افغانستان میں سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی خوراک کی کمی کے باعث ’قحط‘ کا خدشہ
افغانستان کے عوام فاقوں کے حقیقی اور شدید خطرے کی زد میں ہیں۔ یہاں پر موسم خزاں سے فوری طور پر جاڑوں میں بدلنے والا ہے۔
اسی دوران کئی علاقوں سے قحط کی خبریں سامنے آ رہی ہیں جس سے تیزی سے بدتر ہوتی ہوئی صورتحال کا اندازہ ہوتا ہے۔
کابل سے 50 میل مغرب میں میدان واردک کے علاقے میں سینکڑوں افراد ایک سرکاری مرکز سے آٹے کے حصول کے لیے جمع تھے۔
یہ آٹا اقوامِ متحدہ کے عالمی ادارہ برائے خوراک نے فراہم کیا تھا۔
طالبان سپاہی لوگوں کو کافی حد تک خاموش رکھنے میں کامیاب رہے مگر جن لوگوں سے کہا گیا کہ وہ آٹے کے لیے اہل نہیں ہیں، وہ غصے اور خوف کا شکار نظر آئے۔
ایک بوڑھے شخص نے کہا 'سردیاں تقریباً آ ہی گئی ہیں۔ اگر میں روٹی نہیں بنا سکا تو مجھے نہیں پتا میں کیسے گزارا کروں گا۔'
عالمی ادارہ خوراک کو افغانستان کے تقریباً دو کروڑ 20 لاکھ افراد کو راشن فراہم کرنے کی مشکل کا سامنا ہے۔
ماہرین کو خدشہ ہے کہ اس مرتبہ سردیاں سخت ہوں گی اور اگر صورتحال واقعی ایسی ہوئی تو بڑی تعداد میں لوگوں کو شدید بھوک اور یہاں تک کہ قحط کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
جب عالمی ادارہ خوراک کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے اتوار کو کابل آئے تو میں نے اُن سے ملاقات کی۔
اس صورتحال پر اُن کا تجزیہ تشویش ناک تھا۔
ڈیوڈ نے کہا کہ 'یہ اتنی خراب ہے جتنی کہ آپ تصور کر سکتے ہیں۔ درحقیقت ہم زمین پر بدترین انسانی المیے کا سامنا کر رہے ہیں۔'
اُن کا کہنا تھا کہ '95 فیصد لوگوں کے پاس کافی خوراک نہیں ہے اور اب ہمارے سامنے دو کروڑ 30 لاکھ کے قریب افراد ہیں جو قحط کا شکار ہونے والے ہیں۔ اگلے چھ مہینے آفت کی طرح ہوں گی۔ یہ زمین پر جہنم ہوں گے۔'
اگست میں طالبان کے اقتدار میں آنے سے قبل یہ اعتماد تھا کہ صدر اشرف غنی کی حکومت بدتر سردیوں کے خطرے سے بین الاقوامی برادری کی مدد سے نمٹ لے گی۔
مگر جب اشرف غنی کی حکومت ختم ہوئی تو یہ توقعات بھی ختم ہو گئیں۔
مغربی ممالک نہیں چاہتے کہ وہ لڑکیوں کو تعلیم سے روکنے والے اور شرعی سزاؤں کے مکمل نفاذ کی خواہاں حکومت کے ساتھ کھڑے نظر آئیں، اس لیے اُنھوں نے افغانستان کے لیے امداد بند کر دی ہے۔
مگر ایسے میں جب کروڑوں معصوم اور بے گناہ لوگ بھوک کا سامنا کر رہے ہیں، تو کیا مغربی ممالک تب بھی صرف دیکھتے ہی رہیں گے؟
ڈیوڈ بیسلے ترقی یافتہ ممالک کی حکومتوں اور ارب پتی لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ مدد کی فوری ضرورت پوری کریں۔
اُنھوں نے کہا 'عالمی رہنما اور ارب پتی تصور کریں کہ آپ کے ننھے بچوں یا اُن کے بچوں کی بھوک سے موت ہو جائے۔ آپ ایسا ہونے سے روکنے کے لیے سب کچھ کر سکتے ہیں، اور جب دنیا میں چار ہزار کھرب ڈالر دولت ہوتے ہوئے ایسا ہو تو ہم سب کو شرم آنی چاہیے۔'
'ہم کسی بچے کو بھوک سے مرنے دیں تو ہمیں شرم آنی چاہیے۔ مجھے فرق نہیں پڑتا کہ وہ بچہ کہاں ہے۔'
اسی دوران کئی علاقوں سے قحط کی خبریں سامنے آ رہی ہیں جس سے تیزی سے بدتر ہوتی ہوئی صورتحال کا اندازہ ہوتا ہے۔
کابل سے 50 میل مغرب میں میدان واردک کے علاقے میں سینکڑوں افراد ایک سرکاری مرکز سے آٹے کے حصول کے لیے جمع تھے۔
یہ آٹا اقوامِ متحدہ کے عالمی ادارہ برائے خوراک نے فراہم کیا تھا۔
طالبان سپاہی لوگوں کو کافی حد تک خاموش رکھنے میں کامیاب رہے مگر جن لوگوں سے کہا گیا کہ وہ آٹے کے لیے اہل نہیں ہیں، وہ غصے اور خوف کا شکار نظر آئے۔
ایک بوڑھے شخص نے کہا 'سردیاں تقریباً آ ہی گئی ہیں۔ اگر میں روٹی نہیں بنا سکا تو مجھے نہیں پتا میں کیسے گزارا کروں گا۔'
عالمی ادارہ خوراک کو افغانستان کے تقریباً دو کروڑ 20 لاکھ افراد کو راشن فراہم کرنے کی مشکل کا سامنا ہے۔
ماہرین کو خدشہ ہے کہ اس مرتبہ سردیاں سخت ہوں گی اور اگر صورتحال واقعی ایسی ہوئی تو بڑی تعداد میں لوگوں کو شدید بھوک اور یہاں تک کہ قحط کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
جب عالمی ادارہ خوراک کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے اتوار کو کابل آئے تو میں نے اُن سے ملاقات کی۔
اس صورتحال پر اُن کا تجزیہ تشویش ناک تھا۔
ڈیوڈ نے کہا کہ 'یہ اتنی خراب ہے جتنی کہ آپ تصور کر سکتے ہیں۔ درحقیقت ہم زمین پر بدترین انسانی المیے کا سامنا کر رہے ہیں۔'
اُن کا کہنا تھا کہ '95 فیصد لوگوں کے پاس کافی خوراک نہیں ہے اور اب ہمارے سامنے دو کروڑ 30 لاکھ کے قریب افراد ہیں جو قحط کا شکار ہونے والے ہیں۔ اگلے چھ مہینے آفت کی طرح ہوں گی۔ یہ زمین پر جہنم ہوں گے۔'
اگست میں طالبان کے اقتدار میں آنے سے قبل یہ اعتماد تھا کہ صدر اشرف غنی کی حکومت بدتر سردیوں کے خطرے سے بین الاقوامی برادری کی مدد سے نمٹ لے گی۔
مگر جب اشرف غنی کی حکومت ختم ہوئی تو یہ توقعات بھی ختم ہو گئیں۔
مغربی ممالک نہیں چاہتے کہ وہ لڑکیوں کو تعلیم سے روکنے والے اور شرعی سزاؤں کے مکمل نفاذ کی خواہاں حکومت کے ساتھ کھڑے نظر آئیں، اس لیے اُنھوں نے افغانستان کے لیے امداد بند کر دی ہے۔
مگر ایسے میں جب کروڑوں معصوم اور بے گناہ لوگ بھوک کا سامنا کر رہے ہیں، تو کیا مغربی ممالک تب بھی صرف دیکھتے ہی رہیں گے؟
ڈیوڈ بیسلے ترقی یافتہ ممالک کی حکومتوں اور ارب پتی لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ مدد کی فوری ضرورت پوری کریں۔
اُنھوں نے کہا 'عالمی رہنما اور ارب پتی تصور کریں کہ آپ کے ننھے بچوں یا اُن کے بچوں کی بھوک سے موت ہو جائے۔ آپ ایسا ہونے سے روکنے کے لیے سب کچھ کر سکتے ہیں، اور جب دنیا میں چار ہزار کھرب ڈالر دولت ہوتے ہوئے ایسا ہو تو ہم سب کو شرم آنی چاہیے۔'
'ہم کسی بچے کو بھوک سے مرنے دیں تو ہمیں شرم آنی چاہیے۔ مجھے فرق نہیں پڑتا کہ وہ بچہ کہاں ہے۔'
وسطی افغانستان کے شہر بامیان جہاں طالبان نے سنہ 2001 میں بدھا کے خوبصورت اور قدیم مجسموں کو تباہ کر دیا تھا، وہاں ہم فاطمہ نامی ایک بیوہ اور اُن کے سات بچوں سے ملنے گئے جن کی عمریں تین سے 16 سال ہیں۔
اُن کے شوہر کی کچھ ہی عرصہ قبل معدے کے کینسر کے باعث موت ہوئی ہے۔
یہ لوگ انتہائی غریب ہیں اور جس پہاڑ میں بدھا کا مجسمہ تراشا گیا تھا، اس کے پاس ہی ایک غار میں رہتے ہیں۔
گذشتہ حکومت کے دوران فاطمہ کافی حد تک باقاعدگی سے آٹا اور تیل حاصل کر سکتی تھیں مگر طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے یہ سلسلہ بند ہو گیا ہے۔
فاطمہ ایک قریبی کسان کی زمین سے جھاڑیاں اور گھاس صاف کر کے تھوڑی بہت رقم کما لیتی تھیں مگر قحط کے باعث کم ہی فصلیں بچی ہیں، جس کا مطلب ہے کہ اُن کے لیے کوئی ملازمت نہیں۔
وہ کہتی ہیں 'مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ میرے پاس بچوں کو دینے کے لیے کچھ نہیں۔ جلد ہی مجھے باہر جا کر بھیک مانگنی پڑے گی۔'
کچھ والدین نے اپنی بیٹیاں شادی کے لیے عمر رسیدہ مردوں کو فروخت کر دی ہیں۔ فاطمہ نے ایسا کرنے سے انکار کیا لیکن اگر خوراک کی فراہمی بحال نہ ہوئی تو وہ اور اُن کے بچے شدید بھوک کا سامنا کریں گے۔
اب قریبی پہاڑی چوٹیوں پر برف جمنے لگی ہے اور ہوا میں ایک نئی تیزی محسوس کی جا سکتی ہے۔
سردیاں جلد ہی آ پہنچیں گی اور فاطمہ اور اُن کے خاندان جیسے لوگوں کی بڑی تعداد بربادی کے دہانے پر ہوگی۔
سورس
اُن کے شوہر کی کچھ ہی عرصہ قبل معدے کے کینسر کے باعث موت ہوئی ہے۔
یہ لوگ انتہائی غریب ہیں اور جس پہاڑ میں بدھا کا مجسمہ تراشا گیا تھا، اس کے پاس ہی ایک غار میں رہتے ہیں۔
گذشتہ حکومت کے دوران فاطمہ کافی حد تک باقاعدگی سے آٹا اور تیل حاصل کر سکتی تھیں مگر طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے یہ سلسلہ بند ہو گیا ہے۔
فاطمہ ایک قریبی کسان کی زمین سے جھاڑیاں اور گھاس صاف کر کے تھوڑی بہت رقم کما لیتی تھیں مگر قحط کے باعث کم ہی فصلیں بچی ہیں، جس کا مطلب ہے کہ اُن کے لیے کوئی ملازمت نہیں۔
وہ کہتی ہیں 'مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ میرے پاس بچوں کو دینے کے لیے کچھ نہیں۔ جلد ہی مجھے باہر جا کر بھیک مانگنی پڑے گی۔'
کچھ والدین نے اپنی بیٹیاں شادی کے لیے عمر رسیدہ مردوں کو فروخت کر دی ہیں۔ فاطمہ نے ایسا کرنے سے انکار کیا لیکن اگر خوراک کی فراہمی بحال نہ ہوئی تو وہ اور اُن کے بچے شدید بھوک کا سامنا کریں گے۔
اب قریبی پہاڑی چوٹیوں پر برف جمنے لگی ہے اور ہوا میں ایک نئی تیزی محسوس کی جا سکتی ہے۔
سردیاں جلد ہی آ پہنچیں گی اور فاطمہ اور اُن کے خاندان جیسے لوگوں کی بڑی تعداد بربادی کے دہانے پر ہوگی۔
سورس