جون کی 9 تاریخ کو فیصل آباد میں قتل کی ایک لرزہ خیز واردات ہوئی جب رات کے پہر ایک بس ٹریول کمپنی کے سیکیوریٹی گارڈ نے اپنی ہی کمپنی میں بطور میزبان کام کرنے والی 19 سالہ محنت کش مہوش ارشد کو رشتے سے انکار پر گولی مار دی۔ مقتولہ ہسپتال لے جائی گئی مگر جانبر نہ ہو سکی۔
اسی سال جنوری کے مہینے میں ایک میڈیکل کالج کی طالبہ اس لیے جان سے گئی کہ اس نے بھی رشتے سے انکار کر دیا تھا اور قاتل کی غیرت نے یہ انکار گوارا نہ کیا۔ قاتل پاکستان تحریک انصاف کے عہدے دار کا رشتہ دار تھا اور بیرون ملک فرار ہو گیا، تاہم بعد میں اسے گرفتار کر لیا گیا۔
دو برس قبل مئی کے مہینے میں لاء کالج کی طالبہ خدیجہ صدیقی پر ہونے والے قاتلانہ حملے کا انجام بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ انصاف کے ایوانوں میں جب قاتل کو ثبوتوں کی عدم دستیابی پر رہا کیا گیا تو جعلی امیرالمؤمنین ثاقب نثار نے عوام کی لعن طعن سے گھبرا کر ہائی کورٹ کے اس فیصلے کا نوٹس لے لیا، جیسے کہ امیرالمؤمنین خدیجہ کے قاتل کو ویسے ہی لٹکادیں گے جیسے معصوم زینب کے قاتل کو لٹکا دیا ہے۔
معصوم زینب کے قاتل کو بچانے کے لیے فوری انصاف کو ناممکن بنا دیا گیا، اور قاتل کو پہلے جیل کی ہوا کھانے کے لیے چھوڑ دیا۔ تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ پاکستانی بھلکڑ اور جذباتی عوام معصوم زینب کو بھول جائیں اور ثاقب نثار کے بعد آنے والے امیرالمؤمنین زینب کے قاتل عمران کی سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیں یا پھر کسی بہانے اس کو پاکستان سے ہی بھگوا دیا جائے۔ بس سزائے موت نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ اس سے زندگی اور امداد دینے والے یورپی اور امریکی خفا ہو جائیں گے۔
سزائے موت صرف اس کو ملے گی جو امریکہ بہادر اور فوجی بھائیوں کا مجرم ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں یا تو وردی والے اور ان کے اہل خانہ اشرف المخلوقات ہیں یا پھر پاکستان سے باہر وہ گوری چمڑی والے جو پاکستانی افواج کو فوجی امداد دیتے ہیں۔ چناں چہ، اے پی ایس پر حملہ کرنے والے، فوجی بھائیوں پر حملہ کرنے والے، اور عیسائیوں کے علامتی دشمن ممتاز قادری جیسے مجرموں کو پھانسی کے تختے پر چڑھا دیا گیا۔
اب جو خدیجہ صدیقی، معصوم زینب، اسما جیسے کیڑے مکوڑے اور حشرات الارض رہ گئے ہیں ان کے قاتل اگر کسی بڑے آدمی یا طاقتور گھرانے یا گینگ سے تعلق رکھتے ہیں تو ان کو ہمارے امیرالمؤمنین ثاقب نثار کا دجالی نظام حیلے بحانے کر کے، انصاف میں تاخیر کر کے، کسی نہ کسی طرح بچا لے گا۔
