سرحدوں پر بہت تناوؑ ہے کیا
کچھ پتا تو کرو چناوؑ ہے کیا
خوف بکھرا ہے دونوں سمتوں میں
تیسری سمت کا دباوؑ ہے کیا
احباب کا شکریہ جنہوں اس ویلے کی کاوش کو سراہا، جہاں تک کچھ باتیں سر سے گزر جانے کی تنبیہ ہے تو عرض ہے کہ عربی کا ایک مقولہ ہے کہ شاعر کے پیٹ میں کیا ہے یہ شاعر ہی جانتا ہے، چونکہ شاعری میں استعارہ و کنایہ کا دریغ استعمال ہوتا ہے اس لیے بعض شعر کی توجیہات شاعر کی اپنی فکر سے بھی جدا ہوتیں ہیں، ویلے کی تحریر میں بھی یہ عنصر چھلکتا ہے
بہر کیف راحت اندوری کے مندرجہ بالہ شعر کسی اور توجیح کی متحمل نہیں بلکہ سلیس زبان میں اس فکر کی غمازی کرتی ہیں جن کی صورتحال پلوامہ حملے کے بعد پیدا ہوئی
عرض یہ کہ بھارت کے گودی میڈیا سے وابستہ لوگوں نے جو طوفان بد تمیزی اٹھا رکھا ہے اور طبل جنگ پیٹ رہے ہیں ان سے کبھی یہ تو نہ ہوا کبھی اس خبر کی بھی جانچ کر لیتے جو گزشتہ برس ایک فوج کے اعلیٰ افسر نے ایوان بالا میں براجمان لوگوں سے بیان کی
خبر یہ تھی کہ بھارتی فوج کے زیر استعمال ستر فی صد کے لگ بھگ اسلحہ اب ناکارہ ہے، اس کی پاداش میں ان افسر کو نوکری سے ہاتھ بھی دھونا پڑے، بلکہ اسی طرح جیسے آجکل بھارتیہ شماریاتی ادارے کی ایک خبر لیک ہونے پر ان افسران پر بھی دباوؑ بڑھا جس میں ذکر تھا کہ ایسے افراد جن کے پاس نوکری نہیں ان کی شرح گزشتہ کئی دہائیوں سے زیادہ ہے، بلکہ ایمرجنسی کے دور میں جو نوکریوں کی شرح تھی اس سے بھی کم ہے
اسی طرح پلوامہ میں تو کم و بیش چوالیس جوان زندگی کی بازی ہار بیٹھے مگر ان ایک سو نوے کے لگ بھگ فوجیوں کی خبر گیری کسی نے نہیں کی جنہوں نے بھارتی فوج کے رویوں سے تنگ آ کر خود کشی کی راہ اپنائی
بھارت میں معیشت کی حالت دگرگوں ہے، اروون جیٹلی ایک ماہر وکیل تو ہو سکتے ہیں مگر ایک ماہر معیشت دان شاید نہیں، اسی بات کا چرچا سپرنیم سوامی نے بھی برملا کیا ، سپرنیم سوامی کے وچار دھارا سے کون واقف نہیں، بیٹی مسلم سے بیاہی، خود پارسی دلہن لائے مگر دوستیاں اسرائیل سے اور خواب اکھنڈ بھارت کا، نہرو خاندان سے ان کی چپقلش بھی ڈھکی چھپی نہیں کیونکہ نہرو مسئلہ کشمیر کو لے کر اقوام متحدہ میں گئے اور وہاں استصواب رائے کا فیصلہ ہوا
اقوام متحدہ کے استصواب رائے کا یہ فیصلہ آج بھی بھارت کے حلق میں چھبا وہ کانٹا ہے جسے نہ تو وہ اگل سکتے ہیں اور نہ ہی نگل سکتے ہیں، سپرنیم سوامی اس کا دوشی نہرو کو مانتے ہیں، سونیا گاندھی پر وحشیہ کا الزام دھرتے ہیں اور سونیا گاندھی کے وزیر اعظم نہ بن سکنے پر بھی دلائل وہی لاتے ہیں، ان کے نزدیک سونیا نے اگرچہ بھارتی پرش سے شادی کی مگر وہ ہیں تو ودیشی، اس لیے وہ کبھی بھی بھارت کی وزیر اعظم نہیں بن سکتیں
سپرنیم سوامی نے بارہا اسرائیل کی حکمت عملیوں کو سراہا ہے، بھر پور کوشش کی اقوام متحدہ میں فلسطین و اسرائیل میں سے کسی کو چننا ہو تو اسرائیل ہی کو چنا جائے، ان کے نزدیک مسلمانوں کو ووٹ کے حق سے بھی محروم رکھا جائے جب تک کہ وہ اس بات کو تسلیم نہیں کر لیتے کہ ان کے آباوؑ اجداد ہندو تھے
بھارت کے دل میں اتنی بھی گنجائش نہیں کہ کسی صوبے کی کمان کسی مسلمان کو تھمائی جائے، دہائیاں گزر گئیں جو وہاں کوئی مسلمان وزیر اعلیٰ بنا ہو، سکھ تعدار میں مسلمانوں سے کم ہیں مگر اتنا کرم تو ان پر بھی ہوا جو انہیں وزارت اعلیٰ کی کرسی دی گئی
صدر کا عہدہ سبھی جانتے ہیں ایک سرمونیل پوسٹ سے زیادہ کچھ نہیں، پارلیمانی نظام میں کرتا دھرتا وزیر اعظم و وزرا اعلیٰ ہی رہتے ہیں اس لیے کسی مسلمان کو صدر کے عہدہ پر بٹھانا اس بات کی دلیل نہیں وہاں مسلمانوں کو سیاست میں برابری کا حق ہے
خیر اب تو بات ووٹ سے محرومی کی بھی ہے، سپر نیم سوامی ہی ہیں جو ایودھیا میں رام مندر بنانے کے درپے ہیں، یہی نہیں وہ تین جگہ مندر بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں جس میں سے ایک بابری مسجد کی جگہ رام مندر، رام للا آئیں گے، مندر وہیں بنائیں گے
کہنے کو بھارت میں سپریم کورٹ ہے مگر جب سپر نیم سوامی سے پوچھا گیا کہ اگر کورٹ اس بات کا فیصلہ فرما دے مندر وہاں نہیں بنے گا تو آپ کیا کریں گے، فرماتے ہیں کہ شہر بانو کا کیس حجت ہے، جیسے وہاں اس مدے کو پارلیمنٹ میں لا کر سپریم کورٹ کا فیصلہ ردی میں پھینک دیا گیا ویسے ہی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو بھی کوڑے دان میں ڈالا جائے گا اگر سپریم کورٹ نے مندر نہ بنانے کا فیصلہ کیا
البتہ سپرنیم سوامی نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر نرمی دکھائی جو ساوؑتھ انڈیا میں مندر میں عورتوں کو جانے کی آزادی دینا تھی، لارڈ ایپپا کا سبری مالا ٹیمپل، وہاں کے بھگتوں کے مطابق لارڈ ایپپا چونکہ بھرمچاری رہے، شدھ تھے، عورتوں سے دور تھے، اس لیے عورتیں اب ان کے مندر سے بھی دور رہیں
اگرچہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آ چکا مگر عمل درآمد کب تک ہو پائے گا، یہ سمے طے کرے گا، شاید سپریم کورٹ بھی انٹی ہندو ہو چلا
اس فیصلے میں پانچ ججوں میں ایک عورت بھی تھیں، بات عورتوں کی تھی تو شاید ان کا ساتھ بنتا تھا مگر انہوں نے اختلافی نوٹ لکھا اور کہا سپریم کورٹ کو ایسے کیس سننے ہی نہیں چاہپے
یہی نہیں سوامی اگنی ویش جو آر ایس ایس کی وچار دھارا کا ورودھ کرتے ہیں، انہوں نے چند جملے ایسے کہہ دئیے جو بھگتوں کو نا قابل قبول تھے، سپریم کورٹ نے تب بھی اگنی ویش کو یہی کہا تھا کہ ایسی باتیں اگرچہ سچ بھی ہوں تو کہا نہ کیجیے، بعد میں تو خیر بگھتوں نے سوامی جی کی سیوا بھی کی، جس کے مناظر یوٹیوب پر دیکھے جا سکتے ہیں
خیر بات سپرنیم سوامی سے کہاں تک جا پہنچی، مضمون طویل ہو چلا، سپرنیم سوامی کی ان دلائل کا بیان پھر کسی نشست میں جو وہ یہ فرماتے ہیں کہ رام کا جنم بابری مسجد والی جگہ ہوا، کسی کو خواب میں رام بتا کر گئے کہ وہ وہی پیدا ہوئے ویسے ہی حجت رکھتی ہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مسجد اقصیٰ جانا، حالانکہ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارا دعویٰ خواب کا نہیں، جاگتی آنکھوں کا ہے
سپرنیم سوامی نے ہی بار ہا اس بات کا اصرار کیا کہ الیکشن تو ہندو مسلم نفرت کو ہوا دے کر ہی لڑا جائے، سب کا ساتھ سب کا وکاس نعرہ بودا ہے، چونکہ بھارتی سیاست کے پرانی پاپی ہیں، اس لیے انہیں معلوم ہے الیکشن کس طرح جیتا جاتا ہے، لگتا ہے معیشت پر تو نہ سہی سیاست پر بھاجپا ان کی یہ بات مان چکی، تب ہی پلوامہ حملہ ہوا
وطن کی فکر کر نادان مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے ہونے والا ہے
دھرا ہے کیا ہے بھلا، عہد کہن کی داستانوں میں
کچھ پتا تو کرو چناوؑ ہے کیا
خوف بکھرا ہے دونوں سمتوں میں
تیسری سمت کا دباوؑ ہے کیا
احباب کا شکریہ جنہوں اس ویلے کی کاوش کو سراہا، جہاں تک کچھ باتیں سر سے گزر جانے کی تنبیہ ہے تو عرض ہے کہ عربی کا ایک مقولہ ہے کہ شاعر کے پیٹ میں کیا ہے یہ شاعر ہی جانتا ہے، چونکہ شاعری میں استعارہ و کنایہ کا دریغ استعمال ہوتا ہے اس لیے بعض شعر کی توجیہات شاعر کی اپنی فکر سے بھی جدا ہوتیں ہیں، ویلے کی تحریر میں بھی یہ عنصر چھلکتا ہے
بہر کیف راحت اندوری کے مندرجہ بالہ شعر کسی اور توجیح کی متحمل نہیں بلکہ سلیس زبان میں اس فکر کی غمازی کرتی ہیں جن کی صورتحال پلوامہ حملے کے بعد پیدا ہوئی
عرض یہ کہ بھارت کے گودی میڈیا سے وابستہ لوگوں نے جو طوفان بد تمیزی اٹھا رکھا ہے اور طبل جنگ پیٹ رہے ہیں ان سے کبھی یہ تو نہ ہوا کبھی اس خبر کی بھی جانچ کر لیتے جو گزشتہ برس ایک فوج کے اعلیٰ افسر نے ایوان بالا میں براجمان لوگوں سے بیان کی
خبر یہ تھی کہ بھارتی فوج کے زیر استعمال ستر فی صد کے لگ بھگ اسلحہ اب ناکارہ ہے، اس کی پاداش میں ان افسر کو نوکری سے ہاتھ بھی دھونا پڑے، بلکہ اسی طرح جیسے آجکل بھارتیہ شماریاتی ادارے کی ایک خبر لیک ہونے پر ان افسران پر بھی دباوؑ بڑھا جس میں ذکر تھا کہ ایسے افراد جن کے پاس نوکری نہیں ان کی شرح گزشتہ کئی دہائیوں سے زیادہ ہے، بلکہ ایمرجنسی کے دور میں جو نوکریوں کی شرح تھی اس سے بھی کم ہے
اسی طرح پلوامہ میں تو کم و بیش چوالیس جوان زندگی کی بازی ہار بیٹھے مگر ان ایک سو نوے کے لگ بھگ فوجیوں کی خبر گیری کسی نے نہیں کی جنہوں نے بھارتی فوج کے رویوں سے تنگ آ کر خود کشی کی راہ اپنائی
بھارت میں معیشت کی حالت دگرگوں ہے، اروون جیٹلی ایک ماہر وکیل تو ہو سکتے ہیں مگر ایک ماہر معیشت دان شاید نہیں، اسی بات کا چرچا سپرنیم سوامی نے بھی برملا کیا ، سپرنیم سوامی کے وچار دھارا سے کون واقف نہیں، بیٹی مسلم سے بیاہی، خود پارسی دلہن لائے مگر دوستیاں اسرائیل سے اور خواب اکھنڈ بھارت کا، نہرو خاندان سے ان کی چپقلش بھی ڈھکی چھپی نہیں کیونکہ نہرو مسئلہ کشمیر کو لے کر اقوام متحدہ میں گئے اور وہاں استصواب رائے کا فیصلہ ہوا
اقوام متحدہ کے استصواب رائے کا یہ فیصلہ آج بھی بھارت کے حلق میں چھبا وہ کانٹا ہے جسے نہ تو وہ اگل سکتے ہیں اور نہ ہی نگل سکتے ہیں، سپرنیم سوامی اس کا دوشی نہرو کو مانتے ہیں، سونیا گاندھی پر وحشیہ کا الزام دھرتے ہیں اور سونیا گاندھی کے وزیر اعظم نہ بن سکنے پر بھی دلائل وہی لاتے ہیں، ان کے نزدیک سونیا نے اگرچہ بھارتی پرش سے شادی کی مگر وہ ہیں تو ودیشی، اس لیے وہ کبھی بھی بھارت کی وزیر اعظم نہیں بن سکتیں
سپرنیم سوامی نے بارہا اسرائیل کی حکمت عملیوں کو سراہا ہے، بھر پور کوشش کی اقوام متحدہ میں فلسطین و اسرائیل میں سے کسی کو چننا ہو تو اسرائیل ہی کو چنا جائے، ان کے نزدیک مسلمانوں کو ووٹ کے حق سے بھی محروم رکھا جائے جب تک کہ وہ اس بات کو تسلیم نہیں کر لیتے کہ ان کے آباوؑ اجداد ہندو تھے
بھارت کے دل میں اتنی بھی گنجائش نہیں کہ کسی صوبے کی کمان کسی مسلمان کو تھمائی جائے، دہائیاں گزر گئیں جو وہاں کوئی مسلمان وزیر اعلیٰ بنا ہو، سکھ تعدار میں مسلمانوں سے کم ہیں مگر اتنا کرم تو ان پر بھی ہوا جو انہیں وزارت اعلیٰ کی کرسی دی گئی
صدر کا عہدہ سبھی جانتے ہیں ایک سرمونیل پوسٹ سے زیادہ کچھ نہیں، پارلیمانی نظام میں کرتا دھرتا وزیر اعظم و وزرا اعلیٰ ہی رہتے ہیں اس لیے کسی مسلمان کو صدر کے عہدہ پر بٹھانا اس بات کی دلیل نہیں وہاں مسلمانوں کو سیاست میں برابری کا حق ہے
خیر اب تو بات ووٹ سے محرومی کی بھی ہے، سپر نیم سوامی ہی ہیں جو ایودھیا میں رام مندر بنانے کے درپے ہیں، یہی نہیں وہ تین جگہ مندر بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں جس میں سے ایک بابری مسجد کی جگہ رام مندر، رام للا آئیں گے، مندر وہیں بنائیں گے
