اقلیتی کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں ہندو، سکھ، عیسای وغیرہ تمام غیر مسلم اقلیتوں کو نمائندگی دی گئی مگر قادیانیوں کو نمائیندگی نہیں دی گئی جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ موجود یہودی حکومت قادیانیوں کو مسلمان سمجھتی ہے۔ اسی وجہ سے انہیں اقلیتی کمیشن میں نمائندگی نہیں دی گئی؟
حکومتی طوطوں کی فوج ظفر موج چاہے تو اس بات پر اپنی حکومت کے دفاع میں بکواس کرسکتی ہے آخر ان پر خزانے سے کروڑوں خرچ کئے جاتے ہیں
اس وقت موضوع بحث یہ ہے کہ آج بھی ایک تیرہ سالہ عیسای لڑکی کو اغوا کرکے شادی رچا لی گئی ہے ۔ یہ لڑکی پاکستانی پہلے تھی اور بعد میں عیسای، اس لئے میں کہنا چاہوں گا کہ میری ایک پاکستانی بہن کو ایک چوالیس سالہ ٹھرکی ادھیڑ عمر بڈھے نے اغوا کرکے شادی کرلی ہے۔ اب عدالت میں ایک کاغذ دے کر جان چھڑوا لی گئی ہے کہ لڑکی مسلمان ہوگئی ہے اور افسوس یہ کہ عدالت بھی آرام سے مان جاتی ہے نہ کوی انکوائری اور نہ ہی لڑکی کو پیش کرنے کا حکم کہ پتا تو چلے وہ کتنی خوش ہے؟ لعنت ہو ایسی عدالت پر اور ایسے جج پر
بالفرض، لڑکی مسلمان ہوگئی ہے تو پھر یہ شخص ایک مسلمان لڑکی کو اغوا کرکے اور بھی بڑے گناہ کا مرتکب ہوا ہے، عیسای بے چارے تو اتنی پسی ہوی قوم ہے کہ لڑکی گھر میں رہتے ہوے مسلمان ہوجاتی تو وہ اسے کچھ بھی نہ کہہ پاتے بلکہ لڑکی دیگر افراد کو بھی مسلمان کرلیتی، لہذا اس کیس میں اصل معاملہ ایک بڈھے ہوس پرست کا تیرہ سالہ نوخیز لڑکی پر بری نظر رکھنا اور اپنے شیطانی ارادوں کو تکمیل تک پنہچانے کیلئے اسے اغوا کرنا ہے ناکہ اسلام کی تبلیغ کی خاطر۔
لڑکی کی عمر تیرہ سال ہے اور پاکستان کے قانون کے مطابق اس کی شادی ابھی نہیں کی جاسکتی
اگر ایسا ہی ہوتا رہا تو دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی ہوتی رہے گی، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سندھ میں زرداری کےدور میں بھی یہ سلسلہ نہیں رکا اور نہ ہی اس دور حکومت میں کسی نے اس رحجان کو روکنے میں کوی کردار ادا کیا ہے
لڑکی کے والدین شدید تکلیف میں ہیں کیونکہ انکی خوبصورت بیٹی پر اس شخص نے کافی دیر سے نظر رکھی ہوی تھی جو آخرکار اسے لے اڑا
حکومت وقت کے تاریک ترین دور میں جہاں دیگر مصائب و آلام قوم و ملک پر نازل ہورہے ہیں وہیں ریپ، گینگ ریپ، بچیوں سے ریپ اور ان کے قتل کے علاوی جبری مزہب کی تبدیلی اور نوعمر غیر مسلم لڑکیوں سے شادیوں کا رحجان خطرناک رخ اختیار کرچکا ہے مگر حکومتی طوطوں کو سواے بیانات کے اور کوی بھی کام نہیں
اس واقعے پر اقلیتی کمیشن کو استعفے دینے چاہیئں ورنہ ہم ان کو شیم شیم کہنے میں حق بجانب ہونگے کیونکہ لگتا یہی ہے کہ وہ اقلیتوں کا دفاع کرنے کے قابل ہی نہیں بس تنخواہیں اور مالی مراعات لینے کیلئے حکومتی چھتری تلے جمع ہوے ہیں
sourceحکومتی طوطوں کی فوج ظفر موج چاہے تو اس بات پر اپنی حکومت کے دفاع میں بکواس کرسکتی ہے آخر ان پر خزانے سے کروڑوں خرچ کئے جاتے ہیں
اس وقت موضوع بحث یہ ہے کہ آج بھی ایک تیرہ سالہ عیسای لڑکی کو اغوا کرکے شادی رچا لی گئی ہے ۔ یہ لڑکی پاکستانی پہلے تھی اور بعد میں عیسای، اس لئے میں کہنا چاہوں گا کہ میری ایک پاکستانی بہن کو ایک چوالیس سالہ ٹھرکی ادھیڑ عمر بڈھے نے اغوا کرکے شادی کرلی ہے۔ اب عدالت میں ایک کاغذ دے کر جان چھڑوا لی گئی ہے کہ لڑکی مسلمان ہوگئی ہے اور افسوس یہ کہ عدالت بھی آرام سے مان جاتی ہے نہ کوی انکوائری اور نہ ہی لڑکی کو پیش کرنے کا حکم کہ پتا تو چلے وہ کتنی خوش ہے؟ لعنت ہو ایسی عدالت پر اور ایسے جج پر
بالفرض، لڑکی مسلمان ہوگئی ہے تو پھر یہ شخص ایک مسلمان لڑکی کو اغوا کرکے اور بھی بڑے گناہ کا مرتکب ہوا ہے، عیسای بے چارے تو اتنی پسی ہوی قوم ہے کہ لڑکی گھر میں رہتے ہوے مسلمان ہوجاتی تو وہ اسے کچھ بھی نہ کہہ پاتے بلکہ لڑکی دیگر افراد کو بھی مسلمان کرلیتی، لہذا اس کیس میں اصل معاملہ ایک بڈھے ہوس پرست کا تیرہ سالہ نوخیز لڑکی پر بری نظر رکھنا اور اپنے شیطانی ارادوں کو تکمیل تک پنہچانے کیلئے اسے اغوا کرنا ہے ناکہ اسلام کی تبلیغ کی خاطر۔
لڑکی کی عمر تیرہ سال ہے اور پاکستان کے قانون کے مطابق اس کی شادی ابھی نہیں کی جاسکتی
اگر ایسا ہی ہوتا رہا تو دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی ہوتی رہے گی، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سندھ میں زرداری کےدور میں بھی یہ سلسلہ نہیں رکا اور نہ ہی اس دور حکومت میں کسی نے اس رحجان کو روکنے میں کوی کردار ادا کیا ہے
لڑکی کے والدین شدید تکلیف میں ہیں کیونکہ انکی خوبصورت بیٹی پر اس شخص نے کافی دیر سے نظر رکھی ہوی تھی جو آخرکار اسے لے اڑا
حکومت وقت کے تاریک ترین دور میں جہاں دیگر مصائب و آلام قوم و ملک پر نازل ہورہے ہیں وہیں ریپ، گینگ ریپ، بچیوں سے ریپ اور ان کے قتل کے علاوی جبری مزہب کی تبدیلی اور نوعمر غیر مسلم لڑکیوں سے شادیوں کا رحجان خطرناک رخ اختیار کرچکا ہے مگر حکومتی طوطوں کو سواے بیانات کے اور کوی بھی کام نہیں
اس واقعے پر اقلیتی کمیشن کو استعفے دینے چاہیئں ورنہ ہم ان کو شیم شیم کہنے میں حق بجانب ہونگے کیونکہ لگتا یہی ہے کہ وہ اقلیتوں کا دفاع کرنے کے قابل ہی نہیں بس تنخواہیں اور مالی مراعات لینے کیلئے حکومتی چھتری تلے جمع ہوے ہیں