افغانستان کے سرحدی علاقوں میں طالبان اور ایرانی فورسز کے درمیان جھڑپیں

Goldfinger

MPA (400+ posts)

iran-and.jpg


افغانستان کے صوبہ نمروز کے سرحدی علاقوں میں طالبان فورسز اور ایرانی فورسز کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔تفصیلات کے مطابق جھڑپیں مغربی افغانستان کے صوبہ نمروز کے سرحدی ضلع کنگ میں ہوئی ہیں۔

افغان میڈیا کا کہنا ہے کہ طالبان اور ایرانی سرحدی فورس کے درمیان جھڑپ بدھ کی شام پانچ بجے شروع ہوئی جو آخری اطلاعات تک جاری تھی۔لڑائی کے دوران طالبان کی جانب سے ہلکے ہتھیاروں کے علاوہ توپوں سمیت بھاری اسلحہ کا بھی استعمال کیا گیا۔


مقامی میڈیا کے مطابق طالبان نے تین سرحدی چوکیوں پر قبضے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ طالبان نے مذید فوجی کمک بھی طلب کرلی ہے۔جھڑپ اس وقت شروع ہوئی جب ایران کی جانب سے سرحد پر چیک پوسٹ کی تعمیر کی جارہی تھی، لڑائی کے دوران بعض طالبان فوجیوں کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے لیکن ایران کی جانب کسی زخمی یا جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔


تاحال ایران اور افغانستان کی حکومتوں کی جانب سے سرحدی جھڑپ کے بارے میں کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا، افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد افغان اور ایرانی سرحد پر یہ پہلی جھڑپ ہے۔

دوسری جانب امارت اسلامی کے نائب ترجمان بلال کریمی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ صوبہ نمروز کے سرحدی علاقوں میں طالبان فورسز اور ایرانی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جھڑپیں اب بند ہوچکی ہیں اور ان میں کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔
 
Last edited by a moderator:

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)

ایران کی ٹھرک بھی پوری نہیں ہوتی اب طالبان سے مار کھانے کا ارادہ ہے

میرا بھی یہی خیال ہے . اگلوں نے دنیا کی سوپر پاوروں کو پھڑکا دیا تو یہ ایرانی کیا بیچتے ہیں ان کے آگے . ایرانیوں نے طالبان کو زیادہ انگلی کرنے کی کوشش کی تو اگلے اسلامی امارات افغانستان کی سرحد ترکی کے ساتھ ملا دیں گے اور پھر ہماری ریلوے لائن کے ذریعے پکنک منانے یورپ تک پہنچ جایا کریں گے
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
طالبان لوگ فساد پھیلانے سے باز نہیں آتے

خیر ایران نے نواصب کو عراق و شام میں بھی شکست دی تھی یہاں بھی شکست دے دیں گے
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
طالبان لوگ فساد پھیلانے سے باز نہیں آتے

خیر ایران نے نواصب کو عراق و شام میں بھی شکست دی تھی یہاں بھی شکست دے دیں گے
صف اول کے سپاہیوں کا امریشیعہ اتحاد امام مشرف کا ادھورا مشن اگلے بیس سالوں میں طالبان کو شکست دے کر پورا کرے گا
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)

صف اول کے سپاہیوں کا امریشیعہ اتحاد امام مشرف کا ادھورا مشن اگلے بیس سالوں میں طالبان کو شکست دے کر پورا کرے گا


طالبان کو تو امریکا نے چھ ہفتوں میں کابل سے نکال باہر کیا تھا ، آپ پتہ نہیں کیوں طالبان کو اتنا عظیم سمجھتے ہیں

اوہ یاد آیا آپ کے ہاں تو صحیح راستے ایک نہیں کئی ہیں تو طالبان نے فرار کا راستہ اختیار کیا لہٰذا طالبان آپ کے ہیرو ٹھہرے

میں تو کہتا ہوں طالبان کو عثمانی بولا جانا چاہیے کیونکہ آپ بھی اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ عثمان بھاگا تھا
 

London Bridge

Senator (1k+ posts)
صف اول کے سپاہیوں کا امریشیعہ اتحاد امام مشرف کا ادھورا مشن اگلے بیس سالوں میں طالبان کو شکست دے کر پورا کرے گا

انصاری میاں اگلے بیس سال کی چھوڑو ابھی کی فکر کرو -بھوکے،ننگے افغانوں ،طالبانوں کی فکر کرو-ایسا نہ ہو بیس سال چھوڑ اگلے بیس ماہ میں ان کی ایک بڑی تعداد خدا نخواستہ بھوک ننگ اوربیماری سے چل بسے- کینیڈا میں رہتے ہودل کھول کر کم از کم 500 ڈالر چندہ دو انہیں مرنے سے بچا لو

Hunger-in-Afghanistan.jpg


123
ONE-TIME DONATION
MONTHLY DONATION
ONE-TIME TAX-DEDUCTIBLE GIFT AMOUNT *
$54can provide 8 temporary shelters
$73can feed 166 children
$114can provide medical care for 12 children
$250can provide critical protection services
$500can equip 2 mobile clinics
Other
$
PAYMENT INFORMATION


The U.N warns that millions of Afghans could run out of food before winter.​

Instability in Afghanistan is putting the lives of millions of children and families at risk. The IRC has worked in Afghanistan through three decades of crisis, providing millions of people with shelter, education, clean water, health support and other aid. We are committed to remaining in Afghanistan and helping those in need. Donate now to help us support children and families in Afghanistan and in crisis zones worldwide.
All gifts, up to one million dollars, will be matched by a generous donor until 11:59 PM EST on December 31, 2021, or until the match total is met. Gifts received after the match amount has been met will not be matched but will be used where needed most.

