اللہ ہر ماں باپ کو ملالہ جیسی بیٹی اور ہر بیٹی کو ملالہ کے والد جیسا باپ دے

Baadshaah

MPA (400+ posts)
ملالہ نے ایک ایسے گھرانے میں جنم لیا جس میں شجرہ نسب میں مردوں کا نام تو لکھا جاتا تھا، مگر عورتوں کا نہیں ، ملالہ کے والد ضیاء الدین یوسف زئی نے پہلی بار سماج کی اس رِیت کے خلاف جاتے ہوئے فخر کے ساتھ اپنی بیٹی ملالہ کا نام شجرہ نسب میں لکھا۔ خاندان کے لوگوں نے مخالفت کی، مگر ملالہ کا والد ڈٹا رہا۔ اس نے کہا میرے لئے میری بیٹی کسی بھی طرح میرے بیٹے سے کم نہیں، تو میں کیوں اس کو پہچان نہ دوں۔ ملالہ کے والد نے اس کو آزادی دی کہ وہ بھی لڑکوں کی طرح جب چاہے باہر گھوم پھر سکتی ہے، اس پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ ملالہ کئی بار گھر سے باہر نکلتی تو کئی مرد اسے گھورتے، مگر ملالہ اتنی نڈر تھی کہ وہ نظریں جھکانے یا شرمانے کی بجائے جواباً گھورنے والے کو گھورنا شروع کردیتی۔ یہ وہ اعتماد تھا جو ملالہ کو اس کے والد نے دیا تھا۔ یہ سب ملالہ کے والد نے اپنی کتاب "لیٹ ہر فلائی" میں لکھا ہے۔۔

ایسا باپ ہر بیٹی کو نہیں ملتا۔ پاکستان میں تو ایسے باپ دیکھنے کو ہی نہیں ملتے۔ پاکستان میں ماں باپ زبانی کلامی تو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے لئے بیٹا اور بیٹی دونوں برابر ہیں، مگر عملی طور پر وہ بیٹے اور بیٹی میں کھلم کھلا تفریق کرتے ہیں۔ بیٹے کو پوری آزادی ہوتی ہے کہ وہ جب چاہے گھر سے باہر گھومنے پھرنے چلا جائے، جب دل کرے سائیکل، موٹر سائیکل یا گاڑی اٹھائے اور دوستوں سے ملنے چلا جائے، مگر بیٹی کو یہ آزادی نہیں ہوتی، بیٹی کو کہا جاتا ہے کہ پورے گھر کی عزت کا بوجھ تمہارے کندھوں پر ہے، تم نے کسی نہ کسی مرد (باپ، بھائی، خاوند) کے کھونٹے سے بندھ کر رہی رہنا ہے۔ اگر کبھی باہر نکلنا ہے تو یا کسی محرم مرد کے ساتھ نکلنا ہے یا پھر بڑا سا کالا سا تمبو نما برقعہ اوڑھ کر نکلنا ہے۔۔ بیٹا اگر گھر سے باہر نکلے تو اس سے کوئی سوال نہیں ہوتا، بیٹی نے گھر سے باہر جانا ہو تو اس سے سو سوال ہوتے ہیں۔ بیٹے کو آزادی ہے کہ وہ سائیکل چلا سکتا ہے، بائیک چلا سکتا ہے، مگر بیٹی کو یہ آزادی نہیں۔۔ بیٹے کو یہ آزادی ہے کہ وہ کسی لڑکی کے ساتھ محبت کا اظہار کرسکتا ہے، کسی لڑکی کے ساتھ افیئر چلاسکتا ہے، مگر بیٹی ایسا کرے تو عزت غیرت کے نام پر اس کا قتل کردیا جاتا ہے۔ بہن کے سامنے بھائی کسی لڑکی کو پسند کرنے کا اظہار کرے تو بہن خوش ہوتی ہے، مگر بھائی کے سامنے بہن کسی لڑکے کو پسند کرنے کا اظہار کربیٹھے تو اسی بھائی کی "غیرت" جاگ جاتی ہے اور وہ بہن کو مار کر اپنی "غیرت" کی آگ کو ٹھنڈا کرتا ہے۔۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں۔۔ صنفی امتیاز کی ایسی بے شمار مثالیں ہمارے معاشرے میں عام دیکھی جاسکتی ہیں۔

اسی لئے میں اس خواہش کا اظہار کررہا ہوں کہ ہر بیٹی کو ملالہ کے باپ جیسا باپ ملے تاکہ وہ اپنی بیٹی کے وجود پر شرمندہ نہ ہو، وہ اپنی بیٹی کو بیٹے کے برابر حقوق دے۔ جس دن پاکستانی معاشرے میں بیٹیوں کو بیٹوں کے برابر آزادی اور حقوق ملنے لگے، اس دن سے ہی پاکستانی معاشرے کی بلندیوں کی طرف پرواز کا آغاز ہوجائے گا۔ میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ میاں ہر باپ کو ملالہ جیسی بیٹی دے۔ ملالہ نے ثابت کیا ہے کہ اگر لڑکی کو باپ اور گھر کا اعتماد حاصل ہو تو وہ ترقی کی بلندیوں کو چھو سکتی ہے۔ آج ایک ملالہ کی آواز میں اتنی طاقت ہے کہ اس کا محض ایک بیان پوری دنیا میں گونجتا ہے اور پاکستان جیسے معاشروں میں اس کا صرف ایک جملہ ہلچل مچا دیتا ہے۔ پاکستانی کی پوری قوم اپنی جہالت بھری آواز سے شور شرابا کرتی رہے، اس کی کوئی اہمیت نہیں، دنیا میں کہیں بھی اس کی کوئی وقعت نہیں، مگر ملالہ کا ایک بیان ، ملالہ کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک جملہ دنیا کے کونے کونے میں گونجتا ہے۔۔۔

