بانٹ رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے سروے عمران خان کو اسی طرح دھوکے دے رہے ہیں جس طرح کے پی کے کی ترقی کے معاملات میں خان صاحب دھوکے میں رہے ہیں۔

الیکشن میں اب صرف ایک ماہ سے زیادہ رہ گیا ہے۔ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہونے میں اب زیادہ دیر نہیں رہی۔ لیکن عوامی تاثر کی بات کی جائے تو نواز شریف کا بیانیہ لوگوں کے دلوں میں گھر کر چکا ہے اور لوگ اس بیانیے کے حق میں ووٹ کی طاقت استعمال بھی کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب عمران خان کی ذاتی کاوشوں سے تحریک انصاف کا جنازہ نکل چکا ہے۔ کے پی کے اورپنجاب سے تحریک انصاف کے لئے الیکشن کے نتائج بڑے تکلیف دہ ہوں گے۔ سندھ اور بلوچستان میں تحریک انصاف کی کوئی موجودگی نہیں۔ ممکنہ طور پر ستر، اسی سیٹوں کے خواب دیکھنے والے اس الیکشن کے بعد دھڑام سے پاتال میں گریں گے اور پھر راج کرے گی خلق خدا۔

لوگوں کو ایک حد تک بے وقوف بنایا جا سکتا ہے۔ ایک مرحلہ آتا ہے جہاں مدتوں بے وقوف بننے والے واقعات کی کمان اپنے ہاتھ میں تھام لیتے ہیں۔ مائنس ون، ٹو کا فیصلہ وہ خود کرتے ہیں۔اپنے مستقبل کا راستہ متعین کرنے کے لئے جب کوَئی قوم سینہ سپر ہو تو بے بنیاد پروپیگنڈے کا جادو نہیں چل سکتا۔ عمران خان جس سیاسی زوال پر پہنچ چکے ہیں اس کا ادراک شائد ابھی انہیں بھی نہیں ۔ لیکن ایک ماہ کی تو بات ہے۔ سب کچھ سامنے آ جائے گا۔ یاد رکھیے گا، اس بار سونامی دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔


 

Pakistan2017

Chief Minister (5k+ posts)
دعا دے نورا ان وردی والی اور انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر قانون کی دلالی کرنے والی قووتوں کو جو اس کو بچاتی آئ ہیں
 

Aadmi

Minister (2k+ posts)
hahhha nawaz pahle se ziada maqbool hai, bhai halqon main jaake pata karo kitna maqbool hai
 

najeebahmad

MPA (400+ posts)
Crap article, by someone who I never thought is morally corrupt. My comments below:
1. All surveys shows PTI is leading in KPK and expected to win majority government in KPK.
2. All adjacent areas along with KPK like Pindi, Taxila, Attock, Mianwali etc will also belong to PTI.
3. Pashtoon favour PTI because of good performance in KPK. Karachi has 25% Pashtoon population which will also favour PTI.
4. Lower Punjab/ with Saraiki punjab belong to PTI.

Battle is on for Upper and middle Punjab where PMLN is strong and IK can change the direction with his share fast election campaign like the way he did that in 2013. IK turned around the campaign in 17 days. In 2013 IK handicap was non-electables which had no idea how to fight the election.

My estimate of PTI National Assembly win's in 2018 elections:
1. KPK: 30 seats out of 39
2. Punjab: 70 seats out of 141 (Saraiki Punjab: 30 out of 49 seats, Upper/Middle Punjab: 40 out of 91 seats)
3. Sindh: 5 seats out 61 (4 seats in Karachi, 1 in Sindh), Grand Democratic Alliance with 5 seats which are in alliance with PTI.
4. Baluchistan: 0 seats but they come to whoever make government in the centre.

Summary of PTI seats:
National Assembly: 105 out of 272, after election independents and Balochistan will join PTI making it majority government.
KPK Assembly: 76 out of 99 - PTI to form majority Government
Punjab Assembly: 148 out of 297 - PTI to form Government with independents joining PTI
Sindh Assembly: 10 out of 130 seats - PPP to form government and PTI with alliance to form opposition
Baluchistan Assembly: 0 seats and with IK tough stance on corruption many in provincial assembly may not join PTI.
 

akmal1

Chief Minister (5k+ posts)

انتخابات میں کون جیتے گا؟
عمار مسعود
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف سیاسی طور پر بہت خوش قسمت آدمی ہیں۔ گذشتہ پانچ سال کے اخبارات نکال کر دیکھ لیں۔ کون کون سا الزام ہے جو نواز شریف پر نہیں لگا۔ ایک سو چھبیس دن جاری رہنے والے دھرنے میں کون سی گالی ہے جو نواز شریف کو نہیں دی گئی۔ دھاندلی کے وہ الزام لگے جن کو وقت نے صرف وٹس ایپ کی افواہیں ثابت کیا۔ اربوں کھربوں کی کرپشن کا نعرہ لگا مگر ابھی تک ایک پائی بھی چوری کی ثابت نہیں ہو سکی۔ گھر والوں کو گالی دی گئی۔ بیٹی کے نام کے طعنے دیئے گئے۔ بائی پاس آپریشن کو جعلی قرار دیا گیا۔ کینسر کی آخری سٹیج پر اہلیہ کی بیماری کو بہانہ قرار دیا گیا۔ کبھی قومی اسمبلی میں جواب دینا پڑا، کبھی عدالتوں میں پیش ہونا پڑا، کبھی بیٹے کی تصویر لیک کی گئی، کبھی ڈان لیکس میں قریبی ساتھیوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ کبھی غدار کا الزام لگا کبھی توہین مذہب کا مرتکب ٹھرایا گیا۔ کبھی بھارت کے ساتھ کاروبار کے طعنے دیئے گئے ۔ کبھی گورنس کے ایشو پر انصاف کے در بلا لیا گیا۔ کبھی وزارت عظمی سے نااہل کر دیا گیا ،کبھی پارٹی کی صدارت سے محروم کر دیا گیا۔ کبھی کبھی ملازمتوں میں اقربا پروری پر پرسش ہو ئی، کبھی چوہدری نثار روٹھ گئے۔ کبھی کسی جلسے میں جوتا پھینکا گیا اور کبھی قریبی ساتھی پر گولی چل گئی۔ کسی دوست کے منہ پر سیاہی مل دی گئی، کسی کو برخواست کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اس سب کے باوجود نواز شریف آج بھی پاکستانی سیاست میں راج کر رہے ہیں۔ کوئی ٹاک شو ان کے نام کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، عدالت کا کوئی فیصلہ ان کے فیصلے کے ذکر کے بغیر نافذ نہیں ہوتا۔ اپوزیشن کا کوئی اجلاس ان کے ذکر کے بغیر مکمل نہِں ہوتا، مخالف سیاسی جماعتوں کا کوئی اتحاد ان کا نام لئے بغیر عمل پذیر نہیں ہوتا۔ انتخابات کا ذکر بھی انھی کے نام سے اینکر حضرات شروع کر تے ہیں اور کالم نگاروں کی تجزیوں کی تان بھی نواز شریف پر ٹوٹتی ہے۔ خبر بھی نواز شریف کی اہم ہوتی ہے، جلسہ بھی نمایاں ہوتا ہے، بیان بھی اثر پذیر رہتا ہے۔نواز شریف بحیثیت سیاستدان دو ہزار تیرہ سے زیادہ مقبول ہو رہے ہیں۔ زیادہ اثر پذیر ہو رہے ہیں۔

Nawaz-Sharif-jalsa-in-Peshawar.gif


اس سارے بیان سے نواز شریف کی بڑائی مقصود نہیں ہے بلکہ ان قوتوں کی حماقت اور نااہلی کی طرف توجہ مبذول کروانا ہے جو مائنس نواز کا فارمولا لے کر منظر عام پر آئی تھیں۔ اگر نواز شریف آج پہلے سے زیادہ مقبول ہیں اور اس ملک کی سیاست میں سب سے حتمی رائے رکھتے ہیں تو یہ ایک لمحہ فکریہ ہے ان قوتوں کے لِئے جو گذشتہ پانچ سال سے نواز شریف کی تضحیک کے مشن پر تھیں۔ بجائے اس کے کہ ان پانچ برسوں میں یہ قوتوں اپنی کوشش ناتمام پر شرمسار ہوں یہ قوتیں ہر دفعہ ایک نیا الزام لے کر سامنے آتی ہیں جو چند دنوں میں ہوا ہو جاتا ہے۔ طعنہ دینے والوں کے لئے طعنہ بن جاتا ہے۔


اس سرخروی میں نواز شریف کی عقلمندی سے زیادہ ان قوتوں کی حماقتیں پوشیدہ ہیں جو اس ایجنڈے پر دو ہزار تیرہ سے مامور ہو گئی تھیں۔ ان کی نااہلی نے نواز شریف کا رتبہ زیادہ بلند کیا ہے۔ پانچ سال میں عمران خان نے ہر وہ طریقہ اختیار کر لیا جو کسی کو بدنام کرنے کے لئے کیا جا سکتا تھا۔ لیکن پانچ سالوں کے بعد اگر ہم منظر نامے کو دیکھیں تو عمران خان اپنی مقبولیت کھو رہے ہیں اور نواز شریف کی شہرت کا گراف بلند ہو رہا ہے۔ اس میں عقل والوں کے لئے بہت سی نشانیاں پوشیدہ ہیں۔