کہنے کو بھارت میں سپریم کورٹ ہے مگر جب سپر نیم سوامی سے پوچھا گیا کہ اگر کورٹ اس بات کا فیصلہ فرما دے مندر وہاں نہیں بنے گا تو آپ کیا کریں گے، فرماتے ہیں کہ شہر بانو کا کیس حجت ہے، جیسے وہاں اس مدے کو پارلیمنٹ میں لا کر سپریم کورٹ کا فیصلہ ردی میں پھینک دیا گیا ویسے ہی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو بھی کوڑے دان میں ڈالا جائے گا اگر سپریم کورٹ نے مندر نہ بنانے کا فیصلہ کیا
البتہ سپرنیم سوامی نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر نرمی دکھائی جو ساوؑتھ انڈیا میں مندر میں عورتوں کو جانے کی آزادی دینا تھی، لارڈ ایپپا کا سبری مالا ٹیمپل، وہاں کے بھگتوں کے مطابق لارڈ ایپپا چونکہ بھرمچاری رہے، شدھ تھے، عورتوں سے دور تھے، اس لیے عورتیں اب ان کے مندر سے بھی دور رہیں
اگرچہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آ چکا مگر عمل درآمد کب تک ہو پائے گا، یہ سمے طے کرے گا، شاید سپریم کورٹ بھی انٹی ہندو ہو چلا
اس فیصلے میں پانچ ججوں میں ایک عورت بھی تھیں، بات عورتوں کی تھی تو شاید ان کا ساتھ بنتا تھا مگر انہوں نے اختلافی نوٹ لکھا اور کہا سپریم کورٹ کو ایسے کیس سننے ہی نہیں چاہپے
یہی نہیں سوامی اگنی ویش جو آر ایس ایس کی وچار دھارا کا ورودھ کرتے ہیں، انہوں نے چند جملے ایسے کہہ دئیے جو بھگتوں کو نا قابل قبول تھے، سپریم کورٹ نے تب بھی اگنی ویش کو یہی کہا تھا کہ ایسی باتیں اگرچہ سچ بھی ہوں تو کہا نہ کیجیے، بعد میں تو خیر بگھتوں نے سوامی جی کی سیوا بھی کی، جس کے مناظر یوٹیوب پر دیکھے جا سکتے ہیں
خیر بات سپرنیم سوامی سے کہاں تک جا پہنچی، مضمون طویل ہو چلا، سپرنیم سوامی کی ان دلائل کا بیان پھر کسی نشست میں جو وہ یہ فرماتے ہیں کہ رام کا جنم بابری مسجد والی جگہ ہوا، کسی کو خواب میں رام بتا کر گئے کہ وہ وہی پیدا ہوئے ویسے ہی حجت رکھتی ہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مسجد اقصیٰ جانا، حالانکہ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارا دعویٰ خواب کا نہیں، جاگتی آنکھوں کا ہے
سپرنیم سوامی نے ہی بار ہا اس بات کا اصرار کیا کہ الیکشن تو ہندو مسلم نفرت کو ہوا دے کر ہی لڑا جائے، سب کا ساتھ سب کا وکاس نعرہ بودا ہے، چونکہ بھارتی سیاست کے پرانی پاپی ہیں، اس لیے انہیں معلوم ہے الیکشن کس طرح جیتا جاتا ہے، لگتا ہے معیشت پر تو نہ سہی سیاست پر بھاجپا ان کی یہ بات مان چکی، تب ہی پلوامہ حملہ ہوا
وطن کی فکر کر نادان مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے ہونے والا ہے
دھرا ہے کیا ہے بھلا، عہد کہن کی داستانوں میں