خبریں

خیبر پختونخوا کی نگراں حکومت میں رہنما پیپلزپارٹی کے بیٹے کو شامل کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ نگراں وزیراعلی اس بارے میں لاعلم ہیں۔ تفصیلات کے مطابق خیبرپختونخوا کی نگراں حکومت نے صوبائی کابینہ میں رہنما پیپلزپارٹی نیئر حسین بخاری کے بیٹے جرار حسین بخاری کو شامل کرنے کے معاملے کی تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے۔ خیبر پختونخوا کے نگراں وزیراعلی اعظم خان نے اپنے ہی مشیر جرار حسین بخاری سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ جرار حسین بخاری پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما کے بیٹے ہیں، ہمیں ابھی علم ہوا کہ جرار حسین کا تعلق خیبر پختونخوا سے بھی نہیں ہے، ہم نے تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے کہ معلوم کیا جائے جرار حسین کا تعلق کس علاقے سے ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جرار حسین کا نام گورنر کے پی کے اورصوبے کی دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے تجویز کیا گیا تھا، مجھے تو بتایا بھی یہی گیا تھا کہ جرار حسین کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہی ہے، اگر ان کا خیبر پختونخوا سے تعلق نا ہوا تو انہیں کابینہ کا حصہ نہیں رہنا چاہیے۔ دوسری جانب جرار حسین کے نگراں کابینہ کا حصہ ہونے پر پی ٹی آئی اے پی کے کے سیکرٹری اطلاعات شوکت یوسفزئی نے کہا کہ یہ ساری کابینہ ہی امپورٹڈ ہے، جرار حسین بھی امپورٹڈ مشیر ہیں، اس حکومت کو خیبرپختونخوا میں کوئی نہیں ملا تھا جو دوسرے صوبوں سے لوگوں کو لاکر یہاں وزیر بنایا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ کچھ روز قبل خیبرپختونخوا کے نگران صوبائی وزیر خوشدل خان کو ڈی نوٹیفائی کردیا گیاتھا۔ سرکاری حکام کا کہنا ہےکہ خوشدل خان ملک کو نگران صوبائی وزیرنامزدکیا گیا تھا اور بطور نگران وزیر حلف اٹھاتے وقت وہ سرکاری ملازم تھے جب کہ سرکاری ملازم کابینہ کا حصہ نہیں بن سکتے۔
پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات فراہم کرنے والی کمپنیوں نے قیمتوں میں اضافے کا مطالبہ کردیا ہے، مطالبات پورے نا کرنے کی صورت میں سپلائی روکنے کی دھمکی بھی دیدی ہے۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق آئل کمپنیز ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر بضد ہوگئی ہیں، کمپنیوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر قیمتوں میں اضافہ نا کیا گیا تو فصلوں کی کٹائی کے دوران تیل کی سپلائی روک دی جائے گی۔ اس حوالے سے آئل کمپنیز کی تنظیم او سی اے سی کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین کے طریقہ کار پر حکومت کو ایک خط ارسال کیا گیا ہے۔ کمپنیوں نے موقف اپنایا ہے کہ روپے کی بے قدری کی وجہ سے آئل کمپنیز کو 35 ارب88 کروڑ روپے کا نقصان ہوچکا ہے، حکومت ایک سال گزرنے پر بھی پیٹرولیم مصنوعات کی اصل قیمت مقرر نہیں کررہی۔ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات پر کسٹمز ڈیوٹی کا فرق2 ارب 93 کروڑ روپے ہے، پیٹرول پر 22 روپے22 پیسے جبکہ ڈیزل پر 74 روپے91 پیسے ایکسچینج ریٹ کے حساب سے ایڈجسٹمنٹ کی گئی۔ خط کے مطابق حکومت تیل کی قیمتوں کا تعین اصل فارمولے کی بنیاد پر کرے، کیونکہ حکومت ابھی بھی طے شدہ پرائسنگ فارمولے پر مکمل عمل نہیں کررہی۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فرخ حبیب نے ایف آئی اے کی جانب سے طلب کیےجانے پر کہاہے کہ جتنی انتقامی کارروائیاں کرنی ہیں کرلو، عمران خان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی تحقیقاتی ایجنسی(ایف آئی اے) نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فرخ حبیب اور مسلم لیگ ضیاء کے سربراہ اعجاز الحق کو طلب کرلیا ہے، ایف آئی اےفیصل آباد نے فرخ حبیب پر اختیارات کےناجائز استعمال کا الزام عائد کرتے ہوئے طلبی کا نوٹس جاری کیا ہے۔ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ فرخ حبیب 21 فروری کو ایف آئی اے فیصل آباد کے سامنے پیش ہوں اور اپنے ساتھ تمام دستاویزات لےکر آئے۔ ایف آئی اے نے مسلم لیگ ضیاء کے سربراہ اعجاز الحق کو بھی طلب کرلیا ہے، اعجاز الحق پر منی لانڈرنگ، آمدن سے زائد اثاثہ جات رکھنے کا الزام عائد کیا گیا ہے،ان پر 1اعشاریہ8 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا بھی الزام ہے۔ ایف آئی اے نے اعجاز الحق کو بھی 21 فروری کو ایف آئی اے فیصل آباد آفس پیش ہونے کی ہدایات کی ہیں۔ فرخ حبیب نے ایف آئی اے کا نوٹس موصول ہونے کےبعد مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ پر جاری اپنے بیان میں کہا ہے کہ پہلے توہین عدالت کرکے فواد چوہدری پر ڈکیتی کا پرچہ درج کیا گیا، اب ایف آئی اے نے من گھڑت انکوائری میں نوٹس جاری کردیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شہباز شریف اور راناثناء اللہ جتنی مرضی انتقامی کارروائیاں کرلیں، ہم عمران خان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہیں اور حق سچ کی آواز بلند کرتے رہیں گے، انشااللہ۔
محکمہ داخلہ سندھ نے دہشتگردوں کے علاج و معالجے کے کیس میں ڈاکٹر عاصم اور دیگر ملزمان کو کلین چٹ دے دی۔ محکمہ داخلہ سندھ نے ضیا الدین اسپتال میں دہشتگردوں کے علاج معالجے کے کیس سے متعلق انسداد دہشتگردی کی عدالت میں درخواست جمع کرائی جس میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر عاصم اور دیگر کے خلاف گواہ نہیں ملے۔ محکمہ داخلہ سندھ نے کیس واپس لینے کے لیے انسداد دہشت گردی عدالت میں درخواست جمع کرائی جس میں کہا گیا ہے کہ تفتیشی افسر نے ابتدائی مراحل میں بھی عدم شواہد پر کیس اے کلاس کر دیا تھا، تعزیرات پاکستان کی دفعہ 494 کے تحت ملزمان پر کیس ختم کیا جائے۔ عدالت نے محکمہ داخلہ کی درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے مارچ کے دوسرے ہفتے میں جواب طلب کر لیا۔ یاد رہےکہ ضیا الدین اسپتال میں دہشتگردوں کے علاج معالجے کا مقدمہ 2015 میں رینجرز کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا جس میں ڈاکٹر عاصم، انیس قائم خانی، قادر پٹیل، وسیم اختر، رؤف صدیقی، عثمان معظم اور سلیم شہزاد کوبھی نامزد کیا گیا تھا۔ بعدازاں ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما تحریک انصاف کی حکومت پر بھی اس کیس کو ختم کرنے کیلئے دباؤ ڈالتے رہے ہیں۔ تاہم پی ڈی ایم حکومت میں محکمہ داخلہ نے خود ہی ملزمون کو کلین چٹ دے دی ہے۔
کراچی پولیس آفس پر گزشتہ روز ہونے والے حملے میں ہلاک ہونے والے دہشت گرد کفایت اللہ کے گھر لکی مروت میں چھاپہ مارا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق لکی مروت کے تھانہ صدر کی حدود میں واقع کفایت اللہ کے گھر پر پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے چھاپہ مارا، اس دوران کفایت اللہ کے اہلخانہ سے تفتیش کی گئی۔ دوران تفتیش کفایت اللہ کے اہلخانہ نے انکشاف کیا کہ کفایت اللہ کو گھر میں باندھ کر رکھا جاتا تھا، تاہم وہ پانچ ماہ قبل گھر سے فرار ہوگیا، اہلخانہ کے مطابق ان کا خیال تھا کفایت اللہ افغانستان فرار ہوگیا ہے تاہم حملے کے بعد علم ہوا کہ وہ ناصرف پاکستان میں ہے بلکہ کراچی حملے میں ملوث بھی ہے۔ پولیس ذرائع کو دوران تفتیش معلوم ہوا کہ کفایت اللہ 21 سے 23سال کے درمیان کا ایک نوجوان تھاجو دہشت گردی کی باقاعدہ تربیت کیلئے متعدد بار افغانستان بھی جاچکا ہے،کفایت اللہ نے افغانستان میں بھی مختلف کارروائیوں میں حصہ لیا، کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے ٹیپو گل گروپ کے ساتھ منسلک تھا، اس نے خیبر پختونخوا میں بھی پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا۔ خیال رہے کہ ذرائع کے مطابق کراچی پولیس آفس پر حملہ کرنے والے تین دہشت گردوں کی شناخت لکی مروت کے رہائشی کفایت،وزیرستان سے تعلق رکھنے والےزالا نور اور دتہ خیل شمالی وزیرستان کے مجید بلوچ کے ناموں سے ہوئی ہے۔ کراچی پولیس آفس پر حملے کے حوالے سے ڈی آئی جی ساؤتھ عرفان بلوچ نے میڈیا سے گفتگو کی اور حملہ سے متعلق اب تک کی تحقیقات کی تفصیلات شیئر کیں، ڈی آئی جی ساؤتھ نے انکشاف کیا کہ دہشت گردوں کا ہدف ایڈیشنل آئی جی کراچی کو ٹارگٹ کرنا چاہتے تھے، جس طرف سے دہشت گرد پولیس آفس میں داخل ہوئے وہاں سے کوئی عام آدمی داخل نہیں ہوسکتا تھا۔ انہوں نےمزید کہا کہ دہشت گردوں نے حملے سے قبل ایک ماہ تک ریکی کی، جب ان کی ریکی مکمل ہوگئی توانہوں نے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا، دہشت گرد ایک کار میں سوار ہوکر پوری تیاری سے آئے اور رہائشی کوارٹرز کی طرف سے پولیس آفس میں داخل ہوئے۔ ڈی آئی جی ساؤتھ نے کہا کہ دہشت گردوں کو ایڈیشنل آئی جی کے فلور کا بھی علم تھا، ایڈیشنل آئی جی کراچی کے دفتر کو پہلے بھی نشانہ بنایا جاچکا ہے، دہشت گردوں کی شناخت تقریبا ہوچکی ہے تاہم لوکل سہولت کاروں کی تحقیقات کررہے ہیں،دہشت گرد جس گاڑی میں آئے تھے اس کے اندر سے کچھ جعلی نمبر پلیٹس بھی ملی ہیں۔ کراچی پولیس آفس پر حملہ کرنے والے تین دہشت گردوں کی شناخت لکی مروت کے رہائشی کفایت،وزیرستان سے تعلق رکھنے والےزالا نور اور دتہ خیل شمالی وزیرستان کے مجید بلوچ کے ناموں سے ہوئی ہے۔ حملے کی تحقیقات کے دوران دہشت گردوں کا موبائل فون برآمد ہوا ہےجس کو فرانزک کیلئے بھجوادیا گیا ہے،حملے کے دوران موبائل فون کی سکرین مکمل طور پر ٹوٹ گئی ہے۔ حملہ آور میں سے ایک دہشتگرد کی استعمال کی گئی کلاشنکوف پر نمبر بھی مٹا ہوا ہے، کلاشنکوف کے بٹ پرسرخ رنگ لگا ہوا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کے کھلاڑی عمران خان کا 12 سالہ منصوبہ نوازشریف نے ناکام کر دیا: چیف آرگنائزر ن لیگ چیف آرگنائزر مسلم لیگ ن مریم نوازشریف نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام جرگہ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ادارے میں موجود لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کی باقیات عمران خان کو اب بھی سپورٹ کر رہی ہیں۔ مریم نواز نے کہا کہ سیاسی جلسے میں شرکت کے لیے عمران خان ٹانگ کے ساتھ راولپنڈی تک چلا جاتا ہے لیکن عدالت میں پیش نہیں ہونا چاہتا۔ سینئر صحافی سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سٹیبلشمنٹ کے کھلاڑی عمران خان نے 12 سالہ منصوبہ تیار کر رکھا تھا جسے قائد مسلم لیگ ن میاں محمد نوازشریف نے تتربتر کر دیا ہے۔ عمران خان کی سپورٹ کوئی ادارہ نہیں کر رہا بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ عدلیہ کے کندھوں پر بیٹھ کر دوبار میں اقتدار میں آجائیں، ان کی سہولت کاری جانے والے کچھ لوگ کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ صرف مسلم لیگ ن کا نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کا یہی بیانیہ ہونا چاہیے۔ مریم نوازشریف کا کہنا تھا کہ صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے درمیان ہونے والی آڈیو لیک بنچ فکسنگ کا واضح ثبوت ہے۔ آڈیو لیک ہونے کے بعد ایک یا دو کردار جن سے عدلیہ پر انگلیاں اٹھتی ہیں ان کا احتساب کرنا ہوگا ، داغ نہ دھوئے تو مستقبل کا راستہ مشکل ہو گا اور قائد ن لیگ نواز شریف کی سزا کا ازالہ بھی خود کرنا ہوگا۔گریٹ گیم کے تمام کردار قوم کے سامنے ہیں، احتساب سے ادارے کمزور نہیں ہوتے۔ انہوں نے سابق وزیراعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ چوہے کی طرح بل میں چھپے ہیں، کورٹ میں بھی نہیں آتے، پی ٹی آئی بنکرز سے باہر ہی نہیں نکل رہی۔ عمران خان اور ان کے ساتھی مکافات عمل کا شکار ہیں، ان جیسے لوگوں کو احتساب ہونا وقت کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف نے اپنے دوراقتدار میں معیشت کا بیڑا غرق کر دیا، ہم تعمیر نو کرنے میں مصروف ہیں۔ نوازشریف کی دوری پر پارٹی میں مشکلات آئیں لیکن مسلم لیگ ن کو احساس ہو گیا ہے کہ وہ کتنے ضروری ہیں۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کمال چالاکی سے رولز کی خلاف ورزی کو چھپاتے ہوئے 4500 سی سی سرکاری گاڑی واپس کرکے 1800 سی سی سرکاری گاڑی کے استعمال کی درخواست دیدی۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعظم کے منظور کردہ رولز کے مطابق ایک وفاقی وزیر 1800 سی سی سرکاری گاڑی کے استعمال کا مجاز ہے ، وفاقی وزراء کی جانب سے بغیر تنخواہ و مراعات کے کام کرنے کے اعلان کے بعد وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کی جانب سے کیبنٹ ڈویژن کو اس حوالے سے ایک خط لکھا گیا۔ جس میں احسن اقبال نے کمال چالاکی سے رولز کی خلاف ورزی کو بھی چھپا لیا ، سرکاری گاڑی کے استعمال کو جاری رکھنے سے بھی آگاہ کردیا اور مراعات نا لینے کے اعلان کو بھی سچ کردیا۔ ہوا کچھ یوں کہ وفاقی وزیر احسن اقبال صاحب رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 1800 سی سی گاڑی کےبجائے 4500 سی سی لینڈ کروزر استعمال کررہے تھے، انہوں نے کیبنٹ ڈویژن کو لکھے خط میں موقف اپنایا کہ موجودہ معاشی حالات میں سخت فیصلے کرنے پڑرہے ہیں۔ اسی لیے وفاقی وزراء نے مراعات نا لینےکا اعلان کیا ہے، بطور عوامی نمائندہ ہونے کے میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ میں سرکاری طور پر ملی بڑی گاڑی (لینڈ کروزر) واپس کرکے عام سی 1800 سی سی یا اس سے چھوٹی گاڑی استعمال کروں۔ ڈان نیوز کے چیف رپورٹر ثناء اللہ خان نے احسن اقبال کی اس چالاکی کی نشاندہی کرتے ہوئے وزیراعظم کے منظور کردہ رولز کی نقل شیئر کی اوراپنی ٹویٹ میں کہا کہ پہلے تو احسن اقبال کو معافی مانگنی چاہیے کہ وہ کس قانون کے تحت 4500 سی سی گاڑی استعمال کررہے تھے۔ صحافی ثاقب ورک نے کہا کہ اس خط کو پڑھیں اور احسن اقبال کے ڈرامے کو سراہیں، انہوں نے سرکاری گاڑی یا پیٹرول لینے سے معذرت نہیں کی بلکہ 4500 سی سی لینڈ کروزر واپس لینے کیلئے خط لکھا کیونکہ وہ یہ گاڑی رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے استعمال کررہےتھے۔
افغانستان کے بیرون ممالک میں موجود اکائونٹس کو غیرمنجمد کیا جانا چاہیے تاکہ وہ اپنے معاشی مسائل سے نپٹ سکیں: وزیر خارجہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان میں دہشت گردی کے حوالے سے جرمنی میں میونخ سکیورٹی کانفرنس میں خطاب پینل ڈسکشن میں بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دہائیوں سے ہمارا ملک افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے لیکن موجودہ افغانستان میں قائم عبوری افغان حکومت کا اپنے ملک میں موجود دہشت گردوں کے مسئلے کو سنجیدہ نہ لینا ہمارے لیے باعث تشویش ہے۔ افغانستان میں امن کے قیام کے لیے بین الاقوامی دنیا کو آگے بڑھ کر کردار ادا کرنا چاہیے۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ القاعدہ، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسی دہشت گرد تنظیمیں افغانستان میں اپنا وجود رکھتی ہیں جہاں ان کے خلاف کائونٹر ٹیررازم میکنزم یا سٹیڈنگ آرمی نہیں ہے۔ پاکستان کی طرف سے بار بار کابل کو دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کا کہا گیا۔ افغانستان نے اپنی سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی لیکن افغانستان کو دہشت گردی سے نپٹنے کیلئے سکیورٹی اداروں کی ضرورت ہے جس کیلئے عالمی برادری کو کردار ادا کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں اس وقت جو بھی صورتحال ہے یہ نیٹو اور امریکہ کے افغانستان سے نکلنے کا براہ راست نتیجہ ہے۔ہمارا موقف بالکل واضح ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن کا قیام چاہتا ہے جس کے لیے ہم دہائیوں سے افغان شہریوں کی مہمان نوازی کر رہے ہیں۔ دہشت گردی سے نپٹنے کیلئے عبوری افغان حکومت پرعزم ہے لیکن وہ اپنے معاشی مسائل سے نبردآزما ہے جس کیلئے افغانستان کے بیرون ممالک میں موجود اکائونٹس کو غیرمنجمد کیا جانا چاہیے تاکہ وہ اپنے معاشی مسائل سے نپٹ سکیں۔ دریں اثنا وزیر خارجہ وچیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں شارع فیصل واقع پولیس ہیڈ آفس پر دہشت گردوں کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سندھ پولیس پہلے بھی دہشت گردی کو کچل چکی ہے۔ انہوں نے کہا مجھے پورا یقین ہے کہ ہم دوبارہ پوری طاقت سے دہشت گردی کا خاتمہ کریں گے، ایسے بزدلانہ حملوں سے ہمارے حوصلے پست نہیں ہو سکتے۔
تینوں ججز کو رینجرز سکیورٹی پانامہ لیکس اور دیگر اہم مقدمات میں فیصلے دینے کے بعد فراہم کی گئی تھی۔ رواں ماہ 2 فروری کو چیف جسٹس گلزار احمد نے ریٹائرمنٹ سے چند دن پہلے بذریعہ رجسٹرار وزارت داخلہ سے اضافی فول پروف سکیورٹی لینے کیلئے مراسلہ لکھا تھا جس میں موقف اپنایا کہ متعدد ہائی پروفائل مقدمات کے فیصلے کیے اس لیے ریٹائرمنٹ کے بعد وسیع تر عوامی وقومی مفاد میں رینجرز اور پولیس کی فول پروف سکیورٹی مہیا کی جائے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے فل کورٹ میں دوران سروس ہی اپنے لیے بعد از ریٹائرمنٹ اضافی مراعات کی منظوری لے لی تھی جس میں ایڈیشنل پرائیویٹ سیکرٹری کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ ذرائع کے مطابق وزارت داخلہ کی طرف سے آج 3 ریٹائرڈ ججز سے رینجرز کی سکیورٹی واپس لے لی گئی ہے جن میں سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار اور سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے علاوہ جسٹس (ر) عظمت سعید شیخ شامل ہیں۔ تینوں ججز کو رینجرز سکیورٹی پانامہ لیکس اور دیگر اہم مقدمات میں فیصلے دینے کے بعد فراہم کی گئی تھی۔ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار 31 دسمبر 2016ء سے 17 جنوری 2019ء تک اپنے عہدے پر فائز رہے جن کے بعد سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ 18 جنوری 2019ء سے 20 دسمبر 2019ء تک اس عہدے پر رہے جبکہ جسٹس (ر) عظمت سعید شیخ سپریم کورٹ کے جج کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ یاد رہے کہ صدارتی آرڈر 1997ء کے مطابق ایک ریٹائرڈ جج کو اپنی تنخواہ کا 85 فیصد پنشن کے ساتھ 24 گھنٹے ڈیوٹی دینے والا سکیورٹی محافظ بھی دیا جاتا ہے جبکہ دیگر مراعات میں 18سو سی سی سرکاری گاڑی خریدنے کی سہولت، ماہانہ بنیادوں پر 2 ہزار بجلی یونٹس، 3 ہزار فون بل، 25 ہیکٹومیٹرز یونٹس گیس، 3سو لٹر پٹرول کے ساتھ مفت پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ قوانین میں 2016ء میں ترامیم کے بعد اردلی یا سرکاری ڈرائیور بھی مراعات میں شامل کیا گیا تھا۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ عسکری ادارے کو اپنے طور پر سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے اقدام پر انکوائری کرنی چاہیے۔ تفصیلات کے مطابق عمران خان نے لاہور زمان پارک میں سینئر کالم نگارو ں سے ملاقات کی اور کہا کہ قمر جاوید باجوہ نے حلف کی خلاف ورزی کی اور تسلیم بھی کیا کہ نیب ان کے زیر اثر تھا،انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ انہوں نے ریکارڈنگز کیں جو کہ غیر قانونی اقدام ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قمر جاوید باجوہ نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ، عسکری اداروں کو چاہیے کہ ان کے اقدام کی انکوائری اپنے طور پر کروائے۔ عمران خان نے ن لیگ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ن لیگ کی عدلیہ پر یلغار کی ایک تاریخ ہے، عدلیہ خصوصاً ججز کے خلاف گھٹیا پراپیگنڈہ مہم شرمناک ہے، یہ لوگ فون ٹیپ کرکے ججزپر دباؤ اور آئین کی بالادستی سے روکنے کی کوشش کررہے ہیں،ججزکو دباؤ میں آئے بغیر قانون و دستور کو بالادست بنانا چاہیے، عدلیہ قوم کی واحد امید ہے۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے دور میں معاشی اعشاریے مثبت تھے، روزگار، ترسیلات زر میں اضافہ ہورہا تھا، صنعت و زراعت پھل پھول رہے تھے، ملک میں سرمایہ کاری آرہی تھی اور عالمی دنیا کا پاکستان پر اعتماد بڑھ رہا تھا مگر اب عالمی اداروں نے ملکی ریٹنگ منفی کردی ہے اور ڈیفالٹ کے خطرے کو 100 فیصد قرار دیدیا ہے، ہمارے دور میں یہ خطرہ صرف پانچ فیصد تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نئے فنانس بل سے ملک میں اب مہنگائی کا طوفان آئے گا، صدر مملکت نے فنانس بل پر دستخط نا کرکے احسن اقدم کیا ہے۔
اسلام آباد ایف نائن زیادتی کیس میں ملزمان کی ہلاکت کے مبینہ پولیس مقابلے کی تحقیقات کا آغاز کردیا گیا۔ اس حوالے سے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے تین رکنی انکوائری کمیٹی قائم کرتے ہوئے مراسلہ جاری کر دیا ہے۔ مبینہ پولیس مقابلے کی تحقیقات کا آغاز پولیس کے مبینہ مقابلے میں ہلاک ہونے والے مقتولین نواب خان اور اقبال خان کے اہلخانہ کی جانب سے موصول شکایت پر کیا گیا ہے۔ تحقیقات کیلئے انتظامیہ نے تین رکنی ٹیم تشکیل دے دی ہے، تحقیقاتی ٹیم میں اسٹنٹ کمشنر صدر،ایس پی صدراورڈی ایس پی اسپیشل برانچ شامل ہیں۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی جانب سے تین رکنی انکوائری کمیٹی کو جاری مراسلے میں کہا گیا کہ معاملے کو قانون کے مطابق تحقیقات کی جائے اور ذمہ داروں کیخلاف کاروائی کی جائے۔ یاد رہے رواں ماہ 2 فروری کی شام متاثرہ خاتون کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف نائن پارک میں گن پوائنٹ پر دو ملزمان نے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ لڑکی کے پولیس کو دیے گئے بیان کے مطابق وہ چہل قدمی کے لیے کولیگ کے ساتھ پارک آئی تھی۔ مسلح افراد نے چہل قدمی کرتے وقت روکا، لڑکی کو الگ لے گئے اور جان سے مارنے کی دھمکی دی، شور کرنے پر تھپڑ مارے، درختوں کے جھنڈ میں لے جاکر تشدد کیا، کپڑے پھاڑ ڈالے اور زیادتی کا نشانہ بنایا۔ بعدازاں لڑکی کے ساتھ مبینہ طور پر گینگ ریپ کے واقعے کا مقدمہ درج کیا گیا۔ ایف نائن پارک میں خاتون سے مبینہ زیادتی کے واقعے کے خلاف سیکٹر ایف ٹین میں احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا۔ مظاہرے میں خواتین اور مردوں نے شرکت کی۔ مظاہرین نے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا۔
سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے تھانہ آپبارہ کے ایس ایچ او اور ایک تفتیشی افسر پر الزام لگایا کہ وہ دونوں رشوت خوری میں ملوث ہیں اور انہوں نے اس حوالے سے دونوں پولیس افسران کے خلاف عدالت میں بھی درخواست جمع کرا دی ہے۔ تفصیلات کے مطابق مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری ٹوئٹس میں سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید نے کہا کہ ایس ایچ او تھانہ آبپارہ اشفاق وڑائچ اور انوسٹی گیشن آفیسر عاشق حسین نے ان کے گھر ڈکیتی کی ہے۔ شیخ رشید نے الزام لگایا کہ یہ دونوں پولیس افسر ان کے گھر سے ان کی قیمتی گھڑیاں، اسلحہ، پیسے اور 3موبائل فون لے گئے ہیں۔ شیخ رشید نے دونوں مذکورہ افسران سے متعلق دعویٰ کیا کہ انہیں رانا ثنااللہ نے خصوصی طور پر ان کے خلاف جھوٹے مقدمات بنانے کیلئے اس تھانے میں تعینات کیا ہے۔ انہوں نے اس کے ساتھ دوسرے ٹوئٹ میں ایک ویڈیو بھی پوسٹ کی جس میں پولیس افسر کو شہری سے رشوت وصول کرتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ویڈیو میں انوسٹی گیشن افسر عاشق کو رشوت کے پیسے وصول کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ شیخ رشید نے کہا کہ انہوں نے یہ ویڈیو عدالت میں بھی پیش کی تھی جہاں مجسٹریٹ نے انہیں ایڈیشنل سیشن جج کو درخواست دینے کی ہدایت کی، سابق وفاقی وزیر نے اعلان کیا کہ وہ اب ان دونوں افسروں کا سارا کچا چٹھا کھول دیں گے۔
تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل نے صحافی اعزاز سید اور عمر چیمہ کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے لیگل نوٹس بھجوا دیا، انہوں نے کہا کہ اب عدالت میں ملاقات ہو گی۔ تفصیلات کے مطابق اعزاز سید اور عمر چیمہ نے اپنے سوشل میڈیا چینل ٹاک شاک پر ایک ویڈیو میں شہباز گل پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے بطور معاون خصوصی افواج پاکستان کے 114 افسران اور ان کی فیملیز کا ڈیٹا اکٹھا کیا تھا اور ان کے نام پر فیک سوشل میڈیا اکاؤنٹس بنائے گئے ہیں۔ نوٹس میں بتایا گیا ہے کہ اعزاز سید اور عمر چیمہ نے جھوٹے دعوے کیے ہیں کہ شہباز گل سے ایک سیٹلائٹ فون بھی برآمد ہوا ہے جس پر وہ اس وقت کے کورپس کمانڈر آصف غفور اور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) فیض حمید سے گفتگو کرتے تھے۔ ایک لیپ ٹاپ بھی ملا ہے جس میں افواج کےافسران کا تمام حساس ڈیٹا موجود تھا۔ جو کہ نادرا کی مدد سے نکالا گیا تھا۔ قانونی نوٹس میں صحافیوں کی جانب سے لگائے گئے 7 الزامات کا ذکر ہے جنہیں شہبازگل کی جانب سے مسترد کیا گیا ہے اور ان پر جواب مانگا گیا ہے۔ ساتھ میں شہبازگل کے 10فروری کو کیے گئے ایک ٹوئٹ کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں انہوں نے جنرل ریٹائرڈ باجوہ کے دعوے کو بھی مسترد کیا ہے۔ نوٹس میں کہا گیا ہے ان الزامات سے شہبازگل کی ساکھ کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ساتھ میں اس وی لاگ کا لنک بھی دیا گیا ہے جس میں یہ تمام دعوے کیے گئے ہیں۔ شہبازگل نے ان تمام دعوؤں پر کہا ہے کہ ان دونوں نے دونوں پاؤں باندھ کر جھوٹ بولے ہیں اب لیگل نوٹس بھیج دیا ہے ملاقات عدالت میں ہوگی۔
سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم کا کہنا ہے کہ دیکھنا یہ ہے کہ اصل طاقت کس کے پاس ہے اب اگر اسٹیبلشمنٹ کے اپنے چینل بھی اس پر تنقید کر رہے ہیں تو دیکھنا چاہیے کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا 5 وزرائے اعظم ایک طرف اور اکیلا ایک آرمی چیف ایک طرف بتائیں زیادہ حکومت کس نے کی ہے۔ تفصیلات کے مطابق سنوٹی وی کے پروگرام نیوز بیٹ میں میزبان پارس جہانزیب کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے ابصار عالم نے انکشاف کیا کہ انہیں سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے بتایا کہ وہ سابق آرمی چیف کے ساتھ ملاقات کیلئے گئے تو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے انہیں بات کرنے کیلئے فون کیا تو انہوں نے مصروفیت کا بتا کر بات ہی نہیں کی۔ ابصار عالم نے بتایا کہ محمد زبیر نے انہیں کہا کہ ان (آرمی چیف) کے اسٹاف سے ایک صاحب آئے اور کہا کہ عمران خان بات کرنا چاہتے ہیں تو جنرل باجوہ نے کہا ان سے کہو ابھی مصروف ہوں بعد میں بات کروں گا۔ وہ دوبارہ آئے اور پھر سے کہا تو وہی جواب ملا، تیسری بار پھر جب کہا تو انہوں نے یہی کہا کہ ابھی میٹنگ میں ہیں جب فارغ ہوئے تو بات کریں گے، ان کا کہنا ہے کہ یہاں دو باتیں ہیں یا تو وہ زبیر کو بتا رہے تھے کہ یہاں اختیار میرے پاس ہے یا وہ وزیراعظم کو بتا رہے تھے کہ طاقتور میں ہوں تو جب میرا دل کیا پھر بات کروں گا۔ یا پھر یہ سارا ڈرامہ زبیر کو دکھانے کیلئے بنایا گیا ہو۔ ابصار عالم نے کہا کہ ڈرامہ وہ بہت بنا لیتے تھے کیونکہ وہ تو لوگوں کی ریکارڈنگ کیا کرتے تھے۔ سابق چیئرمین پیمرا نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ عمران خان بھی برابر کے شریک جرم ہیں۔ شہبازشریف کے موجودہ حالات میں اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی پر انہوں نے کہ جب وقت آیا تو وہ بھی بھگتیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جس کے پاس اصل طاقت ہے احتساب بھی اس کا ہونا چاہیے کہ مگر وہ تو آئین میں ڈال دیا ہے کہ ان پر تنقید بھی نہیں ہو سکتی۔ مزید سزائیں بھی لکھ دیں کیا آپ نے یہ کسی سیاستدان کیلئے بھی کیا اب یہ سارا ٹوپی ڈرامہ کیوں کیا جا رہا ہے؟
مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز کی زیر صدارت اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی۔ مریم نواز متعدد سابق اراکین قومی اسمبلی کی ناقص کارکردگی پر برس پڑیں، مریم نواز نے ارکان کو دوران میٹنگ جھاڑ پلادی،رہنماؤں کو پارٹی کو منظم کرنے کے لیے اہم ٹاسک سونپے گئے،اور اگلے ہفتے کی تاریخ دے دی گئی۔ مریم نواز کا کہنا تھا کہ ہر دباؤ کا مقابلہ کرتے ہوئے پارٹی کو آگے رکھنے والے رہنما ہمارے سرکا تاج ہیں، ملک اور عوام کے مسائل حل کرنے کی اپنی تاریخ پھر دہرائیں گے۔ مریم نواز کی واپسی پر شاہد خاقان عباسی عہدے سے مستعفی ہوچکے ہیں، جبکہ اس سے قبل سابق وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے مریم نواز کی قیادت میں مسلم لیگ ن میں کام کرنے سے انکار کیا تھا۔ چوہدری نثار نے 2018 میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں بچوں کے نیچے تو سیاست نہیں کرسکتا، ہر بندے کا اپنا وقار ہوتا ہے، اس میں تنقید کا کونسا پہلو ہے۔