PMLN-Swat-Kabal-Ground-Jalsa.jpg

مائنس ون کا فارمولہ اس ملک میں اس وقت تک کارآمد نہیں ہو سکتا جب تک عوام کسی شخص یا جماعت کو مائنس کرنے کا فیصلہ نہ کریں۔ اس عوامی فیصلے سے پہلے ارباب بست کشاد چاہے ہرروز ہر چینل پر پروگرام کروائیں، سارے اخباروں میں ساری سطریں نواز مخالف لکھوائیں۔ جب تک مائنس ون کی آواز عوام کی طرف سے نہیں آئے گی کچھ نہیں بدلے گا۔



پیپلز پارٹی کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ یہ جماعت وفاق کی علامت سمجھی جاتی تھی ۔ دانشوروں اور جمہوریت پسندوں کا گڑھ مانی جاتی تھی۔ کوئی غیر جمہوری قوت اس کو ختم نہیں کر سکی۔ پیپلز پارٹی نے اپنا جنازہ خود اٹھایا ہے۔ اسے کسی اور کے کاندھے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ اس لئے کہ اس دو ہزار تیرہ میں پیپلز پارٹی کے لئے مائنس ون کی آواز عوام میں سے آئی تھی۔

نواز شریف کی موجودہ سیاسی پوزیشن کا سہرا دو باتوں کو جاتا ہے۔ ایک تو غیر جمہوری قوتوں کی جلد بازیوں اور حماقتوں نے نواز شریف کے بیانیے کو تقویت دی اور دوسری خوش بختی یہ ہوئی کہ نواز شریف کو عمران خان جیسی اپوزیشن نصیب ہوئی۔ ان پانچ سالوں میں جو جو کچھ عمران خان نے کہا آخر میں اس کے برعکس عمل کرنا پڑا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ وہی میڈیا جو گذشتہ پانچ سال عمران خان کے گن گاتا رہا وہی میڈیا اب عمران خان کی لن ترانیوں سے اکتا گیا ہے۔ وہی عمران خان جو کبھی نئے پاکستان کا نعرہ لگاتے تھے اب دو نہیں ایک پاکستان کے مطالبے پر اتر آئے ہیں۔ کرپشن کے خلاف جہاد کا نعرہ اب انہیں سجتا نہیں، تین سو پچاس ڈِیم بنانے کا وعدہ اب کر نہیں سکتے، کے پی کے سے بیرون ملک بجلی بھیجنے کا انقلابی منصوبہ بھی ناکام رہا، تعلیم کے سونامی نے بھی منہ کی کھائی، صحت کا سونامی بھی ڈوب گیا، موروثی سیاست کے خلاف انقلاب بھی خس و خاشاک بن گیا۔ ترقی کا خواب بھی بکھر گیا۔ گو نواز گو بھی ہو چکا ۔ اب عمران خان کے پاس کوئی نعرہ نہیں بچا۔ اب صرف ایک ” وزیر اعظم عمران خان” کی امید بچی ہے اور اس امید کے بر آنے کے کوئی امکان نطر نہیں آ رہے۔
PMLN-Swat-Kabal-Ground-Jalsa-1.jpg


کے پی کے تمام تر سروے تحریک انصاف کے دعووں کی قلعی کھول رہی ہے۔ لوگ بد ظن ہیں اور شدت سے بدظن ہیں۔ لہذا تحریک انصاف کو الیکشن میں کے پی کے سے کوئی امید رکھنا حماقت ہے۔ پنجاب کو خان صاحب ان پانچ سالوں میں اپنے آپ سے جتنا متنفر کر چکے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسی صوبے نے دو ہزار گیارہ میں خاں صاحب کا سر کا تاج بنا کر رکھا تھا اور اب اسی صوبے میں خان صاحب اپنی پارٹی کے نظریاتی کارکنوں کو نظر انداز کر کے لوٹوں میں ٹکٹیں بانٹ رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے سروے عمران خان کو اسی طرح دھوکے دے رہے ہیں جس طرح کے پی کے کی ترقی کے معاملات میں خان صاحب دھوکے میں رہے ہیں۔

الیکشن میں اب صرف ایک ماہ سے زیادہ رہ گیا ہے۔ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہونے میں اب زیادہ دیر نہیں رہی۔ لیکن عوامی تاثر کی بات کی جائے تو نواز شریف کا بیانیہ لوگوں کے دلوں میں گھر کر چکا ہے اور لوگ اس بیانیے کے حق میں ووٹ کی طاقت استعمال بھی کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب عمران خان کی ذاتی کاوشوں سے تحریک انصاف کا جنازہ نکل چکا ہے۔ کے پی کے اورپنجاب سے تحریک انصاف کے لئے الیکشن کے نتائج بڑے تکلیف دہ ہوں گے۔ سندھ اور بلوچستان میں تحریک انصاف کی کوئی موجودگی نہیں۔ ممکنہ طور پر ستر، اسی سیٹوں کے خواب دیکھنے والے اس الیکشن کے بعد دھڑام سے پاتال میں گریں گے اور پھر راج کرے گی خلق خدا۔