Your gift allows us to deliver comprehensive help to people affected by humanitarian crises and will be used where and when most needed. And, when combined with those of other donors, your gift becomes a powerful means to support our vital work, including education, health care, emergency support and job training for families in crisis worldwide.


https://help.rescue.org/donate/afgh...ief_vYhGCKGwVrCGXWPSxJev9rVsIUz0aAkDBEALw_wcB
 

London Bridge

Senator (1k+ posts)
صف اول کے سپاہیوں کا امریشیعہ اتحاد امام مشرف کا ادھورا مشن اگلے بیس سالوں میں طالبان کو شکست دے کر پورا کرے گا


afghanistan-starving-child.jpg

Taliban blames U.S. as 1 million Afghan kids face death by
starvation


Taliban blames U.S. as 1 million Afghan kids face death by
starvation

Kabul, Afghanistan — There are few greater agonies for a parent than a sick child. Six-month-old Sofia is suffering from severe anemia caused by acute malnutrition. Her mother Arezo told CBS News' Imtiaz Tyab that the family simply didn't have money to keep the tiny girl fed.

As CBS News watched Sofia get treatment at the Indira Ghandi Children's Hospital in Kabul, her father told Tyab he was desperate.

"I need food," he said, sobbing. "I have five kids — they are all so hungry."
afghanistan-child-starvation-taliban.jpg

Afghan mother Arezo speaks with CBS News' Imtiaz Tyab as her daughter, 6-month-old Sofia, receives emergency treatment for severe anemia caused by accute malnutrition at the Indira Ghandi Children's Hospital in Kabul, October 18, 2021.

According to the United Nations, if humanitarian assistance doesn't come soon, more than a million children will die of malnutrition.

Signs of desperation can already be seen in every corner of the country. CBS News visited a USAID-funded World Food Programme distribution center that was packed with people desperate for a meal, but it has only a couple staples to offer.

https://www.cbsnews.com/news/afghanistan-taliban-blames-us-as-1-million-kids-face-starvation/
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)

طالبان کو تو امریکا نے چھ ہفتوں میں کابل سے نکال باہر کیا تھا ، آپ پتہ نہیں کیوں طالبان کو اتنا عظیم سمجھتے ہیں

اوہ یاد آیا آپ کے ہاں تو صحیح راستے ایک نہیں کئی ہیں تو طالبان نے فرار کا راستہ اختیار کیا لہٰذا طالبان آپ کے ہیرو ٹھہرے

میں تو کہتا ہوں طالبان کو عثمانی بولا جانا چاہیے کیونکہ آپ بھی اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ عثمان بھاگا تھا
ایک تو متعہ زادوں کو شرافت ہضم نہیں ہوتی۔ اس لیئے یہی ضروری ہے کہ جہاں سانپ بجھو دیکھو فوراً جوتا اٹھاؤ۔ تیرے باپ کمینی کو کیا بولیں؟ تم سب حرام کی پیدائش عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر زبان کھولتے ہو۔ تم کافر نجس قرآن کا انکار کرنے والے اپنی زبان اپنے منہ میں ہی رکھو تو بہتر ہے۔ سانپ کی طرح زبان بار بار باہر نکالو گے تو تمہارا سر کچلا جائیگا
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
afghanistan-starving-child.jpg

Taliban blames U.S. as 1 million Afghan kids face death by
starvation


Taliban blames U.S. as 1 million Afghan kids face death by
starvation

Kabul, Afghanistan — There are few greater agonies for a parent than a sick child. Six-month-old Sofia is suffering from severe anemia caused by acute malnutrition. Her mother Arezo told CBS News' Imtiaz Tyab that the family simply didn't have money to keep the tiny girl fed.

As CBS News watched Sofia get treatment at the Indira Ghandi Children's Hospital in Kabul, her father told Tyab he was desperate.

"I need food," he said, sobbing. "I have five kids — they are all so hungry."
afghanistan-child-starvation-taliban.jpg

Afghan mother Arezo speaks with CBS News' Imtiaz Tyab as her daughter, 6-month-old Sofia, receives emergency treatment for severe anemia caused by accute malnutrition at the Indira Ghandi Children's Hospital in Kabul, October 18, 2021.

According to the United Nations, if humanitarian assistance doesn't come soon, more than a million children will die of malnutrition.

Signs of desperation can already be seen in every corner of the country. CBS News visited a USAID-funded World Food Programme distribution center that was packed with people desperate for a meal, but it has only a couple staples to offer.

https://www.cbsnews.com/news/afghanistan-taliban-blames-us-as-1-million-kids-face-starvation/

غربت اور افلاس، ایران میں لوگ بچوں کو آن لائن فروخت کرنے لگے بچوں کو کتنے ملین ایرانی ریال میں فروخت کیا جانے لگا ؟ افسوسناک صورتحال​

ہفتہ‬‮ 27 جون‬‮ 2020 | 14:02

ایران میں غربت اور افلاس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں ایسے خاندان بھی موجود ہیں جو اپنے بچوں کا بوجھ اٹھانے سے قاصرہوچکے ہیں۔ والدین اپنی رضامندی سے اپنے بچوں کو انسٹا گرام اور دیگر آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے فروخت کرنے پرمجبور ہیں۔ ایران میں ذرائع ابلاغ کے مطابق پولیس نے تین ایسے افراد کو
حراست میں لیا ہے جن پر آن لائن بچوں کی خریدو فروخت کا دھندہ چلانے کا الزام عاید کیا گیا ہے۔ گرفتار ملزمان کا کہنا ہے کہ والدین خود انہیں اپنے بچے چند ڈالروں کے عوض فروخت کرتے ہیں۔پولیس فروخت کیے گئے دو بچوں کی شناخت کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے، جن میں سے ایک کی عمر چند دنوں سے زیادہ نہیں ہے جبکہ دوسرا دو ماہ کا ہے،



تیسرے بچے کی تلاش جاری ہے۔ ایک غریب خاندان نے اپنے دو بچے 50 ملین ایرانی ریال اور 100 ملین ایرانی ریال میں فروخت کیے جب کہ تیسرے بچے کی قیمت 9500ریال میں فروخت کرنے کی پیش کش کی گئی ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے 2017 میں ایران کو دنیا میں انسانی اسمگلنگ سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ میں ان ممالک کی فہرست میں "تیسرا بڑا ملک قرار دیا تھا۔
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
ایران میں #غربت اور #بےروزگاری کا مسئلہ۔۔۔۔
ایران کی تقریبا 80 ملین آبادی میں 2019 کے تخمینہ کے مطابق 60 ملین افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور پر۔
ایران پر اقوام متحدہ اور امریکہ کی بڑے پیمانے پر پابندیوں کی وجہ سے ملک میں بےروزگاری خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔
ایرانی کرنسی کا ریٹ اور ملک میں Cost of Living کس حد تک بگڑ چکی ہے اس کا اندازہ ان چند حقائق سے لگایا جا سکتا ہے کہ ،
1 امریکی ڈالر = 42 ہزار 105 ایرانی ریال۔
اور ایران میں روز مرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں کی کیفیت:
آدھا کلو چکن = ﷼‎ 163,301
1 لٹردودھ = ﷼‎ 71,403
1 درجن انڈے = ﷼‎ 186,011
1 کلو ٹماٹر= ﷼‎ 73,979
1 کلو سیب = ﷼‎ 104,290
1 کلو آلو = ﷼‎ 67,602
روٹی برائے 2 افراد (بغیر سالن) = ﷼‎ 35,769
1 مکمل لباس = ﷼‎ 4,591,820
1 جوڑا جوتے = ﷼‎ 9,238,190
1 بوتل شیمپو = ﷼‎ 400,614
1 ٹیوب ٹوتھ پیسٹ = ﷼‎ 185,169
1 کپ کافی = ﷼‎ 199,828
1 ڈبی سگریٹ = ﷼‎ 356,986
1 ریگولر فاسٹ فوڈ ڈیل = ﷼‎ 588,173
۔۔۔۔۔۔اسی طرح ایران میں بےروزگاری کا مسئلہ بھی ہر گزرتے سال کے ساتھ شدید ہوتا جارہا ہے 2020 کے تخمینہ کے مطابق ایران کی 14% آبادی کے پاس گزراوقات کا کوئی زریعہ نہیں۔
https://www.ncr-iran.org/.../irans-economic-crisis-more.../
ایران دنیا میں 7واں سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا ملک ہے۔۔۔ اسکے کالے کرتوتوں کی وجہ سے معاشی پابندی ہے، اسلئے اپنا سارا تیل کالے بازار میں اسمگل کرتا ہے، اور اس ساری کی ساری دولت کی واحد مالک "ایرانی حکومت اور پاسداران انقلاب" ہے۔ عوام کو پتہ ہی نہیں کہ اتنی بڑی دولت کہاں جاتی ہے،
گویا۔۔۔۔اگر ایران میں کوئی بھوک اور غربت سے مرنا نہیں چاہتا تو اسے غیر مشروط طور پر حکومت کے تابع ہونا پڑے گا۔۔۔۔اور یہیں سے جنم لیتی ہیں ایرانی حکومت کی خون آشام ملیشیات۔۔۔۔وہ لاکھوں نوجوان کے جن کے پاس سرے سے کوئی روزگار نہیں ہے ان سب کے پاس "سازمان باسیچ" جیسی لو لیول فورسز میں شامل ہونے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ جہاں کم از کم انہیں اتنی ادائیگی ہوسکے کہ وہ دو وقت کی روٹی کما سکیں۔۔۔۔نتیجتا لاکھوں ایرانی نوجوان اب ایسی فرقہ وارانہ نفرت سے لبریز حکومت کی حامی نیم عسکری تنظیموں کا حصہ ہیں جہاں انہیں انتہائی معمولی چند ماہ کی عسکری تربیت دینے کے بعد ہر طرح کا "فری ہینڈ" دے کر "عوام پر چھوڑ دیا جاتا ہے" کہ جب بھی بھوک و افلاس سے تڑپتی سسکتی عوام میں اپنے حقوق کے لیے اٹھنے کی نوبت آئے تو ان "دشمن طاقتوں کے ایجنٹوں" سے "آہنی ہاتھوں سے نبٹ کر ان کی ملک دشمن تحاریک کو کچل دیا جائے"۔
اور پھر اس کی آڑ میں ایرانی حکومت اپنے کمزور سے کمزور سیاسی مخالفین تک کو راستے سے ہٹادینے کی پالیسی پر بھی عمل پیرا ہے۔
جیسا کہ 12 ستمبر 2020 کو ایران نے ریسلنگ کے عالمی چیمپئن "نوید افکاری" کو دہشتگردی کے الزام میں پھانسی دے دی۔
دنیا میں سب سے زیادہ پھانسی اپنے عوام کو یہی مجوسی ریاست دیتی ہے ان میں 99% فیصد سنی مسلمان ہوتے ہیں ۔۔۔۔ مگر پھر بھی یہ دہشت گرد اسٹیٹ اخوانیوں کی نظر میں اسلامی حکومت ہے۔۔۔

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=227405142065569&id=111126977026720
129684397_227405072065576_5701302877866970536_n.jpg
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
تہران : ایرانی عدالتی حکام نے ایک اخبار کو ایران میں غربت کو سپریم لیڈر سے جوڑنے پر بند کر دیا ہے۔ بتایا گیا ہیکہ کلید نامی اخبار کے صفحہ اول پر ایک گرافک شائع کیا تھا، جس میں ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ملک میں غربت کی تصویر کھینچتے دکھایا گیا تھا۔ نیم سرکاری ایرانی خبر رساں ادارہ مہر کے مطابق میڈیا کی نگران باڈی نے ہفتہ شائع ہونے والے اس گرافک اور ایران میں غربت سے متعلق مضمون کے بعد اس اخبار پر پابندی عائد کر دی۔
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
تہران،24مارچ(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)ایران میں بے روزگاری، غربت اور ابتر معاشی صورت حال نے ملک کو بدترین غربت اور قحط سیدوچار کیا ہے۔ ایرانی حکومت کے عہدیداروں نے اعتراف کیا ہے کہ 80 ملین کی آبادی میں 45 ملین افراد کو دو وقت کا کھانا میسر نہیں۔ وہ بدترین معاشی حالات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ایران میں آخری حدوں کو چھوتی غربت اور بے روزگاری پر عالمی مبصرین بھی سوچنے پر مجبور ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر غربت کی یہ شرح برقرار رہی تو ایران میں بھوک انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔
ایران، عراق جوائنٹ ٹریڈ چیمبر کے چیئرمین یحییٰ آل اسحاق نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایران میں فی کس سالانہ آمدن میں سنہ 1979ء کی نسبت 30 فی صد کمی آئی ہے اور اس وقت ساڑھے چار کروڑ ایرانی بدترین غربت میں زندگی بسر کررہے ہیں جنہیں دو وقت کا کھانا بھی میسر نہیں۔آل اسحاق نے بتایا کہ 60 فی صد ایرانی اپنی آمدن اور خرچ میں توازن قائم رکھنے میں ناکام ہیں۔ ایران میں بے روزگاری کی شرح 8 ملین تک جا پہنچی ہے جب کہ بڑے شہروں میں لوگ اپنی آمدن کا دو تہائی صرف رہائش کے حصول پر خرچ کرتے ہیں۔
ایرانی عہدیدار نے اعتراف کیا کہ ملک میں صنعتی پیداوار میں غیرمعمولی کمی آئی ہے۔ ایران میں اس وقت 94 فی صد پیداواری یونٹ ابتر حالات کا سامنا کررہے ہیں۔ درمیانے اور چھوٹے درجے 70 فی صد پیدواری یونٹ معطل ہیں جب کہ 30 فی صد پیدواری یونٹ مکمل طور پر بند ہوچکے ہیں۔حال ہی میں ایران میں ’خمینی‘ کمیٹی برائے ریلیف کے چیئرمین پرویز فتاح نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ایران میں گیارہ ملین افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسرکرنے پر مجبور ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایران میں غربت کی یہ شرح کم نہ ہوئی تو ملک میں ایک نیا انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ غربت اور بے روزگاری نے ایرانی قوم کا عزت سے جینا حرام کردیا ہے جس کے بعد ان کے پاس حکومت وقت کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)

ایک تو متعہ زادوں کو شرافت ہضم نہیں ہوتی۔ اس لیئے یہی ضروری ہے کہ جہاں سانپ بجھو دیکھو فوراً جوتا اٹھاؤ۔ تیرے باپ کمینی کو کیا بولیں؟ تم سب حرام کی پیدائش عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر زبان کھولتے ہو۔ تم کافر نجس قرآن کا انکار کرنے والے اپنی زبان اپنے منہ میں ہی رکھو تو بہتر ہے۔ سانپ کی طرح زبان بار بار باہر نکالو گے تو تمہارا سر کچلا جائیگا

دو باتیں ذہن میں بیٹھا لو

اول : عثمان کے جنگ احد میں بھاگنے میں کوئی شک نہیں


دوئم : کسی کو نام سے بلانا اس کی توہین نہیں ہوتی
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)

دو باتیں ذہن میں بیٹھا لو

اول : عثمان کے جنگ احد میں بھاگنے میں کوئی شک نہیں


دوئم : کسی کو نام سے بلانا اس کی توہین نہیں ہوتی
میں نے بھی عبداللہ بن سباء ہی لکھا ہے خومینی نہیں۔ ویسے پلمبر کو لا کر تو نے اس کا پاجامہ بھی اتار دیا
 

London Bridge

Senator (1k+ posts)
تہران،24مارچ(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)ایران میں بے روزگاری، غربت اور ابتر معاشی صورت حال نے ملک کو بدترین غربت اور قحط سیدوچار کیا ہے۔ ایرانی حکومت کے عہدیداروں نے اعتراف کیا ہے کہ 80 ملین کی آبادی میں 45 ملین افراد کو دو وقت کا کھانا میسر نہیں۔ وہ بدترین معاشی حالات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ایران میں آخری حدوں کو چھوتی غربت اور بے روزگاری پر عالمی مبصرین بھی سوچنے پر مجبور ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر غربت کی یہ شرح برقرار رہی تو ایران میں بھوک انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔
ایران، عراق جوائنٹ ٹریڈ چیمبر کے چیئرمین یحییٰ آل اسحاق نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایران میں فی کس سالانہ آمدن میں سنہ 1979ء کی نسبت 30 فی صد کمی آئی ہے اور اس وقت ساڑھے چار کروڑ ایرانی بدترین غربت میں زندگی بسر کررہے ہیں جنہیں دو وقت کا کھانا بھی میسر نہیں۔آل اسحاق نے بتایا کہ 60 فی صد ایرانی اپنی آمدن اور خرچ میں توازن قائم رکھنے میں ناکام ہیں۔ ایران میں بے روزگاری کی شرح 8 ملین تک جا پہنچی ہے جب کہ بڑے شہروں میں لوگ اپنی آمدن کا دو تہائی صرف رہائش کے حصول پر خرچ کرتے ہیں۔
ایرانی عہدیدار نے اعتراف کیا کہ ملک میں صنعتی پیداوار میں غیرمعمولی کمی آئی ہے۔ ایران میں اس وقت 94 فی صد پیداواری یونٹ ابتر حالات کا سامنا کررہے ہیں۔ درمیانے اور چھوٹے درجے 70 فی صد پیدواری یونٹ معطل ہیں جب کہ 30 فی صد پیدواری یونٹ مکمل طور پر بند ہوچکے ہیں۔حال ہی میں ایران میں ’خمینی‘ کمیٹی برائے ریلیف کے چیئرمین پرویز فتاح نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ایران میں گیارہ ملین افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسرکرنے پر مجبور ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایران میں غربت کی یہ شرح کم نہ ہوئی تو ملک میں ایک نیا انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ غربت اور بے روزگاری نے ایرانی قوم کا عزت سے جینا حرام کردیا ہے جس کے بعد ان کے پاس حکومت وقت کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔


کراچی والا فیس بک سے جعلی اعداد وشمار نہیں کسی مصدقہ بین الاقوامی ادارے بشمول اقوام متحدہ کے اعداد شمار پیش کرو- چلو مان لیا کسی فیس بک سے اٹھائے گئے یہ اعداد وشمار حقیقی ہیں تو بتاؤ کیا ایران نے کسی بین الاقوامی ادارے سے بھیک یا خیرات مانگی ؟ کوئی اپیل کی؟ یا اقوام متحدہ یا کسی دیگرعالمی ادارے نے یہ کہا کہ ایران میں بھوک،ننگ اور غربت سے عنقریب لاکھوں لوگ بشمول شیر خوار بچے اور خواتین مر جائیں گی ؟؟
 

London Bridge

Senator (1k+ posts)
ایران میں #غربت اور #بےروزگاری کا مسئلہ۔۔۔۔
ایران کی تقریبا 80 ملین آبادی میں 2019 کے تخمینہ کے مطابق 60 ملین افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور پر۔
ایران پر اقوام متحدہ اور امریکہ کی بڑے پیمانے پر پابندیوں کی وجہ سے ملک میں بےروزگاری خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔
ایرانی کرنسی کا ریٹ اور ملک میں Cost of Living کس حد تک بگڑ چکی ہے اس کا اندازہ ان چند حقائق سے لگایا جا سکتا ہے کہ ،
1 امریکی ڈالر = 42 ہزار 105 ایرانی ریال۔
اور ایران میں روز مرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں کی کیفیت:
آدھا کلو چکن = ﷼‎ 163,301
1 لٹردودھ = ﷼‎ 71,403
1 درجن انڈے = ﷼‎ 186,011
1 کلو ٹماٹر= ﷼‎ 73,979
1 کلو سیب = ﷼‎ 104,290
1 کلو آلو = ﷼‎ 67,602
روٹی برائے 2 افراد (بغیر سالن) = ﷼‎ 35,769
1 مکمل لباس = ﷼‎ 4,591,820
1 جوڑا جوتے = ﷼‎ 9,238,190
1 بوتل شیمپو = ﷼‎ 400,614
1 ٹیوب ٹوتھ پیسٹ = ﷼‎ 185,169
1 کپ کافی = ﷼‎ 199,828
1 ڈبی سگریٹ = ﷼‎ 356,986
1 ریگولر فاسٹ فوڈ ڈیل = ﷼‎ 588,173
۔۔۔۔۔۔اسی طرح ایران میں بےروزگاری کا مسئلہ بھی ہر گزرتے سال کے ساتھ شدید ہوتا جارہا ہے 2020 کے تخمینہ کے مطابق ایران کی 14% آبادی کے پاس گزراوقات کا کوئی زریعہ نہیں۔
https://www.ncr-iran.org/.../irans-economic-crisis-more.../
ایران دنیا میں 7واں سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا ملک ہے۔۔۔ اسکے کالے کرتوتوں کی وجہ سے معاشی پابندی ہے، اسلئے اپنا سارا تیل کالے بازار میں اسمگل کرتا ہے، اور اس ساری کی ساری دولت کی واحد مالک "ایرانی حکومت اور پاسداران انقلاب" ہے۔ عوام کو پتہ ہی نہیں کہ اتنی بڑی دولت کہاں جاتی ہے،
گویا۔۔۔۔اگر ایران میں کوئی بھوک اور غربت سے مرنا نہیں چاہتا تو اسے غیر مشروط طور پر حکومت کے تابع ہونا پڑے گا۔۔۔۔اور یہیں سے جنم لیتی ہیں ایرانی حکومت کی خون آشام ملیشیات۔۔۔۔وہ لاکھوں نوجوان کے جن کے پاس سرے سے کوئی روزگار نہیں ہے ان سب کے پاس "سازمان باسیچ" جیسی لو لیول فورسز میں شامل ہونے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ جہاں کم از کم انہیں اتنی ادائیگی ہوسکے کہ وہ دو وقت کی روٹی کما سکیں۔۔۔۔نتیجتا لاکھوں ایرانی نوجوان اب ایسی فرقہ وارانہ نفرت سے لبریز حکومت کی حامی نیم عسکری تنظیموں کا حصہ ہیں جہاں انہیں انتہائی معمولی چند ماہ کی عسکری تربیت دینے کے بعد ہر طرح کا "فری ہینڈ" دے کر "عوام پر چھوڑ دیا جاتا ہے" کہ جب بھی بھوک و افلاس سے تڑپتی سسکتی عوام میں اپنے حقوق کے لیے اٹھنے کی نوبت آئے تو ان "دشمن طاقتوں کے ایجنٹوں" سے "آہنی ہاتھوں سے نبٹ کر ان کی ملک دشمن تحاریک کو کچل دیا جائے"۔
اور پھر اس کی آڑ میں ایرانی حکومت اپنے کمزور سے کمزور سیاسی مخالفین تک کو راستے سے ہٹادینے کی پالیسی پر بھی عمل پیرا ہے۔
جیسا کہ 12 ستمبر 2020 کو ایران نے ریسلنگ کے عالمی چیمپئن "نوید افکاری" کو دہشتگردی کے الزام میں پھانسی دے دی۔
دنیا میں سب سے زیادہ پھانسی اپنے عوام کو یہی مجوسی ریاست دیتی ہے ان میں 99% فیصد سنی مسلمان ہوتے ہیں ۔۔۔۔ مگر پھر بھی یہ دہشت گرد اسٹیٹ اخوانیوں کی نظر میں اسلامی حکومت ہے۔۔۔

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=227405142065569&id=111126977026720
129684397_227405072065576_5701302877866970536_n.jpg

افغانستان میں غذائی قلت: ’دو ہفتوں میں پانچ نومولود بچوں کو مرتے دیکھا‘

_121796557_oct14-gettyimages-1235875220.jpg


جوان عورت ڈاکٹر کے سامنے رو رہی تھی اور التجا کر رہی تھی کہ اسے اور اس کے بچے کو مار دیا جائے۔ افغانستان کی ماہر امراض نسواں ڈاکٹر نوری سی سیکشن کے ذریعے ایک خاتون کی ڈیلیوری کرنے والی تھیں کہ جب اس خاتون کا صبر ختم ہو گیا۔
ڈاکٹر نوری کے مطابق اس خاتون نے کہا کہ ’میں نہیں جانتی کہ میں کیسے زندہ رہ سکتی ہوں۔ میں کیسے ایک اور انسان کو جنم دے سکتی ہوں۔‘
ڈاکٹر نوری کے وارڈ میں خواتین اس قدر غذائی قلت کا شکار ہیں کہ وہ جانتی ہیں کہ اپنے بچوں کو دودھ پلانے کے لیے انھیں ماں کا دودھ بھی میسر نہیں۔
ڈاکٹر نوری کہتی ہیں کہ وارڈز میں اتنا رش ہے کہ انھیں لیبر روم تک پہنچنے کے لیے خود کو خون آلود دیواروں اور گندی چادروں کے درمیان حاملہ ماؤں کے بیچ سے بچ کر جانا پڑتا ہے۔
صفائی کرنے والے عملے میں سے بہت سے افراد نے مہینوں پہلے ہسپتال چھوڑ دیا کیونکہ وہ بغیر تنخواہ کام کر کے تنگ آ چکے تھے۔
ہسپتال کے زچہ بچہ وارڈ میں اتنا رش ہے کہ کبھی کبھی ایک بیڈ پر کئی خواتین ہوتی ہیں۔ نجلی کلینک بند ہو چکے ہیں اور افغانستان کے مرکزی ہسپتال میں معمول سے ہٹ کر تین گنا زیادہ خواتین آ رہی ہیں۔
ڈاکٹر نوری کہتی ہیں کہ ’میٹرنٹی وارڈ کسی بھی ہسپتال کا سب سے خوش ترین وارڈ ہوتا ہے لیکن افغانستان میں اب ایسا نہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ستمبر میں انھوں نے صرف دو ہفتے کے دوران پانچ نومولود بچوں کو بھوک سے مرتے دیکھا۔‘
_121922037_oct28-gettyimages-1236234240.jpg

’یہ جہنم جیسا ہے‘


افغانستان پہلے ہی شدید خشک سالی اور کئی دہائیوں کے تنازعات سے متاثر تھا لیکن طالبان کے قبضے نے ملک کو مزید تیزی کے ساتھ معاشی تباہی کی طرف بڑھا دیا۔
بین الاقوامی امداد کی جس نے کئی دہائیوں تک افغانستان کی معیشت اور اس کے صحت کے نظام کو سہارا دیا، اگست میں رک گئی۔
مغربی عطیہ دہندگان ادارے طالبان حکومت، جو خواتین اور لڑکیوں کے بنیادی حقوق سے انکاری اور سخت شرعی سزاؤں کی دھمکی دیتی ہے، کے ذریعے رقم منتقل کرنے کے بارے میں اپنے خدشات کا ذکر کر چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق افغانستان بھوک کے بدترین بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ اس موسم سرما میں تقریباً ایک کروڑ 40 لاکھ بچوں کے غذائی قلت سے شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
ملک بھر میں بھوک کے شکار افراد کا علاج کرنے والے ہسپتال تباہی کے دہانے پر ہیں اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے والے تقریباً 2300 مراکز پہلے ہی بند ہیں۔
دور دراز علاقوں کے ڈاکٹروں کے مطابق وہ لوگوں کو بنیادی ادویات فراہم کرنے سے بھی قاصر ہیں۔
_121922039_oct14-gettyimages-1235875213.jpg

دارالحکومت کابل میں بچوں کے ایک بڑے ہسپتال میں بدترین حالات دیکھے جا رہے ہیں۔ یہ ہسپتال فی الحال 150 فیصد کی صلاحیت پر چل رہا ہے۔
ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر صدیقی نے فنڈز میں کٹوتی کے بعد ستمبر میں اموات میں اضافہ دیکھا، جب ہر ہفتے 10 سال سے کم عمر کے چار بچے غذائی قلت یا اس سے متعلقہ بیماریوں، جیسے کھانے کی ناقص صفائی سے زہر آلود ہونے کی وجہ سے موت کے منھ میں چلے گئے۔
ان کا کہنا ہے کہ کم عمر لوگ بحران کا سب سے زیادہ شکار ہو رہے ہیں۔ پانچ سال سے کم عمر کے بچے ہسپتال اتنی دیر سے پہنچتے ہیں کہ انھیں بچانا نا ممکن ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ بچے ہسپتال میں داخل ہونے سے پہلے ہی مر رہے ہیں۔ ہم نے ایسے بہت سے بچے کھوئے ہیں۔‘
’اور جو وقت پر پہنچ جاتے ہیں ان کی مدد کے لیے بہت کم وسائل موجود ہیں۔ ہسپتال کو کھانے اور ادویات کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ یہاں تک کے مریضوں کو سردی سے بچانے کے لیے بھی جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔
ہسپتال کو گرم رکھنے کے لیے کوئی ایندھن دستیاب نہیں تو ڈاکٹر صدیقی اپنے سٹاف کو کہتے ہیں کہ وہ درختوں کی سوکھی ٹہنیاں جمع کر کے لائیں تاکہ آگ جلائی جا سکے۔
’لیکن جب درختوں کی ٹہنیاں ختم ہو جائیں گی تو ہم آئندہ ماہ اور اس کے بعد کے وقت کے لیے پریشان ہیں۔‘
ڈاکٹر نوری کے میٹرنٹی وارڈ میں بجلی کی لوڈشیڈنگ جان لیوا ثابت ہو رہی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ قبل از وقت پیدا ہونے والے بہت سے بچے انکیوبیٹرز میں مر گئے۔‘
’انھیں اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے دیکھنا بہت افسوس ناک ہے

اور وہ کہتی ہیں کہ بجلی کے منقطع ہونے سے سرجری کروانے والے مریضوں پر بھی ممکنہ طور پر مہلک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
’ایک دن ہم آپریشن تھیٹر میں تھے کہ بجلی چلی گئی۔ سب کچھ رک گیا۔ میں بھاگ کر گئی اور مدد کے لیے پکارا۔ کسی کی گاڑی میں ایندھن تھا جو انھوں نے ہمیں دیا تاکہ ہم جنریٹر چلا سکیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ جب بھی ہسپتال میں کوئی آپریشن ہوتا ہے ’میں لوگوں کو کہتی ہوں کہ جلدی کریں۔ یہ بہت زیادہ پریشان کن ہے۔‘
اس طرح کے مشکل حالات میں کام کرنے پر مجبور ہونے کے باوجود صحت کی دیکھ بھال کرنے والے افراد میں سے زیادہ تر کو اس وقت تنخواہ بھی نہیں دی جا رہی۔
_121796564_oct28-gettyimages-1236234471.jpg

صوبہ ہیرات کے ایک ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رحمانی، جو کورونا کے مریضوں کا علاج کرتے ہیں، نے بی بی سی کو طالبان کی وزارت صحت کا 30 اکتوبر کا ایک خط دکھایا، جس میں ہسپتال کے سٹاف کو فنڈز ملنے تک بغیر تنخواہ کے کام کرنے کا کہا گیا تھا۔
منگل کے روز ڈاکٹر رحمانی نے تصدیق کی کہ انھیں ہسپتال کو بند کرنا پڑا کیونکہ فنڈز نہیں ملے۔ تصاویر میں دیکھا گیا کہ مریضوں کو سٹریچر پر ہسپتال سے باہر لے جایا جا رہا ہے تاہم یہ واضح نہیں کہ اب ان کے ساتھ کیا ہو گا۔
قریب ہی موجود منشیات کے عادی افراد کے علاج میں مہارت رکھنے والا ایک اور ہسپتال بھی اپنے مریضوں کی مناسب دیکھ بھال کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔
ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر نوروز کہتے ہیں کہ ’ایسے مریض ہیں جنھیں بیڈ سے زنجیروں سے باندھنا پڑتا ہے یا ایسے مریض ہیں جنھیں ہتھکڑیاں لگانا پڑتی ہیں۔ ہمارے لیے ان کی دیکھ بھال کرنا بہت مشکل ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’مناسب دیکھ بھال کے بغیر ہمارا ہسپتال ان مریضوں کے لیے بالکل جیل جیسا ہے۔‘
یہ ہسپتال بھی کم ہوتے عملے کی وجہ سے اب بند ہونے کے دہانے پر ہے اور اگر یہ بند ہو جاتا ہے تو ڈاکٹر نوروز کو فکر ہے کہ آنے والی شدید سردی میں ان مریضوں کا کیا ہو گا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ان کے رہنے کی کوئی جگہ نہیں۔ وہ عام طور پر پلوں کے نیچے، کھنڈرات اور قبرستانوں میں ایسی جگہوں پر جا کر رہتے ہیں جو انسان کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہیں۔‘
طالبان کے مقرر کردہ وزیر صحت ڈاکٹر قلندر عباد نے نومبر میں بی بی سی فارسی کو بتایا کہ حکومت امدادی کوششوں کو دوبارہ نافذ کرنے کے لیے عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔
تاہم خیراتی اداروں کو شک ہے کہ ان کی دی گئی امداد صحیح مقاصد کے لیےاستعمال نہیں ہو گی
_121796562_oct28-gettyimages-1236234385.jpg

طالبان حکومت آنے کے بعد پہلی بار 10 نومبر کو اقوام متحدہ افغانستان کے صحت کے نظام میں براہ راست ایک کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی امداد دینے میں کامیاب ہوا۔ تقریباً 80 لاکھ ڈالر ہیلتھ ورکرز کی تنخواوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کیے گئے۔
کئی دیگر بین الاقوامی عطیہ دہندگان ادارے بھی اقوام متحدہ کی پیروی کرنے کی امید کر رہے ہیں لیکن وقت ختم ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر نوری کہتی ہیں کہ ’جلد ہی ہمارے پاس پینے کا پانی بھی نہیں ہو گا۔‘
سخت موسمی حالات کی وجہ سے جلد ہی پاکستان اور انڈیا جیسے ممالک سے آنے والے امدادی سامان کے راستے بھی محدود ہو جائیں گے۔
ڈاکٹر نوری کہتی ہیں کہ ’جب بھی خواتین اپنے بچوں کے ساتھ ہمارے ہسپتال سے جاتیں ہیں، میں ان کے بارے میں سوچتی رہتی ہوں۔ ان کے پاس پیسے نہیں، وہ کھانے کے لیے کچھ نہیں خرید سکتیں۔‘
ڈاکٹر نوری کہتی ہیں کہ ان کا اپنا خاندان بھی انتہائی مشکل وقت سے گزر رہا ہے۔ ’حتیٰ کہ ڈاکٹر ہونے کے باوجود میرے پاس کافی کھانا نہیں۔ میں اسے نہیں خرید سکتی اور میری تمام بچت تقریباً ختم ہو گئی ہے۔‘
’مجھے نہیں معلوم کہ میں اب بھی کام پر کیوں آتی ہوں۔ میں ہر صبح اپنے آپ سے یہ سوال کرتی ہوں لیکن شاید وجہ یہ ہے کہ میں ابھی بھی بہتر مستقبل کے بارے میں پر امید ہوں۔‘

اس تحریر کے لیے اضافی رپورٹنگ علی ہمدانی، کاون خاموش، احمد خالد اور حفیظ اللہ معروف نے کی ہے۔