عمران خان کے اثاثوں کو لیکر ن لیگ اور اسکے حامی صحافی مسلسل پروپگینڈا کررہے ہیں کہ عمران خان کی جائیداد اچانک ایک ارب 40 کروڑ کے کیسے ہوگئے؟ جتنے منہ اتنی باتیں کسی نے کہا کہ عمران خان نے خیبرپختونخوا میں کرپشن کرکے اپنے اثاثے بڑھائے ہیں، کسی نے کہا کہ عمران خان نے شوکت خانم کی زکوۃ کھا کر اثاثے بڑھائے ہیں لیکن بجائے حقیقت سمجھنے کے پروپیگنڈا کرتے جارہے ہیں۔
عمران خان کے اثاثے کیسے بڑھے؟
تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ 2015 میں الیکشن کمیشن نے فارم میں ایک نیا کالم ایڈ کیا جس میں اراکین اسمبلی موجودہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق اثاثوں کی قیمتیں داخل کرسکتے ہیں۔
سال 2013، 2014 میں عمران خان نے ان اثاثوں کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق قیمت نہیں لکھی کیونکہ اس وقت یہ کالم نہیں تھا لیکن 2015 میں عمران خان نے بنی گالہ گھر کی موجودہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق قیمت لکھی جو 75 کروڑ بنتی ہے اور اپنے والدین کی طرف سے زمان پارک گھر کی قیمت بھی مارکیٹ ویلیو کے مطابق لکھی جو 29 کروڑ 60 لاکھ بنتی ہے۔11 کروڑ ایک فلیٹ کی موجودہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق قیمت جو 2013 اور 2014 میں بھی ظاہر کیا گیا تھا۔ ایک ارب 16 کروڑ قیمت ان پراپرٹیز کی ہوگئی ۔ عمران خان کے اثاثے وہی ہیں جو 2013، 2014، 2015 ، 2016 میں تھے، فرق یہ ہے کہ ان اثاثوں کی قیمت موجودہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق لکھی گئی ہے۔ یہ کام بہت کم ایم این ایز نے کیا ہے۔ نوازشریف سمیت اکثریت نے تو موجودہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق قیمت لکھنے سے ہی گریز کیا ہے۔
ن لیگ ، اسکے سپورٹرز کو مشورہ ہے کہ وہ جھوٹ بولنے ، پروپیگنڈا کرنے سے پہلے عمران خان کے اثاثوں کا پچھلےا ثاثوں سے موازنہ کرلیں کہ کونسا نیا اثاثہ ہے جو عمران خان نے خریدا ہے۔ بنی گالہ کے گھر کی مالیت 75 کروڑ ہونا کوئی کرپشن نہیں۔