لوگوں کو ایک حد تک بے وقوف بنایا جا سکتا ہے۔ ایک مرحلہ آتا ہے جہاں مدتوں بے وقوف بننے والے واقعات کی کمان اپنے ہاتھ میں تھام لیتے ہیں۔ مائنس ون، ٹو کا فیصلہ وہ خود کرتے ہیں۔اپنے مستقبل کا راستہ متعین کرنے کے لئے جب کوَئی قوم سینہ سپر ہو تو بے بنیاد پروپیگنڈے کا جادو نہیں چل سکتا۔ عمران خان جس سیاسی زوال پر پہنچ چکے ہیں اس کا ادراک شائد ابھی انہیں بھی نہیں ۔ لیکن ایک ماہ کی تو بات ہے۔ سب کچھ سامنے آ جائے گا۔ یاد رکھیے گا، اس بار سونامی دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔



جس طرح فرعون کو اپنی مکمل تباہی تک یقین تھا کہ وہی جیتے گا اسی طرح نون لیگ کی مکمل تباہی تک بھی یہ ضروری ہے کہ تم لوگوں کو یہ یقین ہو کہ تم نے ہی جیتنا ہے
اگر تم لوگوں کو جیتنے کا یقین نہ ہوتا غرور نہ ہوتا تو چار حلقے نہ کھول دیتے
ماڈل ٹاؤن میں گولیاں بھی تم نے اسی یقین کے ساتھ ماریں کہ ہمیشہ جیتے آئے ہیں اب بھی کوئی ہمیں کچھ نہیں کہہ سکتا
پانامہ کے بعد جب استعفیٰ دینے کی بات آئی تو کہنے لگے کہ جاؤ منہ دھو کر آؤ
اور پھر ذلیل ہو کر نکالے گئے
اگر استعفیٰ دے دیتے تو عزت بچ جاتی
بات جے آئی ٹی تک جاتی ہی نہ
فرعون نے اپنے سامنے سمندر میں راستہ بنتے دیکھا
اسے پتا تھا کہ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا. ذرا ہی عقل ہوتی تو سوچتا کہ کوئی خاص بات ہے
لیکن اسکے غرور نے اسے مروانا تھا لہٰذا وہ سمجھتا رہا کہ مجھے جیسے پہلے کبھی کچھ نہیں ہوا اب بھی کچھ نہیں ہوگا
میں تو آپ جیسے نون لیگیوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے میاں صاحب کو فرعون بنائے رکھا
کہ میاں صاحب آپ پہلے کبھی ہارے ہیں جو اس دفعہ ہاریں گے؟
میری آپ سے درخواست ہے کہ یہ کوشش جاری رکھیے
آپ انجانے میں نون لیگ نہیں پی ٹی آئی کی طرف سے کھیل رہے ہیں
پلیز نواز شریف کی مکمل تباہی تک آپ نے اسے احساس نہیں ہونے دینا کہ اسکے ساتھ ہوا کیا ہے
 

SahirShah

Minister (2k+ posts)
شکر ہے عمار مسعود کا نام شروع میں ہی لکھا ہوا تھا ورنہ زندگی کے پانچ منٹ ضرور ضائع ہو جاتے
تجزیہ نگار کے متعلق جب واضح طور پر علم ہو کہ وہ ہر جائز ناجائز میں ایک خاص جماعت کی حمایت کرتا ہے تو اسکی تحریر محض کاغذ پر کالی لکیریں ہیں اور اسکا تجزیہ صرف شور
 

pak-pak

Senator (1k+ posts)

ایک شخص ایک فقرہ میں کتنے جھوٹ بول سکتا ہے
عمرانی پانڈون کی طرح سب کو "چ " سمجھا ہوا ہے


عمران کےایک ہی سانس میںUTurn اگر پرائیویٹ جہاز ناہوتاتو میں عمرےپرجاتا ہی ناکیونکہ میرےپاس2دن تھےزلفی بخاری کون ہےمیرا دوست ہےوہ بزنس کیاکرتاہے؟مجھےنہی پتہ کیابزنس کرتاہےاتناجانتاہوں وہ ایک کامیاب بزنس مین ہےنگراں وزیرداخلہ کون ہےمجھےکوئی ایڈیا نہی ہےاعظم خان عزت دار انسان ہے




 
Last edited by a moderator: