افغان طالبان اور امریکہ درمیان معاہدے سے قبل شدت پسندوں کے خلاف کارروائی

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
افغان طالبان اور امریکہ درمیان معاہدے سے قبل شدت پسندوں کے خلاف کارروائی

گذشتہ دو ہفتے کے دوران افغانستان میں مقیم تین اہم پاکستانی جنگجوؤں کو قتل کر دیا گیا ہے جبکہ ایک دوسرے پاکستانی جنگجو گروپ پر افغان سپیشل فورسز نے حملہ کیا ہے۔

بظاہر ایسا نظر آ رہا ہے یہ کریک ڈاؤن اس لیے ہوا ہے کہ امریکہ اور طالبان افغان کے درمیان ایک امن معاہدہ ہونے جا رہا ہے جس کا مقصد 18 سال سے جاری جنگ کو ختم کرنا ہے۔

ایک جنگجو ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ اموات امریکی اور پاکستانی فورسز کے درمیان خفیہ معاہدے کا نتیجہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان نے اس مذاکرات کے انعقاد میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

حالیہ واقعے میں پاکستانی طالبان سے برگشتہ ایک دھڑے کے رہنما شہریار محسود کی مشرقی صوبے کنار میں ان کے گھر کے پاس ریموٹ کنٹرول سے کیے جانے والے دھماکے میں ہلاکت ہوگئی ہے۔

جنگجو گروہوں کے حلقے میں ان کے بہت سے حریف تھے لیکن ان لوگوں نے ان کے موت میں اپنے کردار سے منع کیا ہے جبکہ ان کے گروپ کے اراکین نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے خیال میں پاکستانی انٹیلیجنس سروسز اس کے لیے ذمہ دار ہے۔

پاکستانی طالبان اور افغان طالبان مختلف تنظیمیں ہیں جو اپنے اپنے ملک میں حملے پر توجہ مرکوز رکھتی ہیں۔

پاکستانی طالبان کے بہت سے دھڑوں نے پاکستان میں ان کے خلاف فوجی آپریشن کے بعد سے مشرقی افغانستان میں اپنا اڈہ بنا لیا ہے۔

مبینہ طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ افغان سکیورٹی سروسز نے افغان طالبان کی پاکستانی حمایت کے تدارک کے لیے ان میں سے بعض گروہوں سے رابطہ قائم کر رکھا ہے۔ خیال رہے کہ افغان طالبان نے امریکہ کی فوج کی حمایت والی افغان حکومت کے خلاف ایک عرصے سے جنگ چھیڑ رکھی ہے۔

دونوں ممالک سرکاری طور پر کسی بھی جنگجو گروپ کی حمایت سے انکار کرتے ہیں۔

رواں ماہ کے اوائل میں پاکستانی طالبان کے دو سینیئر کمانڈروں کا افغان دارالحکومت کابل میں پراسرار انداز میں قتل ہو گیا۔

دریں اثنا سوموار کو یہ خبر آئی ہے کہ افغان فورسز نے مشرقی صوبے ننگرہار میں پاکستانی جنگجو گروپ حزب الاحرار کے خلاف چھاپہ مارا ہے۔

حزب الاحرار کے ارکان اس حملے سے صدمے میں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انھیں یہ گمان نہ تھا کہ افغان سکیورٹی فورسز کی جانب سے انھیں نشانہ بنایا جائے گا کیونکہ انھوں نے افغانستان میں کوئی بھی حملہ نہیں کیا ہے۔


شیخ خالد حقانی اور ایک دوسرے رہنما کا حال میں کابل میں پر اسرار انداز میں قتل ہوا

'کھیل کے اصول' بدلتے نظر آ رہے ہیں
پاکستان کے جنگجو حلقے میں پاکستانی طالبان کے ایک اعلیٰ سابق ترجمان کے پاکستانی انٹیلیجنس سروسز کی حراست سے بظاہر فرار ہوجانے کی وجہ سے کنفیوژن پیدا ہو گيا ہے۔

ملالہ یوسف زئی پر حملہ سمیت بہت سے بدنام زمانہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والے احسان اللہ احسان نے سنہ 2017 میں ہتھیار ڈال دیا تھا۔ لیکن انھیں کبھی بھی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان پر کوئی جرم عائد کیا گیا۔

گذشتہ ہفتے احسان اللہ احسان کا مبینہ ایک آڈیو پیغام سامنے آیا ہے جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ وہ فرار ہو گئے ہیں اس لیے کہ پاکستان حکام نے ان شرائط کو پورا نہیں کیا 'جو معاہدہ' انھوں نے کیا تھا۔

بعد میں انھوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ وہ ترکی پہنچ گئے ہیں لیکن مزید معلومات یا ویڈیو ثبوت دینے سے گریز کیا ہے کہ وہ فی الحال کہاں ہیں۔

بہت سے لوگوں کو اس بات پر شبہ ہے کہ احسان اللہ احسان واقعتاً فرار ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ انھیں کسی غیر واضح معاہدے کے تحت رہا کیا گیا ہے۔

پاکستانی فوج اور حکومت کی جانب سے اس بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے کہ آخر کیا ہوا۔

بہر حال نامہ نگاروں کو 'ذرائع' کے حوالے سے ہدایت دی گئی ہے کہ وہ یہ براڈکاسٹ کریں کہ احسان اللہ احسان نے سکیورٹی سروسز کو 'اعلی سطحی معلومات' فراہم کی ہیں جن کی وجہ سے دوسرے شدت پسند گروہوں کے خلاف کامیاب کارروائی کی گئی ہے۔

شدت پسند گروہوں کے اراکین اکثر کہا کرتے ہیں کہ علاقائی سکیورٹی فورسز 'گیم' کھیل رہی ہیں اور 'کھیل' کے اصول بظاہر بدلتے نظر آ رہے ہیں۔


سورس
 
Last edited by a moderator:

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
عین ممکن ہے احسان الله احسان کی موت نے اسے قید سے فرار ہونے میں مدد کی ہو