اسلام قبول کرنے کو جرم بنانے کا بل

knowledge88

Chief Minister (5k+ posts)
انصار عباسی
وٹس ایپ کے ذریعے کچھ ایسا مواد پڑھنے کو ملا جس کا پیغام کچھ یوں تھا کہ پاکستان میں اسلام قبول کرنے کو جرم بنانے کے لیے قانون سازی پر کام ہو رہا ہے۔ میں نے سوچا ایسا کیسے ممکن ہے لیکن حکومتی ذرائع سے رابطہ کیا تو پتا چلا کہ یہ سچ ہے۔ مذہبی اقلیتوں کی جبری مذہب کی تبدیلی کے نام پر ایک بل بنایا گیا ہے جو اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل اور وزارت مذہبی امور کے زیر غور ہے اور جسے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اگر اس بل کو قانون بنا دیا گیا تو اسلام قبول کرنے پر پاکستان میں پابندی لگ جائے گی اور اسلام کی تبلیغ کرنے والے مجرم ٹھہریں گے۔ میں نے بل کی کاپی بھی منگوائی جس کے چیدہ چیدہ نکات میں قارئین کے سامنے پیش کروں گا لیکن مختصراً بتاتا چلوں کہ اس مجوزہ قانون کو اگر لاگو کیا جاتا ہے تو ایک تو کوئی بھی اٹھارہ سال سے کم عمر اسلام قبول نہیں کر سکے گا اور دوسرا اٹھارہ سال سے بڑا کوئی شخص بھی آسانی سے اسلام قبول نہیں کر سکے گا کہ اس کے لیے کچھ ایسی سخت شرائط لگا دی گئی ہیں کہ اسلام قبول کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جائے گا۔ ذیل میں بل کے کچھ نکات پیش کر رہا ہوں:

بل کے مطابق کوئی بھی غیر مسلم، جو بچہ نہیں ہے (18 سال سے زیادہ عمر والا شخص)، اور دوسرے مذہب میں تبدیل ہونے کے قابل اور آمادہ ہے، اس علاقہ کے ایڈیشنل سیشن جج سے تبدیلیٔ مذہب کے سرٹفیکیٹ کے لیے درخواست دے گا جہاں عام طور پر غیر مسلم فردرہتا ہے یا اپنا کاروبار کرتا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج مذہب کی تبدیلی کے لیے درخواست موصول ہونے کے سات دن کے اندر انٹرویو کی تاریخ مقرر کرے گا۔ فراہم کردہ تاریخ پر، فرد ایڈیشنل سیشن جج کے سامنے پیش ہو گا جو اس بات کو یقینی بنائے گا کہ مذہب کی تبدیلی کسی دباؤ کے تحت نہیں اور نہ ہی کسی دھوکہ دہی یا غلط بیانی کی وجہ سے ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج غیر مسلم کی درخواست پر اس شخص کے مذہبی اسکالرز سے ملاقات کا انتظام کرے کا جو مذہب وہ تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرنے اور ایڈیشنل سیشن جج کے دفتر واپس آنے کے لیے غیر مسلم کو نوے دن کا وقت دے سکتا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج، اس بات کو یقینی بنانے کے بعد کہ یہ شرائط پوری ہو جائیں، مذہب کی تبدیلی کا سرٹیفکیٹ جاری کرے گا۔

جبری مذہب کی تبدیلی میں ملوث فرد کو کم از کم پانچ سال اور زیادہ سے زیادہ دس سال تک قید کی سزا اور جرمانہ ہو گا۔ مذہب کی تبدیلی کے لیے مجرمانہ قوت کا استعمال اس شخص کے خاندان، عزیز، برداری یا جائیداد کے خلاف ہو سکتا ہے بشمول شادی۔ جو شخص (شادی) انجام دیتا ہے، کرتا ہے، ہدایت دیتا ہے یا کسی بھی طرح سے شادی میں سہولت فراہم کرتا ہے‘ اس بات کا علم رکھتے ہوئے کہ یا تو دونوں فریق جبری تبدیلی کے شکار ہیں وہ کم از کم تین سال قید یا تفصیل کے مجرم ہوں گے۔اس میں کوئی بھی شخص شامل ہوگا جس نے شادی کی تقریب کے لیے لاجسٹک سپورٹ اور کوئی دوسری ضروری خدمات وغیرہ فراہم کی ہوں۔

مذہب کی تبدیلی کی عمر:- کسی شخص کے بارے میں یہ نہیں سمجھا جائے گا کہ اس نے اپنا مذہب تبدیل کیا ہے جب تک کہ وہ شخص بالغ (18 سال یا اس سے بڑا) نہ ہو جائے۔ جو بچہ بلوغت کی عمر کو پہنچنے سے پہلے اپنے مذہب کو تبدیل کرنے کا دعویٰ کرتا ہے اس کا مذہب تبدیل نہیں سمجھا جائے گا اور نہ ہی اس کے خلاف اس قسم کے دعویٰ کرنے پر کوئی کارروائی کی جائے گی۔ اگرچہ کچھ بھی ان حالات پر قابل اطلاق نہ ہو گا جہاں بچے کے والدین یا سرپرست خاندان کا مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ کریں۔

عدالت کے سامنے جبری تبدیلی کا معاملہ نوے دن کی مدت کے اندر نمٹا دیا جائے گا اور عدالت کسی مقدمے کی سماعت کے دوران دو (02) سے زائد التواء نہیں دے گی، جن میں سے ایک (01) التوا،التوا کے خواہاں شخص کے اخراجات کی ادائیگی پر ہو گا۔ اس بل کے تحت کسی جرم کی سزا یا بریت کے خلاف اپیل متعلقہ ہائی کورٹ کے سامنے اس تاریخ سے دس دن کے اندر پیش کی جائے گی جس دن کورٹ آف سیشن کے منظور کردہ حکم کی کاپی اپیل کنندہ کو فراہم کی جائے گی۔

جبری تبدیلی کے حوالے سے تحقیقات: پولیس سپرنٹنڈنٹ کے درجے سے نیچے کا کوئی بھی پولیس افسر نہیں کرے گا۔


 
Last edited by a moderator:

Munawarkhan

Chief Minister (5k+ posts)
Intellectual dishonesty by this dhakkan, his preface doesn't match what the content actually is.

What is wrong in changing religion by going to a judge and confirming that? Islam is all about transparency and announcements.


بل کے مطابق کوئی بھی غیر مسلم، جو بچہ نہیں ہے (18 سال سے زیادہ عمر والا شخص)، اور دوسرے مذہب میں تبدیل ہونے کے قابل اور آمادہ ہے، اس علاقہ کے ایڈیشنل سیشن جج سے تبدیلیٔ مذہب کے سرٹفیکیٹ کے لیے درخواست دے گا جہاں عام طور پر غیر مسلم فردرہتا ہے یا اپنا کاروبار کرتا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج مذہب کی تبدیلی کے لیے درخواست موصول ہونے کے سات دن کے اندر انٹرویو کی تاریخ مقرر کرے گا۔ فراہم کردہ تاریخ پر، فرد ایڈیشنل سیشن جج کے سامنے پیش ہو گا جو اس بات کو یقینی بنائے گا کہ مذہب کی تبدیلی کسی دباؤ کے تحت نہیں اور نہ ہی کسی دھوکہ دہی یا غلط بیانی کی وجہ سے ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج غیر مسلم کی درخواست پر اس شخص کے مذہبی اسکالرز سے ملاقات کا انتظام کرے کا جو مذہب وہ تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرنے اور ایڈیشنل سیشن جج کے دفتر واپس آنے کے لیے غیر مسلم کو نوے دن کا وقت دے سکتا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج، اس بات کو یقینی بنانے کے بعد کہ یہ شرائط پوری ہو جائیں، مذہب کی تبدیلی کا سرٹیفکیٹ جاری کرے گا۔
 