الیکشن کمیشن نے انتخابات سے متعلق صدر عارف علوی کے خط کا جواب دے دیا۔ الیکشن کمیشن نے صدر کی جانب سے طلب کردہ اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کیا ہے، الیکشن کمیشن ممبران اور اعلیٰ حکام ایوان صدر میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کریں گے۔ میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ایوان صدر میں اجلاس پیر دن گیارہ بجے طلب کیا گیا ہے۔ تاہم اس حوالے سے صدرکو لکھے گئے جوابی خط میں الیکشن کمیشن نے صدر کی جانب سے بھیجے گئے خط کے الفاظ پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ای سی پی کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن آئین اور قانون پر عمل کرتا ہے، یہ ایک آزاد اور خود مختار ادارہ ہے، الیکشن کمیشن عدلیہ کے فیصلوں کا احترام اور من و عن عمل کرتا ہے، صدر کی جانب سے الیکشن کمیشن کے بارے میں بےحسی کے الفاظ لکھنا مناسب نہیں، صدر مملکت کی جانب سے ایسے الفاظ لکھنے پر افسوس اور مایوسی ہوئی۔ خط میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داریاں احسن طریقے سے سر انجام دے رہا ہے۔ واضح رہے کہ صدر مملکت عارف علوی نے خط کا جواب نہ دینے پر الیکشن کمیشن پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے الیکشن پر مشاورت کے لیے چیف الیکشن کمشنر کو دوسرا خط لکھا تھا۔ صدر مملکت کی جانب سے الیکشن کمیشن کی بے حسی پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے ابھی تک پہلے خط کا جواب نہیں دیا، میں انتظار کر رہا تھا کہ الیکشن کمیشن اپنے آئینی فرائض کا احساس کرے گا اور اس کے مطابق کام کرے گا۔ عارف علوی کا کہنا تھا اہم معاملے پر الیکشن کمیشن کے افسوسناک رویے سے انتہائی مایوسی ہوئی، چیف الیکشن کمشنر کو اپنے دفتر میں الیکشن پر مشاورت کے لیے ہنگامی ملاقات کے لیے مدعو کرتا ہوں۔
وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کے لیے تمام جماعتیں تیار تھیں مگر تحریک انصاف نےا س عمل میں شامل ہونے سے انکار کردیا۔ جیونیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں گفتگو میں خواجہ آصف نے کہا پشاور کے بعد کراچی میں بھی پولیس کو نشانہ بنایا گیا ہے، اس معاملے میں ان کی یا حکومتی اراکین کی صرف مذمت کافی نہیں، بات مذمت سے آگے بڑھ چکی ہے، پولیس کو سافٹ ٹارگٹ سمجھ کر نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ وزیر دفاع نے کہا تھا دہشتگردی کے خلاف آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کے لیے تمام جماعتیں تیار تھیں مگر تحریک انصاف نےا س عمل میں شامل ہونے سے انکار کردیا ، اس وجہ سے قومی اتفاق رائے پیدا نہیں ہوسکا۔ تحریک انصاف نے وزیر اعظم شہباز شریف کی دعوت ٹھکرا دی تھی، اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوئی تھی، آل پارٹیز کانفرنس میں آنے سے بھی صاف انکار کردیا تھا،وزیراعظم شہباز شریف نے 7 فروری کو اسلام آباد میں کُل جماعتی کانفرنس بلا ئی تھی۔
پاکستان کی نامور مارننگ شو ہوسٹ ندا یاسر ایک بار پھر ٹرولنگ کی زد میں آگئیں، پاکستان کرکٹ ٹیم کے ورلڈ کپ جیتنے کے حوالے سے سوال کا غلط جواب دینے پر ٹرولنگ کرنے والوں کو آڑے ہاتھوں لے لیا،ڈیجیٹل پلیٹ فارم اردو فلکس پر راولپنڈی ایکسپریس شعیب اختر کا پروگرام 17 فروری سے شروع ہوگیا،جس کا ٹیزر گزشتہ دنوں اردو فلکس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر جاری کیا گیا۔ شو میں پاکستان کی دو معروف مارننگ شو ہوسٹ ندا یاسر اور شائستہ لودھی بطور مہمان شریک ہوئیں، دوران شو شعیب نے سوال کیا کہ پاکستان 1992 کا ورلڈ کپ کب یعنی کس سال جیتا تھا؟' سوال سن کر ندا تھوڑا سا سوچ میں پڑیں اور پھر شائستہ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا 2006 میں جیتا تھا؟ جس پر شائستہ نے نفی میں سر ہلایا، ویڈیو میں دیکھا گیا کہ شعیب نے شائستہ کو کچھ بھی بولنے سے روک دیا۔ اس کے بعد ندا نے پھر شائستہ سے پوچھا کہ '1996 میں جیتا تھا؟' جس پر شائستہ لودھی نے انہیں گھورا، اس کے بعد شعیب نے سوال بدلا اور کہا پاکستان 2009 کا ورلڈ کپ کب جیتا تھا؟ ندا نے جواب دیا 1992 میں، جس پر شائستہ نے کہا کہ سوال تو سنو۔ ندا یاسر اور شعیب اختر کا مذکورہ کلپ سوشل میڈیا پر وائرل جس پر صارفین نے ندا یاسر کو کافی ٹرول کیا،جس پر ندا نے انسٹاگرام اسٹوری پر لکھا کہ ایسا میں نے کیا کردیا؟ لوگ اپنی تاریخ پیدائش اور شادی کی تاریخ اوربہت کچھ بھول جاتے ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ مجھے معلوم ہے کہ حالات کی وجہ سے بہت ڈپریشن ہے، اگر میری کسی غلطی سے آپ کے چہرے پر مسکراہٹ آرہی ہے تو کھل کر ہنسیں لیکن اللہ جس کو اللہ رکھے اس کو کون چکھے،جو مجھ سے واقعی پیار کرتے ہیں وہ کرتے رہیں گے، اس لیے میرا نعرہ ہے پیچھے ہٹ۔
سینیٹ نے مالیاتی بل 2023 کے ذریعے ٹیکس اور ڈیوٹیز سے متعلق بعض قوانین میں ترمیم کے لیے بل کی سفارشات کو متفقہ طور پر منظور کرلیا،ایوان میں ملک کو معاشی دلدل سے نکالنے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے ججوں، جرنیلوں اور قانون سازوں کے لیے مراعات ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے نکتہ اعتراض گفتگو کے دوران ایک دستاویز ہوا میں لہرا کر پڑھ کر سنائی،انہوں نے کہا کہ ایک ریٹائرڈ جج کو ماہانہ پنشن کی مد میں تقریباً 10 لاکھ روپے ملتے ہیں، اس کے علاوہ مفت بجلی کے 2 ہزار یونٹ، 3 سو لیٹر مفت پیٹرول اور 3 ہزار روپے کی مفت فون کالز ملتی ہیں حالانکہ اس لگژری طرز زندگی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ پروٹوکول کلچر کو ختم کرنے کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے سینیٹر نے کہا کہ 60 بلٹ پروف لگژری گاڑیاں صرف کابینہ کے ارکان کے استعمال میں ہیں، جبکہ ’دیگر بڑے افراد‘ کے پاس ایسی گاڑیاں ہیں جو ایک ٹرک جتنا تیل استعمال کرتی ہیں۔ ان کے مطابق ڈیڑھ لاکھ سرکاری گاڑیاں مفت پیٹرول سے بھری ہوئی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ کسی کے لیے بجلی، گیس یا پیٹرول مفت نہیں ہونا چاہیے۔ سینیٹر نے بجٹ کو غریبوں کے لیے ڈیتھ وارنٹ قرار دیتے ہوئے زور دے کر کہا کہ آپ غریبوں پر بوجھ ڈالتے ہیں، اب کچھ بوجھ اشرافیہ پر ڈال دیں۔ انہوں نے موجودہ 87 رکنی وفاقی کابینہ کو دنیا کی سب سے بڑی کابینہ قرار دیا اور اس کے حجم میں خاطر خواہ کمی کا مطالبہ کیا،دعویٰ کیا یہ بل مقامی طور پر تیار نہیں کیا گیا تھا بلکہ اسے آئی ایم ایف ہیڈ کوارٹر میں تیار کیا گیا تھا۔ سینیٹر مشتاق احمد نے حکومت کے اس بیان کو مسترد کر دیا کہ اس کے پاس عالمی مالیاتی فنڈ کے پاس جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے،سینیٹ میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے قائد حزب اختلاف سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ منی بجٹ کے نام پر اس ایوان کی منظور کردہ رپورٹ میں تجویز کی گئی سفارشات میں عوام کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے اس مبینہ متنازع بل کو عوام دشمن قرار دے کر یکسر مسترد کر دیا،سینیٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ عوام کو تمام ریاستی کوششوں کا مرکز ہونا چاہیے لیکن ان سفارشات کا مقصد ٹیکسوں اور مہنگائی میں اضافے کے بعد عوام کی مشکلات میں اضافہ کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے حکومت سے 155 لگژری کاروں کی درآمد کی اجازت دینے کی درخواست کی،ایف بی آر کو اپنے فرسودہ آئی ٹی سسٹم کو بہتر کرنا چاہیے جو بے کار ہو چکا ہے اور ٹیکس وصولی کے مقصد کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف تمام سرکاری اداروں میں کفایت شعاری کے بڑے اقدامات کا اعلان کریں گے تاکہ حکومتی اخراجات کو کم سے کم کرکے مالیاتی خسارے پر قابو پایا جا سکے۔ وزیر مملکت نے سینیٹ کے فلور پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے کفایت شعاری کے اقدامات کو حتمی شکل دینے کے لیے پہلے ہی ایک کمیشن تشکیل دے دیا ہے اور وہ خود کمیشن کی طرف سے حتمی سفارشات کا اعلان کریں گے،کابینہ کے تمام اراکین نے پہلے ہی رضاکارانہ طور پر اعلان کیا تھا کہ وہ قومی خزانے سے اپنی تنخواہیں نہیں لیں گے۔ عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ پی ڈی ایم حکومت پی ٹی آئی حکومت کے آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدے پر صرف ’اپنی سیاست کی قیمت پر ریاست کو بچانے کے لیے‘ عمل کر رہی ہے۔ انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز پر زور دیا کہ وہ ضرورت کی اس گھڑی میں حکومت کا ساتھ دیں، کیونکہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے ’سخت فیصلوں‘ کی سخت ضرورت ہے۔ حکومت کی جانب سے دونوں ایوانوں میں پیش کیے گئے فنانس بل 2023 کا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس سخت فیصلے لینے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے کیونکہ ملک کی معیشت دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہے۔
صدر مملکت عارف علوی کا چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو خط، الیکشن کمیشن کی جانب سے بے حسی پر اظہار ناراضگی، تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر عارف علوی نے چیف الیکشن کمشنر کوخط لکھ لیا اور الیکشن کی تاریخ کیلئے انہیں طلب کرلیا، خط کے مطابق سکندر سلطان راجہ 20 فروری کو ایوان صدر آئیں اور الیکشن کے انعقاد سے متعلق ہنگامی اجلاس میں شرکت کریں۔ اس موقع پر صدر مملکت عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان سے متعلق مشاورت کریں گے دوسری جانب قانونی ٹیم کی مشاورت کے بعد چیف الیکشن کمشنر سپریم کورٹ کے سامنے پیش نہ ہوئے۔ الیکشن کمیشن کی قانونی ٹیم کا کہنا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر عدلیہ کے سامنے پیش ہونے کے پابند نہیں۔ اس سے قبل کوئی بھی چیف الیکشن کمشنر عدلیہ کے سامنے پیش نہیں ہوا۔ واضح رہے کہ سکندرسلطان راجہ اس سے قبل 4 مرتبہ سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوچکے ہیں۔

Back
Top