ملالہ اور ضیاء الدین یوسف زئی، آپ دونوں پاکستان کا فخر ہیں۔ ہمیں آپ دونوں پر ناز ہے۔۔

malala.jpeg
 

Terminator;

Minister (2k+ posts)
ملالہ نے ایک ایسے گھرانے میں جنم لیا جس میں شجرہ نسب میں مردوں کا نام تو لکھا جاتا تھا، مگر عورتوں کا نہیں ، ملالہ کے والد ضیاء الدین یوسف زئی نے پہلی بار سماج کی اس رِیت کے خلاف جاتے ہوئے فخر کے ساتھ اپنی بیٹی ملالہ کا نام شجرہ نسب میں لکھا۔ خاندان کے لوگوں نے مخالفت کی، مگر ملالہ کا والد ڈٹا رہا۔ اس نے کہا میرے لئے میری بیٹی کسی بھی طرح میرے بیٹے سے کم نہیں، تو میں کیوں اس کو پہچان نہ دوں۔ ملالہ کے والد نے اس کو آزادی دی کہ وہ بھی لڑکوں کی طرح جب چاہے باہر گھوم پھر سکتی ہے، اس پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ ملالہ کئی بار گھر سے باہر نکلتی تو کئی مرد اسے گھورتے، مگر ملالہ اتنی نڈر تھی کہ وہ نظریں جھکانے یا شرمانے کی بجائے جواباً گھورنے والے کو گھورنا شروع کردیتی۔ یہ وہ اعتماد تھا جو ملالہ کو اس کے والد نے دیا تھا۔ یہ سب ملالہ کے والد نے اپنی کتاب "لیٹ ہر فلائی" میں لکھا ہے۔۔

ایسا باپ ہر بیٹی کو نہیں ملتا۔ پاکستان میں تو ایسے باپ دیکھنے کو ہی نہیں ملتے۔ پاکستان میں ماں باپ زبانی کلامی تو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے لئے بیٹا اور بیٹی دونوں برابر ہیں، مگر عملی طور پر وہ بیٹے اور بیٹی میں کھلم کھلا تفریق کرتے ہیں۔ بیٹے کو پوری آزادی ہوتی ہے کہ وہ جب چاہے گھر سے باہر گھومنے پھرنے چلا جائے، جب دل کرے سائیکل، موٹر سائیکل یا گاڑی اٹھائے اور دوستوں سے ملنے چلا جائے، مگر بیٹی کو یہ آزادی نہیں ہوتی، بیٹی کو کہا جاتا ہے کہ پورے گھر کی عزت کا بوجھ تمہارے کندھوں پر ہے، تم نے کسی نہ کسی مرد (باپ، بھائی، خاوند) کے کھونٹے سے بندھ کر رہی رہنا ہے۔ اگر کبھی باہر نکلنا ہے تو یا کسی محرم مرد کے ساتھ نکلنا ہے یا پھر بڑا سا کالا سا تمبو نما برقعہ اوڑھ کر نکلنا ہے۔۔ بیٹا اگر گھر سے باہر نکلے تو اس سے کوئی سوال نہیں ہوتا، بیٹی نے گھر سے باہر جانا ہو تو اس سے سو سوال ہوتے ہیں۔ بیٹے کو آزادی ہے کہ وہ سائیکل چلا سکتا ہے، بائیک چلا سکتا ہے، مگر بیٹی کو یہ آزادی نہیں۔۔ بیٹے کو یہ آزادی ہے کہ وہ کسی لڑکی کے ساتھ محبت کا اظہار کرسکتا ہے، کسی لڑکی کے ساتھ افیئر چلاسکتا ہے، مگر بیٹی ایسا کرے تو عزت غیرت کے نام پر اس کا قتل کردیا جاتا ہے۔ بہن کے سامنے بھائی کسی لڑکی کو پسند کرنے کا اظہار کرے تو بہن خوش ہوتی ہے، مگر بھائی کے سامنے بہن کسی لڑکے کو پسند کرنے کا اظہار کربیٹھے تو اسی بھائی کی "غیرت" جاگ جاتی ہے اور وہ بہن کو مار کر اپنی "غیرت" کی آگ کو ٹھنڈا کرتا ہے۔۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں۔۔ صنفی امتیاز کی ایسی بے شمار مثالیں ہمارے معاشرے میں عام دیکھی جاسکتی ہیں۔

اسی لئے میں اس خواہش کا اظہار کررہا ہوں کہ ہر بیٹی کو ملالہ کے باپ جیسا باپ ملے تاکہ وہ اپنی بیٹی کے وجود پر شرمندہ نہ ہو، وہ اپنی بیٹی کو بیٹے کے برابر حقوق دے۔ جس دن پاکستانی معاشرے میں بیٹیوں کو بیٹوں کے برابر آزادی اور حقوق ملنے لگے، اس دن سے ہی پاکستانی معاشرے کی بلندیوں کی طرف پرواز کا آغاز ہوجائے گا۔ میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ میاں ہر باپ کو ملالہ جیسی بیٹی دے۔ ملالہ نے ثابت کیا ہے کہ اگر لڑکی کو باپ اور گھر کا اعتماد حاصل ہو تو وہ ترقی کی بلندیوں کو چھو سکتی ہے۔ آج ایک ملالہ کی آواز میں اتنی طاقت ہے کہ اس کا محض ایک بیان پوری دنیا میں گونجتا ہے اور پاکستان جیسے معاشروں میں اس کا صرف ایک جملہ ہلچل مچا دیتا ہے۔ پاکستانی کی پوری قوم اپنی جہالت بھری آواز سے شور شرابا کرتی رہے، اس کی کوئی اہمیت نہیں، دنیا میں کہیں بھی اس کی کوئی وقعت نہیں، مگر ملالہ کا ایک بیان ، ملالہ کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک جملہ دنیا کے کونے کونے میں گونجتا ہے۔۔۔

ملالہ اور ضیاء الدین یوسف زئی، آپ دونوں پاکستان کا فخر ہیں۔ ہمیں آپ دونوں پر ناز ہے۔۔

malala.jpeg
دشمنوں کی یہ آلہ کار'طافُو دارُو والا، وڈے دلے
اور سکھوّں سے غدّاری کرنے والی 'رانڑی بے نجیر بننا چاہتی ہے ۔ ۔ ۔
 
Last edited:

Lubnakhan

Minister (2k+ posts)
She doesn’t relate much to our society!! We believe in institution of marriage! She believes otherwise! While she is entitled to her opinion, she is not fit to propagate or guide us in any way! She knew message behind her words ,clearly!!! I would say it was rather a disappointment to read her words !!
 

MSUMAIRZ

MPA (400+ posts)
ملالہ نے ایک ایسے گھرانے میں جنم لیا جس میں شجرہ نسب میں مردوں کا نام تو لکھا جاتا تھا، مگر عورتوں کا نہیں ، ملالہ کے والد ضیاء الدین یوسف زئی نے پہلی بار سماج کی اس رِیت کے خلاف جاتے ہوئے فخر کے ساتھ اپنی بیٹی ملالہ کا نام شجرہ نسب میں لکھا۔ خاندان کے لوگوں نے مخالفت کی، مگر ملالہ کا والد ڈٹا رہا۔ اس نے کہا میرے لئے میری بیٹی کسی بھی طرح میرے بیٹے سے کم نہیں، تو میں کیوں اس کو پہچان نہ دوں۔ ملالہ کے والد نے اس کو آزادی دی کہ وہ بھی لڑکوں کی طرح جب چاہے باہر گھوم پھر سکتی ہے، اس پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ ملالہ کئی بار گھر سے باہر نکلتی تو کئی مرد اسے گھورتے، مگر ملالہ اتنی نڈر تھی کہ وہ نظریں جھکانے یا شرمانے کی بجائے جواباً گھورنے والے کو گھورنا شروع کردیتی۔ یہ وہ اعتماد تھا جو ملالہ کو اس کے والد نے دیا تھا۔ یہ سب ملالہ کے والد نے اپنی کتاب "لیٹ ہر فلائی" میں لکھا ہے۔۔

ایسا باپ ہر بیٹی کو نہیں ملتا۔ پاکستان میں تو ایسے باپ دیکھنے کو ہی نہیں ملتے۔ پاکستان میں ماں باپ زبانی کلامی تو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے لئے بیٹا اور بیٹی دونوں برابر ہیں، مگر عملی طور پر وہ بیٹے اور بیٹی میں کھلم کھلا تفریق کرتے ہیں۔ بیٹے کو پوری آزادی ہوتی ہے کہ وہ جب چاہے گھر سے باہر گھومنے پھرنے چلا جائے، جب دل کرے سائیکل، موٹر سائیکل یا گاڑی اٹھائے اور دوستوں سے ملنے چلا جائے، مگر بیٹی کو یہ آزادی نہیں ہوتی، بیٹی کو کہا جاتا ہے کہ پورے گھر کی عزت کا بوجھ تمہارے کندھوں پر ہے، تم نے کسی نہ کسی مرد (باپ، بھائی، خاوند) کے کھونٹے سے بندھ کر رہی رہنا ہے۔ اگر کبھی باہر نکلنا ہے تو یا کسی محرم مرد کے ساتھ نکلنا ہے یا پھر بڑا سا کالا سا تمبو نما برقعہ اوڑھ کر نکلنا ہے۔۔ بیٹا اگر گھر سے باہر نکلے تو اس سے کوئی سوال نہیں ہوتا، بیٹی نے گھر سے باہر جانا ہو تو اس سے سو سوال ہوتے ہیں۔ بیٹے کو آزادی ہے کہ وہ سائیکل چلا سکتا ہے، بائیک چلا سکتا ہے، مگر بیٹی کو یہ آزادی نہیں۔۔ بیٹے کو یہ آزادی ہے کہ وہ کسی لڑکی کے ساتھ محبت کا اظہار کرسکتا ہے، کسی لڑکی کے ساتھ افیئر چلاسکتا ہے، مگر بیٹی ایسا کرے تو عزت غیرت کے نام پر اس کا قتل کردیا جاتا ہے۔ بہن کے سامنے بھائی کسی لڑکی کو پسند کرنے کا اظہار کرے تو بہن خوش ہوتی ہے، مگر بھائی کے سامنے بہن کسی لڑکے کو پسند کرنے کا اظہار کربیٹھے تو اسی بھائی کی "غیرت" جاگ جاتی ہے اور وہ بہن کو مار کر اپنی "غیرت" کی آگ کو ٹھنڈا کرتا ہے۔۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں۔۔ صنفی امتیاز کی ایسی بے شمار مثالیں ہمارے معاشرے میں عام دیکھی جاسکتی ہیں۔

اسی لئے میں اس خواہش کا اظہار کررہا ہوں کہ ہر بیٹی کو ملالہ کے باپ جیسا باپ ملے تاکہ وہ اپنی بیٹی کے وجود پر شرمندہ نہ ہو، وہ اپنی بیٹی کو بیٹے کے برابر حقوق دے۔ جس دن پاکستانی معاشرے میں بیٹیوں کو بیٹوں کے برابر آزادی اور حقوق ملنے لگے، اس دن سے ہی پاکستانی معاشرے کی بلندیوں کی طرف پرواز کا آغاز ہوجائے گا۔ میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ میاں ہر باپ کو ملالہ جیسی بیٹی دے۔ ملالہ نے ثابت کیا ہے کہ اگر لڑکی کو باپ اور گھر کا اعتماد حاصل ہو تو وہ ترقی کی بلندیوں کو چھو سکتی ہے۔ آج ایک ملالہ کی آواز میں اتنی طاقت ہے کہ اس کا محض ایک بیان پوری دنیا میں گونجتا ہے اور پاکستان جیسے معاشروں میں اس کا صرف ایک جملہ ہلچل مچا دیتا ہے۔ پاکستانی کی پوری قوم اپنی جہالت بھری آواز سے شور شرابا کرتی رہے، اس کی کوئی اہمیت نہیں، دنیا میں کہیں بھی اس کی کوئی وقعت نہیں، مگر ملالہ کا ایک بیان ، ملالہ کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک جملہ دنیا کے کونے کونے میں گونجتا ہے۔۔۔

ملالہ اور ضیاء الدین یوسف زئی، آپ دونوں پاکستان کا فخر ہیں۔ ہمیں آپ دونوں پر ناز ہے۔۔

malala.jpeg
MA SHA ALLAH KIA OONCHEY WICHAAR HAI AAP KEY. MAY ALLAH GIVE YOU DAUGHTERS LIKE MALLALA FOR YOUR NEXT 6 GENERATIONS. BY THE WAY CAN YOU GIVE YOUR SISTER's MOBILE NUMBER SO I CAN ASK HER IF SHE WANTS TO LIVE WITH ME AS MY CIVIL PARTNER.
 

Rio

Councller (250+ posts)
میں شرطیہ کہ سکتا ہوں کہ اس کا باپ بھی اس کو گولی لگنے تک روایتی جاہل ہو گا جو اپنی بیٹی کو میٹرک کے بعد تعلیم دینے کی بجائے اس کی زبردستی شادی کر دیتا. اس کے باپ نے اس کو ایک عام سکول بھیجنے کے علاوہ کیا کارنامہ انجام دیا تھا، یا بیٹوں کی تعلیم کے بارے میں کتنی کتابیں لکھیں تھیں؟

یہ تو حکومت پاکستان نے اس کو علاج کے غرض سے باہر بھیج دیا، جہاں اس کی زندگی بچنے کے ساتھ ساتھ اس کی لاٹری لگ گئی. دولت اور شہرت کی چمک دھمک دیکھ کر اس کا باپ بھی مغربی باپوں سے دو ہاتھ آگے نکل گیا.


ملالا کو اگر کوئی استعمال کر رہا ہے تو وہ مغرب نہیں، اس کا باپ ہے .
 

Baadshaah

MPA (400+ posts)
میں شرطیہ کہ سکتا ہوں کہ اس کا باپ بھی اس کو گولی لگنے تک روایتی جاہل ہو گا جو اپنی بیٹی کو میٹرک کے بعد تعلیم دینے کی بجائے اس کی زبردستی شادی کر دیتا. اس کے باپ نے اس کو ایک عام سکول بھیجنے کے علاوہ کیا کارنامہ انجام دیا تھا، یا بیٹوں کی تعلیم کے بارے میں کتنی کتابیں لکھیں تھیں؟

یہ تو حکومت پاکستان نے اس کو علاج کے غرض سے باہر بھیج دیا، جہاں اس کی زندگی بچنے کے ساتھ ساتھ اس کی لاٹری لگ گئی. دولت اور شہرت کی چمک دھمک دیکھ کر اس کا باپ بھی مغربی باپوں سے دو ہاتھ آگے نکل گیا.


ملالا کو اگر کوئی استعمال کر رہا ہے تو وہ مغرب نہیں، اس کا باپ ہے .

یہ ملالہ کو گولی لگنے سے پہلے کی ویڈیو ہے۔ اس کے باپ اور اس کی اپنی تعلیم کیلئے جدوجہد بہت پہلے کی ہے۔۔

 

Conservative liberal

Senator (1k+ posts)
Ye gorey jisko chahein Hero bana dein aur jisko chahe Villain.
Mazey ki bat ye hero/villain ko nourish bhi khud hi karte hain.

Pehle Taliban hero they, phir villain bane aur ab phir hero... bechare humare brown agrez gorey angrez k intezar m hi rehte hain k kis ko hero bolna hai aur kis ko villain :)
 

MSUMAIRZ

MPA (400+ posts)
یہ ملالہ کو گولی لگنے سے پہلے کی ویڈیو ہے۔ اس کے باپ اور اس کی اپنی تعلیم کیلئے جدوجہد بہت پہلے کی ہے۔۔

If you can find this movie WAG THE DOG, you will be able to relate Mallala easily.
 

saleema

MPA (400+ posts)
O Bhai humain maaf kardain bas...Chalo maan letai Hain..Malala boht Bahadur or us Ka baap us se mahaan..Humain samajh agaye hai..baraye mehrubane ek mulk k masael Kuch or hai..Malala janay Amreeka janay UK jaanay or aap sub Roz Malala K bale Roz charhaya karain....Humain, drone attacks me marnay walay bachay, Israeli hamlo main school janay walay Shaheed bachay APNI haal per please chorhain...
 

Constable

MPA (400+ posts)

ملالہ پر ٹٹی پی (طالبان) کے حملے اور اس کے نتیجے میں تنگ نظر ملاؤں کی متعارف کردہ سازشی لہر کی ہر معقول، مہذب اور سلیم، فہیم شخص نے مذمت کی تھی لیکن بعد ازاں ملالہ نے جس غیر فطری انداز میں ایک عجیب سا "کردار" اپنایا وہ کسی بھی طرح اُسکی ذہنی ساخت اور انداز اظہارسے مطابقت نہیں رکھتا۔ جا بجا غیر حقیق مزاحمت اور جعلی دانشوری نے اسکی شخصیت کو مذید نشانہ اعتراضات بنایا۔ گو کہ اعتراضات کی کثرت کسی کےغلط ہونے کی دلیل نہیں ہوتی لیکن کسی پر کثیر تعداد میں انگلیاں اٹھنا اُسکے حق پر ہونے کی دلیل بھی نہیں۔

ملالہ کی مظلومیت اور ایک حد تک ابتدائی مزاحمتی سوچ قابلِ ستائش تھی مگر دھیرے دھیرے اُس نے جس طرح مانگے کی فکر کو اپنا کر ایک عالمی شخصیت بننے کی کامیاب کوشش کی وہ سارے رنگ میں بھنگ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگرچہ اس میں اُسکی ذاتی کاوش سے زیادہ مغرب کی ڈرامائی مداخلت اور تقاضے زیادہ رہے جس کا نتیجہ آج ایک آڑی ٹیڑھی، غیر متوازن اور بے ہنگم سی ملالہ دنیا کے سامنے ہے۔

فکر تو پیداوار ہے اُس پر بحث ہو سکتی ہے میں پوری دیانتداری سے سمجھتا ہوں کہ ملالہ کا "اسلوب فکر" ہی اپنا نہیں بلکہ مستعار لیا لگتا ہے۔ کسی نظریے سے متاثر ہو کر اُسے اپنا لینے میں کوئی عار نہیں لیکن اسکے لیے کم از کم بندہ اپنا ہوم ورک تو کرے

آپ اپنے منفی مثبت تمام تعصبات تھوڑی دیر کیلئے ایک طرف رکھ کر ملالہ کی باتیں سنیں آپکو مصنوعی پن واضح نظر آئے گا اور پس منظر میں ہلکا ہلکا "آن ڈیمانڈ" کا میوزک بجتا بھی صاف سنائی دے گا۔

ملالہ اب ایسے ہو چکی ہے جیسے ایک لباس تیار کر دیا گیا ہے اور آپکو اُس میں سمانے کیلئے اپنے خدو خال کو مناسب کرنا ہے، کچھ اعضا کو فربہ اور کچھ کو دبلا کرنا ہے۔ اس کوشش کو جو بھی مناسب نام دیا جائے وہ لکھنے، پڑھنے سننے میں اچھا نہیں لگتا۔
 

Baadshaah

MPA (400+ posts)


آپ اپنے منفی مثبت تمام تعصبات تھوڑی دیر کیلئے ایک طرف رکھ کر ملالہ کی باتیں سنیں آپکو مصنوعی پن واضح نظر آئے گا اور پس منظر میں ہلکا ہلکا "آن ڈیمانڈ" کا میوزک بجتا بھی صاف سنائی دے گا۔

میں نے ملالہ کو بہت سنا ہے، پڑھا ہے۔ بہت سے انٹرویوز سنے ہیں، مگر مجھے تو ایسا کوئی احساس نہیں ہوا کہ وہ اپنی نہیں بلکہ مستعار لی ہوئی سوچ کا اظہار کررہی ہو۔ ہوسکتا ہے آپ کو یہ احساس اس لئے ہوتا ہو کیونکہ آپ کے ذہن میں اس کی جو تصویر ہے وہ معاشرے کی رائج کردہ روایتی تصویر ہے۔۔ کیا آپ حوالے کے طور پر کوئی ایسی ویڈیو ، گفتگو یا تحریر شیئر کرسکتے ہیں جس میں آپ کے بقول مصنوعی پن جھلکتا ہو۔۔۔
 

Constable

MPA (400+ posts)
میں نے ملالہ کو بہت سنا ہے، پڑھا ہے۔ بہت سے انٹرویوز سنے ہیں، مگر مجھے تو ایسا کوئی احساس نہیں ہوا کہ وہ اپنی نہیں بلکہ مستعار لی ہوئی سوچ کا اظہار کررہی ہو۔ ہوسکتا ہے آپ کو یہ احساس اس لئے ہوتا ہو کیونکہ آپ کے ذہن میں اس کی جو تصویر ہے وہ معاشرے کی رائج کردہ روایتی تصویر ہے۔۔ کیا آپ حوالے کے طور پر کوئی ایسی ویڈیو ، گفتگو یا تحریر شیئر کرسکتے ہیں جس میں آپ کے بقول مصنوعی پن جھلکتا ہو۔۔۔
ملالہ میری ترتیبِ مشاغل میں کہیں بہت نیچے آتی ہے اسلیے اُسے یا اُسکے بارے میں سنجیدگی سے پڑھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا البتہ اگر سرِ راہ کہیں سننے کا موقع ملا تو وہ مجھے کبھی متاثر نہیں کر سکی۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے کسی پروگرام میں کنیڈین پرائم منسٹر کی موجودگی میں اُسکی ایک تقریر سنی تھی جس کے بعد اُسکے بارے میری مبینہ رائے مذید مستحکم ہو گئی۔
اس باب میں انڈیا میں جاوید اختر اور پاکستان میں مجھے بینظر بھٹو بلکہ فاطمہ بھٹو بدرجہ اتم جینوئین اور اپنے نظریات سے مخلص اور سچے لگے۔

آپکو یاد ہوگا، اس سے ملتی جلتی ایک کوشش مختاراں مائی کو لیکر بھی کی گئی تھی لیکن وہ مظفر گڑھ کی ایک چٹی انپڑھ عورت، کھیتی باڑی اور چار پہر ہانڈی چولہا کر کر کے جس کی مت ماری گئی تھی لہذا سیکھنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم تھی اور مطلوبہ قالب میں مکمل ڈھالی نہ جا سکی لیکن یورپ سے امریکہ تک کئی فورمز پر اُسے بھیاس بیدردی سے خرچا گیا کہ صاف نظر آتا تھا کہ پیسہ وصول ہو رہا ہے۔
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
ملالہ نے ایک ایسے گھرانے میں جنم لیا جس میں شجرہ نسب میں مردوں کا نام تو لکھا جاتا تھا، مگر عورتوں کا نہیں ، ملالہ کے والد ضیاء الدین یوسف زئی نے پہلی بار سماج کی اس رِیت کے خلاف جاتے ہوئے فخر کے ساتھ اپنی بیٹی ملالہ کا نام شجرہ نسب میں لکھا۔ خاندان کے لوگوں نے مخالفت کی، مگر ملالہ کا والد ڈٹا رہا۔ اس نے کہا میرے لئے میری بیٹی کسی بھی طرح میرے بیٹے سے کم نہیں، تو میں کیوں اس کو پہچان نہ دوں۔ ملالہ کے والد نے اس کو آزادی دی کہ وہ بھی لڑکوں کی طرح جب چاہے باہر گھوم پھر سکتی ہے، اس پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ ملالہ کئی بار گھر سے باہر نکلتی تو کئی مرد اسے گھورتے، مگر ملالہ اتنی نڈر تھی کہ وہ نظریں جھکانے یا شرمانے کی بجائے جواباً گھورنے والے کو گھورنا شروع کردیتی۔ یہ وہ اعتماد تھا جو ملالہ کو اس کے والد نے دیا تھا۔ یہ سب ملالہ کے والد نے اپنی کتاب "لیٹ ہر فلائی" میں لکھا ہے۔۔

ایسا باپ ہر بیٹی کو نہیں ملتا۔ پاکستان میں تو ایسے باپ دیکھنے کو ہی نہیں ملتے۔ پاکستان میں ماں باپ زبانی کلامی تو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے لئے بیٹا اور بیٹی دونوں برابر ہیں، مگر عملی طور پر وہ بیٹے اور بیٹی میں کھلم کھلا تفریق کرتے ہیں۔ بیٹے کو پوری آزادی ہوتی ہے کہ وہ جب چاہے گھر سے باہر گھومنے پھرنے چلا جائے، جب دل کرے سائیکل، موٹر سائیکل یا گاڑی اٹھائے اور دوستوں سے ملنے چلا جائے، مگر بیٹی کو یہ آزادی نہیں ہوتی، بیٹی کو کہا جاتا ہے کہ پورے گھر کی عزت کا بوجھ تمہارے کندھوں پر ہے، تم نے کسی نہ کسی مرد (باپ، بھائی، خاوند) کے کھونٹے سے بندھ کر رہی رہنا ہے۔ اگر کبھی باہر نکلنا ہے تو یا کسی محرم مرد کے ساتھ نکلنا ہے یا پھر بڑا سا کالا سا تمبو نما برقعہ اوڑھ کر نکلنا ہے۔۔ بیٹا اگر گھر سے باہر نکلے تو اس سے کوئی سوال نہیں ہوتا، بیٹی نے گھر سے باہر جانا ہو تو اس سے سو سوال ہوتے ہیں۔ بیٹے کو آزادی ہے کہ وہ سائیکل چلا سکتا ہے، بائیک چلا سکتا ہے، مگر بیٹی کو یہ آزادی نہیں۔۔ بیٹے کو یہ آزادی ہے کہ وہ کسی لڑکی کے ساتھ محبت کا اظہار کرسکتا ہے، کسی لڑکی کے ساتھ افیئر چلاسکتا ہے، مگر بیٹی ایسا کرے تو عزت غیرت کے نام پر اس کا قتل کردیا جاتا ہے۔ بہن کے سامنے بھائی کسی لڑکی کو پسند کرنے کا اظہار کرے تو بہن خوش ہوتی ہے، مگر بھائی کے سامنے بہن کسی لڑکے کو پسند کرنے کا اظہار کربیٹھے تو اسی بھائی کی "غیرت" جاگ جاتی ہے اور وہ بہن کو مار کر اپنی "غیرت" کی آگ کو ٹھنڈا کرتا ہے۔۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں۔۔ صنفی امتیاز کی ایسی بے شمار مثالیں ہمارے معاشرے میں عام دیکھی جاسکتی ہیں۔

اسی لئے میں اس خواہش کا اظہار کررہا ہوں کہ ہر بیٹی کو ملالہ کے باپ جیسا باپ ملے تاکہ وہ اپنی بیٹی کے وجود پر شرمندہ نہ ہو، وہ اپنی بیٹی کو بیٹے کے برابر حقوق دے۔ جس دن پاکستانی معاشرے میں بیٹیوں کو بیٹوں کے برابر آزادی اور حقوق ملنے لگے، اس دن سے ہی پاکستانی معاشرے کی بلندیوں کی طرف پرواز کا آغاز ہوجائے گا۔ میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ میاں ہر باپ کو ملالہ جیسی بیٹی دے۔ ملالہ نے ثابت کیا ہے کہ اگر لڑکی کو باپ اور گھر کا اعتماد حاصل ہو تو وہ ترقی کی بلندیوں کو چھو سکتی ہے۔ آج ایک ملالہ کی آواز میں اتنی طاقت ہے کہ اس کا محض ایک بیان پوری دنیا میں گونجتا ہے اور پاکستان جیسے معاشروں میں اس کا صرف ایک جملہ ہلچل مچا دیتا ہے۔ پاکستانی کی پوری قوم اپنی جہالت بھری آواز سے شور شرابا کرتی رہے، اس کی کوئی اہمیت نہیں، دنیا میں کہیں بھی اس کی کوئی وقعت نہیں، مگر ملالہ کا ایک بیان ، ملالہ کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک جملہ دنیا کے کونے کونے میں گونجتا ہے۔۔۔

ملالہ اور ضیاء الدین یوسف زئی، آپ دونوں پاکستان کا فخر ہیں۔ ہمیں آپ دونوں پر ناز ہے۔۔

malala.jpeg
ہاں اور ملالہ کو اپنے روائتی کپڑے پسند ہیں اور وہ اس تاثر کو دور کرنا چاہتی ہے کہ لوگ روائتی کپڑے پہننے والی خواتین کو گھٹا ہوا اور دبا ہوا سمجھنا چھوڑ دیں۔ برہنگی کو اخلاقی ترقی سے تعبیر نہ دیں۔ پورے کپڑے پہننے اور پردے کا خیال رکھنے کو ذہنی پسماندگی سے تشبیہہ نہ دیں۔

ویسے ملالہ تئیس برس کی عمر میں ابھی تک کسی بوائے فرینڈ کے ساتھ نظر نہیں آئی۔۔۔۔۔ یہ ملالہ کے بھوتنوں کو تکلیف نہیں ہورہی اس بات کی؟ ساتھ ہی اگر کوئی تصویر اسکی کسی نیم برہنہ لباس میں ہوجاتی تو اسکی روشن خیالی کے رخِ روشن پر ذرا روشنی بھی پڑجاتی۔

یہ لبڑل کھوتے ملالہ کے گرد اگی مغربی بھنگ کے پودے چرنے کے بعد اپنے آپ کو کارنیگی اور ٹالسٹائی سمجھتے ہوئے غلغاتے ہوئے نہ صرف پاکستان میں چھترول کرواتے ہیں، بلکہ جب مڑ کر ملالہ اور اسکے باپ کی طرف بھی دیکھیں تو انھیں وہاں سے بھی باٹا کا جوتا ہی رسید ہوتا ہے۔

صد افسوس ان کھوتوں کی قسمت پر، جن کے لیئے نہ ملالہ مغربی لباس زیب تن کرتی ہے، نہ کسی بوائے فرینڈ کے ساتھ اپنی ہیجانی تصاویر انکو بھیجتی ہے، اور شادی کے متعلق بیان پر اسکا والد اسکی تجدید و تعریف کرنے کی بجائے صفائیاں اور تاویلات پیش کرتا ہے۔

ان لبڑل کھوتوں کی تشریف پر یہ کیل بھی ٹھکی جارہی ہے کہ اتنا خرچہ اور چرچا کرنے کے باوجود، کسی اسلای تعلیم پر کوئی تنقیدی مواد بھی سامنے نہیں آیا۔

اب معلوم نہیں کہ یہ اس سب کچھ کے باوجود کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ وسائے غل غپاڑے کے، جو فطرتاً ان کے جینیات کا حصّہ بن چکا ہے۔
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
2164066-aerocraft-1582637036.jpg


ہائے بیچاری، پردے کا خیال رکھتی، پاکستانی معاشرے کا شکار انپڑھ بچی، کسی ظالم باپ کی اولاد۔۔۔۔۔ اس پر بھی ایک گالم لکھ لو، اس سے زیادہ مظلوم نہیں ملے گی
 

The Sane

Chief Minister (5k+ posts)
ملالہ نے ایک ایسے گھرانے میں جنم لیا جس میں شجرہ نسب میں مردوں کا نام تو لکھا جاتا تھا، مگر عورتوں کا نہیں ، ملالہ کے والد ضیاء الدین یوسف زئی نے پہلی بار سماج کی اس رِیت کے خلاف جاتے ہوئے فخر کے ساتھ اپنی بیٹی ملالہ کا نام شجرہ نسب میں لکھا۔ خاندان کے لوگوں نے مخالفت کی، مگر ملالہ کا والد ڈٹا رہا۔ اس نے کہا میرے لئے میری بیٹی کسی بھی طرح میرے بیٹے سے کم نہیں، تو میں کیوں اس کو پہچان نہ دوں۔ ملالہ کے والد نے اس کو آزادی دی کہ وہ بھی لڑکوں کی طرح جب چاہے باہر گھوم پھر سکتی ہے، اس پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ ملالہ کئی بار گھر سے باہر نکلتی تو کئی مرد اسے گھورتے، مگر ملالہ اتنی نڈر تھی کہ وہ نظریں جھکانے یا شرمانے کی بجائے جواباً گھورنے والے کو گھورنا شروع کردیتی۔ یہ وہ اعتماد تھا جو ملالہ کو اس کے والد نے دیا تھا۔ یہ سب ملالہ کے والد نے اپنی کتاب "لیٹ ہر فلائی" میں لکھا ہے۔۔

ایسا باپ ہر بیٹی کو نہیں ملتا۔ پاکستان میں تو ایسے باپ دیکھنے کو ہی نہیں ملتے۔ پاکستان میں ماں باپ زبانی کلامی تو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے لئے بیٹا اور بیٹی دونوں برابر ہیں، مگر عملی طور پر وہ بیٹے اور بیٹی میں کھلم کھلا تفریق کرتے ہیں۔ بیٹے کو پوری آزادی ہوتی ہے کہ وہ جب چاہے گھر سے باہر گھومنے پھرنے چلا جائے، جب دل کرے سائیکل، موٹر سائیکل یا گاڑی اٹھائے اور دوستوں سے ملنے چلا جائے، مگر بیٹی کو یہ آزادی نہیں ہوتی، بیٹی کو کہا جاتا ہے کہ پورے گھر کی عزت کا بوجھ تمہارے کندھوں پر ہے، تم نے کسی نہ کسی مرد (باپ، بھائی، خاوند) کے کھونٹے سے بندھ کر رہی رہنا ہے۔ اگر کبھی باہر نکلنا ہے تو یا کسی محرم مرد کے ساتھ نکلنا ہے یا پھر بڑا سا کالا سا تمبو نما برقعہ اوڑھ کر نکلنا ہے۔۔ بیٹا اگر گھر سے باہر نکلے تو اس سے کوئی سوال نہیں ہوتا، بیٹی نے گھر سے باہر جانا ہو تو اس سے سو سوال ہوتے ہیں۔ بیٹے کو آزادی ہے کہ وہ سائیکل چلا سکتا ہے، بائیک چلا سکتا ہے، مگر بیٹی کو یہ آزادی نہیں۔۔ بیٹے کو یہ آزادی ہے کہ وہ کسی لڑکی کے ساتھ محبت کا اظہار کرسکتا ہے، کسی لڑکی کے ساتھ افیئر چلاسکتا ہے، مگر بیٹی ایسا کرے تو عزت غیرت کے نام پر اس کا قتل کردیا جاتا ہے۔ بہن کے سامنے بھائی کسی لڑکی کو پسند کرنے کا اظہار کرے تو بہن خوش ہوتی ہے، مگر بھائی کے سامنے بہن کسی لڑکے کو پسند کرنے کا اظہار کربیٹھے تو اسی بھائی کی "غیرت" جاگ جاتی ہے اور وہ بہن کو مار کر اپنی "غیرت" کی آگ کو ٹھنڈا کرتا ہے۔۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں۔۔ صنفی امتیاز کی ایسی بے شمار مثالیں ہمارے معاشرے میں عام دیکھی جاسکتی ہیں۔

اسی لئے میں اس خواہش کا اظہار کررہا ہوں کہ ہر بیٹی کو ملالہ کے باپ جیسا باپ ملے تاکہ وہ اپنی بیٹی کے وجود پر شرمندہ نہ ہو، وہ اپنی بیٹی کو بیٹے کے برابر حقوق دے۔ جس دن پاکستانی معاشرے میں بیٹیوں کو بیٹوں کے برابر آزادی اور حقوق ملنے لگے، اس دن سے ہی پاکستانی معاشرے کی بلندیوں کی طرف پرواز کا آغاز ہوجائے گا۔ میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ میاں ہر باپ کو ملالہ جیسی بیٹی دے۔ ملالہ نے ثابت کیا ہے کہ اگر لڑکی کو باپ اور گھر کا اعتماد حاصل ہو تو وہ ترقی کی بلندیوں کو چھو سکتی ہے۔ آج ایک ملالہ کی آواز میں اتنی طاقت ہے کہ اس کا محض ایک بیان پوری دنیا میں گونجتا ہے اور پاکستان جیسے معاشروں میں اس کا صرف ایک جملہ ہلچل مچا دیتا ہے۔ پاکستانی کی پوری قوم اپنی جہالت بھری آواز سے شور شرابا کرتی رہے، اس کی کوئی اہمیت نہیں، دنیا میں کہیں بھی اس کی کوئی وقعت نہیں، مگر ملالہ کا ایک بیان ، ملالہ کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک جملہ دنیا کے کونے کونے میں گونجتا ہے۔۔۔

ملالہ اور ضیاء الدین یوسف زئی، آپ دونوں پاکستان کا فخر ہیں۔ ہمیں آپ دونوں پر ناز ہے۔۔

malala.jpeg
آج تمہیں اللہ کہاں سے یاد آ گیا، مطمئن مرتد؟