MMushtaq

Minister (2k+ posts)
انصار عباسی
وٹس ایپ کے ذریعے کچھ ایسا مواد پڑھنے کو ملا جس کا پیغام کچھ یوں تھا کہ پاکستان میں اسلام قبول کرنے کو جرم بنانے کے لیے قانون سازی پر کام ہو رہا ہے۔ میں نے سوچا ایسا کیسے ممکن ہے لیکن حکومتی ذرائع سے رابطہ کیا تو پتا چلا کہ یہ سچ ہے۔ مذہبی اقلیتوں کی جبری مذہب کی تبدیلی کے نام پر ایک بل بنایا گیا ہے جو اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل اور وزارت مذہبی امور کے زیر غور ہے اور جسے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اگر اس بل کو قانون بنا دیا گیا تو اسلام قبول کرنے پر پاکستان میں پابندی لگ جائے گی اور اسلام کی تبلیغ کرنے والے مجرم ٹھہریں گے۔ میں نے بل کی کاپی بھی منگوائی جس کے چیدہ چیدہ نکات میں قارئین کے سامنے پیش کروں گا لیکن مختصراً بتاتا چلوں کہ اس مجوزہ قانون کو اگر لاگو کیا جاتا ہے تو ایک تو کوئی بھی اٹھارہ سال سے کم عمر اسلام قبول نہیں کر سکے گا اور دوسرا اٹھارہ سال سے بڑا کوئی شخص بھی آسانی سے اسلام قبول نہیں کر سکے گا کہ اس کے لیے کچھ ایسی سخت شرائط لگا دی گئی ہیں کہ اسلام قبول کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جائے گا۔ ذیل میں بل کے کچھ نکات پیش کر رہا ہوں:

بل کے مطابق کوئی بھی غیر مسلم، جو بچہ نہیں ہے (18 سال سے زیادہ عمر والا شخص)، اور دوسرے مذہب میں تبدیل ہونے کے قابل اور آمادہ ہے، اس علاقہ کے ایڈیشنل سیشن جج سے تبدیلیٔ مذہب کے سرٹفیکیٹ کے لیے درخواست دے گا جہاں عام طور پر غیر مسلم فردرہتا ہے یا اپنا کاروبار کرتا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج مذہب کی تبدیلی کے لیے درخواست موصول ہونے کے سات دن کے اندر انٹرویو کی تاریخ مقرر کرے گا۔ فراہم کردہ تاریخ پر، فرد ایڈیشنل سیشن جج کے سامنے پیش ہو گا جو اس بات کو یقینی بنائے گا کہ مذہب کی تبدیلی کسی دباؤ کے تحت نہیں اور نہ ہی کسی دھوکہ دہی یا غلط بیانی کی وجہ سے ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج غیر مسلم کی درخواست پر اس شخص کے مذہبی اسکالرز سے ملاقات کا انتظام کرے کا جو مذہب وہ تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرنے اور ایڈیشنل سیشن جج کے دفتر واپس آنے کے لیے غیر مسلم کو نوے دن کا وقت دے سکتا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج، اس بات کو یقینی بنانے کے بعد کہ یہ شرائط پوری ہو جائیں، مذہب کی تبدیلی کا سرٹیفکیٹ جاری کرے گا۔

جبری مذہب کی تبدیلی میں ملوث فرد کو کم از کم پانچ سال اور زیادہ سے زیادہ دس سال تک قید کی سزا اور جرمانہ ہو گا۔ مذہب کی تبدیلی کے لیے مجرمانہ قوت کا استعمال اس شخص کے خاندان، عزیز، برداری یا جائیداد کے خلاف ہو سکتا ہے بشمول شادی۔ جو شخص (شادی) انجام دیتا ہے، کرتا ہے، ہدایت دیتا ہے یا کسی بھی طرح سے شادی میں سہولت فراہم کرتا ہے‘ اس بات کا علم رکھتے ہوئے کہ یا تو دونوں فریق جبری تبدیلی کے شکار ہیں وہ کم از کم تین سال قید یا تفصیل کے مجرم ہوں گے۔اس میں کوئی بھی شخص شامل ہوگا جس نے شادی کی تقریب کے لیے لاجسٹک سپورٹ اور کوئی دوسری ضروری خدمات وغیرہ فراہم کی ہوں۔

مذہب کی تبدیلی کی عمر:- کسی شخص کے بارے میں یہ نہیں سمجھا جائے گا کہ اس نے اپنا مذہب تبدیل کیا ہے جب تک کہ وہ شخص بالغ (18 سال یا اس سے بڑا) نہ ہو جائے۔ جو بچہ بلوغت کی عمر کو پہنچنے سے پہلے اپنے مذہب کو تبدیل کرنے کا دعویٰ کرتا ہے اس کا مذہب تبدیل نہیں سمجھا جائے گا اور نہ ہی اس کے خلاف اس قسم کے دعویٰ کرنے پر کوئی کارروائی کی جائے گی۔ اگرچہ کچھ بھی ان حالات پر قابل اطلاق نہ ہو گا جہاں بچے کے والدین یا سرپرست خاندان کا مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ کریں۔

عدالت کے سامنے جبری تبدیلی کا معاملہ نوے دن کی مدت کے اندر نمٹا دیا جائے گا اور عدالت کسی مقدمے کی سماعت کے دوران دو (02) سے زائد التواء نہیں دے گی، جن میں سے ایک (01) التوا،التوا کے خواہاں شخص کے اخراجات کی ادائیگی پر ہو گا۔ اس بل کے تحت کسی جرم کی سزا یا بریت کے خلاف اپیل متعلقہ ہائی کورٹ کے سامنے اس تاریخ سے دس دن کے اندر پیش کی جائے گی جس دن کورٹ آف سیشن کے منظور کردہ حکم کی کاپی اپیل کنندہ کو فراہم کی جائے گی۔

جبری تبدیلی کے حوالے سے تحقیقات: پولیس سپرنٹنڈنٹ کے درجے سے نیچے کا کوئی بھی پولیس افسر نہیں کرے گا۔


Manhoos lanthi bandar, jo points tum nay diye hein enn mae kahan likah hay k koi Islam qabool nahein kar sakta ya tableegh ko juram qarar diya ho. Razamandi se ju bhi ess daire mae shamil ho ga usse igazath hay. Yeh Pakistan hay koi RSS ke mentality nahein chaley gi. Tumhara chooran india mae tu bikk saktah hay par yahan nahein.
 

knowledge88

Chief Minister (5k+ posts)
Why should I listen again to his perspective.
He is a dishonest person


Well, I disagree with him on many aspects but on this issue, I think Orya has a point.
I also disagree with the title of Ansar Abbasi's column, but changing would have been dishonesty (since I am printing his column) . I agree with some of the points so I printed the column.

By the way, I am totally against forced conversion, but the required maturity age for conversion is a bit too much. There are many examples of children happily converting to Islam and later becoming renowned Muslims.
 
Last edited:

miafridi

Prime Minister (20k+ posts)
Wrong/misleading Title.

This is a proposed bill which is sent to Ministry of Religious affairs, and Council of Islamic ideology to see how much this bill is in agreement with Islam, and if not they can return the bill with amendments as per Islamic provisions.

This is the most proper way to do anything concerning religion.
 

Husaink

Prime Minister (20k+ posts)
انصار عباسی
وٹس ایپ کے ذریعے کچھ ایسا مواد پڑھنے کو ملا جس کا پیغام کچھ یوں تھا کہ پاکستان میں اسلام قبول کرنے کو جرم بنانے کے لیے قانون سازی پر کام ہو رہا ہے۔ میں نے سوچا ایسا کیسے ممکن ہے لیکن حکومتی ذرائع سے رابطہ کیا تو پتا چلا کہ یہ سچ ہے۔ مذہبی اقلیتوں کی جبری مذہب کی تبدیلی کے نام پر ایک بل بنایا گیا ہے جو اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل اور وزارت مذہبی امور کے زیر غور ہے اور جسے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اگر اس بل کو قانون بنا دیا گیا تو اسلام قبول کرنے پر پاکستان میں پابندی لگ جائے گی اور اسلام کی تبلیغ کرنے والے مجرم ٹھہریں گے۔ میں نے بل کی کاپی بھی منگوائی جس کے چیدہ چیدہ نکات میں قارئین کے سامنے پیش کروں گا لیکن مختصراً بتاتا چلوں کہ اس مجوزہ قانون کو اگر لاگو کیا جاتا ہے تو ایک تو کوئی بھی اٹھارہ سال سے کم عمر اسلام قبول نہیں کر سکے گا اور دوسرا اٹھارہ سال سے بڑا کوئی شخص بھی آسانی سے اسلام قبول نہیں کر سکے گا کہ اس کے لیے کچھ ایسی سخت شرائط لگا دی گئی ہیں کہ اسلام قبول کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جائے گا۔ ذیل میں بل کے کچھ نکات پیش کر رہا ہوں:

بل کے مطابق کوئی بھی غیر مسلم، جو بچہ نہیں ہے (18 سال سے زیادہ عمر والا شخص)، اور دوسرے مذہب میں تبدیل ہونے کے قابل اور آمادہ ہے، اس علاقہ کے ایڈیشنل سیشن جج سے تبدیلیٔ مذہب کے سرٹفیکیٹ کے لیے درخواست دے گا جہاں عام طور پر غیر مسلم فردرہتا ہے یا اپنا کاروبار کرتا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج مذہب کی تبدیلی کے لیے درخواست موصول ہونے کے سات دن کے اندر انٹرویو کی تاریخ مقرر کرے گا۔ فراہم کردہ تاریخ پر، فرد ایڈیشنل سیشن جج کے سامنے پیش ہو گا جو اس بات کو یقینی بنائے گا کہ مذہب کی تبدیلی کسی دباؤ کے تحت نہیں اور نہ ہی کسی دھوکہ دہی یا غلط بیانی کی وجہ سے ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج غیر مسلم کی درخواست پر اس شخص کے مذہبی اسکالرز سے ملاقات کا انتظام کرے کا جو مذہب وہ تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرنے اور ایڈیشنل سیشن جج کے دفتر واپس آنے کے لیے غیر مسلم کو نوے دن کا وقت دے سکتا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج، اس بات کو یقینی بنانے کے بعد کہ یہ شرائط پوری ہو جائیں، مذہب کی تبدیلی کا سرٹیفکیٹ جاری کرے گا۔

جبری مذہب کی تبدیلی میں ملوث فرد کو کم از کم پانچ سال اور زیادہ سے زیادہ دس سال تک قید کی سزا اور جرمانہ ہو گا۔ مذہب کی تبدیلی کے لیے مجرمانہ قوت کا استعمال اس شخص کے خاندان، عزیز، برداری یا جائیداد کے خلاف ہو سکتا ہے بشمول شادی۔ جو شخص (شادی) انجام دیتا ہے، کرتا ہے، ہدایت دیتا ہے یا کسی بھی طرح سے شادی میں سہولت فراہم کرتا ہے‘ اس بات کا علم رکھتے ہوئے کہ یا تو دونوں فریق جبری تبدیلی کے شکار ہیں وہ کم از کم تین سال قید یا تفصیل کے مجرم ہوں گے۔اس میں کوئی بھی شخص شامل ہوگا جس نے شادی کی تقریب کے لیے لاجسٹک سپورٹ اور کوئی دوسری ضروری خدمات وغیرہ فراہم کی ہوں۔

مذہب کی تبدیلی کی عمر:- کسی شخص کے بارے میں یہ نہیں سمجھا جائے گا کہ اس نے اپنا مذہب تبدیل کیا ہے جب تک کہ وہ شخص بالغ (18 سال یا اس سے بڑا) نہ ہو جائے۔ جو بچہ بلوغت کی عمر کو پہنچنے سے پہلے اپنے مذہب کو تبدیل کرنے کا دعویٰ کرتا ہے اس کا مذہب تبدیل نہیں سمجھا جائے گا اور نہ ہی اس کے خلاف اس قسم کے دعویٰ کرنے پر کوئی کارروائی کی جائے گی۔ اگرچہ کچھ بھی ان حالات پر قابل اطلاق نہ ہو گا جہاں بچے کے والدین یا سرپرست خاندان کا مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ کریں۔

عدالت کے سامنے جبری تبدیلی کا معاملہ نوے دن کی مدت کے اندر نمٹا دیا جائے گا اور عدالت کسی مقدمے کی سماعت کے دوران دو (02) سے زائد التواء نہیں دے گی، جن میں سے ایک (01) التوا،التوا کے خواہاں شخص کے اخراجات کی ادائیگی پر ہو گا۔ اس بل کے تحت کسی جرم کی سزا یا بریت کے خلاف اپیل متعلقہ ہائی کورٹ کے سامنے اس تاریخ سے دس دن کے اندر پیش کی جائے گی جس دن کورٹ آف سیشن کے منظور کردہ حکم کی کاپی اپیل کنندہ کو فراہم کی جائے گی۔

جبری تبدیلی کے حوالے سے تحقیقات: پولیس سپرنٹنڈنٹ کے درجے سے نیچے کا کوئی بھی پولیس افسر نہیں کرے گا۔


پہلے خود تو ٹھیک طریقے سے اسلام قبول کرلو ساری زندگی سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کہتے رہو گے کیا ؟
 

knowledge88

Chief Minister (5k+ posts)
Wrong/misleading Title.

This is a proposed bill which is sent to Ministry of Religious affairs, and Council of Islamic ideology to see how much this bill is in agreement with Islam, and if not they can return the bill with amendments as per Islamic provisions.

This is the most proper way to do anything concerning religion.


You didn't read the column, because he said the exact same thing you are saying.
He wrote "مذہبی اقلیتوں کی جبری مذہب کی تبدیلی کے نام پر ایک بل بنایا گیا ہے جو اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل اور وزارت مذہبی امور کے زیر غور ہے
"


Giving your feedback on a proposed bill is perfectly right. Or is it not?

What is your feedback on this proposed bill? Do you agree with it or not? Can I ask a 17 years old Hindu to accept Islam? Should I be punished for doing so? Give us your feedback.
 

Shareef

Minister (2k+ posts)
Change of religion is a very serious matter and should be dealt with as such. If a muslim changes his/her religion, he/she is punished by death. If a non muslim wants to change his/her religion and convert to Islam , he/she should at least be mature enough to decide so, and should formally declare so in front of some competent supervisory authority. I think there is no harmful intention in this bill.
 

Wake up Pak

Prime Minister (20k+ posts)
انصار عباسی
وٹس ایپ کے ذریعے کچھ ایسا مواد پڑھنے کو ملا جس کا پیغام کچھ یوں تھا کہ پاکستان میں اسلام قبول کرنے کو جرم بنانے کے لیے قانون سازی پر کام ہو رہا ہے۔ میں نے سوچا ایسا کیسے ممکن ہے لیکن حکومتی ذرائع سے رابطہ کیا تو پتا چلا کہ یہ سچ ہے۔ مذہبی اقلیتوں کی جبری مذہب کی تبدیلی کے نام پر ایک بل بنایا گیا ہے جو اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل اور وزارت مذہبی امور کے زیر غور ہے اور جسے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اگر اس بل کو قانون بنا دیا گیا تو اسلام قبول کرنے پر پاکستان میں پابندی لگ جائے گی اور اسلام کی تبلیغ کرنے والے مجرم ٹھہریں گے۔ میں نے بل کی کاپی بھی منگوائی جس کے چیدہ چیدہ نکات میں قارئین کے سامنے پیش کروں گا لیکن مختصراً بتاتا چلوں کہ اس مجوزہ قانون کو اگر لاگو کیا جاتا ہے تو ایک تو کوئی بھی اٹھارہ سال سے کم عمر اسلام قبول نہیں کر سکے گا اور دوسرا اٹھارہ سال سے بڑا کوئی شخص بھی آسانی سے اسلام قبول نہیں کر سکے گا کہ اس کے لیے کچھ ایسی سخت شرائط لگا دی گئی ہیں کہ اسلام قبول کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جائے گا۔ ذیل میں بل کے کچھ نکات پیش کر رہا ہوں:

بل کے مطابق کوئی بھی غیر مسلم، جو بچہ نہیں ہے (18 سال سے زیادہ عمر والا شخص)، اور دوسرے مذہب میں تبدیل ہونے کے قابل اور آمادہ ہے، اس علاقہ کے ایڈیشنل سیشن جج سے تبدیلیٔ مذہب کے سرٹفیکیٹ کے لیے درخواست دے گا جہاں عام طور پر غیر مسلم فردرہتا ہے یا اپنا کاروبار کرتا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج مذہب کی تبدیلی کے لیے درخواست موصول ہونے کے سات دن کے اندر انٹرویو کی تاریخ مقرر کرے گا۔ فراہم کردہ تاریخ پر، فرد ایڈیشنل سیشن جج کے سامنے پیش ہو گا جو اس بات کو یقینی بنائے گا کہ مذہب کی تبدیلی کسی دباؤ کے تحت نہیں اور نہ ہی کسی دھوکہ دہی یا غلط بیانی کی وجہ سے ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج غیر مسلم کی درخواست پر اس شخص کے مذہبی اسکالرز سے ملاقات کا انتظام کرے کا جو مذہب وہ تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرنے اور ایڈیشنل سیشن جج کے دفتر واپس آنے کے لیے غیر مسلم کو نوے دن کا وقت دے سکتا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج، اس بات کو یقینی بنانے کے بعد کہ یہ شرائط پوری ہو جائیں، مذہب کی تبدیلی کا سرٹیفکیٹ جاری کرے گا۔

جبری مذہب کی تبدیلی میں ملوث فرد کو کم از کم پانچ سال اور زیادہ سے زیادہ دس سال تک قید کی سزا اور جرمانہ ہو گا۔ مذہب کی تبدیلی کے لیے مجرمانہ قوت کا استعمال اس شخص کے خاندان، عزیز، برداری یا جائیداد کے خلاف ہو سکتا ہے بشمول شادی۔ جو شخص (شادی) انجام دیتا ہے، کرتا ہے، ہدایت دیتا ہے یا کسی بھی طرح سے شادی میں سہولت فراہم کرتا ہے‘ اس بات کا علم رکھتے ہوئے کہ یا تو دونوں فریق جبری تبدیلی کے شکار ہیں وہ کم از کم تین سال قید یا تفصیل کے مجرم ہوں گے۔اس میں کوئی بھی شخص شامل ہوگا جس نے شادی کی تقریب کے لیے لاجسٹک سپورٹ اور کوئی دوسری ضروری خدمات وغیرہ فراہم کی ہوں۔

مذہب کی تبدیلی کی عمر:- کسی شخص کے بارے میں یہ نہیں سمجھا جائے گا کہ اس نے اپنا مذہب تبدیل کیا ہے جب تک کہ وہ شخص بالغ (18 سال یا اس سے بڑا) نہ ہو جائے۔ جو بچہ بلوغت کی عمر کو پہنچنے سے پہلے اپنے مذہب کو تبدیل کرنے کا دعویٰ کرتا ہے اس کا مذہب تبدیل نہیں سمجھا جائے گا اور نہ ہی اس کے خلاف اس قسم کے دعویٰ کرنے پر کوئی کارروائی کی جائے گی۔ اگرچہ کچھ بھی ان حالات پر قابل اطلاق نہ ہو گا جہاں بچے کے والدین یا سرپرست خاندان کا مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ کریں۔

عدالت کے سامنے جبری تبدیلی کا معاملہ نوے دن کی مدت کے اندر نمٹا دیا جائے گا اور عدالت کسی مقدمے کی سماعت کے دوران دو (02) سے زائد التواء نہیں دے گی، جن میں سے ایک (01) التوا،التوا کے خواہاں شخص کے اخراجات کی ادائیگی پر ہو گا۔ اس بل کے تحت کسی جرم کی سزا یا بریت کے خلاف اپیل متعلقہ ہائی کورٹ کے سامنے اس تاریخ سے دس دن کے اندر پیش کی جائے گی جس دن کورٹ آف سیشن کے منظور کردہ حکم کی کاپی اپیل کنندہ کو فراہم کی جائے گی۔

جبری تبدیلی کے حوالے سے تحقیقات: پولیس سپرنٹنڈنٹ کے درجے سے نیچے کا کوئی بھی پولیس افسر نہیں کرے گا۔


What is wrong with this bill?
It does make sense.