کافی دنوں سے پاکستان ایک مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔کرونا کے باعث ملک کی تقریبا ساری کاروبار زندگی متاثر ہوئی۔جہاں تعلیم کے شعبے نے خسران کی راہ پکڑلی وہاں اس کے باعث معیشت کھوکھلا پن کا شکار ہوئی۔یہ تو ایک مصنوعی وباء ہے آج نہیں تو کل ختم ہوجائے گی اور جلد ہی معیشت کا پہیہ واپس گھومنے کے قابل ہوگا۔مگر سالوں سے جس وباء نے ہمیشہ یہاں پھوٹ ڈالی ہے اسکا خاتمہ کب ہوگا۔یہ کوئی نہیں جانتا۔
جس زہریلی وباء کی میں بات کررہا ہوں وہ فرقہ واریت ہے،جس نے ایک طرف ہمارے درمیاں نفرت کے بیچ بوئے تو ایک طرف لوگوں کو دینی رجحان سے یکسر دور کردیا۔مگر خیر پھر بھی جب یہ وباء ہمارے درمیان تھی یعنی ایک ہی مذہب کے مختلف مسالک کے لوگوں کے مابین تھی،نقصان کم تھا۔اب اس نے اقلیتوں کی جانب دوڑ شروع کردی ہے،جو نہایت خطرناک ہے۔
حال ہی میں سوشل میڈیا کیساتھ ساتھ مین سٹریم میڈیا پر اسلام آباد کے اندر حکومت کی جانب سے ہندؤں کیلئے مندر کی تعمیر کے سلسلے لوگوں کا شدر رد عمل سامنے آیا۔بعض لوگوں نے جارحانہ بلکہ بعض نے اصلاحانہ مشوروں کی بوچھاڑ لگادی۔
اب یہ سوال کہ یہ زمین کس نے دی؟کب دی؟
الگ تلگ موضوع ہے۔اور اس پر محققین نے کام کیا ہے کہ پلاٹ کی فراہمی کب ہوئی اور کس نے دی ؟ یہ ہمارا کام نہیں ۔ہمارا کام تو بس اپنی رائے قائم کرنا ہے۔
مندر کی تعمیر کے سلسلے میں بہت سے لوگوں کی رائے سنی اور دیکھی۔مگر ان سب میں دو ایسے ہیں جو مناسب ہونے کیساتھ بحث کی اصولوں کی بنیاد پر قابل قبول ہے۔ایک یہ رائے کہ حکومت کو یہ حق حاصل نہیں کہ سرکاری خرچ پر مندر کی تعمیر کا بار اٹھائیں۔البتہ اگر لوگ اپنے ہی چرچ پر بنانا چاہتے ہیں تو کوئی شکایت نہیں۔یہ رائے کس قدر ڈھگوسلہ پن ہے۔یعنی اکثریت مسلمانوں کی ہے تو حکومتی خرچ بھی انہیں پر ہوگی۔تو پھر اقلیتوں کے پاس یہ پیسے کہاں سے آئیں ؟؟ یہ بھی تو انہی اکثریت سے لین دین کی مرہون منت ہے۔
دوسری رائے جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی ہے۔اور اس رائے سے میں حددرجہ اتفاق کرتا ہوں۔وہ یہ کہ جو لوگ سرکاری اخراجات پر مندر نہ بنانے کا رٹ لگائے ہوئے ہیں،ان کی رائے بھی ٹھیک ہوتی تب جب پاکستان ایک مذہبی ریاست تھا۔آپ سلطنت عثمانیہ کی مثال لے سکتے ہیں۔وہ ایک مذہبی ریاست تھا جہاں غیر مسلم محکوم تھے اور انکے ریاست کیساتھ مراسم حاکم ومحکوم کے تھے۔جبکہ پاکستان ایک قومی ریاست ہے جہاں سب انسان برابر کے حق دار ہے۔پھر اس حکومتی قوانین کے نیچے سب برابر ہے۔اور اسی چیز کو لے کر ہی پاکستان معرض وجود میں آیا تھا۔کہ جو سہولیات مسلمانوں کو فراہم ہوگی وہ انہیں سب سے بڑھ کر ہوگی۔
اگر چند لوگوں کو ایک مندر بننے کی وجہ سے اپنے عقیدے کی فکر لاحق ہوئی ہے،تو بجائے اس کے کہ حکومتی فیصلے کی تصحیح کی کوشش کرے،اپنی اصلاح کریں۔اور بلاجواز فرقہ واریت کی آگ کو مزید ہوا نہ دیں۔
شبیر احمد شمس
شکریہ
جس زہریلی وباء کی میں بات کررہا ہوں وہ فرقہ واریت ہے،جس نے ایک طرف ہمارے درمیاں نفرت کے بیچ بوئے تو ایک طرف لوگوں کو دینی رجحان سے یکسر دور کردیا۔مگر خیر پھر بھی جب یہ وباء ہمارے درمیان تھی یعنی ایک ہی مذہب کے مختلف مسالک کے لوگوں کے مابین تھی،نقصان کم تھا۔اب اس نے اقلیتوں کی جانب دوڑ شروع کردی ہے،جو نہایت خطرناک ہے۔
حال ہی میں سوشل میڈیا کیساتھ ساتھ مین سٹریم میڈیا پر اسلام آباد کے اندر حکومت کی جانب سے ہندؤں کیلئے مندر کی تعمیر کے سلسلے لوگوں کا شدر رد عمل سامنے آیا۔بعض لوگوں نے جارحانہ بلکہ بعض نے اصلاحانہ مشوروں کی بوچھاڑ لگادی۔
اب یہ سوال کہ یہ زمین کس نے دی؟کب دی؟
الگ تلگ موضوع ہے۔اور اس پر محققین نے کام کیا ہے کہ پلاٹ کی فراہمی کب ہوئی اور کس نے دی ؟ یہ ہمارا کام نہیں ۔ہمارا کام تو بس اپنی رائے قائم کرنا ہے۔
مندر کی تعمیر کے سلسلے میں بہت سے لوگوں کی رائے سنی اور دیکھی۔مگر ان سب میں دو ایسے ہیں جو مناسب ہونے کیساتھ بحث کی اصولوں کی بنیاد پر قابل قبول ہے۔ایک یہ رائے کہ حکومت کو یہ حق حاصل نہیں کہ سرکاری خرچ پر مندر کی تعمیر کا بار اٹھائیں۔البتہ اگر لوگ اپنے ہی چرچ پر بنانا چاہتے ہیں تو کوئی شکایت نہیں۔یہ رائے کس قدر ڈھگوسلہ پن ہے۔یعنی اکثریت مسلمانوں کی ہے تو حکومتی خرچ بھی انہیں پر ہوگی۔تو پھر اقلیتوں کے پاس یہ پیسے کہاں سے آئیں ؟؟ یہ بھی تو انہی اکثریت سے لین دین کی مرہون منت ہے۔
دوسری رائے جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی ہے۔اور اس رائے سے میں حددرجہ اتفاق کرتا ہوں۔وہ یہ کہ جو لوگ سرکاری اخراجات پر مندر نہ بنانے کا رٹ لگائے ہوئے ہیں،ان کی رائے بھی ٹھیک ہوتی تب جب پاکستان ایک مذہبی ریاست تھا۔آپ سلطنت عثمانیہ کی مثال لے سکتے ہیں۔وہ ایک مذہبی ریاست تھا جہاں غیر مسلم محکوم تھے اور انکے ریاست کیساتھ مراسم حاکم ومحکوم کے تھے۔جبکہ پاکستان ایک قومی ریاست ہے جہاں سب انسان برابر کے حق دار ہے۔پھر اس حکومتی قوانین کے نیچے سب برابر ہے۔اور اسی چیز کو لے کر ہی پاکستان معرض وجود میں آیا تھا۔کہ جو سہولیات مسلمانوں کو فراہم ہوگی وہ انہیں سب سے بڑھ کر ہوگی۔
اگر چند لوگوں کو ایک مندر بننے کی وجہ سے اپنے عقیدے کی فکر لاحق ہوئی ہے،تو بجائے اس کے کہ حکومتی فیصلے کی تصحیح کی کوشش کرے،اپنی اصلاح کریں۔اور بلاجواز فرقہ واریت کی آگ کو مزید ہوا نہ دیں۔
شبیر احمد شمس
شکریہ