ڈاکٹر شاہد مسعود کا انجام تو ہم سب جانتے ہی ہیں۔ میرے خیال میں شاہد مسعود نے کوئی واہی تباہی نہیں بکی تھی۔ یقیناً شاہد مسعود کو کچھ ذرائع سے مصدقہ اطلاع ملی ہوگی۔ وہ ذرائع غالباً فوجی ایجنسیاں ہوں گی۔ مگر چوں کہ ان ایجنسیوں کا کام بس جاسوسی کرنا اور اپنے شکار کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہوتا ہے، ان کو اس بات سے غرض نہیں کہ پاکستان کی سرزمین پر کون سے مکروہ دھندے ہو رہے ہیں اور کون کون سے جرائم پنپ رہے ہیں۔ ان لوگوں نے شاہد مسعود کو اپنی خبر لیک کر نے اور کوئی مقصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کر لیا۔ مگر جب ثبوت دینے کی باری آئی تو یہ ایجنسیاں یقیناً مکر گئیں اور شاہد مسعود جیسا بے وقوف قربانی کا بکرا، امیرالمؤمنین ثاقب نثار کی عدالت میں جھوٹا ثابت ہو گیا۔ امیرالمؤمنین نے ممکنہ طور پر ایجنسیوں کی ایماء پر اصل مجرموں کو بچایا اور ڈاکٹر شاہد مسعود کو قوم کے سامنے ذلیل کر کے واضح پیغام دیا ہے کہ خبردار جو کسی مافیا کی طرف کوئی میلی آنکھ سے بھی دیکھے۔
آخر میں نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ کا وہ واقعہ یاد آتا ہے جب کسی بااثر قبیلے کی ایک عورت چوری کے جرم میں لائی گئی اور رسول اللہ ﷺ نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمایا۔ کچھ لوگوں نے اس عورت کی سفارش کی تاکہ وہ سزا سے بچ جائے۔ اس پر رحمت اللعٰلمین ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس عورت کی جگہ اگر میری (سب سے پیاری بیٹی) فاطمہ بنت محمد بھی ہوتی تو اس کو بھی اس سزا سے چھٹکارا نہیں ملتا۔ پھر فرمایا کہ تم سے پہلے کی قومیں اسی لیے برباد ہوئیں کہ جب کوئی بااثر جرم کرتا تو چھوڑ دیتے اور عام آدمی کو جرم کرنے پر سزا دیتے۔
نبی ﷺ کا فرمان صرف سچ ہوتا ہے۔ ظلم اور ناانصافی نے پاکستان کا مشرقی بازو 1971 میں الگ کر دیا، اب بچے کھچے پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے۔ کیوں کہ یہاں ظلم اور ناانصافی کا دجالی نظام پوری آب و تاب کے ساتھ قائم ہے۔
اسی سال جنوری کے مہینے میں ایک میڈیکل کالج کی طالبہ اس لیے جان سے گئی کہ اس نے بھی رشتے سے انکار کر دیا تھا اور قاتل کی غیرت نے یہ انکار گوارا نہ کیا۔ قاتل پاکستان تحریک انصاف کے عہدے دار کا رشتہ دار تھا اور بیرون ملک فرار ہو گیا، تاہم بعد میں اسے گرفتار کر لیا گیا۔
دو برس قبل مئی کے مہینے میں لاء کالج کی طالبہ خدیجہ صدیقی پر ہونے والے قاتلانہ حملے کا انجام بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ انصاف کے ایوانوں میں جب قاتل کو ثبوتوں کی عدم دستیابی پر رہا کیا گیا تو جعلی امیرالمؤمنین ثاقب نثار نے عوام کی لعن طعن سے گھبرا کر ہائی کورٹ کے اس فیصلے کا نوٹس لے لیا، جیسے کہ امیرالمؤمنین خدیجہ کے قاتل کو ویسے ہی لٹکادیں گے جیسے معصوم زینب کے قاتل کو لٹکا دیا ہے۔
معصوم زینب کے قاتل کو بچانے کے لیے فوری انصاف کو ناممکن بنا دیا گیا، اور قاتل کو پہلے جیل کی ہوا کھانے کے لیے چھوڑ دیا۔ تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ پاکستانی بھلکڑ اور جذباتی عوام معصوم زینب کو بھول جائیں اور ثاقب نثار کے بعد آنے والے امیرالمؤمنین زینب کے قاتل عمران کی سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیں یا پھر کسی بہانے اس کو پاکستان سے ہی بھگوا دیا جائے۔ بس سزائے موت نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ اس سے زندگی اور امداد دینے والے یورپی اور امریکی خفا ہو جائیں گے۔
