ایک سزا کی اپیل کیلئے عدالت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی،اٹارنی جنرل

2kynatmukhal.jpg


اسلام آباد ہائیکورٹ میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو ٹیپ کی تحقیقات کیلئے کمیشن تشکیل دینے کی درخواست پر سماعت ہوئی ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی۔

درخواست گزار سندھ ہائیکورٹ بار کے صدر صلاح الدین نے کہا کہ توجہ ہٹانے کیلئے کہا جاتا ہے کہ 70 سال کا احتساب کریں یا کسی کا نہ کریں، عدالتوں کو متنازع بنایا جا رہا ہے، عدلیہ تحقیقات کرا کر یہ سلسلہ روک سکتی ہے۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ ماضی کے تمام معاملات بھی پارلیمنٹ بھجوا دیں بحث کے لیے، ایک سزا کے خلاف اپیل چل رہی ہے جس کے لیے عدلیہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، صرف ایک کیس کے لیے یہ پراکسی وار لڑی جا رہی ہے۔

سندھ ہائیکورٹ بار کے صدر نے کہا سابق چیف جسٹس کی مبینہ آڈیو ٹیپ نےعدلیہ کے وقار کو نقصان پہنچایا ،عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کیلئےاس بات کا تعین ضروری ہے کہ آڈیو اصلی ہے یا جعلی، مبینہ آڈیو ٹیپ سے تاثر ملتا ہے کہ عدلیہ بیرونی قوتوں کے پریشر میں ہے۔


درخواست گزار صلاح الدین نے مزید کہا کہ عدلیہ کو اپنے نام کے تحفظ کے لیے آزاد خود مختار کمیشن تشکیل دینا چاہیے،عوام کا آزاد ،غیر جانبدارعدلیہ پراعتماد بحال کرنا ضروری ہے، اچھی شہرت کے حامل افراد پر مشتمل آزاد خود مختار کمیشن تشکیل دیا جائے۔

اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان نے آڈیو ٹیپ پر کمیشن بنانے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو ٹیپ پر کمیشن کی کوئی ضرورت نہیں، ہم جس راستے پر چل پڑے ہیں، بہت ہی خطرناک ہے، اس معاملے کو پارلیمنٹ میں جانا چاہئے۔

چیف جسٹس ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ججز کو سوشل میڈیا نہیں دیکھنا چاہئے، درخواست گزار درخواست قابل سماعت ہونے پردلائل دیں، اٹارنی جنرل نےخود کہا معاملے کو پارلیمنٹ جانا چاہئے، جس پر صلاح الدین ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ کابینہ نے مبینہ آڈیو ٹیپ پررائے دےدی ہے۔

https://twitter.com/x/status/1468641272613199873
اٹانی جنرل نے مزید کہا کہ ماضی میں بریف کیس بھر کر بھی دیئے جاتے رہے۔ درخواست گزار نے ماضی میں جانا ہے تو درخواست میں ترمیم کریں 2017 تک ہی کیوں پھر ذوالفقار علی بھٹو تک جاتے ہیں۔ جلا وطن کرنے کی سہولت ایک وزیراعظم کو دی جاتی ہے تو بھٹو کو کیوں نہیں؟ پتہ لگنا چائیے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو کیوں ہٹایا گیا؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ رقم سے بھرے ہوئے سوٹ کیس کسے جاتے رہے؟ جو بھی زندہ لوگ ہیں ان سب کا احتساب کر لیتے ہیں۔ صرف چُن کر ایک وزیراعظم کیلئے پراکسی بن کر کیوں لوگ عدالت آرہے ہیں؟ ایک وزیراعلیٰ ٰنے جج کو فون کیا، فیصلہ کالعدم ہو گیا لیکن کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی۔ ہزاروں لوگوں کو نوکری سے نکال دیا گیا انکی کوئی ویڈیو نہیں آئی۔

انہوں نے کہا کہ یہ پراکسی جنگ ہے، ایک شخص کیلئے بار بار ویڈیوز آ رہی ہیں۔ ہر کوئی آج کہہ رہا ہے کہ میرے پاس دو ویڈیوز ہیں چار ویڈیوز ہیں۔ سینکڑوں لوگوں کی زمینوں پر قبضہ ہو جاتا ہے اسکی کوئی ویڈیو نہیں آئی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آج صلاح الدین کو سنتے ہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے جواب دیاآج یوم حساب ہے۔ وکلاء ڈسٹرکٹ کورٹ کے ججز کے کپڑے پھاڑ دیتے ہیں پھر ایک مذمت جاری کر دی جاتی ہے۔بار نے ہی سپریم کورٹ میں کھڑے ہو کر چیف جسٹس کے خلاف نعرے لگائے۔

جس پر صلاح الدین نے کہا کہ اٹارنی جنرل ہر کیس کا ذمہ دار بار ایسوسی ایشن کو ٹھہرا رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے عدلیہ اور ججز کے خلاف بیانات نکال کر دیکھ لیں۔ عدالت نے سماعت 24 دسمبر تک ملتوی کر دی۔
 
Last edited by a moderator: