کہتے ہیں غیرت پڑھے لکھوں سے زیادہ غریب جاہلوں کو وراثت میں دولت کی بجائے پائی جاتی ہے ،اسہی تناظر میں ایک افغان وزیر ریلوے وہاں ریلوے نظام کی عدم موجودگی کے باعث اپنی وزارت سے مستعفی ہونے کو فوقیت دیکر اپنے ضمیر کی آواز پر بطور احتجاج اس عہدے سے کنارہ کش ہوجاتا ہے۔
مگر قلعہ اسلام میں ایک جعلی نیوکلیئری سائینسدان اپنی جعلی شہرت پر خاموشی اختیار رکھتا ہے اور اپنے مردہ ظرف اور اخلاقی قلاشی کے تکمیل میں " تھر " کے کوئیلے کے زخیروں پر اپنے ائیر کنڈیشن آفس میں بیٹھ کر درجنوں سالوں تک قوم کا اربوں روپےکھاتا رہ کر صرف میڈیا کو اس مدفون کوئلے سے بجلی بنانے،ریلوے چلانے اور دوسرے کار نامے کرنے کی نوید دیتا رہا
پاکستانی ڈاکو حکام اس لوٹمار میں اسکے شریک کار تو رہے مگر کسی کے خون میں اس کوئیلے کی حدت نے جوش نہ پیدا کیا۔اس ہی مردہ ضمیری کی داستانوں سے مزے اور موجیں مارتے ہوئے اکثر وزارتوں میں اسکے ذمہدار سکریٹریز،خود وزیر موصوف تک کی نام گنوائے جاسکتے ہیں،ملک میں قانون کا جنازہ روز نکلتا
ہے مگر وزیر قانون نہ کہ صرف مرکزی بلکہ صوبائی وہ بھی اپنے اپنے سکریٹریز کے ساتھ۔
وزیر تیل،پانی ،بجلی اور گیس اور اس پر تعیناتی صوبائی اور مرکزی وزیر بوجھ بنے اور اپنے قصیدے الیکٹرانک میڈیا پر کراتے دیکھے جاسکتے ہیں۔
اگر کہا جائے کہ آوے کا آوہ ملک کی بیخکنی کے لئے معمور تھا اور اب بھی ہے تو شاید غلط نہ ہو،عمران خان کو ایک کرکٹر اور جوش کی دلیل سمجھ کر اسے ایمانداری کا سمبل سمجھ کر اسکی سیاسی بصیرت کو معیار منصبی سے چھوٹ دیکر اگر قوم نے اسے اس ملک سے کرپشن کے خاتمے کا مسیحا جان کر اسے وزارت عظمی پر بٹھادیا تو کرپٹ اسٹبلشمنٹ نے اسے رسوا کرنے کے لئے اسکی بہن کو دبئی میں کروڑوں کی جائیداد اسکے نام کرکے عمران خان کی زبان اور ہاتھ باندھ دئیے۔
اب عمران خان میں اگر وہ افغانی غیرت عوج کر آئے تو کرپشن کا صفایا ہو پائےگا ورنہ عمران خان بھی ڈاکٹر ثمر مبارک کی طرح بےحسی اور مٹی پاؤ کرکے حصداری کرلیگا اور بہن کو بچانے میں مصروف رہیگا۔اللہ ہمیں قوم بنائے اور غیرت جگائے۔
مگر قلعہ اسلام میں ایک جعلی نیوکلیئری سائینسدان اپنی جعلی شہرت پر خاموشی اختیار رکھتا ہے اور اپنے مردہ ظرف اور اخلاقی قلاشی کے تکمیل میں " تھر " کے کوئیلے کے زخیروں پر اپنے ائیر کنڈیشن آفس میں بیٹھ کر درجنوں سالوں تک قوم کا اربوں روپےکھاتا رہ کر صرف میڈیا کو اس مدفون کوئلے سے بجلی بنانے،ریلوے چلانے اور دوسرے کار نامے کرنے کی نوید دیتا رہا
پاکستانی ڈاکو حکام اس لوٹمار میں اسکے شریک کار تو رہے مگر کسی کے خون میں اس کوئیلے کی حدت نے جوش نہ پیدا کیا۔اس ہی مردہ ضمیری کی داستانوں سے مزے اور موجیں مارتے ہوئے اکثر وزارتوں میں اسکے ذمہدار سکریٹریز،خود وزیر موصوف تک کی نام گنوائے جاسکتے ہیں،ملک میں قانون کا جنازہ روز نکلتا
ہے مگر وزیر قانون نہ کہ صرف مرکزی بلکہ صوبائی وہ بھی اپنے اپنے سکریٹریز کے ساتھ۔
وزیر تیل،پانی ،بجلی اور گیس اور اس پر تعیناتی صوبائی اور مرکزی وزیر بوجھ بنے اور اپنے قصیدے الیکٹرانک میڈیا پر کراتے دیکھے جاسکتے ہیں۔
اگر کہا جائے کہ آوے کا آوہ ملک کی بیخکنی کے لئے معمور تھا اور اب بھی ہے تو شاید غلط نہ ہو،عمران خان کو ایک کرکٹر اور جوش کی دلیل سمجھ کر اسے ایمانداری کا سمبل سمجھ کر اسکی سیاسی بصیرت کو معیار منصبی سے چھوٹ دیکر اگر قوم نے اسے اس ملک سے کرپشن کے خاتمے کا مسیحا جان کر اسے وزارت عظمی پر بٹھادیا تو کرپٹ اسٹبلشمنٹ نے اسے رسوا کرنے کے لئے اسکی بہن کو دبئی میں کروڑوں کی جائیداد اسکے نام کرکے عمران خان کی زبان اور ہاتھ باندھ دئیے۔
اب عمران خان میں اگر وہ افغانی غیرت عوج کر آئے تو کرپشن کا صفایا ہو پائےگا ورنہ عمران خان بھی ڈاکٹر ثمر مبارک کی طرح بےحسی اور مٹی پاؤ کرکے حصداری کرلیگا اور بہن کو بچانے میں مصروف رہیگا۔اللہ ہمیں قوم بنائے اور غیرت جگائے۔