سزائے موت صرف اس کو ملے گی جو امریکہ بہادر اور فوجی بھائیوں کا مجرم ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں یا تو وردی والے اور ان کے اہل خانہ اشرف المخلوقات ہیں یا پھر پاکستان سے باہر وہ گوری چمڑی والے جو پاکستانی افواج کو فوجی امداد دیتے ہیں۔ چناں چہ، اے پی ایس پر حملہ کرنے والے، فوجی بھائیوں پر حملہ کرنے والے، اور عیسائیوں کے علامتی دشمن ممتاز قادری جیسے مجرموں کو پھانسی کے تختے پر چڑھا دیا گیا۔
اب جو خدیجہ صدیقی، معصوم زینب، اسما جیسے کیڑے مکوڑے اور حشرات الارض رہ گئے ہیں ان کے قاتل اگر کسی بڑے آدمی یا طاقتور گھرانے یا گینگ سے تعلق رکھتے ہیں تو ان کو ہمارے امیرالمؤمنین ثاقب نثار کا دجالی نظام حیلے بحانے کر کے، انصاف میں تاخیر کر کے، کسی نہ کسی طرح بچا لے گا۔
ڈاکٹر شاہد مسعود کا انجام تو ہم سب جانتے ہی ہیں۔ میرے خیال میں شاہد مسعود نے کوئی واہی تباہی نہیں بکی تھی۔ یقیناً شاہد مسعود کو کچھ ذرائع سے مصدقہ اطلاع ملی ہوگی۔ وہ ذرائع غالباً فوجی ایجنسیاں ہوں گی۔ مگر چوں کہ ان ایجنسیوں کا کام بس جاسوسی کرنا اور اپنے شکار کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہوتا ہے، ان کو اس بات سے غرض نہیں کہ پاکستان کی سرزمین پر کون سے مکروہ دھندے ہو رہے ہیں اور کون کون سے جرائم پنپ رہے ہیں۔ ان لوگوں نے شاہد مسعود کو اپنی خبر لیک کر نے اور کوئی مقصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کر لیا۔ مگر جب ثبوت دینے کی باری آئی تو یہ ایجنسیاں یقیناً مکر گئیں اور شاہد مسعود جیسا بے وقوف قربانی کا بکرا، امیرالمؤمنین ثاقب نثار کی عدالت میں جھوٹا ثابت ہو گیا۔ امیرالمؤمنین نے ممکنہ طور پر ایجنسیوں کی ایماء پر اصل مجرموں کو بچایا اور ڈاکٹر شاہد مسعود کو قوم کے سامنے ذلیل کر کے واضح پیغام دیا ہے کہ خبردار جو کسی مافیا کی طرف کوئی میلی آنکھ سے بھی دیکھے۔
آخر میں نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ کا وہ واقعہ یاد آتا ہے جب کسی بااثر قبیلے کی ایک عورت چوری کے جرم میں لائی گئی اور رسول اللہ ﷺ نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمایا۔ کچھ لوگوں نے اس عورت کی سفارش کی تاکہ وہ سزا سے بچ جائے۔ اس پر رحمت اللعٰلمین ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس عورت کی جگہ اگر میری (سب سے پیاری بیٹی) فاطمہ بنت محمد بھی ہوتی تو اس کو بھی اس سزا سے چھٹکارا نہیں ملتا۔ پھر فرمایا کہ تم سے پہلے کی قومیں اسی لیے برباد ہوئیں کہ جب کوئی بااثر جرم کرتا تو چھوڑ دیتے اور عام آدمی کو جرم کرنے پر سزا دیتے۔
نبی ﷺ کا فرمان صرف سچ ہوتا ہے۔ ظلم اور ناانصافی نے پاکستان کا مشرقی بازو 1971 میں الگ کر دیا، اب بچے کھچے پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے۔ کیوں کہ یہاں ظلم اور ناانصافی کا دجالی نظام پوری آب و تاب کے ساتھ قائم ہے۔